پچھلے ایک ماہ سے ہر جگہ لگے کشمیر بنے گا پاکستان کے
بینرز اور ہر روز روڈ بلاک کر کے احتجاج کرنے والے پاکستان کے جیالےدیکھ کر
میرے جیسے نام نہاد پاکستانی کو بھی آج جوش آ ہی گیاسوچا آج کراچی کے روڈوں
پے نکل کر احتجاج کروں گا اور لوگوں کو بتا دوں گا کے کشمیر زرور بنے گا
پاکستان۔ ابھی نکلا ہی تھا کہ ابر رحمت برس پڑا جوش اتنا ابل رہا تھا کے اس
بارش کے قتروں سے ماند ہونے والا نہی تھا، تھوڑی دیر رک کر اس ابر رحمت کے
کا شکر کرنا ضروری سمجھا اور پھر روانہ ہوا سوچا ڈیفنس کے چمچماتے روڈ سے
گزرتا اور زور سے نعرے لگاتا کشمیر بنے گا پاکستان گزروں گا تو ان عالیشان
کوٹھیوں میں رہنے والوں کو بھی شاید کشمیر کے بارے میں سوچنے پہ مجبور کر
دوں گا۔ لیکن جب ڈیفنس میں داخل ہوا تو منظر میری سوچوں سے بہت برعکس نکلا۔
تھوڑی دیر کے لیے تو مجھے لگا شاید میں کسی سندھ کے گائوں میں آ گیا ہوں۔
عالیشان کوٹھیوں کے باہر کھڑے ان کے مالکان کی آنکھوں میں بے بسی صاف دکھ
رہی تھی، لگتا تھا کے اس ابر رحمت نے ان کی آنکھوں کی نمی پر پردہ پوشی کر
رکھی تھی۔ مجھے لگتا تھا یہ کروڑوں کی کوٹھیوں کے مالک شاید بے فکر اس رحمت
سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے اور انہیں کیا فکر کے کشمیر بنے گا پاکستان کے
نہیں لیکن ان کے چہرے مجھے کچھ اور ہی بتا رہے تھے۔ تھوڑا اور آگے گیا تو
مجھے احساس ہوا کے شاید میں کسی خفیہ جادوئی رستے سے دریائے سندھ میں داخل
ہو گیا ہوں اور تھوڑی ہی دیر میں یہ احساس پختہ ہو گیا جب میری گاڑی ایک
کشتی کی طرح پانی پہ لہراتی ہوئی چلی جا رہی تھی، سوچا اگر دو چپو ہوتے تو
گراں قدر پیٹرول کی بچت بھی ہو جاتی۔بھلا ہو اس بیچارے ٹینکر والے کا جو
ایک بحری بیڑے کی طرح اس دریائے سندھ کے کی لہروں کو چیرتا مجھ جیسے کئی
بےبس لوگوں کی گاڑیوں کا رستا بناتا جا رہا تھا، اور میں موقع ضایہ کئے
بغیر اس کے پیچھے چل دیا، اور دل میں سوچا میں کتنا غلط تھا کے انہیں
قصوروار سمجھتا تھا روڈوں کی بد حالی کا۔ اگر آج یہ بیڑہ نہ ہوتا تو شاید
کچھ مچھلیاں میری گاڑی میں بھی ضرور آ جاتیں۔ اللہ اللہ کر کے میں اس دریا
سے تو گزر گیا- میری سوچ احتجاج سے نکل کر احتیاط میں لگ گئی کہیں میں
ابلتے ہوئے ابر زحمت میں نا پھنس جائوں جو جگا جگا ابل رھا تھا۔ آج کے لئے
اتنا احتجاج کافی ہے یہی سوچ کر گھر کی طرف روانا ہوا جو کہ کلفٹن میں واقع
ہے۔ جب میں بلاول چورنگی تک پہنچا تو ایک اور دریا آگے منتظر تھا، ایک زور
دار نعرہ لگایا جئے بھٹو اور اپنی چار پہیوں والی کشتی لے کر دوڑ پڑا اس
دریا کی طرف، ویسے تو میں نے دنیا کے کئی دریا دیکھے تھے لیکن یہ کالے پانی
کا دریا آج پہلی بار دیکھنے کو ملا تھا، آج مجھے سمجھ آیا کالا پانی کی سزا
سن کر لوگ سہم کیوں جاتے ہیں۔ خیر تیرتے سنبھلتے میں اپنے فلیٹ کی بلڈنگ کے
گیٹ تک پہنچ ہی گیا تھا اندر داخل ہو کر خدا کا شکر ادا کیا اور بلاول
ہائوس کے قریب رہنے کی بنا پر ایک نعرہ اور ضروری سمجھا اور پھر جئے بھٹو
کہتا ہوا لفٹ کی طرف چل پڑا، لیکن خاموش لفٹ کی بتیوں نے بتایا کے امتحان
ابھی باقی ہے، اور ایک ورزش سمجھ کر سیڑھیوں پر چڑھنے لگا، ہانپتے ہانپتے
آخر گھر کے دروازے تک پہنچ ہی گیا۔ گھر میں داخل ہو کر لگا جیسے اب امتحان
تو ختم ہو ہی گیا، آ کر میں صوفے پر ایسے گرا جیسے کشمیر کو آزاد کروا آیا
ہوں، تھوڑی دیر آنکھیں بند کی تو ایک بنبھناتی آواز نے اٹھنے پر مجبور کر
دیا دیکھا تو ایک کالی فوج میرے ارد گرد منڈلا رہی تھی اور کوشش کر رہی تھی
کسی طرح مجھے احساس دلائے کے امتحاں ابھی باقی ہے۔ کافی دیر تک اس کالی فوج
سے لڑتے لڑتے آخر ہار مان لی اور اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا۔ اب تک ان کے
الیکٹرک والوں کو بھی شاید ہم پر رہم آ گیا تھا اور روشنی نے میرا کمرہ
روشن کر دیا تھا، لیٹے لیٹے ہی پھر کشمیر کی یاد آ گئی اور سوچا کشمیر کے
حالات کی کچھ خبر لی جائے تو ٹیلیوژن آن کیا اور چینلز میں کشمیر کی خبر
ڈھونڈنے لگا لیکن لگتا تھا کہ میڈیا والے بھی کشمیر میں ہوتے مظالم سے نا
آشنا ہو کر ان دریائوں کی خبر دے رہے تھے جو میں عبور کر کے آیا تھا، کشمیر
کا خیال میرے دل سے ابھی گیا نہی تھا سوچا اگر آج کشمیر میں نشریات پر
پابندی نا ہوتی اور ان کے پاس کوئی ایک پاکستانی چینل نشر ہو رہا ہوتا تو
انہیں بھی احساس ہوتا کے وہ جو پاکستان کا جھنڈا لیے انڈین فوج کے ہاتھوں
شہید ہو رہے ہیں اور کشمیر کو بھی ان پاکستانی سیاستدانوں کے ہاتھ میں دے
دینا چاہتے ہیں جو اپنے ہی ملک کی شہ رگ جس سے پورا پاکستان چلتا ہے نہی
سنبھال سکتے۔ میرے پیارے پاکستانی جیالو تھوڑا زرور سوچنا سب سے زیادہ میرے
کراچی کے مظلوم ساتھیو آپ سوچنا اگر یہ حال ہمارے ملک کے شہروں کا ہے تو
کیا کشمیر بنے گا پاکستان؟؟؟؟
آپ کا مظلوم ساتھی کراچی والا
گوہر
|