72 برس بیت گئے مقبوضہ وادی میں مسلمانوں کوبھارت کی
ریاستی دہشتگردی کاسامناکرتے،کون سا ظلم ہے جو ان 72سالوں میں کشمیریوں
پرنہ کیاگیاہو،گزشتہساتھ دہائیوں سے دنیاایک ہی بات کہے جارہی ہے کہ اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیرکوحل
کیاجائے،اکثریت یہ بھی نہیں جانتی کہ سلامتی کونسل کی قراردادیں کیاکہتی
ہیں،ہم پاکستانی بھی اقوام متحدہ اور اقوام عالم سے اس بات کی اُمیدلگائے
بیٹھے ہیں کہ وہ بھارت پردباؤڈالیں تاکہ مسئلہ کشمیرپرامن طریقے سے حل
ہوجائے،ہم نے شائدیہ کبھی سوچاہی نہیں کہ جوممالک ہمارے ملک کونقصان پہچانے
والے عدالتی مفرورملزم ہمیں واپس نہیں کرتے،جودنیاکے جرائم پیشہ
عناصرکوپناہ دیتے ہیں،اقوام متحدہ جن کے ظلم وستم پرآنکھیں بندکرلتی
ہے،جودنیابھرمیں مسلمانوں کیخلاف محاذکھولے بیٹھے ہیں،جو
فلسطین،عراق،شام،برما،افغانستان سمیت مسلم ممالک میں مسلمانوں کاقتل عام
کررہے ہیں وہ کشمیری مسلمانوں کے خیرخواہ کیسے ہوسکتے ہیں؟مزیدبات کرنے سے
قبل یہ دیکھ لیتے ہیں کہ کشمیربارے اقوام متحدہ کی قرادادیں کہتی
کیاہیں،وائس آف امریکہ کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تنازع
کشمیر سے متعلق پہلی قرار داد جنوری 1948ء میں منظور کی،سلامتی کونسل میں
17 جنوری 1948 ء کو منظور کی گئی 38ویں قرار داد میں کہا گیا کہ تنازعہ
کشمیر سلامتی کونسل میں زیر غور ہے لہٰذا کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر
پاکستان اور بھارت کے نمائندوں کو ایسے بیانات دینے سے روک دیا گیا جن سے
حالات مزید کشیدہ ہوں،20 جنوری 1948ء کو منظور ہونے والی قرار داد میں
تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے تین رکنی کمیشن تشکیل دے دیاگیا،کمیشن میں ایک
رکن بھارت،ایک پاکستان اور ایک رکن دونوں کی باہمی رضا مندی سے منتخب کرنے
کے لیے کہا گیا،کمیشن کا کام سلامتی کونسل کو مشترکہ خط کے ذریعے خطے میں
قیام امن کیلئے سفارشات پیش کرنا تھا،پاکستان اور بھارت کے دلائل سننے کے
بعد سلامتی کونسل نے قرار داد نمبر 39 کے تحت بنائے گئے خصوصی کمیشن کے
اراکین کی تعداد بڑھا کر ارجنٹائن، بیلجیئم، کولمبیا، چیکو سلوایا اور
امریکہ کے نمائندے بھی کمیشن میں شامل کردیئے،21 اپریل 1948ء کو منظور کی
گئی اس قرار داد میں کمیشن کو ہدایات دی گئیں کہ وہ خطے میں جا کر دونوں
ممالک کے درمیان امن بحال کرائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری
منعقد کرانے کے انتظامات کرے،قرار داد میں تنازعہ کے حل کے لیے تین اقدامات
کرنے کو کہا گیا،پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اپنے ان شہریوں کو جو کشمیر میں
لڑنے گئے ہیں انہیں واپس بلائے جب کہ بھارت سے کہا گیا کہ وہ اپنی فوج میں
مرحلہ وار کمی کرے اور کشمیر میں اتنی فوج ہی رکھے جتنی امن و امان کے قیام
کے لیے ضروری ہے،دونوں ممالک سے کہا گیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ
کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق رائے شماری کے ذریعے کیا جائے،3
جون 1948ء کو منظور کی گئی قرار دادنمبر51 میں اقوام متحدہ کے کمیشن کو
متنازعہ علاقوں میں جا کر سلامتی کونسل کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل
درآمد کرانے کا کہا گیا،قرار داد میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ کی
طرف سے سلامتی کونسل کو لکھے گئے خط کو بھی شامل کرنے کا کہا گیا،قرار داد
نمبر80میں اقوام متحدہ کے کمیشن اورنمائندہ جنرل مکنوٹن کی رپورٹس کے بعد
سلامتی کونسل کی طرف سے دونوں ممالک کو جنگ بندی اور جموں و کشمیر کو فوج
سے پاک علاقہ رکھنے کے معاہدے پر قائم رہنے کی تلقین کی گئی،14 مارچ 1950ء
کی قرار داد میں بھارت اور پاکستان کو اپنی فوجیں کنٹرول لائن تک پیچھے
ہٹانے کے لیے کہا گیا، شمالی علاقہ جات کو اقوام متحدہ کے زیر انتظام کیا
گیا اور رائے شماری کے انعقاد کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے نمائندہ منتخب
کرنے کا فیصلہ کیا گیا،قرار داد نمبر 91،نمائندہ اقوام متحدہ سر اوون ڈکسن
کی رپورٹ میں کشمیر میں استصواب رائے کے انعقاد میں حائل اختلافات بیان کیے
گئے،سلامتی کونسل کی طرف سے سر اوون ڈکسن کا استعفی منظور کرتے ہوئے ان کے
متبادل کو تین ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا،پاکستان اور بھارت کو اقوام
متحدہ کے نمائندے سے تعاون کرنے کی ہدایت کی گئی،31 مارچ 1951ء کی رپورٹ
میں مزید کہا گیا کہ ملٹری مبصرین کا گروپ جنگ بندی پر نظر رکھے گا،قرار
داد نمبر 96:10 نومبر 1951ء کی قرار داد میں اقوام متحدہ کے نمائندے فرینگ
گراہم کی رپورٹ پیش کی گئی،انہوں نے سلامتی کونسل میں خطاب میں کہا کہ
بھارت اور پاکستان کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلانے، تنازعہ کشمیر کو باہمی
رضا مندی سے حل کرنے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے قیام پر
رضا مند ہوگئے ہیں،قرار داد نمبر 98:نمائندہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی
ہونے والے مذاکرات میں طے پایا کہ بھارت اورپاکستان ایک خاص تعداد میں
کنٹرول لائن پر اپنی فوجیں تعینات رکھ سکیں گے،23 دسمبر 1952 ء کو منظور
ہونے والی قرار داد میں پاکستان کے لیے یہ تعداد 3000 سے 6000 مقرر کی گئی،
جبکہ بھارت کے لیے یہ تعداد 12000 سے 18000 مقرر کی گئی،قرار داد نمبر
122:24 جنوری 1957ء کو منظور کی گئی ایک قرار داد میں کہا گیا کہ آل جموں و
کشمیر نیشنل کانفرنس کی قانون ساز اسمبلی متنازعہ جموں و کشمیر کے مستقبل
سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی،قرار داد میں مزید کہا گیا کہ سلامتی
کونسل کی قرار داد نمبر 91 کے مطابق جموں و کشمیر کا علاقہ متنازعہ ہے،قرار
داد نمبر 123:جموں و کشمیر میں حالات کشیدہ ہونے پر 21 فروری 1957ء کو
منظور ہونے والی قرار داد میں سلامتی کونسل نے صدر گنار جارنگ سے کہا کہ وہ
پاکستان اور بھارت کا دورہ کریں اور اس تنازع کے حل کے لیے اپنی تجاویز
دیں،2 دسمبر 1957ء کی قرار داد میں صدر سلامتی کونسل گنار جارنگ کی رپورٹ
میں بھارت اور پاکستان کو پرامن رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے نمائندہ اقوام
متحدہ کو کہا گیا کہ وہ پاکستان اور بھارت کا دورہ کریں اور اس تنازعہ میں
مزید پیشرفت کے لیے اقدامات تجویز کریں،قرارداد نمبر 209:چار ستمبر 1965ء
کی قرار داد میں پاک بھارت کنٹرول لائن پر بگڑتی صورت حال پر بھارت اور
پاکستان کو فوری طور پر جنگ بندی کا کہا گیا، قرار داد میں دونوں ممالک کو
اقوام متحدہ کے ملٹری مبصرین کے گروپ کے ساتھ تعاون کرنے اور سیکریٹری جنرل
کو تین روز میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا،قرارداد نمبر 210:اقوام متحدہ کے
سیکریٹری جنرل کی رپورٹ کے مطابق 6 ستمبر 1965ء کو منظور کردہ قرار داد میں
بھارت اور پاکستان کو جنگ بندی اور اپنی فوجیں پانچ اگست 1965ء والی
پوزیشنز پر واپس بلانے کا کہا گیا، قرار داد میں تنازعہ کشمیر کا مستقل
بنیادوں پر جائزہ لینے کا بھی کہا گیا،قرار داد نمبر 211:سلامتی کونسل کی
طرف سے قرار داد نمبر 209 اور 210 میں جنگ بندی کی ہدایات دینے کے باوجود
بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی نا ہونے پر 20 ستمبر 1965ء کو ایک
اور قرارداد کے ذریعے کہا گیا کہ 22 ستمبر کو سات بجے (جی ایم ٹی) تک جنگ
بندی کی جائے اور دونوں ممالک کی فوجیں پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشنز پر
چلی جائیں،27 ستمبر 1965ء کو منظور ہونے والی قرار داد میں بھارت اور
پاکستان کی طرف سے جنگ بندی نا کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا
کہ فریقین جنگ بندی معاہدے پر عمل کریں،قرار داد نمبر 215:پانچ نومبر 1965ء
کو منظور کی گئی قرار داد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی پر عمل
نا کرنے پر دونوں ممالک کے نمائندوں سے سیکریٹری جنرل سے ملاقات کر کے
فوجوں کی واپسی کا لائحہ عمل تشکیل دینے کا کہا گیا،قراد داد نمبر 307:21
دسمبر 1971ء کی قرار داد میں کہا گیا کہ بھارت اور پاکستان کے نمائندوں سے
بات چیت کے بعد سلامتی کونسل چاہتی ہے کہ فوجوں کی واپسی مکمل ہونے تک جموں
و کشمیر میں مکمل جنگ بندی ہو،قرار داد نمبر 1172:بھارت اور پاکستان کی طرف
سے ایٹمی دھماکوں کے تجربات کی مذمت کرتے ہوئے 6 جون 1998ء کی قرار داد میں
دونوں ممالک کو مزید تجربات نا کرنے کا کہا گیا،قرار داد میں سلامتی کونسل
کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کشمیر کو حل کرانے میں مدد
کی بھی پیشکش کی گئی،تنازعہ کشمیر پرحالیہ پاک بھارت کشیدگی کے سبب سلامتی
کونسل کے مستقل رکن چین کی درخواست پراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک
بار پھر تنازعہ کشمیر پر ہنگامی اجلاس ہو چکاہے‘‘اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل میں ہونے والی تمام ترکارروائی میں پاکستان اوربھارت کے درمیان
کشیدگی کم کرنے کی نیت سے تنازعہ کشمیرحل کروانے کی سادہ کوشش کے سواکچھ
نظرنہیں آتا،یہ حقیقت ہے کہ سلامتی کونسل کی اس مداخلت کے باعث پاک بھارت
کشیدگی وقفے وقفے سے کم ہوتی رہی ہے جبکہ تنازعہ کشمیرجوں کاتوں حل طلب ہے،
مقبوضہ وادی میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی شدید ترین
خلاف ورزیوں کے باوجوداقوام متحدہ یااقوام عالم نے کبھی بھارت
کودہشتگردریاست قراردینے پرغورتک نہیں کیا،کبھی کسی قسم کی پابندی عائد
کرکے کشمیری عوام پرظلم ستم بندکرنے پرمجبورنہیں کیالہٰذاپاکستان کواقوام
متحدہ یاامریکہ سے زیادہ تواقعات وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں،تنازعہ
کشمیرمیں تین فریق ہیں پہلاکشمیری عوام دوسراپاکستان اورتیسرابھارت،کشمیری
عوام اورپاکستان ایک پیج پرہیں جبکہ بھارت طاقت کے بل بوتے پرمقبوضہ وادی
پرقابض رہنے کی کوشش میں ظلم وستم کی تمام حدیں توڑچکاہے،ایک ماہ سے وادی
میں کرفیونافذہے،سوشل میڈیا،ٹیلی فون،مقامی اخبارات،مساجد میں
نمازجمعہ،نمازعید،فوت شدگان کے جنازوں پرمکمل پابندی عائدہے،کھانے پینے کی
اشیاء ختم ہوچکی ہیں،جان بچانے والی ادویات کی قلت پیداہوچکی ہے،وادی میں
سکول وکالج بندہیں،لاکھوں نہتے کشمیریوں کوبغیرکسی جرم گرفتاراورغائب
کردیاگیاہے،اقوام متحدہ کی قراردادیں اپنی جگہ درست ،کیادنیاکوبھارت کی
ریاستی دہشتگردی نظرنہیں آتی؟جی ہاں اب ہمیں یہ بات تسلیم کرلینا چاہیے کہ
غیرمذہب طاقتیں پوری دنیاکے مسلمانوں کو کچل دیناچاہتی ہیں جس کی بے
شمارعملی مثالیں ہمارے سامنے ہیں لہٰذاایٹمی طاقت اوربہترین فوجی قوت کے
حامل پاکستان کے وزیراعظم عمران خان آزادکشمیرکی دفاعی پوزیشن سے آگے نکل
کرمقبوضہ کشمیرکی آزادی کی بات کریں اورفوری طورپرمسلم ممالک کے درمیان
اتحادواتفاق قائم کرنے میں پل کاکردارداکرنے کااعلان کریں،جب تک مسلمان
متحدنہیں ہوں گے ایک کے بعد ایک کی باری آتی رہے گی،مصلحت کے شکاراسلامی
ممالک یہ جان لیں کہ آج کشمیرجل رہاہے توکل اُن کی باری ہوگی لہٰذااب بھی
وقت ہے کہ مسلم ممالک کا نیٹوطرزکاعسکری اتحادقائم کیاجائے اوردنیابھرمیں
مسلمانوں کے قتل عام کیخلاف جہادکیاجائے،آپسی مسائل آپس میں مل بیٹھ کرحل
کئے جائیں ورنہ یوں ہی مرتے رہیں،غیروں کے درکھٹکھٹاتے رہیں اوررسواہوتے
رہیں،اپنے وسائل غیروں کے سپردکرتے رہیں
|