بسم اﷲ الرحمن الرحیم
وزیر اعظم عمران خان کی اپیل پر ملک بھر میں کشمیریوں سے زبردست انداز میں
یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پورے ملک
میں تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افرادکی جانب
سے ریلیاں نکالی گئیں جن میں ہر شہر میں بلا شبہ ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
اس دوران ملک بھر کے عوام سڑکوں پر نکلے اور پورا ملک کشمیر بنے گا پاکستان
کے نعروں سے گونجتا رہا۔کشمیریوں سے یکجہتی کیلئے مرکزی پروگرام ڈی چوک
اسلام آباد میں ہوا جس میں وزیر دفاع سمیت وفاقی کابینہ اور اراکین
پارلیمنٹ سمیت شہریوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ جلسوں ، مظاہروں اور
ریلیوں کے دوران پاکستان کے ساتھ کشمیر کے پرچم بھی لہرائے گئے اور زبردست
جذباتی ماحول دیکھنے میں آیا۔ ڈی چوک اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے وزیر
اعظم عمران خان نے پاکستانی قوم کے جذبہ حریت کو سلام پیش کیا اور کہا کہ
مجھے اپنی قوم سے یہی امید تھی اور اس عظیم قوم نے کشمیری بھائیوں سے اظہار
محبت اور اظہار یکجہتی کا حق ادا کردیا ہے۔وزیراعظم عمران خان اور وزیر
خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے حالیہ ہفتہ میں سعودی ولی عہد محمد بن
سلمان اور سعودی وزیر خارجہ ڈاکٹر ابراہیم بن عبدالعزیز الاوصاف سے رابطہ
کرتے ہوئے انہیں مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیاگیا۔ سعودی
قیادت سے رابطوں کے دوران ولی عہد محمد بن سلمان اور ڈاکٹر ابراہیم بن
عبدالعزیز الاوصاف نے واضح طور پر کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی گھمبیر صورتحال
پر انہیں سخت تشویش ہے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ مظلوم
کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان کا حق ملنا چاہیے۔ وزیر
اعظم عمران خان نے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید النیہان سے بھی
ٹیلیفونک رابطہ کیااور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون اور اردن کے شاہ عبداﷲ سے بھی ٹیلیفونک رابطہ
کیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوئے تقریبا چار ہفتے گزر چکے ہیں۔مسلسل
کرفیو سے وادی کشمیر کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع ہے۔ اہل کشمیر کی معیشت
بری طرح تباہ ہو چکی ہے۔ لوگوں کا کاروبار نہیں رہا۔ ان کے سیب اور دیگر
میوہ جات کے باغات برباد کر دیے گئے ہیں۔ سیاحت کے وہ علاقے جہاں رش ختم
نہیں ہوتا تھا وہاں کچھ نظر نہیں آتا ۔ ہزاروں کی تعداد میں ہوٹل بند پڑے
ہیں۔ قابض انتظامیہ نے دس ہزار سے زائد ملازمین کو ان کی نوکریوں سے فارغ
کر دیا ہے۔ کشمیر کے مکمل لاک ڈاؤن سے مقامی باشندوں کو خوراک، ادویات اور
بچوں کیلئے دود ھ تک نہیں مل رہا۔ صورہ جیسے علاقے جہاں تحریک آزادی عروج
پر ہے اور مشتعل کشمیریوں نے بھارتی فوج کے علاقہ میں داخل ہونے کے تمام
راستے بند کر رکھے ہیں یہاں صورتحال کہیں زیادہ سنگین ہے۔ بھارتی فوج نے
پچھلے تقریبا چار ہفتوں میں صورۃ میں داخل ہونے کیلئے تمام حربے اختیار کئے
ہیں مگر کامیابی نہیں ہو سکی۔ اس صورتحال کو دیکھ کر بین الاقوامی میڈیا نے
صورہ کو کشمیر کا غزہ قرار دیا ہے۔ بھارتی فوج اور حکومت ان حالات سے سخت
پریشان ہیں۔ پوری دنیا میں بھارت کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا
ہے کہ کوئی ایک کشمیری بھی بھارتی حکومت کے حق میں ایک لفظ تک بولنے کیلئے
تیار نہیں ہے۔ غاصب ہندوستانی فوج بدترین حالات دیکھ کر بھی صورہ کا کرفیو
ختم نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہاں کرفیو ہٹا کر لوگوں کو
خوراک، ادیات اور دوسری اشیاء فراہم کرنے کی رسائی دی گئی تو دوسرے علاقوں
میں بھی پھر اسے یہی کچھ کرنا پڑے گا ، یہی وجہ ہے کہ ریاستی انتظامیہ اور
فوج اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی حریت پسند قیادت سمیت
بھارت نواز لیڈربھی نظربند ہیں مگرکشمیریوں کی اس قدر تربیت ہو چکی ہے کہ
دنیا یہ دیکھ کر حیران ہے کہ بغیر قیادت کے لوگ کس قد رمنظم اندا ز میں
احتجاج کر رہے ہیں۔یہ اسی احتجاج کا اثر ہے کہ بھارتی فوج خوفزدہ ہو کر گلی
محلوں میں بڑے پیمانے پر نئے بنکر بنا رہی ہے تاکہ اس مزاحمتی قوت کو کسی
طرح کچلا جاسکے۔بھارت مظلوم کشمیریوں کو دبانے کیلئے ہر حربہ اختیار کر رہا
ہے مگر وہ اس میں پہلے کامیاب ہوا ہے اور نہ بعد میں ہو گا۔ بھارت کی مودی
سرکار نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کر کے آگ سے کھیلنے کی
کوشش کی ہے اور اس کا انجام کشمیر کی آزادی کی طرح بھارت کی دیگر ریاستوں
کی بھی علیحدگی کی صورت میں نکلے گا مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان
مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے اپنی قومی پالیسی پر کاربند رہے او رکسی قسم کے
بیرونی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کی کھل کر مددوحمایت
کی جائے۔
وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے عالمی رہنماؤں سے رابطوں کا عمل قابل تحسین
ہے اور یہ ملک بلاشبہ ہماری طاقت ہیں۔ حالیہ دنوں میں متحدہ عرب امارات کی
طرف سے اگرچہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو ایوارڈ دیے جانے کو اچھا
نہیں سمجھا گیا لیکن اس کیلئے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پاکستانی وزارت خارجہ
نے اس سلسلہ میں کتنی کوشش کی ہے کہ یو اے ای کو بتایا جائے کہ آپ اپنا یہ
پہلے سے طے شدہ پروگرام کشمیر کے موجودہ حالات کی وجہ سے آگے لے جائیں۔ اگر
پاکستان یو اے ای کی قیادت سے رابطہ کر کے زور دیتا اور مودی کو ایوارڈ
دینے کا عمل ایک ، ڈیڑھ ماہ کیلئے ملتوی کر دیا جاتا تو اس کا میسج بھی
یقینی طور پر بہت اچھا جاتا۔ باقی جہاں تک ملکوں سے تعلقات کا معاملہ ہے تو
یہ ہر کسی کا حق ہے کہ وہ دوسرے ملکوں سے تجارتی و سفارتی تعلقات قائم
رکھے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر چار جنگیں ہونے کے
باوجود اگر ہمارے حکمران اپنے ازلی دشمن بھارت سے طویل عرصہ تجارت اور دیگر
ہر قسم کے تعلقات رکھ سکتے ہیں تو پھر دوسروں کو ایسا کرنے پر کیسے الزام
دیا جاسکتا ہے؟سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان نے عمران خان سے ٹیلیفونک
گفتگو کے دوران واضح طور پر کشمیریوں کویو این کی قراردادوں کے مطابق حق
خودارادیت دینے کی بات کی ہے مگر بعض نام نہاد دانشوروں کی طرف سے اس کے
خلاف بھی غلیظ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ اس نے انڈیا کی کمپنی کے شیئر
کیوں خریدے ہیں؟بات یہ ہے کہ ہم نے اس دنیا میں رہنا ہے۔ ہم نے اپنے دوست
بنانے ہیں ملکوں سے تعلقات نہیں بگاڑنے۔ یہی وہ ملک ہیں جنہوں نے انڈیا کے
خلاف جنگیں ہوں، ایٹمی دھماکے کرنے ہوں یا پاکستان کو درپیش کوئی اور
معاملہ ہو ، انہوں نے ہمیشہ اپنی تجوریوں کے منہ کھولے اور پاکستان کی ہر
ممکن مددوحمایت کی ہے۔ پاکستان کی معیشت اور سٹاک ایکچینج بہتر بنانے کیلئے
سعودی عرب مشکل وقت میں پاکستان کی مدد نہ کرتا تو آج ڈالر چار سو روپے کا
ہو چکا ہوتا تو بات یہ ہے کہ ہمیں مشکل وقت کے دوستوں کو بھلانا نہیں
چاہیے۔ اگر ہم سوشل میڈیا پر کئے جانے والے مذموم پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر
ملکوں سے تعلقات خراب کرنا شروع کر دیں تویہ چیز دشمن کیلئے سب سے زیادہ
خوشی کا باعث ہو گی۔ ہمیں مسلم امہ سے اپنے تعلقات بہتر اور مضبوط بنانے
ہیں، مایوسیاں نہیں پھیلانیں۔ یہی یواے ای اور یہی سعودی عرب ہر مشکل وقت
میں پاکستان کی مدد کرتے رہے ہیں۔آئندہ بھی یہ ملک پاکستان کے دست وبازو
بنیں گے اور وہ وقت قریب ہے جب بیرونی قوتوں کے کلچ ٹوٹیں گے اور پاکستان
اور سعودی عرب جیسے ملک ان شاء اﷲ عالم اسلام کی قیادت کرتے دکھائی دیں
گے۔آخر میں ، میں سعودی سفارت خانہ کے میڈیا سیل کے انچارج علی خالد
الدوسری کو اپنی ذمہ داریاں ملنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے صحافی
برادری سے خصوصی طور پر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔وہ میڈیا اور رابطہ
کاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہیں چند دن قبل ہی سعودی سفارت خانے میں
میڈیا سیل کا نگران بنایا گیا ہے۔ وہ سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کی
زیر قیادت جس طرح متحرک انداز میں ملاقاتیں اور رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں
اس کے یقینی طور پران شاء اﷲ دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اپنے جذبات کا
اظہار کرتے ہوئے علی خالد الدوسری نے واضح طور پر کہا ہے کہ سعودی عرب
اورپاکستان دو بھائیوں کی طرح ہیں، دونوں ملکوں کومشترکہ مسائل کا سامنا
ہے۔ ہم مل کران مسائل اورچیلنجزسے عہد ہ برآ ہوسکتے ہیں۔ہم امید کرتے ہوئے
سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی اور علی خالد الدوسری جیسے ذمہ داران کی
کاوشوں سے پاک سعودی تعلقات میں مزید مضبوطی و استحکام آئے گا۔
|