وقت گذرنے کے ساتھ وطن عزیزسمیت عالمی سطح پربھی حالات
میں تبدیلی آتی جارہی ہے۔ ملک کی اندرونی صورتحال کی جانب دیکھا جائے تو
سیاسی جماعتیں بظاہر اک سطح پر نظر آتی ہیں جبکہ انہی سیاسی و مذہبی
جماعتوں کاجائزہ لیا جائے تو ان میں اتفاق دور دور تک نظر نہیں آتا ہے۔
حکومت کو گرانے کیلئے گر ایک جماعت کمر کس رہی ہے تو باقی جماعتیں ان کا
زبانی ساتھ دے رہی ہیں۔ ماضی میں بھی یہ ہوتا آیا ہے کہ حزب اختلاف کی
جماعتیں کبھی بھی مرکزی حکومت سے متفق نہیں رہی ہیں۔اسی روایت کو موجودہ
جماعتیں جو ماضی میں حکومت بھی کرتی رہی ہیں، ان پر عملدرآمد کررہی ہیں۔ جب
خود حکومت کرتی ہیں تو انہیں سب ٹھیک نظر آتا تھا، اس وقت انہیں کسی کی نہ
آواز سنائی دیتی اور نہ ہی کوئی کام خراب نظر آرہا ہوتا۔لیکن اس وقت چونکہ
وہ حکومت میں نہیں ہیں اسی لئے وہ صرف سب غلط ہے کا راگ الاپ رہی ہیں۔
تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کیلئے موجودہ صورتحال قابل فکر ہے، قائدین
اگر پابند سلاسل ہیں تو ان ہی جماعتوں کے دیگر قائدین کو چاہئے کہ وہ اس
صورتحال پر غور کریں اور ملک کے مفاد میں کام کریں، حکومت کا ساتھ ایسے کسی
بھی نقطے پر ساتھ دیں جوملکی مفاد میں ہووہاں پر اختلاف کا ہونا قطعی مناسب
نہیں ہے تاہم ملک کے اندر کی صورتحال اس وقت کچھ ایسی ہی کیفیت سے گذر رہی
ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تلک مسئلہ کشمیر پر اس قدر متحرک گفتگو نہیں
ہوئی اور نہ ہی اس انداز میں اس مسئلے کو آج تک اٹھایا گیا جس انداز میں
موجودہ حکومت نے ان دنوں اٹھایا ہے۔ عالمی سطح پر بھارت کے اصل چہرے کو ان
کے مظالم کو وزیراعظم حکومت، ذرائع ابلاغ اورپوری عوام اپنے احتجاج کے
ذریعے دنیا کو دیکھا رہی ہیں۔ بھارتی وزیراعظم مودی نے مقبوضہ کشمیر میں
چالیس سے زائد روز سے ہوگئے ہیں اور کرفیو لگا رکھا ہے۔ نوجوانوں کو گرفتار
کیا جارہا ہے اور ماؤں، بہنوں،بچوں اور بزرگوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے
جا رہے ہیں۔اک بھیانک سوز خاموشی وادی کشمیر میں چھائی ہوئی ہے۔بھارتی
فوجیوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ نولاکھ سے زائد کی تعداد ہونے کے باوجود انہی
پر یہ خوف طاری ہے تو کیوں طاری ہے؟ انہیں اچھی طرح سے یہ معلوم ہوچکا ہے
کہ اب کشمیر میں مظالم ڈھائے رکھنا ان کے بس کی بات نہیں رہی،ان کا بکتربند
گاڑیوں میں اسلحے سے لیس ہوکر کشمیر کی سڑکوں پر گھومنا اب آسان ہی نہیں
بہت مشکل ہوچکاہے، وہاں کی عوام میں وہ کس طرح وقت گذار رہے ہیں ان کیلئے
یہ اب بہت مشکل ہوگیا ہے۔
اس صورتحال کے باوجود ملک کی سیاسی جماعتیں حکومت کے ساتھ اس نقطے پر متفق
نہیں، ان کا متفق نہ ہونا قطعی نامناسب ہے اور انہیں اسی عوام کے سامنے
اپنے اس عمل کا جواب دینا پڑے گا۔ ملک کی عوام اب بہت آگے بڑھ چکی ہے اور
ان میں شعور تیزی سے بڑھتا جارہاہے۔ ان کے جذبات سے عالمی سطح پر ملک کے
خلاف سازشیں کرنے والوں کو احساس ہوگیا ہے کہ یہ پاکستانی عوام اب کس نہج
پر جارہی ہے۔اس کے ساتھ وطن عزیز کی افواج بھی ہردم ہروقت تیار ہیں اور
انکے اک فوجی جوان سے لیکرسپہ سالار تک یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک کی حفاظت
کیلئے ہر دم تیار ہیں اور بہترین انداز میں ملک کی حفاظت جذبہ ہی نہیں
بھرپور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
ان حالات میں، پاکستان کے خلاف جو بھی ملک صف آراہیں انہیں اندازہ ہوچکاہے
کہ وہ اب کسی کمزور ملک کے خلاف نہیں بلکہ اک اسلامی ایٹمی ملک کے خلاف سوچ
رہے ہیں، ان کی سوچیں، منصوبے رکھنے کے ساتھ ختم بھی ہوتے جارہے ہیں۔ ایسی
صورتحال میں ملک کے ہر باشندے کی یہ شدید خواہش ہوگی کہ پوری قوم اور اسی
قوم کی تمام سیاسی،مذہبی، سماجی اور دیگر سب جماعتیں ملک کی بقا کیلئے ایک
صف میں کھڑے ہوجائیں۔تاکہ ملک کو احسن انداز میں آگے کی جانب بڑھایا جاسکے۔
ملک کے وزیراعظم،اس کے مشیروں انکی جماعت کے دانشوروں کو بھی ماضی پر نظر
رکھتے ہوئے ایسے اقدامات سے حکومت کواس کے وزیراعظم کو اشارے دینے چاہئیں
تاکہ اسے فیصلہ کرنے میں قدرے آسانی ہو۔
کشمیر کے مسئلے کے ساتھ اک اور معاملہ بھی انہی مشیروں کو مدنظر رکھنا
چاہئے اور وہ معاملہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ہے جو کہ برسوں سے
امریکی قیدمیں ہیں اور اس کے بچے اور والدہ سمیت بہن بھی اسکی باعزت رہائی
اور جلد واپسی کیلئے اک طویل مدت سے جدوجہد کررہے ہیں۔ اوپر کی سطروں میں
یہ لکھا گیاکہ ماضی سے سبق حاصل کرنا چاہئے، اسی کومدنظر رکھتے ہوئے عمران
خان کے دانشورو ں کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس ملک پر جب سابق فوجی آمر پرویز
مشرف کی حکومت تھی تو اس وقت ڈاکٹر عافیہ کو امریکیوں کے حوالے کیا گیا۔ اس
کے بعد اس ملک کا صدر آصف علی زرداری تھا جس نے ڈاکٹر عافیہ کو واپس لانے
کیلئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ اس کا دور حکومت بھی گذر گیا ان کے بعد
تیسری باروزیراعظم بننے والے نوازشریف کا دور حکومت آیا جس نے ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کے اہل خانہ سے وعدہ کیا کہ سودنوں کے اندر وہ قوم کی بیٹی کو وطن
واپس لے آئینگے۔ لیکن وہ وعدہ پوران نہیں ہوا اور ان کی حکومت بھی چلی گئی۔
ان تینوں رہنماؤں کی ماضی سبھی کے سامنے ہیں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے
سے ان کے کردار بھی عیاں ہیں، اب انہی کے کرداروں کے ماضی کو دیکھیں اور
دوسری نظر ان کے حال پر ڈالیں، تینوں کے حال سب کے سامنے ہیں۔ وعدے کے
بھولنے والا آج جیل میں ہے اور اسی کی طرح زرداری بھی پابند سلاسل ہے، صحت
خراب ہوتی جارہی ہے۔ ان دونوں کے ساتھ پھر پرویز مشرف کا بھی حال دیکھیں وہ
بھی بستر علالت پر پردیس میں ہیں۔ اس ملک میں نہ اس کی جماعت رہی اور نہ ہی
اس کے چاہنے والے رہے ہیں۔۔۔
اس پس منظر میں وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ جس قدر اہمیت وہ کشمیر کے
معاملے کودے رہے ہیں اورپوری عوام ان کا اس معاملے میں ہر طرح کاساتھ رہی
ہے، امید واسق ہے کہ اس جدوجہد کے دورس مثبت نتائج ضرور برآمد ہونگے،ان شاء
اللہ۔ اسی طرح عمران خان کو چاہئے کہ وہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی
جلد رہائی کیلئے بھی آگے بڑھیں،قدم اٹھائیں اور امریکی صدر کو براہ راست
فون کرکے یہ کہیں کہ وہ قوم کی بیٹی کو باعزت انداز میں پاکستان روانہ
کردیں۔ ان کے اس قدم سے پوری قوم میں خوشی کے جذبات آئینگے اور وہ حکومت کا
ہر طرح سے ہر محاذ پر ساتھ دیں گے۔
عالمی سطح پر حالات میں تبدیلی دوسوسے زائد اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے
سامنے ہیں، ان بدلتے حالات میں پاکستان کا کردار اہمیت کا حامل ہے،
افغانستان کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتے کرتے یکدم امریکہ کا رک جانا بھی
سب کے سامنے ہے اور اسی طرح بھارتی کے اندرونی حالات بھی میں تبدیلی بھی
عیاں ہیں۔ روس اور چین کے معاملات کے ساتھ یورپی ممالک کی سی پیک پر نظریں
بھی ہیں اور ان بدلتے حالات میں پاکستان کے کردار کی اہمیت بھی سب کے سامنے
ہے۔
بدلتے عالمی موسموں کا یہ تقاضا ہے کہ ملک کی تمام خزب اختلاف ملک کی بقا
کیلئے حکومت کا ساتھ دے۔ اسی طرح وزیراعظم قوم کی بیٹی کو بھی جلد واپس
بلوائیں اور افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بھی اپنا موثر کردار ادا
کریں۔۔۔وقت نہایت مناسب ہے،اس وقت کو گذرنے سے پہلے اہمیت کے حامل اقدامت
کو کرگذریں یہ عمل مناسب ہی نہیں بہت اچھاعمل ہوگا اور اسے مدتوں یاد رکھا
جائیگا۔۔۔
|