حکمرانوں کے مُنہ پر زوردار طمانچہ مگر ...غریبوں کا

پاکستانی غریب کے لئے روٹی خریدنا مشکل .... جبکہ موت کو گلے لگانا آسان ہوگیا ہے .....!
حکومتی بے حسی کی ایک اور مثال غربت سے تنگ ایک اور ماں پھانسی کا پھنداڈال کر جھول گئی......!!

یہ حقیقت ہے کہ اِنسان کی ہر آرزو کبھی بھی پوری نہیں ہوتی مگر اِس کے باوجود بھی وہ یہ تمنا کئے رہتا ہے کہ اِس کی ہر آرزو اِس کے دل میں آتے ہی تُرنت پوری ہوجائے اور جب یہ فوراََ سے بیشتر عملی طور پر اِس کے سامنے نہیں آتی ہے تو وہ مایوس ہوکر ایسی غلطی کر بیٹھتا ہے جس کا ازالہ بھی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ یہ خطا کا ایک ایسا پتلا ہے جو اپنی غلطی سے کبھی سبق سیکھنا تو دور کی بات ہے اِ س پر ندامت کرنا بھی گناہ سمجھتا ہے مگر اِس کے باوجود اِنسان یہ بھی جانتا ہے کہ اِنسانی آرزوئیں بہت سی ایسی بھی ہیں جنہیں بحیثیت مسلمان ہمارا مذہب اور معاشرہ بھی پسند نہیں کرتا ہے اور اِنہیں مذہب اور سماج دونوں کے لئے مذموم قرار دیتا ہے اِس لئے اِنہیں دبانا پڑتا ہے لیکن وہ نہ تو دبتی ہیں اور نہ ہی آسانی سے مرتی ہیں بلکہ ہمارے لاشعور میں چھپ جاتی ہیں جس سے اِنسانی شخصیت بگڑتی ہے اور اِس سے ایک اچھے بھلے اِنسان میں ذہنی اور نفسیاتی امراض جنم لے لیتے ہیں جو سماج میں ایسی بُرائیاں پیدا کردیتا ہے جو بنی ونوع انسان کے لئے ذہنی و جسمانی اذیتوں کی باعث بنتی ہیں ۔ایسی سماجی بُرائیوں میں ایک بڑی بُرائی ذخیرہ اندوزی بھی ہے جو حکومت سے لے کر ایک عام دکاندار تک یہ سوچ کر کرتا ہے کہ مال کو اسٹور کر کے اِس سے زیادہ منافع کما کر اپنے خزانوں کے مُنہ بھرے اور اِسی زائد منافع کمانے کی لالچ اور آرزو میں حکومت اور دُکاندار اُس حد کو پہنچ جاتے ہیں جہاں معاشرے تباہ اور برباد ہوجاتے ہیں جس کی ایک زندہ مثال ہمارا ملک ہے جِسے حکمرانوں اور تاجر وں نے زائد منافع خُوری کے چکر میں اشیا کی ذخیرہ اندوزی کر کے تباہ کردیا ہے۔

اگرچہ یہ خبر ہمارے حکمرانوں، تاجروں اور زائد منافع خُوری کرنے والوں کے لئے اِن کے مُنہ پر پڑنے والے کسی زوردار طمانچے سے کم نہیں ہونی چاہئے جو اِن کے چودہ طبق روشن کرنے اور اِن کے اُوسان خطا کرنے کے لئے بھی کافی ہے مگر اِس کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ اگر اِن کے دل میں ذرا برابر بھی خُوفِ خُدا اور اِن کے ......ضمیر کو جھنجھوڑنے والا عنصر ہو تو کافی ہے ورنہ تو پھر یہ خبر بھی اِن کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ....

بہرکیف !خبر یہ ہے کہ اقوام ِ متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف بی )کے پاکستان میں ڈائریکٹر وولف گینگ ہربنگر نے کہا ہے کہ ِ پاکستان کے صوبہ سندھ میں غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد جو کبھی 21ہوا کرتی تھی وہ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بڑی تیزی سے بڑھ کر اَب 23تک پہنچ چکی ہے اِس کا یوں بڑی تیزی سے بڑھنا بڑی حد تک پاکستانی حکمرانوں کے لئے باعث تشویش ہونا چاہئے اور اِسے یہیں روکنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں گو کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی اِس ساری صُورتِ حال کے باوجود دوسری طرف ایک یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی موجودہ صُورتِ حال ابھی افریقہ سے بدتر تو نہیں ہوئی ہے مگر پاکستان کے حالات کو دیکھ کر اَب یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ اگر حکمرانوں نے اِس جانب سنجیدگی سے کوئی پائیدار اور دیرپا منصوبہ سازی نہ کی تو ممکن ہے کہ آنے والے دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں حالات پاکستان کے کنٹرول سے باہر ہوجائیں اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ فوڈ ایمرجنسی کا اسٹینڈرڈ جو 15 فیصد ہوتا ہے پاکستان میں یہ سطح اِس سے بھی تجاوز کر گئی ہے اگرچہ اِس موقع پر اُنہوں نے انتہائی اُمید افزا انداز سے کہا ہے کہ ایک حالیہ سروے کی روشنی میں یہ بات ضرور سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں آنے والے سیلاب کے بعد متاثرہ علاقوں کے ستر فیصد افراد نے اپنے تئیں قرض لے کر اپنی غذائی ضروریات پوری کیں ہیں مگر یہاں ہمارا خیال یہ ہے کہ ہربنگر نے جو کہا ہے وہ بلکل ٹھیک ہے کہ متاثرہ علاقوں کے افراد نے خود سے اپنی غذائی ضروریات پوری کیں ہیں اور اِس سلسلے میں ہم اِنہیں یہ بھی بتاتے چلیں کہ حکومت نے اِن(متاثرین سیلاب) سے ایک ڈھلے کا بھی تعاون نہیں کیا ہے سوائے اِس کے کہ حکومت نے دیدہ اور دانستہ طور پر متاثرین سیلاب اور ملک کے غریب اور کم آمدنی والے شہریوں کے لئے غذائی اشیا کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھا دی ہیں جس کے بعد اَب پاکستان کے طول وارض میں بسنے والے غریب لوگوں کے لئے روٹی خریدنا بھی اِن کے بس میں نہیں رہا ہے اور اگر آج عوام کو درپیش اِس صُورتِ حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات پوری طرح سے واضح ہوجاتی ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں آنے والے اپنے تاریخ کے بدترین سیلاب کے بعد فصلوں کی بحالی کے باوجود بھی پاکستان میں غذائی قلت کا بدستور برقرار رہنا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ....؟؟جِسے کُھرچنا حکمرانوں کا کام تھا مگر وہ ملک میں آنے والے سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صُورتِ حال اور مسائل سے جنم لینے والے اِن سوالات کے تسلی بخش جوابات دے کر نہ تو عوام ہی کو مطمین کرسکیں ہیں اور نہ ہی اقوام ِ عالم سے اپنی عوام کے لئے ہمددریاںحاصل کرنے میں کامیاب ہوپائے ہیں جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں کے علاوہ پاکستان میں اور بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں جن میں غریب کی روٹی تک مشکل سے رسائی جیسا مسئلہ سرِ فہرست ہے ۔

جبکہ دوسری طرف دنیا یہ بھی جانتی اور سمجھتی ہے کہ پاکستان میں زرعی طور پر اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے اجناس پیدا کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے مگر حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندی اور بروقت حکمتِ عملی نہ ہونے کے باعث پاکستان میں غذائی اجناس اپنے مقر رہ ہدف کے مطابق پیدا نہیں ہوپاتے ہیں اگرچہ یہاں یہ امر حوصلہ افزاء ہے کہ اِس سال ملک بھر میں گندم سمیت دیگر اجناس کی پیداواری ہدف پوری ہوسکے گی مگر اِس کے باوجود ابھی سے ہمارے ملک میں غذائی اجناس کا بحران پیدا ہونے سے متعلق پیشنگوئیاں کرنے والے ذخیرہ اندوز اور حکومتی کارندے غذائی اجناس کے بحران کے لئے راہ ہموار کر رہے ہیں اور عوام الناس کو باور کرنا چاہتے ہیں کہ ملک میں گندم، چینی اور چاول کی پیداوار کافی کم ہیں اِس لئے اِس سال بھی ملک میں گندم اور چینی کی طرح چاول کا بھی بحران پیداہونے کے امکانات ہیں ۔جبکہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے پاکستان میں ڈائریکٹر وولف گینگ ہربنگر یہ بات پہلے ہی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں غذائی اجناس کی کوئی قلت نہیں مگر حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں غذائی بحرانوں کا پیدا ہونا یہاں کا معمول بن چکا ہے ۔یہاں مجھے یہ شعر یاد آگیا کہ
ہر اِک فقہہِ شہر حکومت پرست ہے  ہر اِک غریبِ قوم و وطن فاقہ مست ہے
ہر بندہ ِ غرض کو ہے شہرت کی آرزو ہر حکمرانِ قوم ستائش پرست ہے

عوام کو غذائی اجناس کی قلت جیسے درپیش مسائل کے باوجود بھی حکمرانوں کی بے حسی اور منافع خُوری کا یہ عالم ہے کہ ملک میں غذائی اجناس کے وافر مقدار میں ہونے کے باوجود اِن کا مصنوعی بحران پیدا کر کے عوام الناس کو مزید پریشان کرنے کے لئے منصوبہ بندیاں کی جارہی ہیں اور یوں پہلے سے مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ملک کے معصوم اور غیور محنت کش غریب عوام حکمرانوں اور زائد منافع خُوروں سے غذائی اجناس دوگنی قیمتوں پر خرید نے پر مجبور ہیں اور جو اِس قابل بھی نہیں ہیں تو وہ حالات اور اپنی غربت کے ہاتھوں بے بس و مجبور ہوکر خُودکشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کر کے حکمرانوں اور زائد منافع خوروں کے پیدا کردہ مسائل سے جان چُھڑا رہے ہیں اور اِس طرح حالات کے مارے ملک کے اِن بے بس اور مجبور لوگوں کے لئے حکمرانوں سے ٹکر لینا تو مشکل ہوگیا ہے مگر وہ موت کو گلے لگانا اپنے لئے آسان سمجھنے لگے ہیں جس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ نیو کراچی کے صنعتی ایریا کے علاقے سیکٹر 11-Gمیں نسرین زوجہ جاوید جو دو بچوں کی ماں تھی اُس نے غربت کے ہاتھوں دلبرداشتہ ہوکر خُودکُشی کر لی اور یوں دو بچوں کی بے بس اور مجبور ماں جب اپنے بچوں کو کئی دن سے بھوک اور افلاس کے ہاتھوں بلکتا سسکتا دیکھ نہ سکی تو اُس نے اپنے گلے میں پھندا ڈال کر خُودکشی کر کے خاموشی سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر گئی مگر اِس کے ساتھ ہی یہ حکمرانوں کے چہرے پر ایک ایسا زوردار طمانچہ مار گئی کہ ملک میں روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی حکومت میں عوام کے لئے کپڑا اور مکان کا حُصول تودرکنار اِس حکومت میں عوام روٹی جیسی ضروری اشیا سے بھی محروم ہوگئے ہیں اور اپنی زندگی کا خاتمہ خودکشیوں سے کر رہے ہیں اَب دو بچوں کی ماں نسرین اور بہت سوں کی غربت اور بھوک وافلاس کے باعث کئی جانے والی خُودکشی کے واقعات کے بعد بھی اگر ہمارے حکمرانوں کے ضمیر زندہ ہوجائیں تو یہ بھی غنیمت ہے اور یہ ملک میں خودساختہ پیدا کردہ غذائی اجناس کے بحرانوں کا اپنا منصوبہ ضرور ختم کردیں اور ملک میں بڑھتی ہوئی غربت اور بھوک و افلاس کو کنڑول کر کے عوام النا س کو سستی اشیائے ضروریہ مہیا کرنے جیسے اقدامات کر کے بھی عوام کو خُودکشی سے بچانے کے ساتھ ساتھ خُود پر لگنے والے اُس الزام نما دھبے کو بھی صاف کرنے کی سعی کریں جس سے متعلق نہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں بھی اَب یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں غذائی اجناس کے مُصنوعی بحرانوں کو پیدا کرنے میں اِن کا بھی ہاتھ ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971525 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.