آربی آئی:رگھو رام راجن سے شکتی کانت داس تک کا انحطاط

ریزرو بنک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھورام راجن اور موجودہ گورنر شکتی کانت داس کے درمیان ویسا ہی فرق ہے جیساسابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی میں ہے یعنی ایک معیشت کے میدان کا راجہ بھوج تو دوسرا گنگو تیلی ۔ منموہن سنگھ کا شمار دنیا کے بڑے ماہرین اقتصادیات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے بہت سوچ کر رگھو رام راجن کو ۲۰۱۳؁ میں ریزرو بینک کا گورنر مقررکرنے سے تین سال پہلے بلا لیا تھا۔ منموہن سنگھ نے ۲۰۱۲؁ میں ہی راجن کو اقتصادی مشیر بنایا تا کہ وہ مرکزی بینک کی کمان سنبھالنے کی تیاری کرسکیں ۔ ۲۰۱۴؁ کو نریندر مودی کے اقتدار میں آتے ہی رگھو رام راجن کے دن بھر گئے اور اس کا اشارہ سمجھ کر کنارہ کش ہوگئے۔نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات امرتیہ سین نے اس سانحہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ملک کے لئے افسوسناک ہے، کیونکہ راجن ایک بہترین ماہر معاشیات ہیں او رانہوں نے ریزرو بینک آف انڈیا اور ہندوستان کی معیشت کے لئے شاندار کام کیا ہے۔ مودی جی نے راجن کے بعد پہلے توارجت پٹیل کو گورنر بنایا لیکن جب انہوں نے اپنا پلہ جھاڑا تو شکتی کانت داس پر راضی ہوگئے ۔ مودی اور داس کی جوڑی پر ضرب المثل شعر صادق آتا ہے؎
کندہم جنس بہ ہم جنس پرواز
کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز

مودی سرکار کورگھو رام راجن جیسے باصلاحیت گورنر کے گنوانے کا ذرہ برابر افسوس نہیں تھا بلکہ خوشی تھی کہ کانٹا نکل گیا۔راجن کے بعد سرکار جن ناموں پر غور کررہی تھی ان میں سرِ فہرست اروند سبرامنیم، کوشک باسو، اروند پنگڑھيا، راکیش موہن ارون دھتی بھٹاچاریہ شامل تھیں لیکن اچانک آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر ارجت پٹیل کے نام کا اعلان ہوگیا جو مودی جی کا اپنا حسنِ انتخاب تھا۔ ارجت پٹیل کا نام آتے ہی لوگوں نے سوچا کہ وزیراعظم یہاں بھی اپنے صوبے کا آدمی لے آئے لیکن آگے چل کر پتہ چلا کہ وہ کسی چائے کی دوکان سے اٹھ کر نہیں آئے بلکہ لندن اسکول آف اکنامکس کے فاضل ہیں۔ انہوں نے اوکسفرڈ یونیورسٹی سے ایم فل کررکھا ہے اور ییل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اصلی ڈگری حاصل کی ہے۔ریزرو بنک میں نائب گورنر کے طور پر وہ مالیاتی پالیسی سے متعلق ماہر ین کی کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں ۔وہ برکس ممالک کے ساتھ حکومتی معاہدوں اور بین الاقوامی مشترکہ بنک کے قیام میں اہم کردار ادا کرچکےہیں۔

ارجت پٹیل ۱۹۹۸؁ سے ۲۰۰۱؁ تک وزارت خزانہ میں اقتصادی امورکے مشیر بھی رہے اور انہیں خزانہ، توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں 17 برس سے زیادہ کا تجربہ ہے۔یہ خوش آئند پہلو تھا مگر افسوس کہ ارجت پٹیل نے تو رگھو رام راجن کی طرح اپنی مدت کار کی تکمیل کا انتظار بھی نہیں کیا اور نجی وجوہات کا بہانہ بناکر بیچ ہی میں چلے گئے ۔ ابھی حال میں آر بی آئی کے سابق نائب گورنر چندر موہن نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ پٹیل کے جانے کا اصلی سبب نجی نہیں تھا بلکہ وہ ریزرو بنک کے کام کاج میں سرکاری مداخلت سے نالاں تھے۔ وہ ریزرو بنک کی محفوظ رقم حکومت کے حوالے کرنے کو قومی مفاد کے خلاف سمجھتے تھے اور اسے سرکار کےحوالے نہیں کرنا چاہتےتھے ۔حکومت ان پر اس کے لیے مسلسل دباو ڈال رہی تھی اس لیے انہوں نے اپنے ضمیر کا سودہ کرنے کے بجائے عزت کے ساتھ کنارہ کشی اختیار کر لی ۔ اس طرح ملک ایک اور خوددار ماہر اقتصادیات سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

ارجت پٹیل کے ۶ ماہ بعد ریزرو بینک آف انڈیا کے ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ نے اپنی مدت کار پوری ہونے سے قبل استعفیٰ دے دیا ۔ ویرل آچاریہ نے آئی آئی ٹی ممبئی میں کمپیوٹر سائنس سے بی ٹیک کرنے کے بعد نیویارک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی۔ معیشت کے میدان میں کام کرتے ہوئے لندن بزنس اسکول میں انہوں نے سات سال گزارے اور پھر بینک آف انگلینڈ میں کام کیا۔مودی جی جو اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ہارورڈ جیسی معروف دانش گاہوں میں ہارڈ ورک نہیں کیا جاتا بلکہ ساری محنت سنگھ کی شاکھا میں ہوتی ہے بھلا راجن، پٹیل اور اچاریہ کی قدر دانی کیونکر کرسکتے ہیں؟ اس طرح ایک ایک کرکےوہ قابل لوگ جنہیں قوم کا مفاد عزیز تھا اور جو اپنی عزت نفس کے پیش نظر حکومت کی داداگیری کے آگے جھکنے کے لیے تیار نہیں تھے ایک ایک کرکےرخصت ہو گئے۔ اس صورتحال میں قحط الرجال کے شکار سنگھ پریوار کو تاریخ میں ایم اےشکتی کانت داس کو ریزرو بنک کا گورنر بنانے پر مجبور ہونا پڑا ۔

سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے کافی قریبی سمجھے جانےوالے61 سالہ نوکرشاہ کی تقرری ہندوستانی معیشت کے لیے نیک شگون نہیں تھی ۔ ان کو نوٹ بندی کے دوران سرکارکے احمقانہ فیصلے کا بچاؤ کرنے کے عوض انعام کے عوض اس انعام سے نوازہ گیا تھا۔ ان کی موقع پرستی اور چاپلوسی کا اندازہ اس جواب سے لگایا جاسکتا کہ جب پوچھا گیانوٹ بندی کے معاملے میں گورنر ارجت پٹیل نے کیوں خاموش ہیں تو وہ بولے ‘اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ کون بول رہا ہے۔ میں حکومت کی طرف سے بول رہا ہوں۔ میں نجی اختیارات میں خطاب نہیں کر رہا ہوں۔ منشا یہ ہے کہ حکومت کو بات پہنچائی جائے’’۔ تمل ناڈو میں جس وقت وہ سکریٹری (صنعت)تھے تو ان پر بی جے پی رہنما سبرامنیم سوامی کو غیر مصدقہ الزامات لگائے ۔ یہ اور بات ہے کہ جیٹلی کی طرف سے نجی طور پر اور وزارت کے ٹوئٹر ہینڈل سے سوامی کے الزامات کی تابڑ توڑ تردید کی گئی۔ داس پر ۲۰۱۶؁ میں پی گروزنام کی ایک ویب سائٹ نے بھی یہ الزام لگایا کہ انہوں نےامریکی کمپنی سینمینا کو 100 ایکڑ سرکاری زمین سستے داموں پر فروخت کروادی ۔ایک طرف نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا بلند بانگ دعویٰ اور دوسری جانب شکتی کانت داس پر بدعنوانی کے الزامات کو جوڑ کر دیکھا جائے تو چور چور موسیرے بھائی والی کہاوت یاد آتی ہے۔

شکتی کانت داس کی بابت تقریباً دوسال قبل یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نےوجے مالیا یا نیرو مودی جیسے لوگوں پر نکیل کسنے کی خاطر جی 20 بلیٹن میں بھگوڑے اقتصادی مجرموں پر ایک پیراگراف جڑوانے میں کافی محنت کرکے کامیابی حاصل کی لیکن اس کاغذی فائدے کا کوئی عملی فائدہ ہنوز نظر نہیں آیا۔ نہ تو ان لوگوں کو گرفتار کرکے لایا گیااور نہ ان کی ساری املاک و جائیداد کو سرکاری تحویل میں لیا جاسکا۔ داس نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سیاسی آقاوں کی خوشامد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘‘‘مختصر وقت میں معیشت کے اندر کی گئی وسیع تبدیلی کے سبب ترقی میں آنے والی گراوٹ عارضی ہے’’۔ اس بیان کے بعد ڈیڑھ سال کا وقفہ گزرچکا ہے لیکن ملک کے معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ ان حالات میں ایسا نہیں لگتا کہ جس مصیبت کو وہ عارضی کہہ کر ہلکا کررہے تھے وہ حقیقت کے مطابق ہو۔ اس بات کا قوی امکان ہے ان کی اور حکومت کی مشترکہ حماقتوں سے وہ عذاب مستقل نہ سہی تو دیرپا نہ ہوجائے ۔

شکتی کانت داس کالب و لہجہ معاشی کم اور سیاسی زیادہ نظر آتا ہےمثلاًآن لائن ای کامرس کے میدان میں دنیا کے سب سے بڑے ادارے امیزون کو ایک دھمکی آمیز ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا، ‘ امیزون اپنی حد میں رہے اور ہندوستانی علامتوں اور عظیم شخصیات کے ساتھ گندی حرکت کرنے سے باز آئے۔ اس معاملے میں عدم حساسیت آپ کے لئے خطرناک ہوگی’’۔ اس طرح کے بیان پر معاشی دنیا میں حیرت و استعجاب کا اظہار کیا گیا لیکن مودی بھکت خوش ہوگئے۔ شکتی کانت داس چونکہ ابتداء سے ریزرو بنک کے اضافی ڈیویڈنڈ کو حکومت کے حوالے کرنے کی ترغیب دیتے ر ہے ہیں اس لیےا ان کے آتے ہی یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ آر بی آئی کی ہنگامی فنڈ پر ڈاکا ڈالنے میں حکومت کا تعاون کریں گےاور مودی سرکار جب بھی مشکل میں پھنسے گی تو ایک فرمانبردار غلام (داس) کی طرح وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں گے ۔ اس کا موقع بہت جلد آ گیااور ایک لاکھ ۷۶ ہزار کروڈ حکومت کے حوالے کرکے انہوں نے حق نمک ادا کردیا۔

قومی مفاد کے لیے پارٹی اور جماعتی فائدے کے لیے ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کا دعویٰ کرنے والے مودی جی نے اقتدار کی خاطر شکتی کانت داس کی مدد سےقومی خزانےکو بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ ایسے میں نوٹ بندی کی مخالفت میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کی تنقید پر وزیر اعظم نریندر مودی کا طنز یاد آتا ہے ۔ مودی نے کہا تھا کہ منموہن کے دور میں گھپلے پر گھپلے ہوتے رہے لیکن انہوں نے اپنے اوپر داغ نہیں لگنے دیا کیونکہ 'باتھ روم میں رین کوٹ' پہن کر نہانا وہی جانتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر منموہن کے دامن پر بی جے پی والے کوئی داغ دھباّ نہیں ثابت کرسکے لیکن رافیل کی ایک اڑا ن سے مودی جی کی پاک دامنی تار تار ہوگئی اور اس داغ کو دھونے کے لیے جب وہ حمام میں داخل ہوئے تو پانی ختم ہوگیا یعنی خزانہ خالی ہوگیا ۔ اس صورتحال میں مجبور ہوکر انہیں سپر سرف کے ساتھ پانی خریدنے کے لیے ریزرو بنک سے روپیہ چرا نا پڑا۔ آج کل بی جے پی والے تمام جماعتوں میں موجود بدعنوان سیاستدانوں کو پوتر کرنے کے لیے اسی گنگا جل اور پتانجلی صابن سے اشنان کرواکر بی جے پی میں شامل کرلیتے ہیں۔ یہ الزام کسی کانگریسی نے نہیں بلکہ مہاراشٹر میں بی جے پی کے بڑے رہنما ایکناتھ کھڑسے نے اپنی ہی پارٹی کے وزیراعلیٰ فردنویس پر لگایا ہے۔
 
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450563 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.