نوٹ بندی کے بعد دسمبر ۲۰۱۶ میں راہل گاندھی نے کہا تھا
‘‘ ملک کا مرکزی بینک اسی طرح قوانین تبدیل کر رہا ہے، جس طرح وزیر اعظم
اپنے کپڑے بدلتے ہیں’’۔ قومی انتخاب میں ناکامی کے بعد پرینکا کے بیانات تو
آتے تھے مگر راہل گاندھی کو ‘چپ سی لگ گئی تھی’ لیکن ریزرو بینک آف انڈیا
کے سنٹرل بورڈ کی جانب سے بمل جالان پینل کی سفارشات کو قبول کرنے کے ایک
دن بعدجب حکومت کو ڈیویڈنڈ اور فاضل ذخائر میں سے 1.76لاکھ کروڑ روپئے کی
منتقلی کا فیصلہ کیا گیا تو اس کی مذمت کرتے ہوئےکانگریس کے سابق صدر راہل
گاندھی نےبڑے دنوں بعد یہ چبھتا ہو ا ٹویٹ کیا کہ ‘‘یہ تو دوا کی دوکان سے
بینڈ ایڈ چرا کر گولی کے زخم پر لگانے جیسا ہے’’۔ اس مختصر سے فقرے میں
بینڈ ایڈ کی چوری اور گولی کا زخم پوری کہانی بیان کردیتا ہے۔ راہل نے سوال
کیا کہ ‘‘وزیر اعظم اور ایف ایم واضح کریں کہ وہ اپنی خود ساختہ معاشی
تباہی کو کیسے حل کریں گے؟’’۔ اس وضاحت سے قبل یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ
آخر حکومت کو یہ انتہائی اقدام کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اتفاق سے اس
سوال کا سہل ترین جواب ۱۹۶۸ میں بنی فلم تین بہورانیاں کے ایک نغمہ میں ہے
جو آنند بخشی کے قلم سے نکلا تھا؎
آمدنی اٹھنیّ خرچہ روپیہّ،بھیا نہ پوچھو نہ حال
نتیجہ ٹھن ٹھن گوپال،نتیجہ ٹھن ٹھن گوپال
حکومتِ وقت فی الحال اسی کیفیت میں مبتلاء ہے۔ یہ خوابوں کی سرکار ہے بڑے
بڑے سپنے دیکھتی ہے مثلاً ۵ ٹریلین ڈالر کی معیشت جس کا ذکر وزیراعظم نے
لال قلعہ سے کیا تھالیکن انہیں شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے نہ تو اس کے پاس
کوئی ٹھوس منصوبہ ہے اورنہ ضروری مادی و انسانی سرمایہ موجود ہے۔حکومت کی
مجبوری یہ ہے کہ منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کے لیے جس عقل کی ضرورت
پڑتی ہے وہ بازار میں نہیں بکتی لیکن دولت کے حصول کی خاطر لگنے والی عیاری
و مکاری سے سرکار مالا مال ہے۔ نرملا سیتا رامن نے ایوان زیریں کے اجلاس
میں جو 2019-20 کے بجٹ میں قیاس لگایا گیا تھا اس دوران 90 ہزار کروڑ روپے
کاخسارہ ہوگا ۔ ماہرین اقتصادیات پریشان تھے کہ آخر اتنی خطیر رقم کہاں سے
آئے گی ؟ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ریزرو بنک سے اتنی بڑی رقم کو نکال
لی جائے گا ۔ سرکار نے ایک لاکھ 76ہزار کروڈ نکال کر سب کو حیران کردیا ہے۔
حکومت کی اس شاطرانہ چال سےآر بی آئی کےحال زار پر جگر مرا د آبادی کا
یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
رگ رگ میں اس طرح وہ سماکر چلے گئے
جیسے مجھی کو مجھ سے چرا کر چلے گئے
مودی سرکار نے یہ جرأت پہلی بار نہیں کی لیکن پچھلے چھے سالوں میں یہ
منتقلی 30 ہزار سے 65 ہزار کے درمیان محدود رہی۔ گزشتہ سال آر بی آئی نے
حکومت کو 50 ہزار کروڑ روپے دیئے تھے، جبکہ مالی سال 2016-17 میں محض 30659
کروڑ روپے سے کام چل گیا تھا۔ ۲۰۱۹ کی زبردست کامیابی کے بعد مودی سرکار
کا حوصلہ خاصہ بڑھ گیا جس کے چلتے اس مرتبہ اس نے بڑا ہاتھ مارتے ہوئے
پچھلے پانچ سالوں کے اوسط 53 ہزار کروڑ روپے سے تین گنا زیادہ رقم چھین لی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس میں سے 28 ہزار کروڑ روپیہ حکومت کو پیشگی ٹرانسفر
کیا جا چکا ہے۔ آر بی آئی کی ملائی کھانے کے لیے سرکار نے دسمبر ۲۰۱۷کو
سابق گورنر بمل جالان کی نگرانی میں ۶ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ سابق
گورنرارجت پٹیل اس ڈیویڈنڈ کی منتقلی کے خلاف تھے لیکن ان کی مدتِ کار میں
ہی آر بی آئی بورڈ نےحکومت کے دباو میں جب یہ کمیٹی بنانےکا فیصلہ کیا تو
اس سے بددل ہوکر انہوں نے جلد ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔اس کمیٹی
نے ریزرو فنڈ سابقہ 6.8 فیصد کے مقابلے 6.5-5.5 فیصدی کے درمیان رکھنے کی
سفارش کردی ۔ حکومت نے سب نچلی سطح کے مطابق یہ خطیر رقم اینٹھ لی ۔یہ نام
نہاد دیش بھکت سرکار اگر قومی خزانے کے تحفظ کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے سب سے
اونچی سطح یعنی 6.5 فیصدی کا انتخاب کرتی تو اسے صرف 11.608 کروڑ روپے
اکتفاء کرنا پڑتا۔
مودی سرکار کے ذریعہ ریزرو بنک سے اس خطیر رقم کی چوری واٹس ایپ پر گردش
کرنے والی ایک کہانی کی یاد دلاتی ہے۔ چند ڈاکووں نے گاوں کی بھینسیں چرانے
کا منصوبہ بناتے ہوئے خود دو حصوں میں منقسم کردیا ۔ ایک چور بھینس کے گلے
میں گھنٹی باندھ کر اسے شمال کی جانب لے بھاگا ۔ بھینس کے مالک نے شور
مچایا اور گاوں والے اپنی دیگر بھینسوں سے غافل ہوکر گھنٹی کی جانب دوڑ پڑے
۔ اس ہڑبونگ کا فائدہ اٹھا کراس گروہ کے دوسرا حصہ بقیہ ساری بھینسوں کو
کھول کر خاموشی سےجنوب کی جانب لے گئے۔ کافی دور جانے کے بعد پہلے والے چور
نے بھینس کے گلے سے گھنٹی کھول کر پھینک دی اور رفو چکر ہوگیا۔ گاوں والے
اس مقام پر پہنچے تو انہیں بھینس کے بجائے گھنٹی ملی اور یہ پتہ بھی نہیں
چلا کہ بھینس کہاں نکل گئی؟ مودی سرکار نے بھی یہی کیا کہ چدمبرم کو گرفتار
کرکےساری قوم کی توجہ ان کی جانب مبذول کرادی اور عوام کی غفلت کا فائدہ
اٹھا کر بڑی صفائی سے ریزرو بنک کی جیب کاٹ لی۔
سنگھی ماہرین اقتصادیات فی الحال یہ سبز باغ دکھارہے ہیں کہ اس قدم سے
مارکیٹ کا اعتماد بحال ہوگا اور آنے والے تیوہار کے سیز ن میں مندی کی مار
کچھ کم محسوس ہوگی ۔ اس دعویٰ کے اندر یہ اعتراف موجود ہے کہ بازار کا
اعتماد متزلزل ہوچکا مندی کی مار نے تیوہار کے موسمِ بہار کو خزاں میں بدل
دیا گیا ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال کے لیے حکومت کی گھڑی میں تولہ اور گھڑی
میں ماشہ والا طریقۂ کار ذمہ دار ہے۔ یہ کوتاہ اندیش لوگ سارے فیصلے سیاسی
مفاد کے پیش نظر کرتے ہیں اور اپنا ووٹ بینک بڑھا لیتے ہیں جس کے نتیجے میں
عوام کی جیب خالی ہو جاتی ہے۔ریزرو بنک کی اس خطیر رقم میں سے بھی کتنا
بازار میں جائے گا اور کتنا سرکاری خسارے کو پورا کرنے پر صرف ہوگا یہ کوئی
نہیں جانتا لیکن حکومت کا آر بی آئی پر دباؤ بناکر اسے رام کرلینے میں
کامیابی حاصل کرلینا ملک کی دیرپا معیشت کے لیے بدشگون ہے ۔ آئندہ کے لیے
ایک ایسی غلط مثال قائم کردی گئی ہے جس استعمال ہر بدمعاش حکومت کرسکتی ہے۔
ریزرو بینک کے بنک کے حوالے سے ایک دعویٰ بڑے زور و شور سے یہ کیا جارہا ہے
کہ اچانک اس کی آمدنی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اس لیے سرکار کا اس سے
رقم لے لینا حق بجانب ہے جبکہ صوتحال اس کے برعکس ہے۔آر بی آئی کی قائم
کردہ کمیٹی نے حال میں یہ انکشاف کیا ہے کہ مرکزی بینک کی بیلنس شیٹ نوٹ
بندی سے متاثر ہوئی ہے۔ جالان کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 10 سال میں
ریزرو بینک کی بیلنس شیٹ میں سالانہ ترقی کی شرح کا اوسط 9.5 فیصد رہا ہے
جبکہ 2013-14 سے 2017-18 کے پانچ سال میں ترقی کی شرح کا اوسط گھٹ کر 8.6
فیصدپر آگیا۔ کمیٹی نےتسلیم کیا ہے کہ بیلنس شیٹ کی ترقی میں شرح کی کمی
2016-17 میں لگائی گئی نوٹ بندی تھی۔ دنیا کا اصول تو یہ ہے کہ اگر کسی
کاروبار کی ترقی ماند پڑ جائے تو اس میں سےرقم نہیں نکالی جاتی لیکن اپنی
سرکار کا رویہ اس کے برعکس ہے کیونکہ اس کو عنقریب منعقد ہونے والے پانچ
صوبائی انتخابات میں کامیابی درج کرانی ہے۔ اس کے چلتے اگر قومی معیشت کا
بھٹہ بیٹھ جائے تو حکومت کو اس کی فکر نہیں۔ اس ناعاقبت اندیش سرکار کا حال
تین بہورانیاں کے مذکورہ نغمہ میں آخری بند جیسا ہے ؎
جو ہوگا دیکھا جائے گادو دن موج اڑا لے
گھر میں بجلی نہیں تو کیا ہے گھر کو آگ لگا لے
بھولا بھالا کوا بھولا، چلا جو ہنس کی چال
نتیجہ ٹھن ٹھن گوپال، نتیجہ ٹھن ٹھن گوپال
|