زرافہ اور لمبی لڑکی اور دوسرے افسانے، افسانہ نگار، ناول
نگار ، کہانی کاراور ڈرامہ نگارر جناب اجمل اعجاز کے افسانوں کا مجموعہ ہے
۔ اعجاز صاحب کے بارے میں اگر میں یہ کہوں کہ وہ میرے ہمعصر وں میں سے ہیں
تو غلط نہ ہوگا ۔ پیشہ تو ان کا لاءف انشورنس میں ملازمت رہا لیکن شوق کی
تکمیل ان سے کہانیاں ، افسانے اور ناول لکھواتی رہی اور وہ لکھتے اور چھپتے
بھی رہے ۔ اخبارات ، رسائل و جرائد کے علاوہ ان کی کئی کتابیں جن میں
کہانیوں کے مجموعے اور افسانوں کے مجموعے شامل ہیں چھپ چکے ہیں جن میں ناول’
اصلی خزانہ‘، افسانوں کے مجموعوں میں ’ایک محقق تین ادیب‘ ،’ دوسرا جہنم
‘اور اب’ زرافہ اور لمبی لڑکی اور دوسرے افسانے‘ پیش نظر ہے، ڈراموں میں ’
بادل اور زمین‘،’ آس پنچھی‘،’ درد کا چاند‘ شامل ہیں ۔
یہ مجموعہ مجھ تک پہنچنی کی واردات کچھ اس طرح ہے جولائی کی 24کو انجمن
ترقی پسند مصنفین کی جانب سے جناب ارشد رضوی صاحب کی کتاب’ کچھ بے ترتیب
کہانیاں ‘ کے حوالے سے ایک نشست کے ایم سی اسپورٹس کلب میں منعقد تھی ۔ جس
میں مجھے بھی دعوت دی گئی بطور مہمان خصوصی شرکت کرنے کی، اب یہ روایت عام
ہوگئی ہے کہ ایک سے زیادہ مہمان ِخصوصی یا مہمان اعزاز کے طور پر مدعو کیا
جاتا ہے ۔ صدارت جناب نور الہٰدا شاہ صاحب کو کرنا تھی جو دیر سے آئے اس
لیے شاداب احسانی صاحب کی صدارت میں تقریب کا آغاز ہوگیا ۔ صاحب صدر کے
بائیں جانب ہ میں کرسی ملی جب کہ ان کے دائیں جانب اجمل اعجاز صاحب تھے ۔
نور الہٰدا شاہ صاحب دیر سے تشریف لائے اس لیے وہ ہمارے برابر ہی ٹک گئے ۔
تقریب کا حال تو کہیں چھپ ہی چکا ہوگا ۔ یہاں صرف اتنا بتانا مقصود ہے کہ
تقریب کے اختتام پر اجمل اعجاز صاحب نے اپنے افسانوں کا مجموعہ ’زرافہ اور
لمبی لڑکی اور دوسرے افسانے‘ کئی احباب کو عنایت فرمایا، آخر میں انہوں نے
چپکے سی ایک نسخہ ہ میں بھی دیا جسے ہم نے خاموشی سے شکریے کے ساتھ وصول کر
لیا ۔ نہ انہوں نے کچھ کہا کہ آپ کتاب پر کچھ لکھیں نہ ہی ہم نے ان سے
پوچھا کہ کیا ہ میں اس کا پوسٹ مارٹم بھی کرنا ہے یا اپنے ذاتی لائبریری
میں لے جاکر سجادیں ۔ جی چاہے تو پڑھ بھی لیں ۔ کافی دن یہ کتاب ہماری ان
کتابوں میں خاموش دہری رہی جن پر ہم نے کچھ لکھنا ہوتا ہے ۔ میں اجمل صاحب
سے پہلے سے متعارف نہیں ، بس لکھاری ہونے کا رشتہ ، جب کتاب دیکھی تو ایک
تعلق حیدر آباد کا نکل آیا کہ ان کی زندگی حیدر آباد میں گزری اور ہ میں
اپنی سسرال سے یہ شرف حاصل ہوا کہ ہم نے حجاب و قبول کے بعد کراچی سے
حیدرآباد کی خوب دوڑیں لگائیں ۔ آخر خار جب تھک گئے تو کسی ترکیب سے پوری
سسرال کو حیدر آباد سے کراچی منتقل کرادیا ۔ بات اجمل صاحب کے افسانوں کی
تھی ۔ ہم نے اپنی عادت کے مطابق اپنی فیس بک وال پر ’موصولہ کتب‘ کے عنوان
سے کتاب کا سرورق فوری ڈال دیا تھا ۔ اس لیے کہ کتاب پر تفصیل سے لکھنے کے
لیے وقت درکار ہوتا ہے ۔ احباب کی مہربانی ہے کہ وہ اپنی کتب مجھے تحفہ میں
دیتے ہیں ، بعض کہہ دیتے ہیں بعض کی خاموشی بتارہی ہوتی ہے کہ وہ خواہش
رکھتے ہیں کہ ان کی کتاب پر کچھ لکھا جائے ۔ چنانچہ ہم نے اجمل صاحب کے
انداز سے بھی یہی اخذکیا کہ ہم کچھ لکھیں اس پر ۔ لکھنے کا تعلق لکھاری کے
موڈ سے ہوتا ہے، وقت گزرتا رہا ، اس دوران کئی مضامین، تبصرے ، کالم لکھے ۔
آج اجمل صاحب کی کتاب ہاتھوں میں آہی گئی ۔
زرافہ اور لمبی لڑکی اور دوسرے افسانے‘ میں 20افسانے ہیں ، آخر میں
’’زرافہ اور لمبی لڑکی ‘ ہے جس پر مصنف نے کتاب کا عنوان بھی رکھا ۔ یہ
افسانہ دراصل ایک دراز قد لڑکے کی کہانی ہے جو ایک ہوٹل اور جائیداد کا
مالک ہوتا ہے ۔ طویل قامت شخص کو افسانے میں زرافے سے تشبیح دی ہے ۔ اس
طویل قامت کا قد چھ فٹ پانچ انچ ہوتا ہے ۔ قانون کی تعلیم حاصل کرکے وکالت
کا پیشہ اختیار کرتا ہے، والد کی جائیداد اور کاروبار کو بھی اسے دیکھنا
ہوتا ہے ۔ وکالت کے دوراس کی لیڈی اسٹینو مس لبنیٰ ایک سمجھدار لڑکی ہوتی
ہے جو اپنے کام محنت اور لگن سے انجام دیتی ہیں ، احسا ن صاحب کا ایک ہوٹل
بھی ہوتا ہے، وہ لبنیٰ کو ہوٹل کی ذمہ داریاں سونپ دیتے ہیں ، لبنیٰ ہوٹل
کو ترقی پر گامزن کردیتی ہے ۔ احسن کی والدہ لبنیٰ سے اس خواہش کا اظہار
کرتی ہیں کہ انہیں اپنے بیٹے کے لیے طویل قامت لڑکی چاہیے ۔ لبنیٰ کا اپنا
قد پانچ فٹ ہوتا ہے، لبنیٰ ان سے ان کی مدد کا وعدہ کرلیتی ہیں ۔ اسی دوران
لبنیٰ کو یہ ترکیب سوجھتی ہے کہ وہ احسن صاحب سے اپنی مدد کے لیے ایک
اسسٹنٹ رکھنا چاہتی ہے ۔ اس کی منظوری وہ اسے دیتے ہیں ۔ لبنیٰ اسسٹنٹ کے
لیے اشتہار تیار کرتی ہے جس میں امیدوار کا قد آورہونا بنیادی شرط ہوتی ہے
۔ اشتہار کے نتیجے میں تین لڑکیاں انٹر ویو دینے آتی ہیں ان میں عائشہ،
فرحانہ اور نازنین ۔ لبنیٰ مس نازنین کو قدآور ہونے اور خوبصورت ہونے کی
بنا پر اپنا اسسٹنٹ رکھ لیتی ہے اور رفتہ رفتہ تمام ذمہ داریاں بھی اسے
سونپ دیتی ہے ۔ لبنیٰ نے مس نازنین کا تعارف بھی احسن صاحب سے کرادیا ۔ ایک
دن وہ احسن صاحب کو بلاتی ہے اور ان سے کہتی ہے کہ وہ کام کر کر کے تھک گئی
ہے اس لیے وہ دو ماہ کی چھٹی پرجانا چاہتی ہے ۔ احسن صاحب اس کی چھٹی منظور
کر لیتے ہیں ، وہ چھٹی پر چلی جاتی ہے ۔ اس کے جانے کے بعد ہوٹل کے معاملات
کا گراف نیچے آنے لگتا ہے ۔ ایک دن اچانک احسن صاحب اپنی شادی کا انکشاف
کرتے ہیں ، نکاح اور ولیمہ کی تقریب کا اعلان کرتے ہیں ۔ جب دولھا اور دلھن
اسٹیج پر پہنچتے ہیں تو چھ فٹ پانچ انچ زرافے کے پہلو میں پانچ فٹ کی دلھن
فخر و تمکنت کے ساتھ خراما خراما چلی آرہی تھی ۔ لبنیٰ کا قد پانچ فٹ ہی
تھا ۔ افسانہ میں کسی قسم کا الجھاو، پیچیدگی، گھمبیر قسم کی باتیں نہیں ،
بہت سادہ الفاظ اور عام بول چال والے جملے ، کہانی میں تجسس پایا جاتا ہے،
پلاٹ مضبوط ہے ، انداز بیان افسانہ نگار کا سلیس اور سادہ ہے ۔
مجموعے کا پہلا افسانہ ’’سنگم ‘‘ ہے ، نرسنگ سے تعلق رکھنے والی دو لڑکیوں
کی کہانی ہے جن کے حالات ایک جیسے ہوتے ہیں ، ان کی دوستی وقت کے ساتھ گہری
ہوتی گی ۔ سسٹر ماہ رخ اور مس مہرین، ڈاکٹر سلمان نے ماہ رخ کو پرپوز کیا
مس مہرین کے ذریعہ ۔ ماہ رخ انکار کرتی ہے، مہریں اسے ہر طرح تیار کرنے کی
کوشش کرتی لیکن ماہ رخ کسی طور تیار نہیں ہوتی ۔ ماہ رخ کئی دن اسپتال سے
ڈیوٹی سے خیر حاضر رہتی ہے،اس کی دوست اس کے گھر پہنچ جاتی ہے جہاں اسے
معلوم ہوتا ہے کہ ماہ رخ اسپتال میں داخل ہے، وہ اسپتال کا رخ کرتی ہے
اسپتال کے کمرہ 30 میں داخل ہوتی ہے جہاں اس کی دوست ماہ رخ آنکھیں بند
کیے لیٹی ہوتی ہے ،وہ اس کی اٹینڈنٹ اس کی خالہ سے ملتی ہے ، اس نے کہا
خالہ کیا ہوا ، اس کی خالہ گویا ہوتی ہیں کہ اس کا آپریشن ہوا ہے اور یہ
لڑکی سے لڑکا بن گئی ہے ۔ مہرین حیرت میں ڈوب جاتی ہے ، وہ ایک دم چیختی ہے
جس سے ماہ رخ کی آنکھ کھل جاتی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا
ماہ ۔ ۔ ۔ باقی جملہ اس کے حلق میں اٹک جاتا ہے ۔ اس کی خالہ مہرین سے کہتی
ہیں کہ’تم اب اسے شاہ رخ کے نام سے پکار سکتی ہو‘ ۔ مہرین اب شاہ رخ کے پاس
تھی ۔ اس نے مہرین کو اپنے پاس بلایا، مہریں اب اس کے پاس جاتے ہوئے ٹھٹک
رہی تھی لیکن دوستی نے مجبور کردیا ، وہ ماہ رخ کے قریب چلی گئی، ماہ رخ نے
مہرین کے کان میں کہا ’’مجھ سے شادی کروگی‘‘ ۔ یہ افسانہ معاشرے میں ہونے
والے واقعات میں سے ایک ہے ۔ اجمل اعجاز کے افسانوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ
وہ افسانے کو اپنے ارد گرد کے ماحول، حالات، واقعات، معاشرہ میں جنم لینے
والی مشکلات ، غمی اور خوشی کے واقعات کو اپنی کہانیوں اور افسانوں میں جگہ
دیتے ہیں ۔ ان کے کردار اس ہی کے آس پاس بکھرے ہوئے ہیں وہ انہیں ہی کسی
نہ کسی کہانی یا افسانے میں فٹ کردیتے ہیں ۔
لُٹیرا‘ایک غریب خاندان کی کہانی ہے جو مزدوری کی تلاش میں فٹ پاتوں پر بنے
اڈوں پر بیٹھاکرتے ہیں ، کبھی مزدوری مل گئی کبھی نہیں ، دلاور خان کوپولیس
پکڑلیتے ہے، تھانے میں جب اس کی تلاشی لی جاتی ہے تو اس کی جیب سے ڈبل روٹی
کا صرف ایک پیکٹ ملتا ہے ، سپاہی کی صفاکی دکھاتے ہوئے افسانہ نگار نے لکھا
ہے کہ سپاہی ان سوکھے سلائیس کو ہوا میں لہرا دیتا ہے ۔ ’بھیک‘ بھی ایک
غریب بال کاٹنے والے کی کہا نی ہے، افسانہ ’خوفُ ‘ ایک مریض ریحان کے دل کی
پیوندکاری سے شروع ہوتی ہے، ایک خاتون کا شوہر مرنے سے پہلے اپنا دل عطیہ
کرنے کی وصیت کرتا ہے ، ریحان خوش قسمت ثابت ہوتا ہے ، اسے وہ دل لگادیا
جاتا ہے، آپریشن کامیاب ہوتا ہے ۔ ریحان کو جب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے
سینے میں دھڑکنے والا دل کسی خاتون کے شوہر کا ہے تو وہ اس خاندان سے
ملاقات کے لیے ان کے گھر جاتا ہے ، مرحوم کی ماں اور بیوہ ریحان سے اچھی
طرح ملتے ہیں ، ریحان واپس گھر آجاتا ہے، چند دن بعد اسے اس بیوہ کی فون
کال ملتی ہے کہ ماں جی کی طبیعت بہت خراب ہے، وہ فوری ان کے گھر پہنچتا ہے
جہاں پر ماں جی کی حالت تشویش ناک ہوتی ہے، وہ انہیں تسلی دیتا ہے لیکن وہ
نا امیدی کی کیفیت میں ریحان سے کہتی ہیں ’’بیٹا مجھے زارا کی فکر کھاے
جارہی ہے مجھے کچھ ہوگیا تو اس کاکیا بنے گا;238; انہوں نے ریحان کا ہاتھ
مظبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھاما ’’میری خواہش ہے بیٹا ، تو اس کا سہارا بن
جا ۔ اس کا ہاتھ تھام لے ۔ انہوں نے امید بھری نظروں سے ریحان کو دیکھا، وہ
اس صورت حال کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھا ۔ اس نے زارا کی جانب نظریں
اٹھائیں ، زارا کی نگاہیں زمین میں گڑ ی ہوئی تھیں ‘‘ ۔ دونوں کی شادی
ہوجاتی ہے لیکن ریحان اپنی نوکری میں ناجائز اور غیر قانونی فیصلوں کے
دباوَ میں تھا ، دیگر پریشانیوں نے بھی اس کی سوچ کو زندگی کے بارے میں
فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا ایک دن ریحان نے خاموشی سے خود کشی کر لی ۔
افسانہ ’’بے گھری‘‘ مرجانے کے بعد کی صورت حال کے بیان پر مبنی ہے، اس کے
علاوہ افسانہ انعام، مراجعت، صلہَ رحمی، بچے، دانش ولد عسرت، اجالے یادوں
کے، بوڑھا بچہ، ایک ہی بات، پھول کہانی ، دوسرا دروازہ، تضحیک، ایک لڑکی
اور بے نام ہیں ۔ تمام افسانے مجموعی طور پر تمام افسانے معاشرہ میں ہونے
والے حالات، واقعات، اچھائیوں اور خرابیوں کا احاطہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
(14ستمبر2019)
|