توہین قرآن:برداشت اور روداداری کا درس دینے والے کہاں ہیں؟

گورنر سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کے قتل کے فوری بعد پورے ملک کا میڈیا متحرک ہوگیا اور اور سب نے ایک زبان ہوکر نام نہاد انتہا ہسندی اور دہشت گردی کی مذمت شروع کردی ۔ گورنر کے قتل پر تو نجی چینلز نے باقاعدہ جانبدارانہ رویہ اپناتے ہوئے اس بات کی کوشش کی کہ سیاسی و مذہبی رہنماؤں سے اس قتل کی مذمت کرائی جاسکے لیکن چند ایک لوگوں کے علاوہ کسی نے بھی گورنر سلمان تاثیر کے قتل کی مذمت نہیں کی،اور نجی چینلز کو اس بات کا بہت صدمہ ہوا تھا ۔ سارے نجی چینلز کا فوکس انتہا پسندی کی مذمت پر تھا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنے دین پر عمل کرنا چاہے تو وہ انتہا پسند کہلاتا ہے لیکن اگر کوئی فرد دین کے خلاف بات کرے اور اس بات کو جبری طور پر پورے ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کرے تو وہ ’’روشن خیال ‘‘ اور اعتدال پسند کہلاتا ہے۔ اس کا کوئی بھی عمل انتہا پسندی نہیں کہلاتا ہے۔

مذہبی رواداری،برداشت اور تحمل کا درس دینے والے اور گورنر اور شہباز بھٹی کے قتل پر آسمان سر پر اٹھانے والے میڈیا کے اینکرز نے ،کسی چینل نے بھی امریکی ریاست فلوریڈا میں انتہا پسند عیسائی پادری کے ہاتھوں قرآن پاک کو جلانے کے معاملے پر کوئی پروگرام کیا؟ بتائیں کوئی پروگرام کیا ؟ جواب ہے کہ نہیں کیا! شہبار بھٹی کے قتل کو مخصوص رنگ دینے کے لئے ہمارے عیسائی بھائیوں کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی اور یہاں انتہا پسند عیسائی پادریوں کو چنیلز پر بلا کر ان سے بات کی گئی لیکن کل کسی عیسائی رہنما نے اس پر کوئی بات نہیں کی ہے۔

کیا برداشت کا درس صرف مسلمانوں کے لئے ہے؟ کیا انتہا پسندی صرف مسلمانوں کا کام ہے؟ کیا ان معلون پادریوں کا یہ عمل انتہا پسندی نہیں ہے؟ کیا ان کا یہ عمل قابل مذمت نہیں ہے؟ کیا یہ عمل بین المذاہب اتحاد کے برخلاف نہیں ہے؟ کیا رواداری صرف اسی کا نام ہے کہ کسی بھی دہشت گردی کی واردات کو بلا سوچے سمجھے اسلام کے ساتھ جوڑ دیا جائے اور یہ جو انتہا پسند عیسائی اور یہودی اور ہندو جو کچھ بھی کریں اس پر خاموشی اختیار کی جائے؟

پاکستان میں یا کسی اسلامی ملک میں کسی مسلمان نے اگر نعوذ باللہ بائیبل یا انجیل جلانے کی بات بھی کی ہوتی تو اب تک ایک طوفانِ بدتمیزی مچ چکا ہوتا۔ سارے چینلز یک زبان ہوکر اسلام پر،اسلام کی تعلیمات پر اور علمائے کرام پر گز گز بھر کی لمبی زبان نکالے تنقید کررہے ہوتے اور بیچارے علما کٹہرے میں کھڑے وضاحتیں کررہے ہوتے، ادھر دوسری جانب ویٹی کن سے لیکر امریکی وزیر خارجہ اور امریکی صدر تک اس پر بیان جاری کرتے ، لیکن یہاں سب کو سانپ سونگھ گیا ہے کیوں کہ قرآن پاک کو جلایا گیا ہے نا تو یہودی اور عیسائی تو ویسے بھی پیغمبر اسلام ﷺ اور قرآن پاک سے بغض رکھتے ہیں اس لئے کسی بھی کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

لیکن اس میں قصور تو ہمارا ہی ہے نا! ہمارے حکمران ہی اتنے بے حمیت ہیں کہ وہ ان مغربی انتہا پسندوں کی ان مذہبی دہشت گردیوں کی مذمت نہیں کرتے ، ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں او آئی سی بھی جب نیند سے جاگے گی تو ایک پھسپھسا سا بیان جاری کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائے گی۔ لیکن میں یہاں صدرِ پاکستان آصف علی زرداری صاحب کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب میں اس کی مذمت کی اور پارلیمنٹ کو ہدایت کی وہ اس پر مذمتی قرار داد پاس کرے اور پارلیمنٹ کی سطح پر امریکہ سے اس پر احتجاج کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اگر چہ ان سے اختلافات اپنی جگہ ہیں لیکن اس مستحسن عمل کی تعریف کی جانی چاہئے۔

بہرحال انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے سپہ سالار اور دنیا بھر میں راداری ،امن کادرس دینے کے دعوے دار امریکہ کی ریاست میں ایک پادری نے اربوں مسلمانو ں کی توہین کر کے اور قرآن پاک کو جلا کر انٹر نیشنل سطح کی دہشت گردی کی ہے۔ دیکھنا ہے کہ ہمارا میڈیا کب اس جانب توجہ دیتا ہے اور عیسائی انتہا پسندی کے خلاف کب کوئی پروگرام کرتا ہے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520007 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More