پاکستان میں لاکھوں لوگوں کے ڈینگی وائرس میں مبتلا ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں

جہاں پاکستان کے غریب عوام کو دہشت گردی،کرپشن، قانون اور انصاف کا بودا نظام، مہنگی چینی اور اسکی مصنوعی قلت ، متعدی بیماریوں، تعلیم کی مخدوش حالت،بجلی کی کمی اور اس کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتیں ، قدرتی گیس کی لوڈ شیڈنگ اوراسکی قیمتوں میں اضافے جیسے بحران کا سامنا ہے وہیں ارضی و سماوی قدرتی آفات نے بھی غریبوں کو اپنی لپیٹ میں لیکر انہیں نہ صرف بے گھر کر دیا ہے بلکہ وہ متعدی بیماریوں کا شکار ہوکر روز بروز ہلاک ہو رہے ہیں۔ اسکے ساتھ ہی تیزی سے بڑھتا ہوا انتہائی خطرناک ڈینگی بخار بھی ہمارے لئے ایک بہت بڑی آفت کا پیش خیمہ ہے اور آنے والے وقت میں ہماری عوام کو ایک اور بڑی مشکل کا سامنا کرنا ہوگا۔ مگر ہماری حکومت اس گھمبیر صورتحال سے نہ صرف بے خبر ہے بلکہ اسے اپنی حکومت بچانے کے سوا شاید کچھ بھی نہ دکھائی دیتا ہو اس لئے یہ مسلۂ صرف اور صرف عام عوام کا ہے جس کی طرف حکومت کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ایک عام آدمی کا مسلہء نہ تو عدالتوں کی آزادی ہے اور نہ ہی اسے اسطرح کی جمہوریت سے کوئی دلچسپی ہے جو عام آدمی کے مسائل خاص طور پر صحت کے مسائل سے غافل ہو۔عام عوام کا اصل مسلہء تو بیماریوں سے نجات پانا ہے ۔ اگر ہماری حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور جنگی بنیادوں پر تیزی سے بڑھتے ہوئے ڈینگی وائرس پر قابو پانے کیلئے تدابیر اختیار نہ کیں تو یہ وائرس پاکستان میں رہنے والوں کیلئے ایک بہت بڑی آفت لا سکتا ہے اور 2025 ء تک ڈینگی بخار میں مبتلا ہونے والے مریضوں کی تعدا میں ڈرامائی طور پر 5کروڑ تک اضافہ ہو سکتا ہے جس سے بہت سے لوگ اس مرض میں مبتلا ہوکر مر جائینگے اور جنکی قوت مدافعت مضبوط ہوگی وہ لوگ اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائینگے۔ہماری حکومت کو چاہئے کہ اس بیماری سے لڑنے کیلئے اور اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے اپنی تمام ایسی سرگرمیاں جنمیں کھیلوں پر سالانہ اربوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں کھلاڑیوں کو بطور انعام کروڑوں روپے دئے جارہے ہیں اور اسی طرح تمام دوسرے غیر اہم منصوبے جنکے بغیر ہماری قوم اپنے وجود کو قائم رکھ سکتی ہے انہیں فوری طور پر بند کر کے یہ تمام رقم ڈینگی وائرس کو ختم کرنے پر صرف کی جائے اور قوم کو ایک بہت بڑی آنے والی آفت سے بچایا جائے اور اپنی تمام تر صلاحیتوں اور توانائیوں کو صرف کرکے آنے والے وقت میں قوم کو لاکھوں ہلاکتوں سے بچایا جائے۔ہماری حکومت کو چاہئے کہ وہ ممالک جو پہلے ہی اس آفت کا سامنا کر چکے ہیں اور انہوں نے اس بیماری پر قابو پا کر اپنی اقوام کو اس آفت سے چھٹکارہ دلوایا ہے ان ممالک میں ڈاکٹروں کی ٹیمیں بھیجی جائیں تاکہ وہ وہاں پر مطالعہ کرکے پاکستانیوں کو اس موزی مرض میں مبتلا ہونے سے بچا سکیں۔

ڈینگی بخار کو ہڈی توڑ بخار کے علاوہ جسم کے اندرونی حصوں میں خون رسنے کی بیماری بھی کہا جاتا ہے ۔ ڈینگی بخار ایک خاص مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے یہ خطرناک بیماری موت کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بیماری کسی دوسری وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ یہ ڈینگی وائرس کے چار مختلف مراحل پر مشتمل ہوتی ہے ۔ پہلے مرحلے میں یہ وائرس انسان کے جسم میں داخل ہو تا ہے اور جسم میں پنپتا رہتا ہے اور خلیوں کو متاثر کرتا ہے اور جسم میں انفیکشن کو پھیلاتا ہے اسکے تین مراحل جن میں مریض کو ڈینگی بخار ہو جاتا ہے اور بڑی آنت میں انفیکشن پیدا کرتا ہے اور انسانی جسم میں موجود پانی اور نمکیات میں بری طرح سے کمی واقع ہو جاتی ہے پاخانے کے ذریعے خون رسنا شروع ہو جاتا ہے۔ خون کی باریک شریانیں پنکچر ہو جاتی ہیں اور یہ خون جسم میں رسنا شروع ہو جاتا ہے اور جسم مین کمی کے باعث شدید صدمہ لاحق ہو سکتا ہے اور یہ خطرناک صورت حال انسانی ذندگی کیلئے موت کاسبب بن سکتی ہے۔ انمیں سے ذیادہ تر 15 برس کی عمر کے بچے ہو سکتے ہیں اگر بر وقت علاج نہ کیا جائے اور اس صورت حال پر قابو نہ پایا جاتے تو موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ بعض اوقات یہ معمولی بخار ، قے ، جسم میں درد اور آنکھوں میں درد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے مگر یہ مریض کے جسم میں خاموشی سے نشو و نما پاتا رہتا ہے بعض اوقات اسکا حملہ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جسمیں ناک سے خون آنا، مسوڑھوں سے خون آنا، پاخانے اور پیشاب سے خون آنا ، جسم میں خون کے خلیات کی ٹوٹ پھوٹ، خون کی شریانوں کا پنکچر ہو جانا اور ان سے خون کا بہنا، شدید سر درد،جوڑوں میں شدید درد ہونا، جسم پر دھبے پڑ جانا اور آنکھوں کے پیچھے والے حصے میں شدید درد اور پیٹ میں شدید درد ، نظام تنفس میں دشواری اور اعصابی نظام کی ٹوٹ پھوٹ وغیرہ کی علامات پائی جاتی ہیں ۔

تاحال پوری دنیا میں اسکا کوئی علاج دریافت نہ ہو سکا ہے مگر احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ویت نام میں جنگی بنیادوں پر اس بیماری پھیلانے والے مچھر کے خاتمے کیلئے جہازوں سے پورے علاقے میں مچھر مار سپرے کیا گیا اور گھر گھر مچھر مار مہم شروع کی گئی یہاں تک کہ جو لوگ حکومتی ا حکامات پر عمل نہیں کرتے تھے انہیں جرمانے کئے گئے اور پورے علاقے میں عورتوں،بچوں اور مردوں نے شانہ بشانہ مل کر اس مچھر کے خاتمے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا کر اس مچھر سے نجات حاصل کر لی ۔اسی طرح کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو نے ڈینگی مچھر مار مہم چلا کر گھر گھر مچھر مار سپرے کرکے وہاں سے مچھر کا صفایا کر دیا۔ جب ایک ٹیکسی ڈرائیور سے ڈینگی وائرس کے بارے میں انٹرویو کیا گیا تو اس نے کہا کہ میرا خیال نہیں ہے کہ اب اس ملک میں ایک بھی مچھر زندہ رہ گیا ہوگا یہ ہیں وہ قومیں جو اپنے ملک اور اسمیں رہنے والوں کیلئے مخلص ہوتی ہیں اسطرح ان لوگوں نے ڈینگی بخار سے نجات حاصل کرکے ڈینگی مچھر کو مات دے دی اور آج وہ بلا خوف اپنا کاروبار زندگی چلا رہے ہیں۔ ٖفیڈل کاسترو نے اسی پر بس نہیں کیا اس نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم ہر اس بیماری کا جو ہماری قوم کیلئے موت کا باعث ہوگی اسکا ڈٹ کر مقابلہ کرینگے اور اسے جڑ سے ختم کرکے دم لینگے۔

یہ بیماری منطقہ حارہ کے ممالک جن میں ایشیائی ممالک ، افریقی ممالک، جنوب مشرقی ایشیا، شمالی امریکہ، لاطینی امریکہ، خلیج میکسیکو، فلوریڈا، ویت نام، نکارا گوا، کانگو، برازیل ، آسٹریلیا،تھائی لینڈ،تائیوان اور انڈونیشیا میں تھی جس نے و ہاں کے ہزاروں انسانوں کو نگل لیا اب یہ بیماری پاکستان میں بھی داخل ہو چکی ہے اور اس پر فوری طور پر تمام صلاحیتیں بروئے کار لا کر اسے ختم کرنے کے بارے میں مربوط اور جامع پروگرام تشکیل دیکر اس پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ہینک البرالے ڈینگی بخار کے پھوٹنے کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ فلوریڈا یا پھر کہیں بھی اس بخار کے پھوٹ پڑنے کی وجوہات 75 سال پہلے امریکی سی آئی اے کے وہ تجربات ہیں جو اس نے اپنے مخالفین کے لئے ڈینگی وائرس کو پھیلانے کیلئے کئے تھے۔اور اس بات کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ حالیہ ڈینگی بخار بھی انہیں واقعات کی ایک کڑی ہوجس میں آبادی میں رہنے والے مکینوں اور فوج کو بے خبری میں اس بیماری میں وائرس پھیلا کر مبتلا کر دیا جاتا ہے جو سی آئی اے کے مشن کا ایک حصہ ہے۔

فلوریڈا میں بیماریوں پر تحقیق کے دوران (Centre for disease control) نے یہ انکشاف کیا کہ امریکی تنظیم سی آئی اے کا وہ ذیلی ادارہ جو کیمیکل اور بایولوجیکل ہتھیار وں کے بارے میں تجربات کرتا ہے اور پوری دنیا میں خفیہ طور پر مختلف ممالک میں اپنی کارروائیوں کے دوران ایسے جراثیم اور وائرس پھیلاتا ہے جس سے فوج اور وہاں کے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر ہلاک ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات سے یہ بات سامنے آئی کہ سی آئی اے نے اپنے تجربات کے دوران فلوریڈ ا میں خاص قسم کے جہازوں کے ذریعے 6 لاکھ ڈینگی وائرس کے حامل مچھرکاغذکے تھیلوں میں بھر کر گرائے جو زمین پر آکر کھل جاتے تھے اور یہ مچھر اس علاقے میں پھیل جاتے تھے۔ اسی طرح ڈیڑھ لاکھ مچھر فلوریڈا کے علاقے ایون پارک میں بھی چھوڑے گئے ان میں سے ہر ایک تھیلا ایک ہزار مچھروں پر مشتمل تھا۔وہاں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ آن واحد میں ہزاروں لوگ ڈینگی بخار میں مبتلا ہو کر بیمار ہو رہے ہیں اور ان میں سے کئی ایک مر بھی گئے ہیں ۔ اسی طرح 1978 ء میں پینٹاگون کی ایک انتہائی خفیہ دستاویز جسکا عنوان ’’جنگ و جدل‘‘ تھا میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ سی آئی اے کی تنظیم جو بایولوجیکل اور کیمیکل ہھتیاروں پر تجربات کرتی ہے اس نے فلوریڈا کی طرز پر کی ویسٹ میں ایسے بے شمارتجربات کئے ہیں جن میں ڈینگی وائرس اور اسی طرح کے دوسرے بایولوجیکل جراثیمی ہتھیاربھی شامل تھے۔اسی طرح 1959 ء میں فورٹ ڈیٹریک بیل ویدر آپریشن میں مچھروں کے ذریعے پھیلائے جانے والے متعدی امراض پر راک فیلر انسٹی ٹیوٹ آف نیو یارک کے سائینسدانوں سے مل کر مچھروں کے ذریعے پھیلائے جانے والے امراض پر تجربات کئے۔ 1978 ء میں پینٹاگون کی ایک خفیہ دستاویز سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جراثیمی ہتھیاروں کی تیاری میں آرمور ریسرچ فاؤنڈیشن نے 1951-154 میں ان تجربات میں شمولیت کی جن کے ذریعے ان جراثیموں کو پھیلایا جا سکتا تھا۔دی بیٹل میموریل انسٹیٹیوٹ نے1952-1965 کے دوران اور بین وینیو لیبز ان کارپوریشن نے بھی1953-1954 تک ان تجربات میں حصہ لیا۔ موسم بہار میں 1981 میں کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو نے امریکی تنظیم سی آئی اے پر الزام عائد کیا کہ امریکی افواج اور انکے کنٹریکٹرز کیوبا میں ڈینگی وائرس پھیلانے کے ذمہ دار ہیں ۔ کیوبا میں مئی اور اکتوبر 1981 کے دوران 75 ہزار افراد ڈینگی کے مرض میں مبتلا ہوئے جن میں سے 158 افراد کی موت واقع ہو گئی۔ اسی طرح کیوبا میں ایک دن میں دس ہزار لوگوں کے بارے میں ڈینگی کے مرض میں مبتلا مریضوں کی رپورٹ کی گئی۔ ایک لاکھ سولہ ہزار ایک سو پچاس لوگوں کو ہسپتال میں داخل کروایا گیا ۔ امریکی خفیہ جریدے کے ریسرچر ویلیم ایچ شیپ کہتا ہے کہ کیوبا میں ڈینگی وائرس پھیلانے کی ذمہ دار سی آئی اے تھی۔ اسی دوران امریکی سی آئی اے کے ذریعے کیوبا کے رہائشی علاقوں اور اسکی افواج پر اس وائر کا حملہ کیا گیا جسکی تمام تر ذمہ داری امریکی خفیہ اداروں اور کنٹریکٹرز پر عائد کی گئی۔ 1982 ء میں روس نے یہ انکشاف کیا کہ امریکی تنظیم سی آئی اے نے پاکستان کے راستے افغانستان میں اپنے خفیہ اداروں اور کنٹریکٹرز کے ذریعے ملیریا، ڈینگی وائرس اور اسی طرح دوسرے جراثیموں پر مشتمل مچھرپھیلائے ہیں۔ اسی طرح 1985-1986 میں نکاراگوا نے امریکی تنظیم سی آئی اے پر الزام عائد کیا کہ امریکہ کی اس تنظیم کے ذریعے متعدی امراض جیسے ڈینگی بخار وغیرہ پھیلایا گیا ہے۔ امریکی آرمی ریسرچر نے یہ قبول کیا ہے کہ 1980 میں فورڈٹریک میں بیالوجیکل مقاصد حاصل کرنے کیلئے تجربات کئے گئے تھے یہ تجربات پہلے پہل 1950 میں کئے گئے تھے۔ انہوں نے اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ ڈینگی وائرس ، پیلے بخار، کانگو وائرس، کلوراڈو بخار کے مچھروں کے علاوہ ایسی مکھیاں جو ہیضے کے جراثیم پر مشتمل تھیں انہیں بھی فریڈرک اور میری لینڈ میں پھیلایا گیا۔ اسی طرح قیدیوں پر بھی ان مچھروں کے اثرات کے تجربات کئے گئے جنکے بارے میں ان قیدیوں کوعلم ہی نہیں تھا کہ انکے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

ایسی صورت حال میں جبکہ ہماری حکومت کو بیماریوں کے علاوہ دوسرے بہت بہت بڑے چیلنج ہیں ان میں سب سے بڑا دہشت گردی کا چیلنج ہے جس پر اربوں روپے کے اخراجات ہیں مگر ڈینگی وائرس کی یلغار وہ دوسرابڑا مسلۂ ہے جسے اگر حکومت نے اہمیت نہ دی اور اپنی عوام کے ساتھ مخلص ہو کر اسکے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے تو شاید یہ وائرس نہ غریبوں بلکہ بڑے بڑے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیگا کیونکہ یہ وائرس کاٹنے سے پہلے غریب اور امیر کے فرق کو محسوس نہیں کرتا ۔ ویسے ڈینگی وائرس جو کہ ایک خاص مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے اگر اس مچھر کو مارنے کیلئے مکمل انتظامات کر لئے جائیں تو شاید یہ لوگ اس وائرس کو اپنے اندر منتقل ہونے سے بچا لیں۔ ڈینگی وائرس جو ہمارے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور پاکستان میں انتہائی سرعت سے پھیل رہا ہے پنجاب میں دو ہزار اور سند ھ میں 17 سو مریض تا حال اس وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں یہ صورت حال کو اتنی واضح نہیں ہے یہ وہ کیس ہیں جنکی رپورٹ ہمیں مقامی ہسپتالوں سے ملی ہے مگر یہ تعداد اس سے ذیادہ بھی ہو سکتی ہے اگر ہم زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے جائزہ لیں تو یہ ایک گھمبیر صورت حال ہے ۔ پاکستان جیسا ملک جس میں ہر طرف کرپشن اور بے ایمانی ہے اور ہمارے ارباب اختیار بھی اپنی قوم اور ملک سے وفا دار نہیں ہیں بھلا ہم یہ تصور کیسے کریں کہ ہمارے حکمران قوم کو اس بڑی آفت سے بچانے کیلئے کوئی اقدامات اٹھائینگے۔ پورا ملک گندگی کی لپیٹ میں ہے ہر طرف گندگی کی ڈھیر ہیں گلی گلی اور محلے محلے اور ہر سڑک پر گٹروں کا پانی تیر رہا ہے مگر ہمارے بے حس ارباب اختیار اس بہت بڑی مصیبت سے بے خبر خواب خرگوش کے مزے اڑا رہے ہیں ۔ ہمیں من حیث القوم از خود اپنی مدد آپکے تحت ایک دوسرے کی مدد کرکے ڈینگی وائرس سے چھٹکارہ حاصل کر ناہوگا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے گھروں اور آس پاس کے علاقے میں پانی نہ کھڑا ہونے دیں ۔ پانی والی ٹنکیوں کو ڈھانپ کر رکھیں اور مچھر مار ادویات کا سپرے کرکے انکی نشو نما کو روکا جائے۔مذید یہ کہ اپنے آپکو ڈھانپ کر رہیں اور سوتے وقت مچھر دانی کا استعمال کیا جائے۔

ہماری حکومت نے تا حال ایسے اقدامات نہیں اٹھائے کہ ہم اس مچھر کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں ۔ پاکستان کے عوام ڈینگی وائرس سے خوفزدہ ہیں مگر حکومت نے ایک معمولی سا سپرے کا ٹریلر چلاکر اپنی جان چھڑانے کی ناکام کوشش کی ہے جو پوری قوم کے ساتھ ایک بہت بڑا مذاق ہے اگر ہماری حکومت نے سنجیدگی سے اس بارے میں نہ سوچا تو پوری قوم ڈینگی بخار کی لپیٹ میں آکر ہلاکتوں کا شکار ہونا شروع ہو جائیگی اور پھر اس صورت حال سے نبٹنا نہ صرف مشکل ہو گا بلکہ نا ممکن بھی ہوگا۔
 
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 140201 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.