عوام باخوبی جان چکی ہے کہ ان کو تبدیلی اور احتساب کے
نام پر دھوکا دیا گیا ہے۔حکمرانوں کی نا اہلی کی وجہ سے پاکستان اس نہج پر
پہنچ چکا ہے، جہاں اسے دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے لئے برسوں درکار
ہوں گے ۔آج جس طرح کرپشن ملک بھر میں نا سور بن کر پھیلی ہے ،اس کی مثال
پہلے نہیں ملتی ۔پہلے ناجائز کاموں کے لئے رشوت دی جاتی تھی ،لیکن اب جائز
اور حق پر بھی رشوت دینا پڑ رہی ہے ۔ہر کوئی لیڈر بنا ہے اور چاہتا ہے کہ
میری ’’جے جے کار‘‘ہو۔تھانے کلچر میں زیادہ خرابی آ چکی ہے ۔جہاں آئے روز
بھیانک ظلم اور تشدد سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں ۔ہر شخص کی تذلیل ہو رہی ہے ۔معیشت
برباد کر کے رکھ دی ہے ۔ملک و قوم کو آئی ایم ایف کی غلامی میں دھکیل دیا
ہے ۔عوام ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں میں اپنی اپنی نوکریاں اور
گھر ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئے ہیں ۔جو لیڈر وعدہ خلافی (یو ٹرن) کو کامیابی
کی کنجی سمجھتا ہو۔اس لیڈر سے دیانتداری ، انصاف ،جمہوریت اور عوامی خدمت
کی امید رکھنا خام خیالی ہے ۔انصاف کے نام پر حکومت ہتھیانے والوں نے انصاف
کے لئے عوام کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا ہے ۔آج جس طرح سے ملک میں ظلم و
جبر کی حکمرانی ہے۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں ۔جس پر غور کر کے ان کی اصلاحات
کرنے کی ضرورت ہے ۔
عوام اپنے حقوق اور اہمیت سے نا آشنا ہے ۔ظلم وجبر کو سہنے کی عادت بنا لی
گئی ہے ۔عوام غلامی میں رہتے رہتے عزت نفس اور حق تلفی سے نا آشنا ہو چکے
ہیں۔ہر طبقہ فکر اپنے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑ چکا ہے ۔ملک کو اندھیروں سے
روشنی میں لانے ،امن و امان اور بھائی چارے کی فضا کو بڑھانے کی طرف کوئی
کام نہیں کیا گیا۔ہر قومی مفاد پر سودے بازی کی روایت عام ہے ۔موجودہ حالات
میں اس کی مثال بلاول بھٹو نے ایک بار پھر دی ہے ۔مولانا فضل الرحمان
اکتوبر میں اسلام آباد میں دھرنے کے لئے آ رہے ہیں ۔انہوں نے اپوزیشن کی
تمام پارٹیز کو ساتھ دینے کا کہا ہے ۔وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ
انتخابات میں کھلی دھاندلی کی گئی ہے ۔پی ٹی آئی کی حکومت بنائی گئی ہے ۔عمران
خان کو کرسی پر بیٹھایا گیا ہے اور انہیں بیٹھانے والوں نے کرسی پر تو
بیٹھا دیا،مگر ان کی نا اہلی نے ملک کو دبو کر رکھ دیا ہے ۔اب ان سے جان
چھڑانی نا گزیر ہے ۔اگر سیاسی پارٹیوں کا مؤقف ایک ہے تو پھر پیپلز پارٹی
کو چاہیے تھا کہ جے یو آئی کی بھر پور حمایت کی جاتی ۔مارچ اور دھرنے میں
برابر شریک ہوا جاتا ۔اگر ساری تکلیف مولانا فضل الرحمان نے اٹھانی ہے تو
باقی اپوزیشن پارٹیز کوکوئی حق نہیں بنتا کہ وہ پاکستان کی عوام کی لفظی
خیر خواہی کریں ۔انہیں صرف عوام پر حکمرانی کرنے کا شوق ہے ،عوامی مسائل
میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔
پیپلز پارٹی کیوں کہ ڈیل اور ڈھیل کے چکر میں پڑی ہوئی ہے ۔سیاست کرنا ان
کے لئے مشکل بنا دیا گیا ہے ۔پرانی سیاسی قائدین کوسیاسی میدان میں اناڑی
نے بچھاڑ دیا ہے۔اس کی وجہ ان کا تکبر اور خوداعتمادی کا غلبہ ہے ۔سیاست
میں کچھ بھی ممکن ہونے کو سمجھنے والے کبھی اتنی بڑی غلطی نہیں کر سکتے
۔میاں نواز شریف کو اندازہ تھا کہ اونٹھ کس جانب بیٹھ رہا ہے ،مگر انہوں نے
اپنے ارد گرد کے پیادوں پر تکیہ کیا ۔جنہوں نے غلط مشاورت سے شریف فیملی کو
ان مشکلات میں ڈالنے میں مدد دی ۔آج وہی ہم نوا آزاد ہواؤں میں گھوم رہے
ہیں ،لیکن جسے اپنا قائد کہتے ہیں وہ پابندِ سلاسل ہے ۔اس کی ساری عمر کی
عزت داؤ پر ہے ۔
میاں نواز شریف کو جس انداز میں پیش کیا گیا ۔یہ پہلی بار نہیں ہوا،لیکن
پھر انہیں دوبارہ وزارت اعظمٰی سونپی گئی،چوں کہ میاں نواز شریف سیاسی قائد
تھے ۔وہ لاکھ ذاتی مفاد میں آ جائیں ،انہیں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے
کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔انہیں دوبارہ حکومت بھی چاہیے تھی ۔انہیں اپنے ولی عہد
کو بھی سیاست کی بلند ترین سطح پر لے کر آنا تھا ۔اس لئے انہیں ان آوازوں
کو دبانا پڑا،ان کے مفادات کو محدود کرنا پڑا ،تبھی ممکن تھا کہ عوام کو
بھی کچھ مل جاتا ۔لیکن مقابل بھی طاقت ور تھے،انہیں ایسا کرنا پسند نہیں
تھا ۔یہی وجہ تھی کہ میاں نواز شریف نے مقابلہ کرنے کی ٹھانی ۔اب مقابلہ
صفوں کے ساتھ ہوتا ہے اور صفوں میں میر جعفر اور میر صادق کی تعداد زیادہ
ہو تو نتیجہ یہی نکلتا ہے جو میاں نواز شریف کے ساتھ ہوا ہے ۔اب تمام شاہد
خاقان عباسی کی طرح جیدار نہیں ہوتے ۔جن کے خون میں وفاداری اور ثابت قدمی
کا پیکر ہو۔اگر ملک کے چلانے والے واقعی مخلص ہوتے تو شاہد خاقان عباسی
جیسے اعلیٰ ترین شخصیت کو جیل کے اندر نہیں بلکہ ملک و قوم کی بھلائی کے
لئے استعمال کرتے ۔ان جیسا شریف النفس اور قابل شخصیت پاکستان کو بہت بڑا
فائدہ دے سکتی تھی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج احتساب کے نام پر سیاسی
انجینئرنگ ہو رہی ہے۔جو کبھی بھی مثبت سوچ نہیں ہو سکتی ۔ان حالات میں نفع
نہیں نقصان ہی نقصان ہے ۔
عمران خان کی حکومت میں ظلم کرنے والوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ۔ 22کروڑ
عوام کی عزت خطرے میں ہے۔یاد رہے کہ وقت اور لہر کسی کا انتظار نہیں کرتی
۔نہ جانے کب ہوا الٹی چلنے لگے اور طوفان بڑھتا جائے ۔ایسا واقعہ پہلی بار
رونما نہیں ہوا۔جس کرسی پر آج عمران خان بیٹھے ہیں اس پر بہت لوگ باری باری
بیٹھ چکے ہیں ، سب بیٹھنے والوں کو یقین تھا کہ کوئی دوسرا ان کا نعم البدل
نہیں ہو سکتا۔لہٰذا یو ٹرن کو معمول بنائے رکھا،لیکن ایک دن ان کو جانا تھا
اور متبادل کرسی پر براجماں ہونا تھا ۔عمران خان کو کرسی پر بیٹھانے والوں
نے انہیں شاید یہ نہیں بتایا کہ کرسی مضبوط ہونے کے ساتھ بے وفا اور بے رحم
بھی ہوتی ہے ۔جہاں کرسی رکھی جاتی ہے وہاں سے دوسرا راستہ جیل میں کھلتا ہے
۔عمران خان آخری چوائس ہے اس خوش فہمی سے جتنی جلدی نکل آئیں اچھا ہے
،وگرنہ حالات ایسے ہیں کہ منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی۔
اقتدار میں آئے 14ماہ گزر چکے ہیں۔نہ میعشت سنبھلی اور نہ ہی بدنظمی کا جن
پر ملک بھر میں قابو پایا جاسکا۔مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے
۔ہر فرد کے چہرے پر مایوسی کے سائے لہرا رہے ہیں ۔وقت بہت کم ہے ۔سمجھ سکتے
ہو تو درست ورنہ کال کوٹھری تو ضرور ملنی چاہیے ۔جہاں عام قیدی کی طرح
زندگی کے باقی دن گزارنے چاہیے اور مثال قائم ہونی چاہیے کہ یو ٹرن سے بڑا
جرم اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ یو ٹرن وعدہ خلافی کا دوسرا نام ہے ۔
|