کشمیر اور کشمیریوں کی خرید و فروخت گزشتہ ایک صدی یا اس
سے بھی زیادہ عرصہ سے ہوتی رہی ہے۔ ہمیشہ کشمیری مفادات کی بھینٹ چڑھتے رہے۔
غیر تو غیر اپنوں نے بھی نہیں بخشا۔ انسانی آزادیوں کے نام نہاد علمبردار
انگریزوں نے بھی کشمیریوں کو فروخت کیا۔ کشمیریوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح
خریدا گیا۔ انسانوں کی خرید و فروخت تاریخ انسانیت کا ایک المناک سانحہ ہے۔
یہ معاہدہ امرتسر تھا۔جس پر 16مارچ 1846کو دستخط کئے گئے۔ جموں کے ڈوگرہ
مہاراجہ گلاب سنگھ نے دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب میں
واقع تمام علاقوں کو خریدلیا۔ ان علاقوں میں چمبہ بھی شامل تھا۔ جو آج
بھارت کی ریاست ہماچل پردیش میں شامل ہے۔ چمبہ کے قریب ہی ڈلہوزی کا معروف
مقام ہے۔ بھارت اسی چمبہ کو ملا کو جموں کو الگ ریاست کا درجہ دینا چاہتا
ہے۔ تا کہ جموں کو وادی کشمیر اور لداخ سے بالکل کاٹ دیا جائے۔ لداخ کو
کشمیر سے کاٹنے کی ابتدا ء اس وقت ہوئی جب بھارت نے سرینگر لیہ براستہ کرگل
کی متبادل لیہ منالی شاہرہ تعمیر کی۔ لداخ کے لیہ خطے کوکشمیر سے عملی طور
پر کاٹ کر بھارتی ریاست ہماچل پردیش سے جوڑ دیا گیا۔ آج جو کام بی جے پی نے
کیا وہی کانگریس کے ایجنڈہ پر بھی موجود رہا ہے۔بی جے پی کو اسی لئے
زعفرانی برگیڈ کا نام دیا جا رہا ہے کہ وہ اکھنڈ بھارت کے فارمولے پر گامزن
ہے۔ شروع میں اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے ایڈوانی سمیت مرلی منوہر جوشی
کو آر ایس ایس نے آگے لایا۔ ناگپور جو کہ آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر ہے ،
میں واجپائی جیسا اعتدال پسند چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ بعض کو گمان
ہوا کہ یہ غلط پارٹی میں اچھے انسان تھے۔ نریندر مودی نے گجرات میں
مسلمانوں کی نسل کشی سے ہندو شدت پسندحلقوں میں تہلکہ مچا دیا ۔ ایڈوانی کی
شدت پسندی کافی پیچھے رہ گئی۔ بی جے پی کا ووٹ بینک اکھنڈ بھارت پر کھڑا ہے۔
جو کہ دوقومی نظریہ سے ہٹ کر ہندو راشٹر کی منصوبہ بندی کا احاطہ کرتا ہے۔
دو قومی نظریہ آج ایک حقیقت کے طور پر کھل کر سامنے آیا ہے۔ اس نظریہ کو
کانگریسی اندرا گاندھی نے غلیج بنگال میں غرق کرنے فخریہ اعلان کیا تھا جب
سقوط ڈھاکہ میں مکتی باہنی کے نام بھارتی فوج نے بنگلہ دیش میں داخل ہو کر
بنگالیوں کا قتل عام کیا ۔ مگر اس قتل عام کا الزام پاکستان پر لگا دیا گیا۔
اسی الزام کی بنیاد پر پاکستان کے حامیوں کو آج شیخ حسنہ واجد حکومت یکے
بعد دیگر سولی چڑھا رہی ہے۔ قید و بند کا شکار کیا جا رہا ہے۔ مگر پاکستان
ان بے چاروں کی حمایت میں کچھ نہ کر سکا۔ عالمی سطح پر آواز بلند نہ کی جا
سکی۔ جیسے ان بنگالیوں کو پاکستان نوازی کی سزا دی جا رہی ہو، اور پاکستان
خاموش تماشائی بنا رہے۔ کھوکھلے مذمتی بیانات سے کیا ہو سکتا ہے۔ یہ اسلام
آباد کی عدم دلچسپی تھی جس نے عوام کو مایوس کیا۔ ایسی پالیسی سے ہر کوئی
اپنی حب الوطنی کو مشکوک سمجھتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد سقوط کابل پر نظر
ڈالیں۔ کس طرح بھارت آج اعتراف کر رہا ہے کہ اس نے افغانستان میں احمد شاہ
مسعود کے شمالی اتحاد کی کھل کر مدد کی، ان کی دہلی میں ٹریننگ کی۔ اسلحہ
اور پیسہ فراہم کیا۔ پاکستان کے خلاف انہیں تیار کیا گیا۔ شمالی اتحاد والے
طالبان اور امریکی و نیٹو فورسز کے خلاف سرگرم تھے۔ بھارت کا اعتراف ہے کہ
وہ شمالی اتحاد کو طالبان، امریکہ اور نیٹو فورسز کے خلاف لڑنے کے لیئے
جنگی ہتھیار اور ٹریننگ دے رہا تھا۔ طالبان نے ستمبر 1996کو کابل پر قبضہ
کیا۔ تب بھارتی سفارتکار کابل سے فرار ہو گئے۔ اس سے قبل بھارت شمالی اتحاد
کو فوجی مدد فراہم کرتا رہا۔ احمد شاہ مسعود دس سال تک سوویت فورسز سے لڑتے
رہے۔ بھارت تاجکستان کا اینی ہوائی اڈہ استعمال کرتا رہا بلکہ اس پر بھارتی
پرچم بھی نصب کر دیا۔ بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب ’’
اے کال ٹو آنر‘‘ میں اعتراف کیا ہے کہ احمد شاہ مسعود نے دہلی کے بھی خفیہ
دورے کئے۔ کتاب کے مطابق مزار شریف میں ایرانی سفارتکار کے قتل کے بعد
ایران افغانستان پر حملہ کرنا چاہتا تھا اور اس نے اڑھائی لاکھ سے زیادہ
فوج سرحد پر جمع کر لی مگر احمد شاہ مسعود کی مداخلت سے حملہ نہ کیا گیا
بلکہ شمالی اتحاد کی ایران نے بھی فوجی مدد شروع کی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ
بھارت نے ایران کے چاہ بہار علاقے میں اپنا فوجی اڈہ قائم کر لیا۔
بھارت جس طرح مکتی باہنی کی آڑ میں پاکستان توڑنے میں کامیاب ہوا، سقوط
ڈھاکہ کا سانحہ ہوا، اسی طرح بھارت شمالی اتحاد کی آڑ میں سقوط کابل کے لئے
سر گرم رہا۔ یہ سلسلہ اب تک ختم نہیں ہواہے۔ بھارت نے سقوط سرینگر کے لئے
اخوان کی آڑ لی۔ اپنی فوج کی سرپرستی میں مجاہدینکے کئی باغی گروپ تشکیل
دیئے۔اس کے ساتھ ساتھ ہندو ویلج ڈیفنس کمیٹیوں کے نام پر پرائیویٹ ملیشیا
قائم کی۔ ایس پی اوز کے نام سے نوجوانوں کو مسلح کیا۔ مگر کامیابی نہ ملی۔
بھارت کابل کی طرح سرینگر کو بھی فوجی طاقت سے فتح نہ کر سکا۔ لاکھوں کی
تعداد میں بھارتی فورسز کی جارحیت کے باوجود وادی کشمیر بھارت کے لئے نو گو
ایریا ہے۔ 30سال سے کوئی بھارتی عہدیدار بھاری سیکورٹی کے بغیر سرینگر میں
گھومنے پھرنے کی جرائت نہیں کر سکتا۔ اب تو بھارت نے حد کر دی ہے۔ کشمیری
زخمی شیر بن چکے ہیں۔ بھارت کب تک کشمیر کو کرفیو اور پابندیوں کی زد میں
لائے رکھے گا۔ تا ہم گلہ شکوہ اور مایوسی تب ہوتی ہے جب پاکستان میں انتشار
کا ماھول ہو۔ کشمیر کے نام پر سب سیاست کر رہے ہوںَ ۔ عوام متحد نہ ہوں۔
بلا شبہ عمران خان اور فوجی قیادت کے دورہ امریکہ کے بعد بھارتی بوکھلاہٹ
اور عجلت میں کئے گئے اقدامات، کشمیریوں کی شناخت مٹانے، لداخ کو کشمیر سے
توڑنے، کرفیو اور مکمل لاک آؤٹ نے شکوک و شبہات پیدا کئے کہ یہ سب کیا ہو
رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ عمران خان اور مودی بہترین دوست ہیں ، وہ
ثالثی کی بھی بار بار پیشکش کر رہے ہیں۔ اس کے پیچھے کیا راز چھپا ہے۔ کیا
حالات تقسیم کشمیر کی طرف جا رہے ہیں۔ کیا جنگ بندی لائن کو مستقل سرحد میں
تبدیل کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی گئی ہے۔ گلگت بلتستان بھی ریاست جموں و
کشمیر کا اٹوٹ حصہ ہے۔ اس کا کیا ہو گا۔ کیا گلگت بلتستان وک مستقل طور پر
کشمیر سے کاٹ دیاگیا ہے۔ اس کے بعد لداخ کو کشمیر سے کاٹنے کی راہ ہموار کی
گئی۔ کیا یہ کوئی سودا بازی ہے۔ کوئی ایسی ڈیل ہے جس کے بارے میں عوام کو
کچھ نہیں بتا یا جا رہا ہے۔ اگر چہ کسی سودا بازی یا ’’کچھ لو کچھ دو‘‘کے
فارمولے کو پروپگنڈہ سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے مگر جس طرح کے حالات و
واقعات رونما ہو ئے ، ان سے یہی ظاہر ہوا کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری
ہے۔10اگست کو مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں
شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں کھل کر وزیراعظم عمران خان پر کشمیر کے مستقبل
کا سودا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر شپ کی گرفتاریوں کا
مقصد کشمیر ایشو سے توجہ ہٹانا ہے۔ 20اگست کو اپوزیشن کی ملٹی پارٹی
کانفرنس (ایم پی سی)نے حکومت پر انٹرنیشنل سازش کے تحت کشمیر کی سودا بازی
کا الزام لگایا۔ اسی روز پشاور میں اے این پی کے صوبائی صدر نے پریس
کانفرنس طلب کر کے حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے کشمیر پر کوئی سمجھوتہ کر
لیا ہے۔جاری۔
|