گزشتہ دنوں ولٹن پارک میں ایک
عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع تھا:”2030ءمیں دنیا کا نقشہ
کیا ہوگا اور عالمی تصادم سے ممکنہ تعلق رکھنے والے رجحانات اور چیلنجز کی
نوعیت کیا ہوگی؟“اِس کانفرنس کا انعقاد برطانوی حکومت نے امریکی نیشنل
انٹیلی جنس سے مل کر کیا تھا جو دو دن تک جاری رہی۔ اِس کانفرنس میں دنیا
بھر سے آئے ہوئے مہمانوں نے شرکت کی اور اپنے اپنے اندازوں اور تخمینوں کے
ساتھ 2030ء کی دنیا کی خیالی صورت گری کی اور اس میں رنگ بھرا ۔ اس کانفرنس
کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس کا یہ مضحکہ خیز
بیان سامنے آیا کہ ”مستقبل کا کوئی وزیرِ دفاع اگر امریکی صدر کو بر اعظم
ایشیاء، مشرقِ وسطی یا افریقا کے کسی ملک میں بڑے پیمانہ پر امریکی افواج
بھیجنے کا مشورہ دیتا ہے تو اسے اپنے دماع کا علاج ضرور کرا لینا چاہئے ۔“نیز
اس سے قبل بھی انہی موصوف کا ایک بیان سامنے آیا کہ ”اب مزید کسی مسلم ملک
پر حملہ امریکا کی تباہی کے مترادف ہوگا۔“ سمجھ آئی تو سہی ،مگر بڑی دیر سے
!فارسی کا ایک شاعر کہتا ہے کہ
آنچہ دانا کند،کند ناداں
لیک بعد از خرابی بسیار
امریکا کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے ۔ٹوئن ٹاورز کی تباہی کے بعد ایک دنیا نے
اسے سمجھایا تھا کہ اپنے جذبات کو لگا م دو ، افغانوں سے پنگا مت لو اور نہ
ہی ان کی سرزمین پر اترنے کی حماقت کرو،مگر وہ فرعون ہی کیا جس کے دماغ میں
تکبر اور برتری کا خناس نہ بھرا ہو، سو وہی قدم اٹھایا جو طاقت کے نشہ میں
بدمست ایک بدمعاش کو اٹھانا چاہئے ، پھر جب اس سے جی نہ بھرا تو عراق پر
بھی چڑھائی کردی۔ مگر اب سارا نشہ ہرن ہو چکا ہے اور ہرن چوکڑیاں بھول چکا
ہے کیونکہ افغانستان کے بوریا نشینوں نے اس کے دماغ کا کامیاب آپریشن کر کے
ناقص رسولی کو کاٹ ڈالا ہے ۔ مسٹر رابرٹ گیٹس جی کے ارشادات دراصل ان کے
اپنے نہیں ، یہ وہ زخم بول رہے ہیں جو افغانوں کی سرزمیں پر ان کی کمر پہ
پڑے ہیں۔ یہ ساری آہ وبکا در اصل انہی رستے زخموں کی ہے ۔
کوئی بھی مملکت کفر کے ساتھ قائم رہ سکتی ہے ،مگر ظلم کے ساتھ نہیں۔ امریکی
ایمپائر نے بے بس اور مجبور ومقہور انسانوں کے ساتھ قتل وغارت کا جو شیطانی
کھیل کھیلا ہے ، وہ ضرور ثمر بار ہوگا ۔ اب وہ اپنی سابقہ غلطیوں اور
حماقتوں کو دہرانے کی ہمت کر پائے یا نہیں ، لاکھوں کروڑوں انسانوں کی آہیں
پہلے ہی اس کا تعاقب کررہی ہیں اور یہ انشاءاللہ اسے اپنے سیاہ اعمال نامہ
سمیت دریا برد کر کے ہی دم لیں گی ۔ یہ کیسی سپر پاور ہے جو تمام تر وسائل
جھونک دینے کے باوجود دنیا کی مفلس ترین قوم کو زیر نہیں کر پا رہی اور دس
سال کی تھکا دینے والی جدوجہد میں شرم ناک اور ذلت آمیز شکست اٹھانے کے بعد
اب مذاکرات کا ڈھونگ رچا رہی ہے ۔ پھر مذاکرات بھی کیسے ؟ دنیا کی اکلوتی
سپر پاور جس کے لیے ملسل پیچ وخم کھا رہی ہے اور چند مفلوک الحال خدامستوں
پر مشتمل ایک تنہا ترین جماعت اِس کی بھیک سپر پاور کو دینے کے لیے تیار
نہیں۔ اُس کی پر یشانی ، بدحواسی اور مذاکرات کے لیے آمادگی کا اندازہ تو
کیجئے کہ ٹھگ اور بہروپئے طالبان کے نمائندے بن کر اسے لوٹ رہے ہیں۔ شہباز
بھٹی کے قتل پر امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھے گئے اپنے ایک مضمون
میں صدر آصف علی زرداری نے ریمنڈ کے معاملہ پر جن مبہم ،بے مغز ،لجاجت آمیز
اور سہمے ہوئے الفاظ کے ساتھ پاکستان کی نمائندگی کی ہے ، اس نے یہ احساس
ایک بار پھر زندہ کردیا ہے کہ ہمارے روشن خیال حکمرانوں اور صحافیوں کو
امریکا کی باطنی واندرونی حالت کا بالکل ادراک نہیں۔ آنجناب لکھتی ہیں کہ
”لاہور میں ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ براہِ راست تین پاکستانیوں کی ہلاکت اور
ایک خاتون کی خودکشی کا باعث بنا۔یہ سب پیچیدہ رویوں کے غیر متوقعہ نتائج
کی ایک بڑی مثال ہے ۔“ سبحان اللہ! امریکا سے ریمنڈ کے ساتھیوں کی حوالگی
کا دوٹوک مطالبہ کرنے کی بجائے ہم الٹا لاہور واقعہ کی اہمیت کو گھٹانے کے
لیے کوشاں ہیں ۔ کیا خالی کشکول بھرنے کی صدا لگاتے ہوئے بھی ہم ایسی ہی
الجھی اور بجھی ہوئی زبان استعمال کرتے ہیں جیسی قومی مفادات کے تحفظ کے
لیے استعمال کرتے ہیں؟ ریمنڈ کا اقدامِ قتل کوئی پیچیدہ رویہ نہیں ، یہ وہ
واشگاف رویہ ہے جو آج پیشہ ور غنڈے اور لٹیرے ہمارے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں
اور جس کے ساتھ وہ ہر روز ہماری آزادی اور خود مختاری کا استہزاء اڑاتے ہیں
۔ نیز اِس پر ہم وطنوں کا فوری اور شدید ری ایکشن بھی اِس واقعہ کا کوئی
غیرمتوقع نتیجہ نہیں ۔ کوئی گئی گزری قوم بھی ایسے واقعات پر دم سادھ کے
نہیں بیٹھ سکتی۔ البتہ امریکا اور اس کے وظیفہ خواروں کے لیے یہ افتاد غیر
متوقعہ ضرور تھی کیونکہ اس نے سارا بنا بنایا کھیل بگاڑ کر رکھ دیا اور جو
چکر خاموشی سے کی گئی بارگیننگ کے تحت چل رہا تھا اسے آشکار کر دیا۔
ہمارے حکمرانوں کی ایسی اینٹی پاکستان لابنگ پر اِس کیس کا انجام وہی ہونا
تھا جو ظاہر ہوچکا ہے ۔ پنچھی ہاتھ سے نکل چکا ہے اور خالی پنجرے کے پاس
ہمارے ”فکر پناہوں “ اور ”دانش زادوں “ کا ماتم پوری دل سوزی سے جاری ہے ۔راقم
نے اس انجام کی طرف پہلے ہی اشارہ کیا تھا جس پر بعض لوگ برا مان گئے تھے ۔
میرے ایک سابقہ مضمون ” آئینہ دیکھ لیں“ کا آخری پیراگراف ملاحظہ فرمائیے
:”ان صحافیوں اور تجزیہ نگاروں پر ہمیں تعجب ہے جو قوم کو ایک بار پھر
لوریاں سنا رہے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کی معجزاتی طور پر ہونے والی گرفتاری
حکومتی پالیسیوں میں بہت سی خوش گوار تبدیلیاں لانے کا باعث بنے گی اور اس
کے بعد پاک امریکا تعلقات بھی کئی حوالوں سے متاثر ہوں گے ۔ ہمارا المیہ یہ
ہے کہ ہم لوگ اپنی خواہشات کو تجزیہ اور خبر کا نام دے دیتے ہیں ۔ یہ حقیقت
ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری اور اس جیسے دیگر کئی واقعات ملکی خارجہ
پالیسی پر نظرِ ثانی کا ایک اہم سنگ ِ میل ثابت ہوسکتے ہیں اور ثابت ہوسکتے
تھے بشرطیکہ معجزاتی طور پر پیدا ہو جانے والی صورتِ حال کو اپنے حق اور
مفاد میں کیش کروانے کی استعداد بھی ہماری سیاسی قیادت میں ہوتی، لیکن حس
طرح ہم اور کئی سنہری مواقع اپنی بے حکمتی کی وجہ سے گنوا چکے ہیں ، اسی
طرح قدرت کی طرف سے عطیہ ہونے والے اس موقع کو بھی ضائع کردیں گے ۔ یقین نہ
آئے تو چند دن مزید انتظار کرلیں اور اپنی قیادت کی بصیرت اور ذہنی اپروچ
کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔ عین ممکن ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو چھوٹی
موٹی سزا ہونے کی عوامی حسرت بھی پوری نہ ہوسکے اور ہمارے سارے اندازے دھرے
کے دھرے رہ جائیں ۔ ہم جن جوکروں اور مسخروں کے ہاتھ میں اپنی عزت وآبرو
اور مستقبل کی باگ ڈور تھما چکے ہیں ، ان سے اس سے بھی زیادہ کی توقع رکھنی
چاہئے ۔“ |