بلیک واٹر
نوٹ:حالیہ ریمنڈ ڈیوس اور اس کی مشکوک سرگرمیوں نے نیز معمر قذافی جن پیڈ
قاتلوں کو ہائر کیا ہے ان سب واقعات نے ایک مرتبہ پھر ضرورت بڑھا دی ہے کہ
بلیک واٹر کے طرز عمل کا ایک بار پھر جائزہ لیا جائے۔نگران مترجم
بلیک واٹر کی بنیاد کب رکھی گئی تھی اس حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی
ہیں۔بعض تحقیق کاروں کے مطابق ۱۹۹۷ء میں اس کی داغ بیل پڑی جب کہ کچھ اور
مصادر اس کے ۱۹۹۸ میں ظہور پذیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔لیکن سبھی کا اس
بات پر اتفاق ہے کہ اس کا ظہور امریکی حکومت کے اس فیصلہ کے بعد ہوا جس میں
عسکری شعبہ کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا ۔یہ فیصلہ ۱۹۸۹ء میں اس وقت کیا گیا
جب ڈک چینی امریکی وزیر دفاع تھے اور جارج بش سینئر امریکی صدر ۔
اس کمپنی کا بانی اریک پرنس کا تعلق ایک مالدار گھرانے سے ہے اور امریکی
نیوی میں خدمات انجام دینے کی وجہ سے وہ فوجی پس منظر بھی رکھتا ہے ۔۲۶
دسمبر ۱۹۹۶ء کو پرنس اریک نے امریکی ریاست نارتھ کیرولینا میں بلیک واٹر
ٹریننگ سنٹر کی بنیاد رکھی اور ایک سال کے اندر ہی اندر اس نے اسلحہ کی
ٹریننگ کے مختلف حکومتی اور پرائیویٹ کنٹریکٹس حاصل کرلیے ۔ستمبر ۱۹۹۹ء میں
اس کمپنی نے” آر یو رریڈی“ نامی اسکول کی بنیاد رکھی۔اس سکول سے سالانہ
۴۰۰۰ ہزار پولیس افسر ٹریننگ حاصل کرتے تھے ۔بعد میں اس نے امریکی حکومت کے
ساتھ کچھ فوجی سازوسامان کی فراہمی اور بعض عسکری خدمات سرانجام دینے کا چھ
ملین ڈالر کا پانچ سالہ معاہدہ کیا ۔بلیک واٹر کے کام کو وسعت اس وقت ملی
جب امریکی بحری بیڑے یوایس ایس کول کو ۲۰۰۰ء میں خلیج عدن میں نشانہ بنایا
گیا ۔ بلیک واٹر کے نائب صدر کریس ٹیلور کے بقول اس بحری جنگی بیڑے کو
نشانہ بنائے جانے کے بعد امریکہ نے شدت سے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ اس
کی مسلح افواج کو مزید اور جدید ٹریننگ کی ضرورت ہے۔چنانچہ بلیک واٹر نے اس
ضرورت سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ نائن الیون کے واقعات بلیک واٹر کے لئے
سنہری موقع ثابت ہوئے ۔اس واقعہ کے بعد صرف دو ہفتوں کے دوران ہی مختلف
فوجی مراکز ، حکومتی وزارتوں اور اداروں بشمول ایف بی آئی کے مراکز کی
سیکیورٹی بھی سنبھال چکی تھی ۔
تاہم بلیک واٹر نے حقیقی شہرت اور گراں قدر مالی فوائد ۲۰۰۲ء میں اس وقت
حاصل کیے جب اس نے اپنی سرگرمیوں کو عالمی شکل دی بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک
تب اس کی حیثیت ”کرائے کی فوج“ کی سی ہوگئی۔یہی وقت تھا جب بلیک واٹر نے سی
آئی اے سے خفیہ معاہدہ کیا اور افغانستان میں اپنی خدمات کے عوض ۴۵ ملین
ڈالر حاصل کیے ۔افغانستان میں اس کے ذمہ القاعدہ کی لیڈرشپ کا مکمل صفایا
تھا ۔
بلیک واٹر نے حقیقی عروج اس وقت حاصل کیا جب ۲۰۰۳ء میں امریکہ نے عراق پر
قبضہ کیا عراق میں بلیک واٹر کو اہم امریکی شخصیات خصوصاً عراق میں امریکی
حاکم پول بریمر کی سیکیورٹی کی ذمہ داری سونپی گئی۔اس کے علاوہ اہم مقامات
مثلاً وزارت پڑولیم کی نگرانی وحفاظت بھی بلیک واٹر کے ذمہ تھی ۔
جیرمی سکاہیل اپنی کتا ب بلیک واٹر میں لکھتا ہے ”بلیک واٹر دنیا میں کرائے
کے قاتلوں اور کرائے کی فوج کی نمایاں مثال ہے۔پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیوں
میں اس کا نمبر پہلا ہے ۔اس نے عراق پر قبضہ کے بعد پول بریمر سے سال کے
اندر اندر دو ارب ڈالر کمائے ۔یہ رقم عراق کی تعمیر نو کے لیے مختص بجٹ کا
تیس فی صد بنتا ہے ۔
۲۰۰۴ء میں بلیک واٹر نے افغانستا ن اور عراق میں اپنی سرگرمیوں کو مزید
وسعت دی اور امریکی فوج ، خفیہ ایجنسیوں اور وزارت خارجہ سے کئی نئے معاہدے
کیے ۔اسی اثناء میں بلیک واٹر نے اپنی نئی برانچ ”گرے سٹون لمیٹیڈ“ کی
بنیاد بھی رکھی۔بلیک واٹر کے اپنے ذمہ داروں کے الفاظ میں اس نئی شاخ کا
مقصد چھوٹے درجے کے انتہائی لڑاکا دستوں کی تیاری تھا ۔اس میں انھوں نے
فلپائن ،چلی،کولمبیا،نیپال ،اکواڈور،ھنڈوراس اور دنیا بھر سے کرائے کے
قاتلوں کو بھرتی کیا ۔
۲۰۰۴ء میں عراقی شہر فلوجہ کی عوام نے بلیک واٹر کے چار اہلکاروں کو قتل
کردیا ان کی لاشیں جلا دی گئیں اور دو کی نعشوں کو دریائے فرات کے پل پر
لٹکا دیا گیا ۔بعد ازاں امریکی فوج نے جس بہیمانہ طریقے سے اس عراقی شہر کو
تباہ و برباد کیا اس واقعہ نے پہلی بار دنیا کی توجہ بلیک واٹر اور امریکی
حلقوں میں اس کی بے انتہا اہمیت کی طرف مبذول کروائی۔
۲۰۰۵ء میں بلیک واٹر نے اپنے لوگوں کو” قطرینہ طوفان“ کی زد میں آئی امریکی
ریاست نیواورلیانز میں بھیجا جہاں کمپنی کا یومیہ منافع بسا اوقات ۵لاکھ
ڈالر سے بھی تجاوز کرجاتا۔
۲۰۰۷ء میں بلیک واٹر نے بغداد کے ۱۷ نہتے شہریوں کا قتل عام صرف اس ادنیٰ
شک کی بنا پر کر ڈالا کہ ہوسکتا ہے ان کے لیے گھات لگائی گئی ہے ۔اس پر
دسمبر ۲۰۰۸ء کو بلیک واٹر کے پانچ اہلکاروں پر قتل غیر عمد کا باقاعدہ
الزام لگایا گیا جب کہ چھٹے اہل کار نے اپنی کارستانی کا خود ہی اعتراف
کرلیا ۔ یہ واقعہ بلیک واٹر کی کارکردگی پر بری طرح اثر انداز ہوا اور
عراقی حکومت نے بلیک واٹر کے کنٹریکٹ میں مزید توسیع دینے سے انکار کردیا
۔اگرچہ امریکی وزارت خارجہ عراق میں بلیک واٹر کی سرگرمیوں کے خاتمے کا
اعلان کرچکی ہے اور بلیک واٹر کا پنا موقف بھی یہی ہے لیکن مختلف رپورٹس
بتاتی ہیں بلیک واٹر اہل کار تاحال عراق میں موجود ہیں اور مختلف کمپنیوں
کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔
۲۰۰۹ء فروری میں بلیک واٹر نے اپنا نام بدل کر ”ژی سروس“Xe Service رکھ لیا
۔بلیک واٹر تو اسے روٹین کی کاروائی کا نام دینے پر مصر ہے لیکن ناقدین کا
خیال ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ عراق میں کی جانے والے اپنے شرمناک
اور گھناؤنے جرائم پر پردہ ڈالا جاسکے ۔
واضح رہے کہ بلیک واٹر واحد ایسی سیکیورٹی ایجنسی نہیں ہے جس نے مشرق وسطیٰ
میں کنٹریکٹ حاصل کیے ہوں بلکہ امریکی حکومت نے ۲۰۰۳ء سے لے کر ۲۰۰۷ء تک اس
طرح کی ۵۰۰ مختلف کمپنیوں سے معاہدے کیے اور کانگریس نے ان تما م ایجنسیوں
کو چھ سے دس ارب ڈالر تک کے بھاری بھرکم معاوضے دیے ہیں۔تاہم ان تمام
سیکیورٹی ایجنسیوں میں سر فہرست بلیک واٹر ہی ہے ۔
بلیک واٹر کی دیگر عالمی سرگرمیوں میں سے ایک امریکی صدر جارج بش کی بحر
قزوین کے علاقے کی مہم جوئی بھی ہے ۔اس مہم کا مقصد علاقہ میں” محافظ
قزوین“ نامی امریکی فوجی اڈے کا قیام تھا تاکہ آذر بائجان تک رسائی حاصل کی
جاسکے اور توانائی (پٹرول )کے متعلق مستقبل میں امریکی مفادات کی مؤثر
حفاظت کا بندوبست ہوسکے۔یہ مہم بھی بلیک واٹر کو سونپی گئی اور اس معاہدے
کے تحت بلیک واٹر نے ۵،۲ملین ڈالر صرف ایک سال میں حاصل کیے۔
بعض رپورٹس کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ بلیک واٹر سوڈان کے صوبہ
دار فور میں بھی سرگرم ہے۔
بلیک واٹر کے بانی اریک پرنس نے گزشتہ سال مارچ میں اپنے عہدہ سے استعفیٰ
دیدیا تھا تاہم اب وہ ”ژی“ کی ایگزیکٹو باڈی کے بدستور صدر ہیں۔
اببلیک واٹر کے نئے صدر جوزف یوریو ہیں وہ امریکی اسپیشل فورس کے ایک
ریٹائرڈ افسر ہیں ،اس سے پہلے اریک پرنس کے استعفیٰ کے بعد غاری جاکسون اس
کے صدر تھے۔ دانیال اسپوزیٹو بلیک واٹر کے آپریشنل انچارج اور نائب صدر
ہیں۔
بلیک واٹر کی فکری حیثیت پرائیویٹ فوج یا ہراول صلیبی دستہ
بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ بلیک واٹر جیسی بدنام زمانہ سیکیورٹی
ایجینسیاں دراصل اس فوجی اور فکری سوچ کی پیداوار ہیں جو سرد جنگ کے خاتمے
کے بعد امریکیوں میں پیدا ہوئی۔اور فکری لحاظ سے یہ امریکی نیو کونز کے
افکار کی ایک جھلک ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بلیک واٹر ان کے افکار کی
عسکری میدان میں عملی تصویر ہے تو بے جا نہ ہوگا۔چنانچہ بلیک واٹر نیو
لبرلز اور کیپٹلزم کے حلیف کے طور پر ابھری تاکہ پوری دنیا پر امریکی قوت
کا سکہ جمایا جاسکے ۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان افکار پر عمل کی ابتداء اس وقت ہوئی جب نیوکونز
امریکی پالیسی ساز اداروں تک پہنچے ۔بعض کے نزدیک ۱۹۸۹ء تا ۱۹۹۳ء ڈک چینی
کا امریکی وزیر دفاع بننا اس سلسلے کا پہلا واضح قدم تھا۔اسی کے دور میں
فوجی اداروں کی پراویٹائزیشن کا سلسلہ شروع ہو جس کے پیچھے دنیا پر امریکی
اجارہ داری کو قائم و دائم رکھنے کی سوچ ہی کارفرما تھی۔
بش دور کے نائب صدر ڈک چینی کے افکار کا خلاصہ یہ ہے کہ سرکار کے فوجی
اخراجات کو کم کیا جائے اور بہت سے ایسے فوجی آپریشنز جو فوج کو کرنے
چاہئیں وہ پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں سے کروائے جائیں بالخصوص ایسے تمام
آپریشنز جو امریکی فوج یا امریکہ کے لیے باعث عار ہوں وہ انہی پرائیویٹ
سیکیورٹی ایجینسیوں ہی کے ذریعے ہوں تاکہ فوج اور ملک بدنامی سے بچ جائیں
اور کام بھی ہوجائے ۔سیاسی تنقید بھی نہ ہو اور مشن بھی مکمل کرلیا جائے
۔اسی سوچ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بلیک واٹر نے امریکہ میں اپنے آپ کو منظم
کرنا شروع کیا ۔عراق میں امریکی حاکم پول بریمر کا امریکی فوج کی موجودگی
کے باوجود بلیک واٹر کو سیکیورٹی کا کام سونپنا نیوکونز کی عملی افکار کی
تطبیق تھی جن کی دعوت وہ گزشتہ آٹھ برس سے دیتے چلے آرہے تھے۔
بلیک واٹر کا بانی اریک پرنس دائیں بازو کے عیسائی فرقے سے تعلق رکھتا ہے
اور اسے اپنے نیو کون ہونے پر بھی فخر ہے ۔اس نے دائیں بازو کے افکار کے
حامل افراد کو ریپبلیکن پارٹی کے پلیٹ فارم سے آگے لانے میں بھرپور مالی
مدد کی بعد ازاں ۱۹۹۴ء میں انہی ریپبلکنز کی بھرپور سیاسی طاقت نے صدر بل
کلنٹن کو بے بس کیے رکھا۔
گزشتہ چند برسوں میں پرنس ،اس کی فیملی اور دیگر حلیفوں نے ریپبلکن پارٹی
کی انتخابی مہم پر اخراجات کیے اور ان لوگوں کی مدد سے ہی جارج بش جونئر کو
اقتدار ملا اور نتیجتا بلیک واٹر نے بوش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے بھر
پور فائدہ اٹھایا۔
بہت سے تجزیہ کار بوش کی ابتداء کردہ اور اوباما کو وراثت میں ملنے والی
،دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں بلیک واٹر کے کردار پر شدید تحفظات اور
اندیشوں کا اظہار کرتے ہیں ۔ان تجزیہ کاروں کے مطابق بش نے اس جنگ کی
ابتداء ”کروسیڈ “ صلیبی جنگ کے نعرے سے کی تھی۔اور اس صلیبی جنگ میں بلیک
واٹر کو ملنے والا اہم کردار بھی بلاوجہ نہیں ہے ۔اس سیکیورٹی تنظیم کی
ساری باگ ڈور اور ساری قیادت دائیں بازو کے متعصب عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے
۔خاص طور پر پرنس اریک اور ان کی بااثر فیملی جس نے دائیں بازو کے مذہبی
افراد کو سیاسی طور پر آگے لانے میں بھرپور اور بے دریغ مالی معاونت کی
۔بعض ذرائع کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ بلیک واٹر کی ساری قیادت کا تعلق”
ساورن ملٹری آرڈر آف مالٹا“Sovergn Militry Order of MALATA ہے۔عیسائی
سورماؤں کی یہ خفیہ تنظٰم گیارہویں صدی عیسوی میں پہلی صلیبی جنگ کے وقت
تشکیل پائی تھی اور اس کا مقصد ان مقامات کا دفاع کرنا تھا جو عیسائیوں نے
مسلمانوں سے چھین رکھے تھے ۔
معروف مصنف جیرمی سکاھیل بلیک واٹر کے مذکورہ تنظیم سے تعلقات کو خطرناک
قرار دیتا ہے ۔مصنف کے مطابق اس تنظیم کا ہیڈکوارٹر مالٹا میں ہے اور مالٹا
کے ۹۴ ممالک میں سفارت خانے ہیں۔اور اسلامی ممالک میں اور دیگر سیکیولر
معاشروں میں اس طرح کے جدید صلیبیوں سے امریکی فوجی کاروائیوں میں مدد لینا
ان خدشات اور خطرات کو اور بھی تقویت دیتا ہے جو عرب اور اسلامی دنیا میں
امریکی جنگی پروگرام کے مخالفین میں پائے جاتے ہیں۔
بلیک واٹر کے مذکورہ متعصب دینی تنظیم سے تعلق کی خبریں اس وقت منظر عام پر
آئیں جب بلیک واٹر کے کچھ اہل کاروں کے خلاف قتل کرنے ،ناجائز اسلحہ رکھنے
اور عام شہریوں کو ذبح کرنے جیسے الزامات کے تحت مقدمات چل رہے تھے ۔اس بات
کا بھی تذکرہ ہورہا تھا کہ پرنس اریک نے بلیک واٹر کے دو ایسے سابقہ
ملازمین کو قتل کروانے کی کو شش کی جو عدالت کے ساتھ مذکورہ مقدمے میں
تعاون کر رہے تھے ۔اسی مقدمے میں ایک سابق امریکی فوجی نے جو بلیک واٹر کے
لیے چار سال تک کام کرتا رہا تھا،نے قسم اٹھا کر گواہی دی کہ بلیک واٹر کا
سربراہ اپنے آپ کو ایک کٹر صلیبی عیسائی سمجھتا ہے جس کی زندگی کا اس کے
سوا کوئی مقصد نہیں کہ مسلمانوں کو ہلاک اور اسلام کو تباہ و برباد کیا
جائے ۔اسی امریکی فوجی کا یہ بھی کہنا تھا کہ پرنس نے قصدا مذکورہ فکر کے
حامل بلیک واٹر اہل کاروں کو عراق بھیجا تاکہ وہ ہر ممکنہ موقع سے فائدہ
اٹھائیں اور مسلمانوں کا قتل عام کریں۔
فوجی کاروائیاں
بلیک واٹر کی تخلیق ایک ایسی فضا میں ہوئی جس پر سیاسی و عسکری دونوں طرح
کے سائے چھائے ہوئے تھے۔یہ سیاسی لوگوں کے عسکری طور پر برتری کے افکار کا
نتیجہ ہے اس کے کام کی نوعیت اس بات کی متقاضی ہے کہ فوجی اداروں سے چنیدہ
لوگوں کو بھرتی کیا جائے۔ اس کی بیشتر قیادت اور اہم عہدیداربلکہ عام اہل
کاروں تک تقریبا سبھی فوجی اداروں ،امریکی خفیہ ایجنسیوں اور وزارت دفاع سے
لیے گئے ہیں۔
بلیک واٹر اپنے تعلقات کے وسیع نیٹ ورک کی بدولت اس قابل ہوچکی ہے کہ دونوں
امریکی سیاسی و عسکری اداروں تک اس کی رسائی ممکن ہو اس نے اپنے ادارے کو
ان دونوں اشخاص کی قیادت سے مسلح کیا جو امریکی حکومت اور صدربش کے انتہائی
قریب تھے ۔ان میں ایک جی کوفیر ہیں جو کہ سی آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت
گردی کے صدر تھیاور دوسرے جوزیف شمیتر جو کہ وزارت دفاع میں مختلف کمپنیوں
جن میں بلیک واٹر بھی شامل ہے کے ساتھ طے پانے والے معاہدات کے نگران تھے
۔”بلیک واٹر دنیا میں کرائے کے فوجیوں کا بھر پور عروج “ نامی کتاب کا
مئولف اشارہ کرتا ہے کہ ۲۰۰۵ء کے شروع میں ۷۵ہزار عراقی فوجیوں پر مشتمل
مختلف یونٹس بنائے گئے جو ڈیتھ اسکواڈز کے نام سے جانے جاتے تھے ،انہی
اسکواڈز نے عراق کو خانہ جنگی کی دہلیز پر پہنچا دیا تھا ۔یہ اسکواڈز
ہزاروں لوگوں کے قتل اور بے گھر ہونے کا سبب بنے نئی عراقی فوج کی بنیاد
رکھنے والے کرنیل توماس بلیک واٹر کے بارے میں کہتے ہیں ”یہ جہاں کہیں جاتے
ہیں نئے دشمن پیدا کرتے ہیں اور بلیک واٹر کا برا سلوک کسی بھی مزاحمت کو
روکنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے پہلے قدم یعنی اپنے لیے نئے دشمن نہ
بناؤ کو تہس نہس کردیتا ہے ۔
بلیک واٹر کے سی آئی اے سے تعلقات ہی تھے جن کی بدولت اس کا وزارت دفاع تک
پہنچنا ممکن ہوا۔سمتھ جس کا ماضی میں امریکی خفیہ اداروں سے تعلق تھا اور
اب وہ بلیک واٹر کے ذمہ داران میں سے ہے کا کہنا ہے کہ ”امریکی وزارت دفاع
کے ساتھ معاہدات ہوجانے کی وجہ سے ہمارے لیے بہت سے دروازے کھل گئے ہیں اب
آپ حکومتی توسط سے کسی بھی ملک تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں یہ اس کینسر کی
مانند ہے جو خون کو لگ جائے تو دو دن میں پورے جسم میں پھیل جاتا ہے “۔بلیک
واٹر نے کھل کر اس بات کا علان کیا ہے کہ وہ ہر قسم کے قانون سے بالاتر ہے
۔اس بات کا عملی اظہار عراق میں اس وقت ہوا جب وہاں پر امریکی حاکم پو ل
بریمر نے بلیک واٹر کو قانون کی پکڑ سے استثناء دیا ۔بلیک واٹر نے اپنے اہل
کاروں کے فوجی عدالتوں اور قوانین کے تابع ہونے کی بھی ہمیشہ مزاحمت کی
۔اپنے آپ کو ہر قسم کے قوانین سے بالاتر رکھے جانے کا مطالبہ کیااور بصورت
دیگر اسے امریکہ کی لڑنے کی قوت کے منافی قرار دیا ۔
جیسا کہ گزر چکا ہے بلیک واٹر نے ایک اور شاخ گرے سٹون لمیٹڈ کی بھی بنیاد
رکھی ہے ۔اس میں دنیا بھر سے لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے ۔بھرتی شدہ لوگوں
کا تعلق نیپال،فلپائن اور چلی وغیرہ سے ہے ۔تجزیہ کاروں کے مطابق ان ملکوں
میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی روا رکھی گئی ہے ۔اور ہوسکتا
ہے کہ ان ملکوں سے صرف انہی لوگوں کو بھرتی کے لیے چنا گیا ہو جو بڑے
پیمانے پر جرائم میں ملوث رہے ہوں۔بعض مصادر کے مطابق دنیا بھر میں بلیک
واٹر کے لیے کام کرنے والوں کی تعداد دوملین ہے جبکہ کچھ لوگوں کے مطابق ان
کی تعداد ۰۰۰،۱۰ہزار سے زیادہ نہیں ۔اسی طرح کہا جاتا ہے کہ بلیک واٹر کے
پاس بیس جہاز ہیں جن میں کچھ جنگی ہیلی کاپٹر بھی ہیں ۔
تازہ ترین رپورٹس کے مطابق بلیک واٹر بغیر پائلٹس جہازوں کی تیاری اور اڑان
میں سی آئی اے کی مدد کرتی ہے اس کے علاوہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سی آئی
اے اور دوسری خفیہ ایجنسیوں کے غیرقانونی جیلوں سے قیدیوں کو حسب ضرورت ایک
سے دوسری جگہ منتقلی بھی اسی کے ذمہ ہے ۔
بلیک واٹر افغانستان میں سی آئی اے کے ساتھ مل کر القاعدہ لیڈر شپ اور اس
کے سرگرم ارکان کے قتل کے لیے سرگرم عمل ہے۔امریکی حکام کہتے ہیں کہ انہوں
نے بلیک واٹر کو قتل کا سرٹفکیٹ نہیں دیا بلکہ ان کے بقول اس کا کام
معلومات اکٹھی کرنا اورلاجسٹک سپورٹ فراہم کرنا ہے ۔تاہم سی آئی اے کو
برملا اعتراف کرتی ہے کہ بلیک واٹر ہماری سب مہمات میں اہم اور بنیادی
کردار اداکرتی ہے ۔حال ہی میں امریکی وزارت دفاع نے بشمول بلیک واٹر پانچ
کمپنیوں کے ساتھ افغانستان میں انسداد منشیات فروشی کے لیے ۱۵ارب ڈالر کے
معاہدے کیے ہیں۔
امریکہ کے منہ پر طمانچہ
بلیک واٹر اپنی پیدائش کے دن سے ہی امریکی اور بین الاقوامی سیاست میں ایک
متنازع موضوع رہا ہے ۔بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ابو غریب ،گوانتاناموں بے
جیل،عراق کے قبضے میں موجود وسیع تباہی کے ہتھیاروں کے حوالے سے امریکی
جھوٹی رپورٹ اور پھر اس پر قبضہ کے لیے جنگ کرنے کی مانند بلیک واٹر اور اس
کے کرتوت بھی امریکی ماتھے پر کلنک کا ایک ٹکہ ہیں ۔کہاجاتا ہے کہ بلیک
واٹر نے عادل عبد المہدی نائب صدر عراق کے باڈی گارڈ کوقتل کیا اور ایاد
علاوی کی حکومت میں سابق وزیر بجلی الہم سامرائی کو بغداد کی ایک جیل سے
امارات منتقل کیا ۔تب امریکی حکومت نے اسے عراقی حکومت حکومت کے حوالے نہ
ہونے پر اطمینان کا سانس لیا ۔
۲۰۰۷ء میں اس حوالے سے تحقیقات شروع ہوئیں کہ کردی حزب عمال جو کہ ترک
حکومت کے خلاف کردستان سے کارروائیوں میں مشغول ہے اسے خفیہ طریقے سے بلیک
واٹر نے اسلحہ پہنچایا۔
اگست۲۰۰۹ء میں بلیک واٹر اور اس کے سربراہ پرنس ایریک فحاشی کا خفیہ اڈہ
چلانے کا الزام لگایا جا رہا ہے ۔اس دعوی کی بنیاد ان اعلیٰ عہدیداروں کے
بیانات اور شہادتیں تھیں جو بلیک واٹر کے لیے کام کرچکے ہیں انہوں نے بچوں
کے متعلق فحاشی کے اڈے کی موجودگی کی گواہی دی۔
بلیک واٹر کے سابقہ کچھ ملازمین نے حلفا اس بات کا عدالت میں بیان دیا ہے
کہ بلیک واٹر کے مالک نے انہیں بلیک واٹر کے ان ملازمین کے قتل کا حکم دیا
جو امریکی تفتیش کاروں کے ساتھ تعاون کررہے تھے ۔جنوری ۲۰۰۸ء عراق میں
تعینات امریکی وزارت خارجہ کے ایک سابق اہل کار مارشل آدم سے جب بلیک واٹر
کے متعلق پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا ”میں نے دیکھا وہ لوگ(بلیک واٹر
)لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کررہے تھے اور گاڑیاں جلارہے تھے اور یہ سب
ایک ایسے وقت میں جب اس کی بالکل کوئی وجہ اور ضرورت نہ تھی ۔ امریکی ثقافت
میں کرائے کے قاتلوں کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ تو بھاڑے کی بندوقیں ہیں
اور بس“۔
بلیک واٹر کی کہانی اس کی اپنی زبانی
کلارک بلیک واٹر کے بانیوں میں سے ہے وہ عراق میں بلیک واٹر کے کام کے بارے
میں کہتا ہے ھم امریکہ میں ہمیشہ قوانین و ضوابط سے ڈرتے رہتے ہیں لیکن تو
بغداد میں اس خوف کو اتار کر دور پھینک دے۔ضروت کے وقت لازمی ہے کہ تیری
تین ھزارپونڈگاڑی اسلحہ بن جائے ،قتل کرو مارو اور بھاگ جاؤ۔میری اس بات پر
یقین کرو کہ یہاں کوئی پولیس تمہارے پیچھے گھر تک نہیں آئے گی ۔
بلیک واٹر کے بانی پرنس اریک سے جب پوچھاگیا کہ انہوں نے اپنے اس اہل کار
کو عراق سے کیوں جانے دیا جس نے عراقی نائب صدر کے محافظ کو قتل کیاتھاتو
پرنس کا جواب تھا ”ہم اپنے اہل کار کو کوڑے نہیں مار سکتے ،اور نہ ہی اسے
قید کی سزا دے سکتے ہیں “۔اور جب اس سے کانگریس کے ایک رکن نے بلیک واٹرکے
مالی واسائل کے متعلق پوچھا تو اس نے بتانے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ
ہم پرائیویٹ سیکٹر کا حصہ ہیں اور یہ ہمارا خاص راز ہے ۔پرنس نے اس بات پر
بھی برہمی کا اظہار کیا میڈیا اور لکھاری انہیں کرائے کے قاتل کہتے ہیں جب
کہ ہمارا ایک ایک اہل کار خواہ اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو مخلص امریکی
ہے ۔اس نے ان دعووں کی بھی تردید کی کہ بلیک واٹر دائیں بازو کے عیسائی
طبقوں کی نمائندگی کرتی ہے ۔اس کا کہنا تھا ،سنو!میں کٹر عیسائی اور مذہبا
کیتھولک ہوں لیکن بلیک واٹر میں کام کرنے کے لیے کسی کا کیتھولک ہونا ضروری
نہیں ہے۔
بشکریہ :الجزیرا ڈاٹ نیٹ
ترجمہ:ابو ھشام
اشراف:محمد عبد اللہ |