عمران خان، الطاف حسین رابطے پر اعتراض کرنے والوں سنو

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے گزشتہ دنوں متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین سے ٹیلفونک رابطہ کیا جس میں ڈرون حملوں،ریمنڈ ڈیوس کیس سمیت دیگر امور پر بات چیت ہوئی ۔ اس ٹیلیفونک رابطے کے بعد ایک نیا پنڈورا بکس کھل گیا اور تمام پارٹیوں سمیت میڈیا نے اس رابطے کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اعتراض کرنے والوں کا کہنا تھا عمران خان جو الطاف حسین کے سب سے بڑے مخالف کے طور پر جانے جاتے ہیں، کا الطاف حسین سے رابطہ” دال میں کچھ کالا“ کا منظر پیش کر رہا ہے ۔

قبل اس کے میں ان اعتراضات کا جواب دوں، ہمیں اس پس منظر پر بھی تھوڑی نظر رکھنی پڑے گی ۔ 16مارچ( جو کہ عدلیہ کی آزادی کا دن ہے) کو پاکستان کی وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت سمیت تمام اتحادیوں نے لاہور میں دو پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرانے میں جس بے شرمی کا مظاہرہ کیا ہے اس پر پوری قوم کے سر شرم سے جھک گئے ہیں ۔قوم پر ایک مرتبہ پھر یہ ثابت ہو گیا امریکہ ہی اس ملک کا مائی باپ اور حکمرانوں کے مستقبل کا وارث ہے اور اس کے بدلے میں خواہ وہ پاکستانی سرزمین میں گھس کر دہشت گردی کرے ، لوگوں کو اغواء کر کے گوانتا ناموبے اور بگرام کے عقوبت خانوں میں لے جائیں ، ڈرون حملوں میں معصوم قبائلیوں کا خون بہائیں کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں ۔یہ دہشت گرد جب جیل میں تھا تو حکومتی پٹھو اس کے پیر دباتے اور جلد رہا کرانے کی یقین دہانیاں کراتے اور جب وہ رہا ہوگیا اور قوم نے بڑی حیرت سے اپنے قائدین کی طرف دیکھا تو وزیر اعظم صاحب غیر ملکی دورے پر جبکہ نواز شریف صاحب کو دل کی تکلیف شروع ہو گئی ۔(کتنی شرم کی بات ہے کہ پاکستانی عوام یہاں ہسپتالوں میں دھکے کھائے اور اُن کا لیڈر علاج کیلئے لندن پہنچ جائے) خیر یہ ایک الگ موضوع ہے ۔ لوگوں نے خادم اعلیٰ کی طرف دیکھا تو وہ بھی پوری قوم روتا کو چھوڑ کر اپنے بھائی کی خیریت دریافت کرنے لندن جا پہنچے ۔ ذرا ذہن پر زور دیجئے کہ یہ وہی ن لیگی قائدین ہیں کہ جب سیلاب کے دوران صدر زرداری فرانس کے دورے پر گئے تو انہوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا تھا لیکن آج جب قوم اتنے بڑے منجدھار میں پھنسی ہوئی تھی تو دونوں بھائی لندن میں تھے ۔ دوسری طرف امریکہ نے پاکستانیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے شمالی وزیرستان کے ایک جرگے پر ڈرون حملہ کر کے 41بے گناہ قبائلیوں کو شہید کر دیا ۔ قوم یہ سمجھ چکی تھی ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں سارے لیڈران کو اپنا اپنا حصہ مل چکا ہے اس لئے کسی کو مذمت کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی ۔اس اندوہناک واقعے پر اگر کسی نے آواز اُٹھائی تو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ، جماعت اسلامی ، سنی تحریک اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ، جنہوں نے اپنے ٹیلیفونک خطاب میں ڈرون حملوں اور ریمنڈ ڈیوس رہائی کی بھرپور مذمت کی۔

اب آئیے معترضین کے جوابات کی طرف۔دوستوں تھوڑی دیر کیلئے تصور کیجئے کہ گزشتہ تین برسوں میں آئے روز کی پاکستانی سیاست کا درجہ حرات انتہائی گرم ہے ، ایک طرف رانا ثناءاللہ، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق اور دوسری طرف بابر اعوان، قمر الزمان کائرہ اور راجہ ریاض ہیں ۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے خلاف گرما گرم بیانات آرہے ہیں اور دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی کرپشن ، لوٹ مار اور ناکامیاں بیان کر رہی ہیں ۔ قوم عجیب قسم کی بے چینی میں مبتلاء ہو تی ہے کہ اتنے میں وزیر اعظم گیلانی ، میاں نواز شریف کو فون کر تے ہیں اور سیاسی درجہ حرارت کم کرنے اور صبح رائیونڈ میں تیتر اور بٹیر کا ناشتہ کرنے کا وعدہ کر تے ہیں ۔ یہ سارا منظر دیکھ کر کوئی بھی پاکستانی یہ کہہ سکتا ہے یہ سب نورا کشتی تھی کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ دونوں پارٹیوں کی قیادت کے پیسے ملک سے باہر ہیں ، دونوں پر کرپشن کے الزامات ہیں اس لئے دونوں پارٹیاں کبھی بھی ایک دوسرے کے خلاف عملی اقدامات نہیں اُٹھائیں گے صرف باتوں سے ہی عوام کو بے وقوف بنائیں گے جیسے وہ تین سال سے بناتے آرہے ہیں ۔ لیکن عمران خان کا معاملہ دوسرا ہے ۔ عمران پر نہ تو کوئی کرپشن کا الزام ہے نہ ہی کوئی بیرون ملک جائیدادیں ہیں۔ پاکستانی عوام اُس کی ایمانداری پر اندھا بھروسہ کر تے ہیں جس کی واضح مثال شوکت خانم، نمل یونیورسٹی اور پکار فاﺅنڈیشن میں اربوں روپے کی رقوم جمع ہو نا ہے ۔ لہٰذا کوئی بھی پاکستانی کم از کم یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ عمران خان نے الطاف حسین سے رابطہ کسی ذاتی مقصد کیلئے کیا ہوگا۔ مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ وہ تمام پارٹیاں جو ڈرون حملوں پر یکساں موقف رکھتی ہیں انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے اس کے خلاف موثر آواز اُٹھائی جائے کیونکہ وکی لیکس ثابت کر چکا ہے ڈرون حملے ہمارے حکمرانوں کی اجازت سے ہوتے ہیں اور ان کی مذمت صرف ڈرامہ بازی ہو تی ہے اور یہ کسی صورت رکنے والے نہیں۔

دوسری بات۔ عمران خان پاکستان کا وہ جرات مند لیڈ ر ہے جو کوئی بھی اچھا کام کرنے پر کسی سے ڈرتا ہے اور نہ ہی کسی کی رائے لینا ضروری سمجھتا ہے ۔ آج سے 14سال قبل جب لوگ سیاست کو کیچڑ کہتے ہوئے اس میں حصہ لینے سے ڈرتے تھے ، عمران خان نے ہزار ہا تنقید کے باوجود ببانگ دہل سیاست میں حصہ لیا اور آج اُس نے ثابت کر دیا ہے کہ سیاست میں حصہ لے کر ظالم کے خلاف آواز اُٹھانا کیچڑ نہیں بلکہ عبادت اور حقیقی جہاد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج نئی نسل جوق در جوق نہ صرف سیاست میں حصہ لے رہی ہے بلکہ وہ اس گلے سڑے ، بدبو دار اور غلیظ نظام سے جان چھڑا نا چاہتی ہے جسے بچانے کیلئے حکمران سر دھڑ کی بازی لگا چکی ہے ۔ عمران خان جانتا تھا کہ لوگ اس پر اعتراض کریں گے ، مذاق اُڑائیں گے لیکن چونکہ یہ ایک نیک مشن پر نکلا ہے اسے لئے اسے کسی کی کوئی پروا نہیں اور یہ اللہ کے بھروسے پر کھل کر سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہتا ہے اور لوگ بھی اتنے دھوکے کھا چکے ہیں کہ اُن کے پاس بھی عمران خان کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ۔

تیسری بات ۔ متحدہ قومی موومنٹ کا مجھ سے بڑا مخالف شاید ہی کوئی ہو ، کیوں مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے کبھی ایم کیو ایم یا اس کی قیادت کے حق میں کوئی اچھی بات لکھی ہو لیکن بعض اوقات یہ جماعت ایسا کام کر جاتی ہے جس کا مخالفین کو بھی اعتراف کرنا پڑتا ہے ۔ مثال کے طورپر سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کی شخصیت اور شہر کراچی کی خوبصورتی میں ان کا کردار، این آر او اور پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے خلاف ایم کیو ایم کا احتجاج اور حال ہی میں ڈرون حملوں اور ریمنڈ ڈیوس کیس میں متحدہ کا موقف ایسا تھا کہ اگر میں مخالف بھی اُس کی تعریف نہ کروں تو یہ زیادتی ہوگی لہٰذا اگر الطا ف حسین نے ڈرون حملوں پر کوئی اچھا قدم اُٹھا یا ہے تو ہمیں تنقید برائے تنقید کی روش سے ہٹ کر اُس کی حمایت کر نی چاہئے ۔

چوتھی اور آخری بات یہ کہ اعتراض کرنے والوں میں اکثریت پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے وابستہ افراد کی ہے ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 90ء کے عشرے میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے بارے میں اگر کوئی یہ کہتا کہ یہ دونوں پارٹیاں کبھی ایک ٹیبل پر بیٹھیں گی تو اُسے بے وقوف سمجھا جاتا لیکن آج لوگ دیکھ رہے ہیں کہ یہ دونوں جماعتیں اپنے مفاد ات کیلئے نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں بلکہ تیتر اور بٹیر کے ناشتے بھی کر تے ہیں ۔ رہی بات ان کی ن لیگ کی مخالفت کی تو آج یہ پوری قوم جان چکی ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں اندر سے ایک ہی ہیں اور ان کا اولین مقصد صرف اقتدار ہے ۔ اس کے لیئے قوم کی عزت ،غیر ت اور حمیت ہی کیوں نہ بیچنا پڑے ۔لیکن پاکستان کی غیرت مند قوم اب مزید انہیں برداشت کر نے کو تیار نہیں ۔اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان کی افق پر روشنی کی کرن پھوٹ چکی ہے اور بہت جلد اس قوم کو ظلم کی تاریک و سیاہ رات سے چھٹکارا ملنے والا ہے ۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر پاکستان پائندہ باد ۔
Zubair Niazi
About the Author: Zubair Niazi Read More Articles by Zubair Niazi: 41 Articles with 45146 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.