میں اس موضوع پر شائد بہت پہلے لکھنا چاہتا
تھا ۔ لیکن مجھے فیس بک پر موجود اس کے معصوم پرستاروں جنہوں نے شاندار
مستقبل کے خواب اپنی آنکھوں میں سجا رکھے تھے ان کو توڑنا نہیں چاہتا تھا
، مجھے فیس بک پر ہی موجود فرقان حیدر یاد ہے جس نے مُکا ہوا میں لہراتے
ہوئے کہا تھا کہ اویس بھائی دیکھنا عمران خان ہی' انقلاب' کا قائد ہو گا۔
مجھے محمد عامر اور شعیب ساجد بھی یاد آئے جنہوں نے مجھے کہا کہ ہمارا
لیڈر نہ بِکتا ہے اور نہ جھکتا ہے اور نہ کسی سے ڈیل کرتا ہے ، مجھے میرا
کلاس فیلو یاسر الیاس بھی یاد آیا جس نے ایک طویل بحث کے بعد قسم اٹھا کر
کہا تھا کہ عمران خان ہی 12 مئی کے قاتلوں کو سر عام پھانسی دلوائے گا ۔
نہ جانے کتنے ہی چہرے اور معصومیت بھرے لہجے یاد آتے ہیں جن کی آنکھوں
میں چمک اور چہرے پر امید کی دھمک تھی ، جن کے لہجے سچے اور باتوں میں دم
تھا ۔ جنہوں نے پاکستان کی تیسری نسل ہونے کے ناطے تعمیر پاکستان کے نعرے
اپنے ہونٹوں پر سجا رکھے تھے ۔
لیکن یہ کیا !20 مارچ کو صبح صبح ایک گمنام کال موصول ہوئی ، نمبر میرے
موبائل میں نہیں تھا ۔ میں نے السلام علیکم کہا تو دوسری طرف سے بجھے ہوئے
لہجے میں وعلیکم السلام سننے کو ملا ۔ بولنے والا اس طرح بول رہا تھا جیسے
گہرے کنویں سے آواز آرہی ہو ۔
اویس بھائی میں یاسر الیاس ۔۔۔۔
ایک لمبے عرصے بعد اپنے کلاس فیلو کی آواز سن کر میں تو خوش ہوا لیکن
دوسری طرف شاید بولنے کے لئے الفاظ ڈھونڈے جا رہے تھے ۔ اس نے تھکے ہوئے
لہجے میں کہا کہ اویس بھائی میں ہار گیا آپ جیت گئے ۔
میں جب کچھ نہ سمجھ سکا تو کہنے لگا کہ اویس بھائی میں اپنی قسم کی تلافی
کرنا چاہتا ہوں ۔۔ شاید آپ نے سچ ہی کہا تھا کہ انسان ہمیشہ عمل سے پہچانا
جاتا ہے ۔
میں اس کی بات کچھ کچھ سمجھنے لگا ! پھر ایک طویل آہ لینے کے بعد اس نے
کہا میرے سارے خواب ریزہ ریزہ ہو گئے ۔ میں نے فیصل آباد میں بہت محنت کی
تھی آئی ایس ایف اور تحریک انصاف کے لئے ۔ میں نے شب و روز ایک کر دئے،
میں نے اپنا سرمایہ اپنا قیمتی وقت وطن عزیز کے لئے لگا دیا لیکن شاید میں
نے غلط آدمی پر سرمایہ لگایا ۔
میں نے مزید کریدنا چاہا تو کہنے لگا کہ گزشتہ دنوں مسلسل عمران خان کے
بارے میں آنے والی خبروں نے مجھے چونکا دیا ہے پہلے آئی ایس آئی کے
اہلکاروں سے خفیہ ملاقات اور اب الطاف حسین کے بارے میں عمران خان کا تبصرہ
اور پیار و محبت کی باتیں سن کر مجھے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی ہے ۔ پہلے
تو میں اس کو اہمیت نہ دی لیکن جب تحریک انصاف کے سپوک مین نے ٹی وی پر ایم
کیو ایم کی تعریفیں کیں تو مجھے مایوسی میں اپنا دل ڈوبتا نظر آیا ۔ مجھے
اب پاکستان میں امید کی کرن نظر نہیں آتی ۔ وہ بولتا چلا گیا ۔
میں نے اسے حوصلہ دیا اور کہا کہ میں پرانی باتیں یاد دلا کر تمہیں مزید
شرمندہ نہیں کروں گا لیکن صرف اتنا کہوں گا کہ اپنے من سے پوچھو اور تمام
باتیں ایک سائیڈ پر کر کے سوچو اور فیصلہ کرو کہ اب تمہیں کس کا ساتھ دینا
ہے ۔
تم نے اگر وطن کے لئے کچھ کرنے کا عزم کیا ہے تو اس کو مت چھوڑنا ، اپنے
عزیز و اقارب اور دوست یاروں کو تنہا مت چھوڑنا بس اتنا کرنا کہ اپنا رہبر
تبدیل کر لو ۔
وہ مسکرایا اور مخاطب ہوا کہ اویس بھائی آپ کیساتھ گزرا ہوا وقت یاد ہے،
جمعیت نے جو راستہ دکھایا تھا شاید میں ہی اس راستے سے بھٹک گیا وگرنہ آج
مجھے مایوس نہ ہونا پڑتا ۔
قارئین ! یہ صرف ایک فون کال نہیں تھی ۔ ایک عہد کا تجزیہ تھا ، ایک جہد ِ
مسلسل کا انجام تھا ، ایک سچے پاکستانی کے جذبات تھے ۔ شاید ہی اس فون کال
کے بعد میں اس موضوع کا حق ادا کر سکوں ، سب کچھ تو واضح تھا ، سب کچھ تو
عیاں ہو گیا ، اب کیا کہوں اور کیا لکھوں ۔۔۔۔ شائد مجھ سے مزید نہ لکھا جا
سکے ۔۔۔ جاتے جاتے اتنا کہوں گا کہ '' پاکستانی عوام کا المیہ ہے کہ ہم نے
ہمیشہ فرد واحد کی اندھی تقلید کی ہے ،ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کے لہجوں
میں ہمارا دکھ چھپا بھی یا نہیں ، روٹی کپڑے اور مکان والی سرکار سے لیکر
آج تک ہم نے فرد واحد کی جذباتی تقریرں پر ووٹ دیئے لیکن یہ سوچنے کی زحمت
نہیں کی کہ ان کے پیچھے کونسی گیم کار فرما ہے۔ اور اسکے ساتھ چلنے والے
لوگوں کا کردار کیا ہے ۔ ''
لیکن اب سوچنا ہو گا ۔۔۔ ورنہ بعد میں شائد بہت دیر ہو جائے ۔ |