جوہری ہتھیار ، ایٹم بم،اپنے قبرستان تیار رکھیں

عقل و شعور اﷲ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جو انسان و حیوان کے درمیان فرق کرتی ہے۔ یعنی انسان چرند و پرند، حیوانات و جمادات و نباتات سے افضل اور ممتاز حیثیت رکھتا ہے تو اس کی وجہ یہی عقل ہے۔ اس کے ذریعے سے انسان بڑے چھوٹے ، صحیح و غلط اور اچھے برے کی تمیز کرتا ہے ۔اس طرح اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس دنیا میں مادی کامیابیوں کو مقصود بنانے کے بعد انسان کا سفر اسے دو ہی منزلوں تک پہنچاتا رہا ہے۔ ایک غفلت اور دوسری اضطراب دنیا کے حسن و جمال اور اس کی مادی رونقوں نے جب کبھی انسان کے لئے اپنا دامن کشادہ کیا، اس نے خواہش کی رنگین ہستی میں اپنے لیے غفلت اور مستی میں عالیشان گھروندے ہی تعمیر کیے ہیں۔ وہ گھروندے جن کی کھڑکیوں سے موت کے بعد اس پار موجود دنیا کا کوئی منظر دکھائی نہیں دیتا ہے اور نہ کسی دریچے سے آسمانی وحی کے روشن سورج کی کوئی کرن ہی اندر داخل ہوپاتی ہے۔ہماری اس ذہنی صلاحیت میں اضاف خوشی کی بات ہے مگر کب تک؟ حالیہ شواہد سے پتا چلاتا ہے کہ یہ صلاحیت ماند پڑتی جارہی ہے، بلکہ انحطاط پذیر ہے۔ یعنی ہم عقل و شعور کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا ذہانت کی انتہا کو پہنچابھی جاسکتا ہے؟ اور اگر ایسا ہے، تو پھر مستقبل کے انسان کے لیے عروج کے بعد زوال کامطلب کیا ہوگا۔اس وقت یہ بات ملک پاکستان میں مقبوضہ کشمیر کی خراب کی جاتی ہوئی صورتحال اور بھارتی جارجیت کے باعث ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ بات موجود ہے کہ پاکستانی فوج کوبھارت پر حملہ کردینا چاہیے کیونکہ ہر روز بھارتی فوج LOC پر حملہ کررہی ہے جس سے پاکستانی بھی شہید ہورہے ہیں۔ مگر ملک پاکستان خود ایٹمی ملک ہے پھر بھی ہماری عسکری اور فوجی قیادت لڑائی کے بجائے مذاکرت پر یقین رکھتی ہے مگر پھر ایک نظر ماضی سمیت حالات حاضرہ پر بھی ڈالنی چاہیے۔مگر منفی تصوارت کی طرح ہم پاکستانیوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہئے کہ ہماری قومی سلامتی اور بقاء کے لئے تباہ کن اور انسانیت سوز اسلحہ (Weapson of Mass Destruction) انتہائی ضروری ہے۔ معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ بھارت میں بھی عوام کی اکثریت اسی سوچ کی حامی ہے اور جوہری ہتھیاروں کو اپنی دھرتی کے تحفظ کا ضامن سمجھتی ہے ،۔ جس کی وجہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان روایتی اسلحے کے علاوہ جوہری ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے دوڑ جاری ہے اور انڈیا کی انتہاء پسندحکومت اس اسلحہ کواستعمال بھی کررہی ہے جو خود بھارتی قوم کی موت کا سامان ہے۔اگر ماضی کی طرف دیکھیں تو فوراً ذہن میں جاپان آجاتا ہے جہاں انسانی تاریخ میں جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاریاں پہلی مرتبہ 6 اور 9 اگست1945ء کو اس وقت دنیا کے سامنے ائیں، جب دوسری عالمی جنگ کے اختتامی ایام میں امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشمیا اور ناگاساکی پر جوہری بموں سے حملہ کرکے انہیں تباہ کیا۔ پہلے حملے میں کم و بیش ایک لاکھ افراد موقع پر ہی ہلاک ہوئے جب کہ اس سے دگنی تعداد میں مفلوج ہوئے۔ اطراف کے علاقوں میں پھیلنے والی تباہی اس کے سوا تھی۔ جہاں لوگ مختلف نوعیت کے جسمانی نقصانات کا اس طرح شکار ہوئے کہ لاکھوں لوگ اپنے اعضاء سے محروم ہوگئے ۔ ایسے افراد کی تعداد بھی کسی طور پر لاکھوں سے کم نہیں تھی۔تین روز بعد دوسرا ایٹم بم صنعتی شہر نگا سادی پر گرایا گیا۔ وہاں بھی پہلے روز دو سے ڈھائی لاکھ افراد جاں بحق ہوئے اور کم و بیش اتنی ہی تعداد میں مفلوج ہوئی۔ لیکن اس صورتحال کا دوسرا بھیانک پہلو یہ ہے کہ تقریباً74 برس ہونے کو آرہے ہیں لیکن تابکاری کے اثرات آج بھی ان دونوں شہروں کے اطراف کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے انسان ، چرند، پرند اور نباتات میں ان کے اثرات نے مختلف مہلک بیماریوں کو جنم دیا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ ہیرو شیما میں جو نہی ایٹم بم پٹھا تو ایک سیکنڈ میں شہر کے بڑیحصے کا درجہ حرارت 4000 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا۔ اس درجہ حرارت میں پانی صرف ایک سو ڈگری پر ابلنے لگتا ہے۔ یہ درجہ حرارت رہا تو چند لمحوں کے لئے تھا لیکن پورا ہیر و شیما شہر اور مصافات میں تمام جاندار جل کر خاکستر ہوگئے حتی کہ عمارتیں تک پگھل گئیں۔بم پٹھنے کے ایک سیکنڈ کے اندر اندر تقریباً ایک لاکھ انسان بھاپ اور دھواں بن کر ہوامیں تحلیل ہوگئے۔کوئی جاندار زندہ نہیں بچا۔ ہیرو شیما پر بسنے والے انسان صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔جو بچ گئے وہ مرنے کی خواہش کررہے تھے۔

اسی ہی طرح جوایٹم بم ہیرو شیما پر پھینکا گیا تھا اس سے 4000 ڈگری سیلیس کی حرات خارج ہوئی تھی لیکن اس وقت پاکستان اور بھارت کے پاس جو انتہائی طاقتور نیوکلیئر بم موجود ہیں اوریہ 25000 سے 40000 ڈگری سیلیس کی گرمی خارج کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ اور ایک اندازے کے مطابق یہ گیم محض چند سیکنڈ کی ہوگی اور کررہ ارض کے میدانوں میں صحراؤں اور جنگلوں میں پہاڑوں میں، سمندروں میں دریاؤں کے پانی کی روانی میں کوئی جاندار زندہ نہیں بچے گا۔کچھ دکھانے کے لئے کوئی بریکنگ نیوز نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی دیکھنے والا ہوگا۔ذرا سوچئے۔اور ایشاء واحد خطہ ہے جہاں دنیا کی پانچ ایٹمی طاقتوں کی سرحد ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ اس وقت 9جوہری طاقتوں کے پاس 14 ہزار ایٹم بم ہیں جو کہ جہازوں اور میزائلوں کے ذریعے کسی بھی مقام پر با آسانی گرائے جاسکتے ہیں۔ اب ذکر کرتے ہیں ایک مشہور برطانوی سائنس دان پروفیسر سٹیون ہاکنگ کے مطابق انسانیت کو انسان کی اپنی تخلیقات کی وجہ سے خطرات کا سامنا ہے۔ جن خطرات کی انہوں نے نشاندہی کی ہے ان میں ایمٹی جنگ، ماحولیاتی تپش اور جیناتی طور پر تخلیق کردہ وائرس شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مزید ترقی سے ایسے نئے طریقے ایحاد ہوں گے جس سے چیزیں غلط سمت میں جاسکتی ہیں۔میرے خیال سے دو ایٹمی ملکوں کی لڑائی اب اگر ہوئی تو وہ دو ملکوں سمیت دنیا کے دیگر ملکوں کو بھی لپیٹ میں لے گی جس سے مزید تباہی ہوسکتی ہے ۔ مگر اس وقت جنگ یا لڑائی کی اہم وجہ بھارتی انتہا پسندی ہے جو انسانیت کے لئے خطرہ بن چکی ہے ۔ یہ لڑائی واحد پاکستان کی نہیں ،مسلمہ امہ کی ہے جس کو ایک ہو کر انسانیت اور مسلمہ امہ کی بھلائی کے لئے انسانیت کے لئے بیٹھ کر ایک ہو کر ہی جیتا جاسکتا ہے نہ کہ لڑ کر ۔ اﷲ مسلمانوں کی حفاظت فرمائے آمین۔
 

Ali Raza
About the Author: Ali Raza Read More Articles by Ali Raza: 16 Articles with 13372 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.