عرب حکمرانوں کی بے اعتنائی اور بے وفائی پر دل خون کے
آنسو روتا ہے کس طرح ہزاروں مسلما نوں کے قاتل اعظم نریندر مودی پر ان کی
نوازشوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ادھر کشمیر میں کشمیریوں کو بھارت میں بے دردی
سے ذبح کر رہا ہے تو ادھر گجرات کے قصائی کو اعلیٰ اعزازات دیئے جارہے ہیں
۔دوبئی میں مندر کی چابی مودی کو دی گئی ، ابو ظہبی میں دنیا کا سب سے
بڑامندر بنا کر تحفے میں دیا جانے کے انتظامات ہو رہے ہیں ۔ کیا یہ ہے مسلم
امہ جس کے بارے میں ہمارے نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند
ہیں اگر جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو ساراجسم درد میں مبتلا ہو
جا تاہے ۔کشمیریوں پر عرصہ ء درازسے احاطہ زندگی تنگ کر تے ہوئے مظلوم وادی
کو ایک بہت بڑے عقوبت خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، کشمیری عورتوں کا ریپ
بھارتی فوجیوں کا ہتھیار بن چکا ہے ۔نوجوان لڑکیوں کو رات کے اندھیرے میں
اٹھا لیا جاتا ہے اور انہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جا تا ہے صرف
کشمیر میں ہی نہیں بلکہ برما ، فلسطین ،اورشام میں مسلمان عورتوں کو وحشی
درندے ، بھیڑئیے نوچ رہے ہیں ، ہماری عزت مآب بہنوں کی عصمتیں لوٹی جا رہی
ہیں اور ہمارے مسلم حکمران غفلت کی نیند میں ڈوبے ہوئے ہیں۔کہنے کو تو 65
سے زائد اسلامی ریاستیں ہیں جن میں امیر و کبیر ریاستیں بھی شامل ہیں جن کی
دولت کے بل بوتے پر یہود و ہنود نے دنیا کو مسلمانوں کے لئے جہنم بنا کر
رکھ دیا ہے۔کاش آج طارق بن زیاد ززندہ ہوتا جس کی ہیبت و دہشت سے شاہ اندلس
نے خودکشی کر لی تھی ۔حجاج بن یوسف بھی توایک عرب حکمران تھا جس نے دیبل
(سندھ )کی ایک عورت کی پکار پر لبیک کہا اور سپہ سالار محمد بن قاسم کو
ظالم راجہ داہر اور اسکی فوج کی سرکوبی کے لیے بھیجا اور اسی عظیم سپہ سالا
رکی بدولت سندھ میں اسلام کی روشنی پھیلی۔ خلیجی ریاستوں کے سربراہوں کی
رگوں میں مسلمان لہو ہے پھر انہیں کشمیر کی عورتوں کی آہ وپکار کیوں سنائی
نہیں دے رہی؟۔ کیوں وہ گونگے ، بہرے بن گئے ہیں اور انہوں نے بھارت کی
بربریت و درندگی پر چپ سادھ لی ہے۔34 اسلامی ملکوں کی اتحادی فوج کہاں ہے
جو مسلمانوں کی حفاظت کے لئے بنائی گئی تھی اس کاتعلق صرف عرب ریاستوں کے
تحفظ سے ہے دنیا کے دیگر حصوں میں بسنے والے مسلمانوں کی جان ومال ، عزت
وآبرو سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ ہم جنگ کے خواہش مند
نہیں بلکہ امن پسند قوم ہیں لیکن کیا اس امن کے لئے اپنے مسلمان بھائیوں کو
گاجر مولی کی طرح کٹتے ہوئے دیکھتے رہیں ۔انہیں کشت وخون میں نہلایا جاتا
رہے اور ہم امن کا راگ الاپتے رہے۔مجاہد اسلام ، فاتح افغانستان ،عظیم سپہ
سالار جنرل ر حمید گل ؒ فرماتے تھے کہ ہم جنگ کے خواہشمند نہیں ہیں لیکن
اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو پھر چین وعرب ہمارا ، ساراہندوستا ن ہمارا ہو
گا۔مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کے بدترین مظالم پر بھارتی اخبار ت بھی
خاموش نہیں رہے ۔ اخبار ہندو نے بھارتی وادی کی صورتحال خوفناک قراردیدی
۔دی ہندو نے اپنے اداریے میں لکھا کہ یہ تصور کرنا کہ ا یک کھلا معاشرہ،
ایک آزاد میڈیا کسی بھی طرح قومی سالمیت اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے، آمریت
کی توجیہہ سے کم نہیں،ایڈیٹوریل میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ بھارت کو
صحافت میں تشویشناک حد تک معیار میں کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔برطانوی
اخبار انڈی پینڈینٹ نے مقبوضہ وادی کودنیا کا سب سے بڑا ملٹری زون قرار
دیدیا۔ اخبارنے تہلکہ خیز انکشاف کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں خون کی ندیاں
بہائی جا رہی ہیں اور اب کشمیریوں کا کہنا ہے کہ 5 اگست سے جاری اس نسل کشی
میں شہید ہونے والے کشمیریوں کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا
ہے ،دوسری طرف بھارتی فوج اور حکومت بہت ڈھٹائی سے کہتی پھر رہی ہے کہ
کشمیر میں 5 اگست کے بعد ایک ہلاکت بھی نہیں ہوئی۔ 5 اگست سے ابتک کشمیر
میں لاتعداد انسانوں کا قتل عام کیا جا چکا ہے،اس دوران شہید ہونے والے
کشمیریوں میں نوجوان ہی نہیں بچے ، بزرگ اور خواتین بھی شامل ہیں لیکن مکمل
میڈیا شٹ ڈاؤن کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی کے
اعداد و شمار منظر عام پر نہیں آ رہے۔اخباردی انڈی پینڈینٹ نے سوال اٹھایا
ہے کہ اگر کشمیر میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تو شہریوں کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ
جاری کرنا کیوں بند کر دیئے گئے ہیں؟۔ کشمیر کا محاصرہ جاری ہے ٹیلی فون
رابطہ دنیا سے منقطع ہے خبروں کا مکمل بلیک آؤٹ جاری ہے کرفیو چل رہا ہے
پورا علاقہ ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے۔ خوراک کا ذخیرہ ختم ہو
چکا ہے۔ سڑکیں بند ہیں ایمبولینس کو بھی گزرنے کی اجازت نہیں۔ انڈیا کے
بدنام زمانہ جاسوس جو آجکل نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ہیں وہ کئی دنوں سے
کشمیر میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں کشمیری احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں گھروں میں
گھس کر نوجوانوں کو اٹھا لیا جاتا ہے لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں سنگین خلاف ورزیوں پر چیخ رہی ہیں امریکی
اخبار نیو یارک ٹائمز نے کشمیر کو جہنم قرار دیا مگر پھر بھی دنیا خاموش
ہے۔ بھارتی فوج نے درندوں کوبھی پیچھے چھوڑ دیاہے4 کشمیریوں کوفوجی کیمپ
بلا کرمارا پیٹا گیا ،تشدد کے دوران مائیک رکھ کرچیخیں پورے علاقے کوسنوائی
گئیں ، دہشت پھیلانے کے لیے بھارتی فوج نے شیطان کوبھی شرمادیا ہے۔واضح رہے
کہ بھارت اسرائیلی طرز کی جنگی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے۔ پورے مقبوضہ کشمیر
کو کھنڈر بنایا جارہا ہے۔ مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے کشمیریوں کی نوجوان
نسل اپاہج، نابینا اور ذہنی و جسمانی معذور ہورہی ہے۔ یہ سب منظم سازش کے
تحت کیا جارہا ہے۔ کشمیری قائد سید علی گیلانی نے کیمیائی ہتھیاروں کے
استعمال کی عالمی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، تاہم جب عالمی قوتیں
خود بھارت کی سرپرستی میں مصروف ہوں تو پھر ایسے ظلم و دہشت گردی کا سد باب
کون کرے گا؟۔1993ء میں عالمی کنونشن کے تحت کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر
پابندی لگائی گئی۔ یہ معاہدہ 1997ء میں نافذالعمل ہوا اور 192ملک اس کنونشن
کے فریق ہیں، لیکن افسوس کہ امریکا، یورپ اور دیگر عالمی قوتیں دوسروں کو
تو ان قوانین کا پابند بنانے کی باتیں کرتی ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں
کرتیں اورکشمیر سمیت فلسطین و دیگر مسلمان ملکوں میں ان ہتھیاروں کا
استعمال جاری ہے۔ لیکن غاصب بھارت کو چونکہ مکمل امریکی و صہیونی سرپرستی
حاصل ہے، اس لیے وہ عالمی قوانین کو روندتے ہوئے کھلے عام مہلک ہتھیاروں کا
استعمال کررہا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے۔ بھارت
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والے 38 ممالک میں شامل ہے۔ سیکرٹری جنرل
اقوام متحدہ انتونیو کی جاری کردہ رپورٹ میں بھارت کا نام بھی شامل ہے۔
گذشتہ 29 برسوں میں 8 ہزار سے زائد کشمیر لاپتہ ہوئے۔ مقبوضہ وادی میں
ہزاروں گمنام قبریں دریافت ہوئیں۔ شبہ ہے گمنام قبریں بھارتی فورسز کی
حراست سے لاپتہ افراد کی ہیں۔ بھارتی صحافی رعنا ایوب نے بھار تی گھناؤنے
مظالم بے نقاب کرتے ہوئے ٹویٹ میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر سے ابھی لوٹی ہیں،
مقبوضہ وادی میں جو دیکھا وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ بھارتی فورسز
کی جانب سے 12 سالہ بچے کو حراست میں لے کر پیٹا جارہا تھا، خواتین کے ساتھ
زیادتی ہورہی ہے۔ رعنا ایوب نے کہا کہ لڑکوں کو الیکٹرک شاکس دئیے جا رہے
ہیں، ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے اندر بھارتی میڈیا کے لیے جو غصہ اور
نفرت ہے وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی ہے۔بی بی سی کے رپورٹر نے مقبوضہ کشمیر کے
جنوبی اضلاع کے علاقوں کا دورہ کیا جہاں عوام نے انہیں بھارتی افواج کی
جانب سے ڈھائے گئے مظالم کی داستانیں سنائیں۔ رپورٹ کے مطابق کشمیریوں نے
رات گئے بھارتی چھاپوں، مار پیٹ اور تشدد کی ملتی جلتی کہانیاں سنائیں اور
بھارتی سکیورٹی فورسز پر مارپیٹ اور تشدد کے الزامات لگائے۔ مقبوضہ وادی کے
محصور شہریوں نے یہ بھی بتایا کہ آرٹیکل 370 ختم کرنے کے متنازع فیصلے کے
چند گھنٹوں بعد ہی فوج گھر گھر گئی، بھارتی فوج نے راتوں میں چھاپے مار کر
گھروں سے لوگوں کو اٹھایا اور سب کو ایک جگہ پر جمع کیا۔ شہریوں نے بتایا
کہ بھارتی فوج نے ہمیں مارا پیٹا، ہم پوچھتے رہے ہم نے کیا کیا ہے لیکن وہ
کچھ بھی سننا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا اور بس ہمیں مارتے
رہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق شہریوں نے بتایا کہ بھارتی فوج نے ہمیں
لاتیں ماریں، ڈنڈوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیئے، تاروں سے پیٹا، جب بیہوش
ہو گئے تو انہوں نے ہمیں ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیئے، بھارتی
فورسز نے ہمیں ڈنڈوں سے مارا اور ہم چیخے تو انہوں نے ہمارے منہ مٹی سے بھر
دیئے۔ ایک کشمیری نوجوان نے بتایا کہ میں خدا سے موت کی دعا کر رہا تھا
کیونکہ یہ تشدد ناقابل برداشت تھا، بھارتی فورسز سے کہا کہ ہم پر تشدد نہ
کریں، بس گولی مار دیں۔ شہری نے بتایا کہ سکیورٹی اہلکار پوچھتے رہے کہ
پتھراؤ کرنے والوں کے نام بتاو اور وارننگ دی کہ کوئی بھی بھارت مخالف
مظاہروں میں شرکت نہ کرے۔ کشمیری کوایسے مارتے ہیں جیسے جانوروں کو مارا
جاتا ہے۔ بھارتی فوجی انہیں انسان ہی نہیں سمجھتے۔ مقبوضہ وادی کے ڈاکٹرز
صحافیوں سے کسی بھی مریض کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے۔ بھارتی فورسز نے
اگست 2019 ء کے دوران خاتون کمسن بچے سمیت 16 کشمیری نوجوانوں کو شہید کر
دیا ہے۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی مقبوضہ کشمیر پہنچ گئے ہیں۔ بھارتی اخبار
نے لکھا ہے کہ اسرائیلی سیاحوں کی کثیر تعداد اب لیہہ کے سارے علاقہ میں
سڑکوں سے لے کر ہوٹلوں تک اور رستورانوں سے بودھ راہبوں کی خانقاہوں تک ہر
جگہ موجود ہیں۔ مسلسل کرفیو سے میں کشمیریوں کی مزاحمت میں کمی نہ آئی
ساڑھے چار ہزار سے زائد زیرحراست کشمیریوں پر کالا قانون لاگو کیا گیا۔
بھارتی فوج کے ہاتھوں 467 کشمیری زخمی بھی ہوئے، 14 خواتین کی بے حرمتی کی
اور فوج نے 31 گھر تباہ کردیئے۔ گرفتاریوں نے کشمیریوں خاندانوں کی زندگی
تباہ کر دی۔ جیل کے گیٹ پر بچوں سے ملنے کیلئے آنے والے والدین کی لمبی
قطاریں لگی ہوئی ہیں۔کشمیرمیں بھارتی فوج کی تازہ بربریت کا سب سے المناک
پہلو یہ ہے کہ کشمیرکی نوجوان نسل کی بینائی چھینی جارہی ہے ۔سری نگرکے
اسپتال ایسے زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں کہ پیلٹ گن کے استعمال سے جن کی آنکھوں
کی بینائی چھین گئی۔کئی زخمیوں میں پلیٹ آنکھ کے ایک طرف گھسا ہے اور دوسری
طرف واپس نکلا ہے۔ پیلٹ لگنے سے زخمی کثیر تعداد ان نوجوانوں کی ہے جو
سکولوں میں زیر تعلیم ہیں اور جن کی عمر 25سال سے زائد نہیں ہے۔ستم ظریفی
یہ ہے کہ یہ نوجوان اپنی شناخت بھی ظاہر نہیں کر پارہے ہیں کیونکہ بھارتی
فورسزنے اسپتال میں ایک طرح کامارشل لاء لگارکھا ہے اورہر آنے جانے والے پر
نہ صرف نظر رکھی جارہی ہے بلکہ انکے نام بھی درج کئے جارہے ہیں۔ اسکے علاوہ
دیگر ایسے سینکڑوں زخمی بھی یہاں لائے گئے،جنہیں جسم کے اوپروالے حصے میں
کو گولیاں لگیں ہیں۔ریاستی دہشت گردی کی انتہاکرتے ہوئے بھارتی فورسز بیڈوں
پروینٹی لیٹر،آکسیجن ،خون اور گلوکوزلگے ہوئے زخمیوں کواتارپھینک رہی ہے
اور تیمار داروں کی بھی شدید مارپیٹ کررہی ہے۔ زخمی شہریوں کو سرینگر
پہنچانے سے قبل پولیس و فورسز کے اہلکار راستے میں ہی بے تحاشا تشدد کا
نشانہ بنارہے۔تیماداروں نے جب چیختے چلاتے ہوئے بھارتی سفاک فوجی اہلکاروں
سے پوچھاتم کیوں زخمیوں کو بھی شہر پہنچنے نہیں دیتے ہیں تو غلیظ گالیاں
بکتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ ان زخمیوں کوزندہ نہیں رہنادیناہے جہانگیر احمد
انہیں نوجوانوں میں شامل ہے جس کی ایک ٹانگ میں گھٹنے تک بنڈیج لگا ہوا ہے
اور آنکھوں پر اگر چہ سیاہ چشمہ چڑا ہوا ہے تاہم اس کے نیچے پٹیاں لگی ہوئی
ہیں۔دسویں جماعت کا یہ طالب علم ٹانگ اور آنکھوں میں درد سے زبردست بے چینی
میں ہے اور بار بار بستر پر ہی موجود اسکی والدہ کی گود میں سر ڈال رہا ہے
تاکہ اس کو درد سے راحت مل سکے۔ لولاب کے16سالہ 10ویں جماعت کے طالب علم
جہانگیر کیلئے ٹانگ میں گولیوں اور آنکھوں میں پیلٹ کا درد نا قابل برداشت
ہے بھلے ہی والدہ کی آغوش میں سر چھپاکراس کم عمر نوجوان کو سکون حاصل ہوتا
ہے اور تھوڑی دیر کیلئے آرام بھی میسر ہوتا ہے۔جہانگیر کی والدہ کا کہنا ہے
کہ اس کا لخت جگر لعل پورہ میں اپنی ہمشیرہ کے گھر جا رہا تھا،جس کے دوران
اس پر پے در پے3گولیاں مار دی گئی اور بعد میں پیلٹ سے نشانہ بنایا گیا۔
|