ٹائم ٹریول یا ٹیلی پورٹیشن دلچسپ حقائق - حصہ دوئم

جہاز پر موجود لوگوں کی حالت قابل رحم تھی۔۔کچھ جھلس کر مر چکے تھے کچھ جہاز کے اسٹیل میں زندہ دفن ہو چکے تھے اور جو چند ایک کسی طرح بچ بھی گئے تھے تو یہ نارمل نا رہے تھے گویا ان کو پاگلوں میں شمار کیا جاسکتا تھا۔۔اس پراجیکٹ کو ٹاپ سیکرٹ قرار دے کر فوری طور پر بند کردیا گیا ۔اور وہ ریکارڈ مٹا دیے گئے جن سے پتہ چلتا ہو کہ امریکی جہاز uss eldridge فلاڈیلفیا میں اس تجربے کا شکار ہوا ۔جس عملے کی اموات واقع ہوئی تھیں ان کے لواحقین کو یہ پیغام بھیج دیا گیا کہ جنگ کے دوران ان کا جہاز تباہ ہوا اور آپ کے یہ وارث مارے گئے۔

یہ راز ہمیشہ راز ہی رہتا اگر برسوں بعد Al۔ Bielek نامی ساینسدان اپنی زبان نا کھولتا جو کہ اس پراجیکٹ کا حصہ رہا۔اس تجربے کا دوسرا عینی شاہد carlos Allende تھا جو کہ اسی ڈیک پر ملازم تھا جہاں یہ سے یہ تجربہ کیا گیا۔۔اگرچہ امریکہ میں آج تک کوئی تحقیقاتی کمیشن قائم نا ہوسکا کہ uss eldridge اور اس کے عملے کو بنا بتاے ایک غیر انسانی تجربے کا شکار کیوں بنایاگیا۔لیکن اس تجربے سے جڑے کئی لوگ ہیں جو کہ ہوش ربا تفصیلات بتاتے ہیں۔۔جن کو یہ جٹھلانے کا دعوی کرتے ہیں ۔

۔بہرحال طاقت اور اقتدار کی چاہت میں انسانیت پر اس سے بھی بڑے بڑے ظلم ہوتے رہے ہیں ۔تو ان سے کچھ بعید نہیں کہ ایسا تجربہ نا کیا گیا ہو۔بلکہ میرا تو ماننا ہے کہ یہ ہر ممکن کوششیں جاری رکھیں گے۔۔

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہٹلر کے دور میں بھی ایک خفیہ جگہ ٹنل بنا کر Die glocke نامی مشین بنائی جا رہی تھی ۔ جس کا مقصد الیکٹرومیگنیٹک ویوز کے زریعے ایک ایسا انرجی کا ببل پیدا کرنا تھا جس کے زریعے ٹائم اینڈ سپیس میں بگاڑ پیدا کرکے وارم ہول بنایا جا سکے ۔جس سے نازی فوجی چند گھنٹے آگے مستقبل میں یا ماضی میں جا کہ دشمن کی فوج کی اگلی حکمت عملی دیکھ سکیں۔ان کو کتنی کامیابی ہوی اس کے بارے میں پورے وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جرمنی پر اتحادیوں کا حملہ ہوجاتا ہے ۔ ہٹلر کو شکست ہوتی ہے۔

۔یہاں دلچسپ بات یہ رہی کہ نا ان کو ہٹلر کی لاش ملی نا ہی گرفتار کر سکے ۔جہاں یہ مشین بنائی جا رہی ہوتی ہے وہاں یہ مشین تو نہیں ملتی صرف چند ٹوٹی مشینوں اور ساینسدانوں کی جلی ہوی لاشیں تھیں۔
اس واقعے کے ٹھیک بیس سال بعد امریکی ریاست پنسلوانیا میں آگ سے لپٹی ایک مشین آسمان سے ایک ویران جگہ آن گرتی ہے ۔ اس مشین کو دیکھنے والے عینی شاہدین نے جو نقشہ بتایا وہ Die glocke سے ملتا جلتا تھا ۔۔شاہدین کے مطابق اس میں ایک جلی ہوئی لاش بھی ملی۔۔ایک گھنٹے کے اندر اندر سی آئی اے نے اس جگہ کا گھیرا کرلیا اور مشین کے ٹکڑے لاش سمیت لے گئے اور یہ بھی ٹاپ سیکرٹ بن گیا ۔۔البتہ کچھ صحافیوں نے واقعات کی کڑی سے کڑی ملائی تو ان کے مطابق یہ ہٹلر کی لاش ہوسکتی ہے ۔۔ہوسکتا ہے اس نے مشین میں بیس سال بعد مستقبل میں داخل ہونے کا وقت مقرر کیا ہو اور وہ آتو گیا لیکن ورم ہول کے اندر برقی لہروں کی شدت نے اس کو جلا کر خاک کر دیا ہو ۔۔

ٹائم ٹریولنگ ہمارے لیے کوئی انوکھی بات نہیں ہونی چاہیے ۔۔ہمارے انبیا کرام ولی اللہ اور کافی برگزیدہ ہستیاں مستقبل کا علم رکھتی تھیں۔۔اور یہ ہستیاں ٹیلی پورٹیشن کا جیتا جاگتا ثبوت رہ چکی ہیں ۔۔کچھ واقعات سے نشاندہی کرنا چاہونگی۔

۔1.. ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے واقعے سے کون لاعلم ہوگا بھلا ؟؟ یہ ٹائم ٹریول ہی تھا جس سے ساتوں آسمانوں کی سیر کی ۔۔آخرت کے احوال دیکھے ۔۔تو ظاہر ہے مستقبل میں جا کر دیکھا نا ۔۔

۔۔2 . کچھ انبیاء کرام کو خوابوں کے زریعے مستقبل کی پیشن گوئی کر دی جاتی تھی جو کہ ایک طرح سے ٹایم ٹریول ہی ہوا نا؟؟ اکثر ایسے لوگوں سے آپ ملیں ہونگے جو سچے خواب دیکھتے ہیں ان کے خواب بالکل سچے ثابت ہوتے ہیں یہ کیا ہوتے ہیں؟ جب ایک کام ہفتے بعد ہونا ہے تو آپ کو پہلے کیسے نظر آگیا ؟ کیا یہ ٹائم ٹریول نہیں ۔۔البتہ یا مادہ نہیں توانائی کی شکل میں ہوا ۔۔

۔3. امام بری رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان سے ان کے مریدوں نے دریافت کیا کہ آپ ان پہاڑوں اور ویران جنگلوں میں کیوں آکر بیٹھے ہیں ۔۔تو انہوں نے فرمایا کہ یہ جگہ ہمیشہ ایسی نہیں رہنی یہاں مسلمانوں کا مضبوط قلعہ ہوگا اور یہ جگہ اس قلعے کا دارلحکومت بنے گی۔۔اب تو اسلام آباد ایک نیوکلئیر اسلامی ملک کا دارلحکومت بن گیا تو ہمیں یہ ماننے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ امام بری رحمتہ اللہ علیہ نے تو مستقبل کو دیکھا یا سفر کیا کیونکہ ہمارا ایمان ہے وحی کا سلسلہ آخری نبی کے ساتھ بند ہو چکا ۔۔ان شخصیات کو وحی نہیں آتی تھی لیکن الہام کشف یا صلاحیت جو بھی کہا جاے اللہ کی طرف سے عطا کردہ تھی اور ان کو مستقبل کا علم ہونا کوئی اچنبھے کی بات نا تھی۔

۔ٹیلی پورٹیشن بھی ان کے لیے کوئی عجوبہ نا تھی۔۔یہ ہستیاں پلک جپھکنے کی دیر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹیلی پورٹ ہو جاتی تھیں۔۔ایسے ایک چھوڑ ہزار واقعات ہیں ۔۔بہاولپور کے نزدیک خانقاہ شریف میں ایک بزرگ سیرانی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار ہے ۔۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کہتے تھے میں عمرہ کرنے جا رہا ہوں ۔۔اور یہ کہہ کر دیوار سے گزر جاتے تھے یوں محسوس ہوتا کہ غاہب ہوچکے ہیں ۔۔
۔اُس وقت منکرین کے لیے ماننا آسان نا تھا کیونکہ یہ چیزیں عقل سے بالاتر ہوتی ہیں۔۔آج ایسے معجزے کو سمجھنا مشکل نہیں رہ گیا ۔

۔ 4 علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں ان کے بہت قریبی ملازم کہتے تھے کہ رات کو پچھلے پہر بزرگ ملنے آتے تھ۔۔یہ بتاتے نہیں تھے کہ یہ بزرگ کون ہیں ۔۔کبھی کبھی علامہ مجھے کہتے باہر سے جا کر لسی یا دودھ دکان سے لآو ۔۔میں حیرانی سے کہتا اس وقت کہاں سے لے آوں آدھی رات کو دکانیں کہاں کھلی ہوتیں ہیں ۔۔علامہ صاحب کہتے باہر جاو اور لے آو ۔۔میں حیران ہوتا ہوا باہر جاتا تو حیران رہ جاتا کیونکہ باہر ایک جدید بازار ہوتی جس میں چہل پہل عروج پر ہوتی۔۔میں پریشانی سے سوچتا کہ کہاں آگیا ہوں اتنے میں ایک دکان سے بچہ آتا میرے ہاتھ میں بوتل تھماتا اور میں غایب دماغی سے واپس آجاتا ۔

۔علامہ صاحب مسکرا کر بوتل لے لیتے میں واپس جا کر دیکھتا تو وہی علاقہ گھہپ اندھیرا اور کوئی بازار نہیں۔۔کیونکہ یہ چیزیں میری سمجھ سے باہر تھیں لہذا چپ رہتا ۔

۔ دنیا ایسے عجیب وغریب واقعات سے بھری پڑی ہے ۔۔ایک ڈھونڈیں ہزار مل جائیں ۔ بعض مرتبہ سی سی ٹی وی فوٹیجز میں ایسے منظر کیچ ہوجاتے ہیں جہاں سکینڈوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرکے کسی کی جان بچائی جاتی ہے ۔۔۔بچانے والا کون ہوتا ہے کوئی پتہ نہیں چلتا ۔۔آج بھی اللہ کے ایسے پرسرار بندے اور مخلوقات موجود ہیں جو ہمارے درمیان رہ کر اپنے کام سر انجام دے رہے ہیں جو ان کو سونپے گئے ۔۔

۔۔ٹیلی پورٹیشن ممکن ہے یہ میں نہیں کہہ رہی یہ ان لوگوں کی کوششیں کہہ رہی ہیں یہ ان کی محنت کہہ رہی ہے کہ ایک دن لمحوں کا کھیل ہوگا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا ۔
۔۔مرحوم ڈاکٹر مولانا اسرار احمد خان نے قرآن پاک کی تفسیر میں سورت النمل کی تشریح کرتے ہوے حضرت سلیمان کا واقعہ کوٹ کیا جہاں ایک انسان ملکہ بلقیس کا تخت پلک جھپکنے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتا ہے ۔۔تو مولانا نے فرمایا ۔۔یہ کوئی نبی نا تھا لیکن ظاہر ہے اللہ کا برگزیدہ بندہ تھا یعنی اس کے پاس اسم اعظم یا ایسی ٹیکنالوجی تھی کہ اس نے ٹیلی پورٹیشن کو ممکن بنایا۔۔مولانا نے مزید فرمایا کہ ساینس جس حساب سے ترقی کر رہی ہے تو عن قریب یہ ممکن ہے کہ مادی اشیا کو لمحوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا کوئی مشکل کام نا رہ جاے گا۔۔تو بلاشبہ اللہ اپنی نشانیاں کھول کھول کر دکھا تا جا رہا ہے۔

۔اگلے حصے میں جانیں گے کہ اس ٹیکنالوجی کے حاصل ہو جانے پر ہم کس کس سنگ میل کو عبور کریں گے اور کہاں ہماری لاسٹ لمٹ ہوگی۔۔۔(جاری ہے)
 

Kiran Khan
About the Author: Kiran Khan Read More Articles by Kiran Khan: 16 Articles with 18810 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.