17دسمبر کے قومی اخبار میں
اثر چوہان نے مشرقی پاکستان میں البدر والشمس کے کردار کے حوالے سے جس
انداز میں حقائق کو مسخ کر کے اپنا غصہ نکالنے کی کوشش کی وہ اخلاقی اقدار
کے منافی ہے موصوف لکھتے ہیں ”پاکستان کو دولخت کرنے میں مشرقی پاکستان میں
جماعت اسلامی کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی دو دہشت گرد تنظیموں ”الشمس
“اور ”البدر“نے بھرپور کردار ادا کیا“اقتدار کی ہوس میں ادھر تم ادھر ہم کا
نعرہ لگا کر ملک کو دولخت کرنے والی سیکولر جماعت پیپلز پارٹی کی سربراہ بے
نظیر بھٹو خود ساختہ جلاوطنی کے بعد مغربی طاقتوں سے مینڈیٹ اور ایجنڈا
حاصل کرنے کے بعد پاکستان پہنچیں تو انھوں نے بھی اپنے ایجنڈے کے مطابق
”البدر و الشمس کے بارے اسی طرح کے منفی خیالات کا اظہار کیا تھا ان واقعات
نے مجھے عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے پر مجبور کردیا اس سے پہلے کہ ہم
”البدر “کے کردار کے حوالے سے حقائق بیان کریں یہ بات ذہن نشین کرنی ضروری
ہے کہ” البدر “کے قیام میں اسلامی جمعیت طلبہ کا اہم کردار تھا جس پر آج
بھی اسے فخر ہے البدر والشمس نامی محب وطن تنظیموں کے کارکنان نے جس انداز
میں ملک کی سلامتی اور اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی جانیں تک قربان کرنے
سے دریغ نہیں کیا آج بھی پاک فوج ان بہادر اور محب وطن نوجوانوں کو سنہری
حروف سے یا د کرتی ہے.... البدرو الشمس کے مجاہدین اور غازیوں کا ذکر کرتے
اور سنتے ہی ان کے سر عقیدت سے جھک جاتے ہیں ۔
البدر کے قیام اور اس کے پس منظر کے حوالے سے برادرم سلیم منصور خالد
”البدر “ کے نام سے تحقیق و حقائق پر مبنی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ
”جنور ی۱۷۹۱ءسے رفتہ رفتہ عوامی لیگ و پیپلز پارٹی اور برسر اقتدار مارشل
لاء حکومت کے درمیان اقتدار کی کشمکش عروج پر پہنچی اور ملکی اتحاد کی
بنیادیں ہل گئیں ملک آہستہ آہستہ خانہ جنگی کے دھانے پر پہنچ گیا مشرقی
پاکستان میں ایک مخصوص طبقے کی جانب سے بغاوت کے آثار حقیقت کا روپ دھارنے
لگے آخر کار یکم مارچ سے غیر بنگالیوں اور فعال محب وطن بنگالیوں کا قتل
عام شروع ہوا انتظامیہ معطل ہوگئی یا بیشتر جگہوں پر تخریب کاروں سے مل گئی
شرپسند پوری طرح فضا پر چھا گئے مارشل لاء شل ہوگیا اس بارودی فضا میں
سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے حکومت حماقتوں پر پیپلز پارٹی شرارتوں پر اور
عوامی لیگ بغاوتوں پر تل گئی۔
اس افسوس ناک صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی
چھاتر و شنگھو)مشرقی پاکستان نے ڈھاکہ میں صوبائی مجلس شورٰی اور ناظمین
اضلاع کا اجلاس ۰۱مارچ۱۷۹۱ء کو طلب کیا جس میں صوبے کی عمومی صورتحال کا
جائزہ لینے کے بعد تین ممکنہ راستوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر غور
ہوا کہ اس وقت صرف تین ہی راستے تھے۔(۱)حالات کے رخ پر بہتے ہوئے کھل کر
علیحدگی پسندوں کا ساتھ دیا جائے(۲)حالات کو اپنے رخ پر بہنے دیا جائے اور
غیر جانبدار رہا جائے(۳)حالات کا رخ موڑنے پاکستان کی سالمیت اور مظلوم
عوام کے تحفظ کے لئے میدان عمل میں اتر کر اپنی ذمہ داری کو ادا کیا
جائے۔ان تینوں تجاویز پر بڑی طویل بحث ہوئی صوبائی شوریٰ کے رکن مصطفٰے
شوکت عمران (شہید)نے دلائل کے ضمن میں سید ابو الاعلٰی مودودی کی تقاریر کا
حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قائد تحریک نے ۵۶۹۱ء میں فرمایا تھا ”ہم سمجھتے ہیں
کہ یہ سرزمین ہمارا نہیں اسلام کا گھر ہے ہمیں صدیوں کے بعد موقع ملا ہے کہ
خدا کے دین کو اس کی اصلی صورت میں قائم کریں اور دنیا کے سامنے اس کی
صداقت کی عملی شہادت پیش کریں ہمارے لئے یہ سب سے بڑ ی نعمت ہے اور ہم ہر
قیمت پر اس کی حفاظت کے لئے تیار ہیں ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ہر مسلمان
میں اس نعمت کی قدر کا جذبہ پیدا کریں اور اس کے قلب وروح میں یہ خیال
جاگزیں کردیں کہ اس نعمت کی حفاظت میں کوئی قربانی بھی گراں نہیں ہے یاد
رکھیے خدا اور اس کے دین کی خاطر جان دینے کا مرتبہ اپنے گھر بار اپنے مال
ودولت کی خاطر جان دینے سے بدجہا زیادہ بلند ہے اور اس جذبے کے ساتھ جو
شہادت میسر ہو وہ بہت اونچے درجے کی شہادت ہے “ جب ہندوستان نے ستمبر۵۶ء
میں پاکستان پر کھلی جارحیت کی تو مولانا مودودی نے کہا تھا کہ ”پاکستان کا
ہر مسلمان اس ملک کو جو اس براعظم میں اسلام کا قلعہ ہے اور اس کی پوری
سرزمین ہمارے لئے مسجد کا حکم رکھتی ہے بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے
کے لئے تیارہو جائے “ مجوز نے تجویز دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس پس منظر میں
باوجودیکہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اپنی غلط پالیسیوں اور انتہا پسند
سیاسی پارٹیوں نے منافرت کو ہوا دے کر علیحدگی کی فضا پیدا کردی ہے ہمیں اس
خطہ پاکستان کا تحفظ کرنا ہے بالکل اسی طرح جس طرح مسجد کا تحفظ کیا جاتا
ہے۔ایک دوسرے رکن شورٰی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے یہ دلیل دی کہ” مغربی
پاکستان سے برسر اقتدار قیادت نے پہلے بھی اور آج بھی اپنے تئیں مشرقی
پاکستان کو الگ کردینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اس لئے ملک کو توڑنے
اور بچانے کی آخری ذمہ داری ملک کی سیاسی فوجی اور انتظامی مشینری پر آتی
ہے ان حالات میں غیر جانبدار رہنا چاہیے“اس ہنگامہ خیز اجلاس میں کسی ایک
ممبر نے بھی علیحدگی پسند تحریک کا ساتھ دینے کی تجویز پیش نہیں کی گویا
متحدہ پاکستان کے بارے میں تمام شرکائے اجلاس یک سو تھے آخرکار چار دن کی
بحث وتمحیص کے بعد جمعیت کے اہم اجلاس نے فیصلہ کیا”اسلامی جمعیت طلبہ
مشرقی پاکستان سالمیت پاکستان اور شہریوں کے جان ومال اور تحفظ کے لئے آگے
بڑھے گی مشرقی پاکستان کے شہری دو طاقتوں کے درمیان پس رہے ہیں جن میں ایک
جانب دشمن گماشتے انتہا پسند ہندو ایجنٹ اور خونی انقلاب کے علمبردار
کمیونسٹ ہیں جو ملک کی آزادی کو پارہ پارہ کر کے اسے ہندوستان کا زیر نگیں
بنانا چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان کی سول اور فوجی انتظامیہ میں کئی
قسم کے غلط عناصر بھی ہیں ان دونوں طبقوں کے خلاف بہ یک وقت سرگرم عمل ہونے
کے لئے ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم ایک جانب اسلامی جذبے
کے ساتھ دشمن کی طاقت سے میدان میں ٹکر لیں اور دوسری جانب طاقت کے قریب
پہنچ کر اس کی اصلاح کرنے کی اپنی سی کوشش کریں ہمارا یہ فیصلہ پاکستان کے
بے گناہ شہریوں کے جان وآبرو بچانے کا فیصلہ ہے“یہ فیصلہ یقیناً بڑاجرات
مندانہ اقدام تھا خصوصاً ایسی صورتحال میں جبکہ عمامے کھل چکے تھے تحریک
پاکستان کی کئی یادگاریں بنگلہ دیشی قومیت کی چوکھٹ پر سرنگوں ہو چکی تھیں
چاروں طرف دھوئیں اور لہو کی فضا میں یہ اعلان کرنا کہ ہم اس کے ساجھی نہیں
عزیمت کی تابندہ روایت تھی ۔
امن کمیٹیوں اور رضا کار فورس کے بعض جگہوں پر ناخوشگوار تجربات سے جمعیت
کے محب وطن اور بے لوث نوجوان پریشان تھے چنانچہ۵۱مئی۱۷۹۱ءکو ڈھاکہ میں
منعقدہ اجلاس میں صوبائی مجلس شورٰی نے جمعیت کے کارکنان پر مشتمل ایک الگ
رضاکار فورس کے قیام کی تجویز پیش کی۔ پا ک فوج میں موجود بعض محب وطن
افراد بھی امن کمیٹیوں اور رضا کار فورس کی کارکردگی کے پیش نظر اپنی جگہ
متبادل صورتوں پر غور کر رہے تھے۱۳۔بلوچ رجمنٹ کے جواں سالہ میجر ریاض حسین
ملک انہی میں ایک تھے سب سے پہلے انھوں نے ہی اس سمت میں مثبت قدم اٹھایا
ڈیڑھ ماہ تک میدان جنگ میں عملاً سرگرم رہ کر انھیں یقین ہو چکا تھا اب
زیادہ دیر تک ”رضا کار“ پر مکمل اعتماد نہیں کیا جاسکتا انھوں نے ایک
انٹرویو میں”البدر“ کی تاسیس کا پس منظر ان الفاظ میں بیان کیا۔”دشمن تعداد
میں بہت زیادہ تھا تخریبی عناصر بھی کچھ کم نہ تھے ہمارے ذرائع معلومات نہ
ہونے کے برابر اور ذرائع مواصلات غیر مربوط تھے ہمارے جوان بنگلہ زبان اور
بنگال کی طبعی فضا سے قطعی ناواقف تھے کیونکہ ہماری تربیت کے دوران کبھی اس
صورت کے امکان پر سوچا بھی نہ گیا تھا ان حالات میں دفاع وطن کا فریضہ
انجام دینا مشکل ہو گیا تھا ہمیں ایک مخلص قابل اعتماد اور محب وطن بنگالی
گروہ کی ضرورت تھی جو سا لمیت پاکستان کے لئے ہمارے شانہ بشانہ کام کرسکتا
ہو ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں رضا کار فورس کا تجربہ ناکام ہو چکا تھا تاہم میں
نے یہ دیکھا میرے علاقے (سیکٹر)میں اسلامی جمعیت طلبہ کے بنگالی طلباء بڑے
اخلاص کے ساتھ دفاع رہنمائی اور حفظ راز کی ذمہ داری ادا کر رہے تھے اس لئے
میں نے ہائی کمان سے کوئی باقاعدہ اجازت لئے بغیر قدرے جھجکتے ہوئے ان طلبہ
کو الگ کیا یہ تعداد میں۷۴تھے اور سب اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن تھے
۶۱مئی۱۷۹۱ءکو شیر پور کے مقام پر انھیں مختصر فوجی تربیت دینے کا آغاز کیا
گیا۔ان کارکنان کی لگن محنت اور تکنیک کو سمجھنے میں کما ل ذہانت کو دیکھ
کر میں نے ۱۲مئی کو صبح ان سے خطاب کیا تقریر کے دوران بے ساختہ میرے منہ
سے یہ بات نکلی کہ آپ جیسے سیرت وکردار اور مجاہدانہ جذبہ رکھنے والے
فرزندان اسلام کو ”البدر“کے نام سے پکارا جانا چاہیے فوری طور پر ذہن میں
برق کی مانند یہ خیال کوندا کہ کیوں نہ اس تنظیم کو ”البدر “ کا نام دے دیا
جائے چنانچہ یہ نام اور جمعیت کے کارکنوں کی الگ تنظیم کا یہ تجربہ اس قدر
کامیاب ہوا کہ دوتین ماہ کے اندراندر پورے مشرقی پاکستان میں اسی نام سے
جمعیت سے وابستہ نوجوانوں کو منظم کر لیا گیا البدر کے پہلے کمانڈر کا نام
کامران تھا اور وہ اس وقت انٹر سائنس کے طالب علم تھے“۔
محترم قارئین ! قربانیوں کی تاریخ سے عبارت” البدر“ کا اصل روپ یہ ہے جسے
اثر چوہان اور بے نظیر بھٹو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں ۶۱ دسمبر۱۷۹۱ء کو پاک
فوج تو ہتھیار ڈال کر انڈین فوج کی پناہ گاہوں میں محفوظ ہوگئی تھی لیکن
آخری دم تک ہتھیار نہ ڈالنے والے ان مجاہدین اسلام اور ان کے اہل خانہ کو
ہندو فوج اور مکتی باہنی کے درندے چیرتے پھاڑتے رہے لیکن صبر کے پیکر
فرشتوں نے اف تک نہ کی اور تمام مظالم اپنے اوپر جھیلے لیکن ملک کی سلامتی
کا کوئی راز ان کی زبانوں سے فاش نہ ہوا آج مفاد پرست اور ملک کا سودا کرنے
والے سیاستدان ایک بار پھر ملک کے ٹکڑے کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں
انھیں خوف ہے کہ یہ محب وطن طبقہ ان کے مذموم عزائم میں رکاوٹ ہوگا یہی وجہ
ہے سیکولر اور لبرل کا نعرہ لگانے والوں کی قائد نے یورپ سے واپسی پر پاک
سرزمین پر قدم رکھتے ہی البدر والشمس کے بارے میں منفی ریمارکس دئیے حقیت
میں یہ ریمارکس ہی” البدر“ کا فخر ہیں جس سے مغرب اور اس کے حواریوں کے
ذہنوں پر طاری خوف کی عکاسی ہوتی ہے۔ |