تحریر: مراد مقصود
تحریک پاکستان کے ایک جید، حق گو اور منفرد قائد مولانا سید فضل الحسن حسرت
موہانی ؒ کے راوی پیر علی احمد راشدی نے پاکستان کے معروف روزنامہ اور
ڈائجسٹ میں اپنے ایک کالم میں بیان کیا تھا کہ”ایک مرتبہ خاکسار اور مولانا
حسرت موہانی مرحوم ہمسفر تھے ۔انہی ایام میں ابھی تحریک پاکستان چل رہی
تھی۔اس تحریک کا کامیاب خاکہ ابھی کسی کے ذہن میں نہیں ابھرا تھا،بس ایک
میدان کارزار تھا جس میں لوگ جمع ہو رہے تھے۔حسرت موہانی صاحب مرحوم سے اسی
موضوع پر تبادلہ خیال ہو رہا تھا۔مولانا نے مجھ سے کہا!بھائی پاکستان تو بن
گیا ہے اب آگے کی فکر کرنی چاہیے۔میں نے کہا !مولانا آپ کیسی باتیں کر رہے
ہیں ابھی پاکستان کہاں بنا ہے؟مولانا نے جواب دیا !بھائی میں جو کہہ رہا
ہوں کہ پاکستان بن گیا ہے۔ مولانا یہی تو میں دریافت کر رہا ہوں کہ آپ کی
اس خوشخبری کا ذریعہ علم کیا ہے؟اس پر حسرت موہانی ؒ نے بڑے اعتماد اور
یقین کے ساتھ فرمایا!بھائی رات کو مجھے خواب میں آنحضرت کی زیارت نصیب ہوئی
ہے اور آپ نے ہی اپنی زبان مبارک سے قیام پاکستان کا مژدہ جان فزا سنایا
ہے۔لہٰذا اب مجھے قیام پاکستان کا پورا یقین ہو گیا ہے اسی لیے اب ہمیں آگے
کی فکر کرنی چاہیے۔بلاشبہ مملکت خداداد پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا ایک
معجزہ تھا ۔ روزِ اوّل کے دشمن کی کاوشوں اور متعدّد مشکلات کے باوجود اسکی
بقاء اور استحکام بھی ایک معجزہ ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں اب تک ہم نے بڑا ہی
کٹھن سفر طے کیا ہے۔ رب العزت کا فضل اور کرم ہی ہے جو شامل حال ہے جو آج
وطن عزیز دنیا کی ساتویں اور عالمِ اسلام کی پہلی جوہری قوت کے طور پر
اقوام عالم میں اپنے محل وقوع، جغرافیائی اہمیت اور فوجی قوت کے حوالے سے
اسکو ممتاز مقام حاصل ہے۔دہشتگردی کے خلاف جنگ سے نبرد آزما ہونے کے لیے
ہماری افواج نے بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اور عظیم
قربانیاں پیش کر کے حالات کو سنبھالا دیا ہوا ہے۔ سوات میں دہشتگردوں کا
قلع قمع کر کے حکومت کی عملداری قائم کرنے کے ساتھ جنوبی وزیرستان میں
دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو ختم کر کے قیام امن کی طرف تیزی سے سفر جاری
ہے۔دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں افواج پاکستان نے جو کامیابیاں حاصل کیں،
اس کا سہرا یقیناً قوم کی مکمل حمایت اور بے پایاں عزم میں مضمر ہے کیونکہ
فوج اور عوام کی مکمل ہم آہنگی کے بغیر کسی قوم کے لیے جنگ جیتنا ممکن نہیں
ہوتا۔مگر 63برسوں کے اس پاکستان میں ہم بحیثیت قوم آج بھی ذہنی پراگندگی،
انتشار اور ذہنی وحدت کے فقدان کا شکارہیں۔جس کی وجہ سے دہشتگردی کا نشانہ
بننے کے باوجود ہمیں پر دہشتگردی کا لیبل لگایا جا رہا ہے ۔ اتحادی ممالک
کی جانب سے پاک فوج اور عوام کی کاوشوں اور قربانیوں کا ادراک تو کیا جاتا
ہے مگر اس ادراک کے ساتھ ڈومور کا لاحقہ لگا کر ہماری تذلیل بھی کی جاتی ہے
۔
بدقسمتی سے آج ہم ملک دشمن عناصر کے مکمل نرغے میں آ چکے ہیں۔سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ اب اس گرداب سے کیسے نکلا جائے۔اگر ہمیں من حیث القوم اپنا وجود
برقرار رکھنا ہے تو اپنی بقاء اور بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے مایوسی کے
اندھیروں میں امید کے دیپ جلانے کے لیے قدم بڑھانا ہوں گے۔کمال سے زوال اور
پھر زوال سے کمال کی طرف سفر کا نام ہی اصول فطرت ہے۔قوموں کی تاریخ اسی
عروج و زوال کا مرقع ہے۔ اگر اس اصول کو مدنظر رکھا جائے تو شدت پسندی اور
دہشتگردی کی موجودہ مایوس کن فضا اور پریشان حالی میں اگر ہمیں ماضی پر
محیط مایوسی کی کالک کریدنے کی توفیق ہو تو ناامیدی سے امید کی طرف پلٹا جا
سکتا ہے۔ اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا اور مزید بہت کچھ دینے کے لا محدود
امکانات بھی رکھتا ہے مگر ہم من حیث القوم اس ملک کو وہ سب کچھ نہیں دے سکے
جو ہمیں دینا چاہیے تھا۔ ہماری تمام نامرادیاں اور ناآسودگیاں ہماری
انفرادی و اجتماعی کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں جن کے لئے ہم الزام کبھی حکمرانوں
اور کبھی باہم ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں اور قومی افتراق کو مزید وسیع کرتے
چلے جاتے ہیں۔ ہمارا ایمان کامل ہے کہ ہماری تمام کوتاہیوں، کمزوریوں ،خرابیوں
اور دشمنوں کی تمام تر سازشوں اور مخاصمتوں کے باوجود یہ مملکتِ خداداد،
مشیّتِ الٰہی کے مطابق انشااللہ قائم ،برقرار اور سلامت رہیگی۔ہم بڑے
پرامید ہیں کہ پاک فوج عوام کے مکمل تعاون سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں
کامیابی حاصل کر لے گی۔
اس سال 23مارچ ہم سے متقاضی ہے کہ ہمیں ایک نئی صحت مند فکر کی بنیاد رکھتے
ہوئے ماضی کی کوتاہیوں کے ازالے کے لئے کمر بستہ ہو جانا چاہیے۔ پاکستان
جیسا بھی ہے ہماری پہچان، ہمارا تعارف اور ہماری شناخت ہے ۔ اس پہچان،
تعارف اور شناخت کو وقار اور اعتبار دینا ہمارا کام ہے ۔ یہ وقار و اعتبار
کہیں باہر سے درآمد نہیں کیا جاسکتا نہ کسی بیرونی طاقت کی پش پناہی سے
حاصل کر کے اس میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔ یہ سوچنا ہوگا کہ خدانخواستہ یہ
پناہ گاہ نہ ہوگی تو ہمارا کیا ہوگا؟
موجودہ وقت ایسا ہے کہ خطے کی تمام دشمن طاقتوں نے ہمارا محاصرہ کر رکھا ہے
۔ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جار ہی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے
کہ عوام ، سیاستدان ، مذہبی جماعتیں، دینی مدارس آپس کی رنجشیں بھلاکر،ذاتی
مفادات کو پسِ پشت ڈال کر اور یکجا ہو کر اسلام اور پاکستان دشمن عناصر کے
خاتمے کے لیے حکومت اور پاک فوج کو اپنے بھرپور تعاون کا احساس دلائیں۔متحد
ہو کر اسے سیاسی اور معاشی طور پر اتنا مضبوط بنائیں کہ کسی کو ہمارا حق
مارنے کی جرات ہو نہ کوئی وطن عزیز کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ پائے۔ ہم اپنے
اعمال کو برداشت، رواداری اور حُسن اخلاق سے مزین کریں تاکہ ہمارا ملک امن
و سلامتی کا گہوارہ بن کر دنیا میں ابھرے ۔حکومت کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ
وہ انسانی شرف و وقار، عزّت و ناموس اور جان و مال کے تحفّظ کو یقینی بنائے۔
معاشرتی اور معاشی نظاموں کے ناسوروں کا آپریشن کیا جائے ۔ یہ سب ناگزیر ہے
کیونکہ ہم نے اپنے تعارف، پہچان اور شناخت کو معتبر ، روشن و درخشاں رکھنا
ہے ۔ |