وزیراعظم عمران خان‘ آرمی چیف جنرل باجوہ نے یوم دفاع کو
یکجہتی کشمیر سے تعبیر کرتے ہوئے کنٹرول لائن کا دورہ کر کے بھارتی افواج
کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے اس کو اعصابی شکست دینے والے بہادر عوام کے ساتھ
کاندھے سے کاندھا ملا کر انکے حوصلوں‘ ہمت‘ استقامت پر داد پیش کی
آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر سیز فائر لائن کے دونوں اطراف کے عوام کے ساتھ
ملت پاکستان کے جذبہ یکجہتی کی وزیراعظم عمران خان مسلح افواج کے عزم عہد
کی پاسبانی کا پیغام آرمی چیف نے دیا‘ پاک فوج کے آفیسران‘ جوانوں کے
حوصلوں کو بھی جلا بخشی‘ پاک افواج کیلئے یہ بڑی نازک صورتحال ہوتی ہے کہ
جب بھارت کے فوجی سیز فائر لائن پر گولہ باری اور فائرنگ کرتا ہے تو اس کو
یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ ایل او سی کے دونوں طرف بزرگ‘مرد‘ عورت‘ نوجوان‘ بچہ
حتیٰ کہ بے زبان مخلوق سمیت کون مارا جاتا ہے کتنا نقصان ہوتا ہے اس کے لیے
سب ایک جیسے ہیں مگر پاک افواج کو بہت مہارت اور احتیاط سے جواب دینا ہوتا
ہے کہ سیز فائر لائن کی دوسری جانب آباد کشمیریوں کی جان مال کا نقصان نہ
ہو صرف بھارتی افواج کے مورچوں کو نشانہ بنا کر جواب دیا جاتا ہے اس حوالے
سے ناصرف مقبوضہ کشمیر کے عظیم حریت پسند عوام بلکہ ایل او سی کے دونوں طرف
سے بہادر باشندگان کشمیر کو بھی سینوں سے لگا کر سلام پیش کرنا ضروری ہے‘
یہ فریضہ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف نے نبھاتے ہوئے پاک افواج کے
آفیسران‘ جوانوں کو تاکید کی کہ دوسری طرف ناصرف انسان بلکہ بے زبان پرندوں‘
جانوروں کو بھی زک نہیں پہنچنی چاہیے تاہم یہ دورہ کشمیریوں کیلئے آخری
سپاہی آخری گولی آخری سانس تک لڑنے کے عہد عزم کی شاندار ترجمانی تھا جس کا
اظہار ملت پاکستان اور ریاست جموں وکشمیر کے دونوں اطراف کے عوام کی جانب
سے بھی پہلے سے بڑھ کر جوش جذبے کے ساتھ کیا گیا‘ ریکارڈ جلسے جلوس‘ ریلیوں
پروگرامات کا انعقاد کیا گیا اور مقبوضہ کشمیر سے عوام نے 33 دِن کا محاصرہ
ہونے کے باوجود گھروں سے نکل کر بھارت کے جنگی جنون غرور تکبر کو خاک میں
ملایا جن کو ہدیہ تبریک پیش کرنے کیلئے الفاظ ہیں نہ اشعار ہیں یہ تو
شہیدان کربلا کے راستے پر چلتے ہوئے آج کے دور کے سب سے بڑے حق سچ کے عنوان
بن چکے ہیں‘ پاک آرمی کی طرف سے پاک بھارت جنگوں اور محاذوں کے دوران شہید
ہونے والوں کے گھروں پر جا کر ان کے ورثاء سے عقیدت کا اظہار فرض کی جانب
سنگ میل اہمیت کا حامل قدم ہے‘ نہ صرف شہداء بلکہ 1947ء سے لیکر آج تک وہ
تمام خاموش مجاہد جو وطن عزیز اور پاک افواج کیلئے بے لوث خدمات سرانجام دے
کر اپنے لیے کچھ نہیں بنا سکے ان کا تعلق افواج سے ہو یا دیگر شعبہ زندگی
اور پیشہ وارانہ اُمور سے ہو ان کو ڈھونڈ کر ان کا حال بھی پتہ کرنا چاہیے
کہ کس کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ جب حکومت‘ ادارے اور تمام شعبہ جات
اپنے اپنے حقیقی فرائض کی طرف توجہ دیتے ہوئے ایک دوسرے کے اُمور میں بے جا
مداخلت کے بجائے اچھے کاموں میں کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنے کے فریضے کو
اپنی پہچان بنا لیں گے تو ایک مضبوط و مستحکم پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر
ضرور ہو گا۔ تاہم ایک دوسرے سے خود کو افضل سمجھنے اور اداروں کے احترام کو
اپنا رعب بنانے کے رویوں پر قابو کرنا ہو گا جس کا اظہار نیچے تک ہوتا رہتا
ہے اور یہی مسئلہ حکومت اداروں کے لیے شرمندگی‘ بدنامی کا باعث بنتا ہے‘ جس
کا فائدہ اپنے کام سے ناواقف صرف جی جی اور چاپلوسی کے زبانی رویوں والوں
کو تو ہوتا ہے مگر عملی طور پر اپنے فریضے کو جانفشانی سے سرانجام دینے
والے خود دار اور غیرت مند رُل جاتے ہیں‘ جو ملک و ملت کا اصل نقصان ہے‘ جس
طرح وزیراعظم اور آرمی چیف نے کنٹرول لائن پر جا کر سب سے بڑے دفاع وطن کے
فریضے کے حوالے سے مثال قائم کی ہے‘ اس کا اطلاق اوپر سے نیچے تک ہر جگہ ہر
شعبہ میں ہونا چاہیے۔
|