بلوچستان کا یار جان عبدالصمد خلائی سائنسدان کیسے بنا؟

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے پسماندہ ضلع کیچ کے دور دراز گاؤں بلیدہ کے رہائشیوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ ان کے علاقے کے ایک متوسط طبقے کے زمیندار کا بیٹا خلائی ٹیکنالوجی پر کام کرنے والا سائنسدان اور برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کا سب سے کم عمر سینیئر ریسرچ سائنسدان اور فیلو ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والا ہے۔
 

image


ڈاکٹر یار جان عبدالصمد نے صحافی محمد زبیر خان کو اس منزل تک پہنچنے کی کہانی سنائی ہے جو ان ہی کی زبانی پیش خدمت ہے۔

میرا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہے جہاں پر تعلیم کا کوئی زیادہ رواج نہیں تھا بلکہ پورے علاقے میں گنتی ہی کے چند لوگ ہوں گے جو خط وغیرہ پڑھ سکتے ہوں گے۔

میرے والد اور والدہ نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا تھا، مگر بچپن ہی سے ان کی خواہش تھی کہ ہم پڑھ لکھ جائیں۔ ہم زمیندار ضرور ہیں اور زمینیں بھی کافی ہیں مگر ہماری زمینوں پر وہ پیدوار نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے۔

چنانچہ والدہ میری ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کیا کیا کرتی تھیں، بیان نہیں کرسکتا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ والد صاحب کو اقبال کے کچھ اشعار یاد تھے جو وہ مجھے اور میرے بھائیوں کو ہر وقت سنایا کرتے تھے جس سے ہمت بندھ جاتی تھی۔

پڑھائی میں میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے والد صاحب ہمیں ساتھ لے کر کراچی کے علاقے لیاری پہنچ گئے۔
 

image


جب میں پہلی مرتبہ کراچی گیا تو یقین کریں کہ مجھے ایسے لگا کہ یہ کوئی اور ہی دنیا ہے۔ لوگ، گاڑیاں، ٹریفک اور روشنیاں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ رات کے وقت جلتی لائٹیں دیکھ کر مجھے ایسے لگا کہ جیسے میں کسی روشنیوں کے شہر میں پہنچ گیا ہوں۔

’جاؤ اپنے والد کے ساتھ زمینوں پر کام کرو‘

لیاری میں ایک اردو میڈیم سکول میں داخلہ لیا مگر جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ جب تک انگریزی اچھی نہیں ہوگی اس وقت تک ترقی کرنا ممکن نہیں ہے۔

اس صورتحال کا اندازہ ہونے کے بعد والد صاحب کو بتایا کہ مجھے انگلش میڈیم سکول میں داخلہ لینا ہے، جس پر والد صاحب مجھے کلفٹن کراچی میں واقع شہرت یافتہ سکول لے گئے جو کہ ان کی استطاعت سے بڑھ کر تھا لیکن انھوں نے میرے شوق کی خاطر مجھے وہاں پڑھانے کی ٹھان لی تھی۔

میں ایک دیہاتی بچہ تھا جو شہری طریقے تو زیادہ نہیں جانتا تھا، مگر میرے پاس والدین کا دیا ہوا اعتماد اور کچھ کر گزرنے کا حوصلہ تھا۔ اس موقع پر پرنسپل صاحبہ نے اپنے دفتر میں والد صاحب کی موجودگی میں میرا انٹرویو لیا اور انگریزی ہی میں مجھ سے بات چیت شروع کردی، حالانکہ والد صاحب نے پرنسپل کو پہلے بتایا تھا کہ یہ یہاں داخلہ لینا ہی اس لیے چاہتا ہے کہ اس کی انگریزی بہتر ہوسکے۔ صورتحال یہ تھی کہ انگریزی تو مجھے آتی نہیں تھی مگر سمجھ لیتا تھا۔

سب سے پہلے انگریزی میں میرا نام پوچھا جس کا میں نے اردو میں جواب دیا۔ اس کے بعد انھوں نے پوچھا کہ والد صاحب کیا کرتے ہیں۔ میں نے بتایا کہ زمینوں پر کام کرتے ہیں۔ اس طرح انھوں نے کچھ اور سوال پوچھے جس میں سے کچھ سمجھ میں آئے اور کچھ نہیں۔
 

image


شاید ان کو اردو میں میرے جواب ناگوار گزرے حالانکہ میں نے ان کو یہ بتانے کی بھی کوشش کی تھی کہ اگر مجھے داخلہ مل گیا تو میں بہت محنت کروں گا۔ مگر اس کے باوجود انھوں نے آخر میں مجھے کہا ’بہتر یہ ہوگا کہ تم گاؤں جاؤ اور اپنے والد صاحب کے ساتھ زمینوں پر مدد کرو۔‘

یہ ایسے الفاظ تھے جن کو سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے جبکہ والد صاحب مجھ سے نظریں چرا رہے تھے۔ میں اس وقت ساتویں کلاس کا طالب علم تھا۔ میرا دل ٹوٹ سا گیا۔ مگر میری تو تربیت ہی کچھ اور طرح ہوئی تھی۔ مجھے تو حوصلے اور عزم کا سبق سکھایا گیا تھا۔

یہ بات تو ذہن نشین ہوگئی تھی کہ انگریزی سیکھنا لازم ہے۔ لیاری ہی میں ایک انگلش میڈیم سکول کے بینرز اور پوسٹرز لگے ہوئے تھے۔ میں نے والد صاحب سے کہا کہ مجھے اس سکول میں داخل کروا دیں۔

انگریزی سیکھنے کے لیے میں نے خود ہی کوشش کر دی، کبھی انگریزی اخبار مل جاتا تو وہ پڑھتا، کبھی گرامر کی کوئی کتاب پڑھ لیتا۔ ساتھ میں سکول کے اساتذہ سے جو مدد مل جاتی اس سے پڑھائی بھی کرلیتا تھا۔ گو کہ یہ ایک چھوٹا اسکول تھا لیکن کچھ اساتذہ انتہائی محنت سے پڑھایا کرتے تھے۔

جب میٹرک کے امتحان تھے تو لوگوں نے مجھے بھی نقل کرنے کی ترغیب دی مگر میں نے انکار کردیا کہ مجھے اپنی محنت کا پھل چاہیے اور محنت کا پھل ضائع نہیں ہوتا۔ یہی میری والدہ کی بھی مجھ کو نصیحت تھی اور ہوا بھی یہی۔ میٹرک کا جب نتیجہ آیا تو میرا اے ون گریڈ آیا تھا۔
 

image


مسائل کا دور ختم، کامیابیوں کا سفر شروع

میں نے میٹرک سنہ 2003 میں کیا تھا جبکہ اسی سال کے آخر میں ڈی جی سائنس کالج کراچی میں داخلہ لینے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ مایہ ناز سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی اس کالج کے طالب علم رہے تھے۔

ایف ایس سی کے دوران میں ٹیوشن بھی پڑھاتا رہا کیونکہ ظاہر ہے والدین پر اتنا بوجھ نہیں ڈال سکتا تھا لیکن اس کی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ مجھے درس و تدریس اور تحقیق سے دلچسپی تھی۔ مجھے لگا تھا کہ اگر میں پڑھاؤں گا تو زیادہ سیکھوں گا اور ہوا بھی یوں ہی۔

ایف ایس سی کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور جب نتیجہ آیا تو یہاں پر بھی میں نے اے ون گریڈ حاصل کیا۔

ایف ایس سی کے بعد خیبر پختونخوا کے شہر صوابی میں غلام اسحاق خان انسٹیٹوٹ آف انجینیئرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ دیا۔ تیاری پوری تھی، چنانچہ انٹری ٹیسٹ شاندار طریقے سے پاس کیا اور 100 فیصد اسکالر شپ ملی۔

میرے بھائیوں نے تعلیم کو عملاً خیرباد کہہ دیا تھا۔ وہ چھوٹے موٹے کاروبار کررہے تھے جس سے وہ ہر ماہ مجھے معقول سی رقم بھج دیتے تھے۔ یہ رقم مجھ جیسے طالب علم جس کی ساری توجہ تعلیم پر تھی کافی تھی جبکہ یونیورسٹی کی تعلیم تو تھی ہی اسکالر شپ پر۔

مطلب یہ کہ ساتویں کلاس میں کراچی آنے کے بعد جو مسائل شروع ہوئے تھے وہ ایف ایس سی کرنے اور یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد ختم ہوچکے تھے اور کامیابیوں کا سفر شروع ہوگیا تھا۔
 

image


آج اگر میں تحقیق سے وابستہ ہوں تو درحقیقت یہ مجھے غلام اسحٰق خان انسٹیوٹ میں پروفیسر فضل احمد خالد (ستارہ امتیاز) کی ترغیب اور حوصلہ افزائی تھی کہ میں نے یونیورسٹی ہی میں فیصلہ کرلیا تھا کہ مجھے تحقیق سے وابستہ ہونا ہے۔

یونیورسٹی سے میں 2009 میں فارغ ہوا اور اسی سال اینگرو پولیمر اینڈ کمیکل کراچی میں ملازمت شروع کردی۔ ایک سال تک ملازمت کرتا رہا۔ اس دوران تحقیق اور اعلیٰ تعلیم کے مختلف اسکالر شپ پروگرامز اور اداروں سے رابطے کرتا رہا، جس کے بعد مجھے جاپان، کوریا، کینیڈا، جرمنی، امریکہ اور ابوظہبی سے اسکالر شپ کی آفر ہوئی۔

ایم فل اور ریسرچ کرنے کے لیے سب سے بہترین آفر خلیفہ یونیورسٹی ابوظہبی سے ملی کیونکہ اس کے ساتھ امریکہ کی ایم آئی ٹی یونیورسٹی کا بھی تعاون تھا۔ دوسری بات یہ کہ ریسرچ کے دوران ان کا اعزازیہ ایک اچھی تنخواہ جتنا تھا، جس کی وجہ سے میں نے اس کو قبول کرلیا تھا۔

اس کے بعد اسکالر شپ ہی پر یونیورسٹی آف ٹوکیو سمیت بہت سے عالمی اداروں میں ریسرچ کی اور پی ایچ ڈی مکمل کی۔

پی ایچ ڈی کے دوران میری تحقیق زیادہ تر گرافین نام کے ایک مادے پر تھی جس کو استعمال کر کے مختلف آلات بنائے۔ یہ ریسرچ بہت سے بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہوئی۔ جب میری ریسرچ شائع ہوئی تو مجھے امریکہ، ابوظہبی، برطانیہ اور ٹوکیو سے مختلف آفرز آئیں۔ میری ریسرچ کیمبرج یونیورسٹی کے ایک مایہ نازسائنسدان کو اچھی لگی جنھوں نے مجھے وہاں جاب آفر کی۔

ویسے تو تنخواہ اور مراعات کے حساب سے بہتر آفر ابوظہبی سے تھی مگر اب میرا مقصد تنخواہ نہیں بلکہ اگلی منزل تک پہنچنا تھا۔ چنانچہ میں نے کیمبرج یونیورسٹی سے آنے والی آفر کو قبول کیا کیونکہ مجھے تحقیق کے میدان میں کام کرنا تھا اور شاید دنیا بھر میں تحقیق کے حوالے سے سب سے بہتر سہولتیں اور ماحول کیمبرج یونیورسٹی ہی میں دستیاب ہے جہاں سے نیوٹن اور سٹیفن ہاکنگ جیسے سائنسدان بھی منسلک رہ چکے ہیں۔

دو سال تک کیمبرج میں ریسرچ سائنسدان کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد مجھے سینیئر ریسرچ سائنسدان کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ مجھے پتا نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ کیمبرج میں ریسرچ سائنسدان سے سنیئر سائنسدان کا درجہ حاصل کرنے کے لیے دو سال بہت ہی کم عرصہ ہے، اور مجھے بھی یہ لگتا ہے کہ میں وہاں پر سب سے کم عمر سینیئر سائنسدان ہوں۔
 

image


کیمبرج میں جانے کے بعد بہت سے یورپی کمپنیوں اور سپیس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر سپیس ٹیکنالوجی سے منسلک آلات بنائے۔ ان آلات کو ٹیسٹ کرنے کیلیے وقتاً فوقتاً خلائی جہاز اور مصنوعی سیارے لانچ کرتے ہیں جن میں پیرابولک فلائٹ، ساؤنڈنگ راکٹ اور دیگر سپیس کرافٹ شامل ہیں۔ گرافین کو پہلی مرتبہ خلاء میں بھی لے جانے کا موقع ملا۔

مختلف تحقیقات بھی جاری ہیں جس میں سینسرز کے علاوہ خلاء میں اگر جسم پر زخم لگ جائے تو اس کو کس طرح بھرا جاسکتا ہے، اس پر بھی کام جاری ہے۔

اس کے علاوہ پاکستانی طالب علموں کے لیے برطانیہ کی کچھ تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک پروجیکٹ شروع کررہے ہیں جس میں ان کو سیٹلائٹ کی سہولت فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر مجھے موقع ملا تو اپنے ملک میں جا کر کام کرنے پر فخر محسوس ہو گا۔


Partner Content: BBC
YOU MAY ALSO LIKE:

Balochi youth Dr Yarjan Abdul Samad has made Pakistan proud to have become the first space scientist at the world’s best and the Britain’s leading university of Cambridge. Dr Yarjan works at the Cambridge Graphene Centre, Engineering Department of the University of Cambridge.