”القاعدہ ٹھکانوں پر دباﺅ کے لیے
شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا جائے۔پاکستان زہریلے سانپ پالنے کا خمیازہ
بھگت رہا ہے۔“مذکورہ بیان نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے
واشنگٹن میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے دیا۔امریکی سپہ سالار کا یہ
اظہار خیال تعجب انگیز بھی ہے اورمعنی خیز بھی۔ایسے وقت میں جب پوری قوم
قاتل امریکی کی خفیہ رہائی اور اس کے بعد امریکی قزاقانہ حملوں کے خلاف
سراپا احتجاج ہے۔پیٹریاس کی ہرزہ سرائی پاکستانی قوم کے زخموں پر نمک
چھڑکنے کے مترادف ہے۔یہ امریکا کا وہ دہرا کردار ہے جو وہ اپنے دوستوں کے
ساتھ ہمیشہ اپناتا آیا ہے۔امریکا کی معلوم تاریخ اس طرح کے مکروفریب پر
شاہد ہے۔وہ ملک جس نے اسے کندھا فراہم کیا۔اپنی معیشت کا دیوالیہ
نکالا۔اپنے امن کو غارت کیا۔ آج اسی کو نہ صرف مطعون کیا جارہا ہے بلکہ اس
کے نہتے ،معصوم اور محب وطن شہریوں کا کھلے عام خون ناحق بھی بہایا جارہا
ہے۔اس سب کچھ کے باوجود امریکی کمانڈر کے لب ولہجے کی کاٹ اس پر مستزاد ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کیا واقعی وہ 45نفوس جو امریکی ڈرون کے نتیجے میں لقمہ
اجل بنے زہریلے سانپ تھے؟کیا مقامی طور پر منعقد ہونے والا جرگہ امریکا اور
اس کے حواریوں کے خلاف کسی منصوبہ بندی میں مصروف تھا؟کیا دس برس کی سانجھے
داری اور شراکت کاری کا یہی انعام اور صلہ ہے؟ان سوالات کا واضح اور
غیرمبہم جواب امریکی سالار نے اپنے ہی الفاظ میں یوں دے دیا”پاکستان کو زیر
اثر رکھنے کے لیے افغانستان میں کامیابی ضروری ہے۔“گویا پیٹریاس نے
افغانستان کو وجہ جواز بنا کر قبائلی علاقاجات پر امریکی بمباری کی سند
جواز فراہم کردی ہے۔ یہ امر بالکل واضح ہے کہ افغان کہساروں پر امریکی قبضہ
ملک عزیز کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا دیرینہ طاغوتی منصوبہ ہے۔یہ صہیونی
ذہنیت اگرچہ ارباب فکر ودانش پہ ہرگز مخفی نہ تھی۔مگر اب امریکا کی اعلیٰ
عسکری قیادت کے ذمہ دار رکن کا علی الاعلان اعتراف ِحقیقت کر لینا اپنے
اندر بہت وزن اور سامان عبرت رکھتا ہے۔
دشمنان اسلام وپاکستان اس زمینی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ یہی وہ مرد
مخیز خطہ ہے ،جہاں دین مستقیم کی نظریاتی فصیلیں مضبوط اور پائیدار ہیں۔جس
کا حالیہ اور تازہ ترین ثبوت ناموس رسالت قانون کے تحفظ کے لیے ،پاکستانی
قوم کی نظریاتی یکجہتی اور فکری وحدت کے طور پر سامنے آچکا ہے۔یہاں بسنے
والے کروڑوں راسخ العقیدہ مسلمانوں کی اپنی دین سے گہری وابستگی اور
پیوستگی جہاں اہل ایمان کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ،وہاں کفریہ قوتوں کے لیے
ناقابل ہضم اور پیٹ کا مروڑ ہے۔یہود ونصاری دین برحق سے عداوت ودشمنی کا
کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔اس بغض ونفرت کی خبر قرآن کریم نے اب سے
چودہ صدیاں پیشتر دے کر، مسلمانوں کو ان سے دوستی وموددت قائم کرنے سے سختی
سے روکا تھا۔ چنانچہ آج جہاں ہمارے بے حمیت حکمرانوں نے احکام خداوندی سے
روگردانی کی روش اپنائی ہوئی ہے۔ وہاں طاغوت کے پیروکاروں کا رویہ ،عمل اور
نیت بھی ہمارے سامنے مکمل طور پر آشکارا ہو رہا ہے۔ غیروں کی ہاں میں ہاں
ملانے اور ان کو اپنا مقتدا و پیشوا ماننے کا ہی منطقی نتیجہ ہے کہ وطن
عزیز میں کسی پاکستانی کی جان وآبرومحفوظ نہیں۔نام نہاد انتہاپسندوں کی آڑ
میں معصوم قبائلیوں کے خون سے ہولی کھیلنا بیرونی طاقتوں کا حقیقی مقصدو
مشن ہے۔ان شیطانی طاقتوں کا اسلام سے ازلی حسد اور مسلمانوں سے ابدی جلن،
انہیں کسی کل چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ معاملے کی نزاکت اس وقت دوچند
ہوجاتی ہے جب بات عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت اور اس میں بسنے والے دین
پسند مسلمانوں کی ہو۔
ایک طرف ارض پاک میں استعماری ریشہ دوانیوں ،کارستانیوں اور مکاریوں کا
کھیل اس وقت اپنے جوبن پر ہے۔دوسری جانب معاشی واقتصادی میدان ہو یا امن
وامان کی عمومی فضا،عوامی مسائل ہوں یا ملکی چیلنجز، مسلمہ دینی معاملات
ہوں یا مشرقی اقدار و روایات۔غرض ہر جگہ ،ہر مقام پر دین دشمن قوتیں
بالواسطہ یا بلاواسطہ مملکت خداداد کو غیر مستحکم اور غیر محفوظ بنانے کی
کوششوں میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں۔حالات کی ہولناکی اس وقت اور بھی دہشت ناک
روپ اختیار کرتی نظر آتی ہے ،جب مادر وطن کے ساتھ اپنوں کی بیگانگی،غیریت
اور اجنبیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔اہل اقتدار واختیار کی بے اعتنائیاں، بے
رخیاں اور ستم گریاں دیمک کی طرح ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔حرص
وہوس کے پجاریوں نے قومی دولت کو شیر مادر سمجھ رکھا ہے۔فرائض سے
پہلوتہی،بدعنوانی،قتل وغارت گری،خیانت ،مکر،رشوت،سود جیسے ناسورہماری
نفسیات وطبیعتوں میں پوری طرح پک رہے ہیں۔دیانت ،سچائی اور امانت جیسی اعلیٰ
اسلامی تعلیمات و اوصاف ہمارے کردار و اعمال میں جنس نایاب کی مانند کمیاب
ہوچکے ہیں۔
ان حالات وواقعات کے تناظر میں جبکہ ملکی سالمیت اور بقا سوالیہ نشان
اختیار کرچکی ہے۔صبح وشام عوام کو ان کے حقوق کی فراہمی کا لاپ الاپنے والے
خادمان قوم خود ہی اپنی خدمت کے دعوؤں پر نظر دوڑائیں۔ جس معاشرے میں غریب
اپنے افلاس کی تمام حدوں کو پار کرچکا ہو،وہاں کے امراء اور اشرافیہ کی
تجوریوں کا مال وزر سے لبا لب بھر جانا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟ملک کی داخلہ
وخارجہ پالیسیوں کو اپنے بیرونی آقاﺅں کے اشارہ ابرو کے ماتحت رکھنا بھلا
کون سی فلاحی وعوامی خدمت کا انداز ہے؟کیا امریکی جرنیل کی درج بالا گیڈر
پھبکی اور زہر افشانی دروں خانہ طے پاجانے والے معاملات کی جھلک اور
پرچھائی نہیں؟
آخر کب تک ہمارے ارباب منصب وکرسی امریکا کی چوکھٹ پر اپنی جبین نیاز
جھکاتے رہیں گے؟کب تک دوسروں کے اشاروں پر ناچنے کا عمل پورے زور و شور سے
جاری رہے گا؟کب تک ریمنڈ ڈیوس جیسے خونی اور سفاک قاتل ہمارے بھائی بیٹوں
پر سرعام گولیاں چلاکر پورے پروٹوکول کے ساتھ واپس جاتے رہیں گے؟ کیا صدر
اور وزیراعظم قوم کو اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ ہماری فضائیہ امریکی
حملہ آور طیاروں کو مار گرانے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود خاموش تماشائی
کیوں بنی ہوئی ہے؟یہاں یہ سوال بھی کم اہم نہیں ہے کہ ملک کی عسکری قیادت
کی طرف سے حالیہ حملوں پر اپنایا جانے والا موقف مستقبل میں اپنا رنگ اور
اثر دکھا پائے گا یا امریکا اسے بھی سنی ان سنی کردے گا؟کیا پاکستان کی
اعلیٰ عسکری وسیاسی شخصیات ڈیوڈ پیٹریاس کے بیان پر اپنا ٹھوس ”ردعمل“قوم
کودکھاپائیں گی؟اس کا جواب آنے والا کل ہی دے گا۔ |