دستاویز روایتی طور پر ایک ایسے صفحہ یا کاغذ کو کہا
جاتا ہے کہ جس میں معلومات درج کی گئی ہوں لیکن آج کل دستاویز کی اصطلاح
کاغذ کی قید سے نکل کر انواع و اقسام کی شکلیں اختیار کرچکی ہے۔ اور اب یوں
کہا جاسکتا ہے کہ ہر وہ شے جو اپنے اندر معلومات یا مواد کا اندراج رکھتی
ہو، ایک دستاویز کے زمرے میں آجاتی ہے۔ارشد سیماب ملک اٹک کے ایک نامور
ادیب ہیں۔ادبی مجلہ" ذوق" کے مدیر اور "تذکرہ شعراء اٹک "کے مصنف ہیں۔
جنوری 2019ء میں آنے والی کتاب "دستاویز" ارشد سیماب ملک کی دُوسری کاوش ہے
جس میں انہوں نے کیمبل پور(حال اٹک) کے افسانہ نگاروں کا تذکرہ مع افسانہ
شامل اشاعت کیا ہے۔تین سو باون صفحات پر مشتمل خوبصورت اور ضخیم کتاب کا
مقدمہ نند کشور وکرم نے تحریر کیا ہے جو گذشتہ ماہ27 اگست 2019 ء کو نوے
سال کی عمر میں دہلی میں انتقال کر گئے۔( آنجہانی راولپنڈی میں پیدا ہوئے
تھے اورتقسیم ہند کے بعد انڈیا منتقل ہوگئے تھے، اُردوزبان کے معروف افسانہ
نگار، مترجم، ادیب، صحافی ، نثر نگار اور عالمی اُردو ادب (دہلی) کے بانی
تھے)۔کتاب کا بیک فلیپ و بیک ٹائٹل معروف صحافی و کالم نگار محمد اظہار
الحق کی آراء سے مزین ہے۔جمالیات پبلی کیشن، اٹک کے زیراہتمام چھپنے والی
اس دستاویز کا انتساب اول چھوڑ جانے والوں کے نام جبکہ انتساب دوئم مصنف نے
اپنی شریک حیات اور بیٹی کے نام کیا ہے۔
کتاب" دستاویز "میں ماضی اور حال کے تینتیس اُردو کہانی کاروں،پنجابی کے دو
اور کیمبل پوری بولی کے دس کہانی کاروں کو شامل اشاعت کیا کیا ہے۔کتاب کے
ابتدائیے میں ارشد سیماب ملک لکھتے ہیں کہ" کیمبل پور(اٹک) ہمیشہ سے علم و
ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں عربی و فارسی شعر و ادب کی ابتداء بہت پہلے ہو
چکی تھی تاہم معلوم تاریخ کے مطابق اُردو نظم و نثر کی ابتداء عہد ولی دکنی
میں ہوئی۔ شاکر اٹکی نے اسی عہد میں اُردو شعر و ادب کو فروغ دے کر اٹک کی
ادبی روائیت کی تاریخ رقم کی۔ شاکر اٹکی کے بعد سے عہد حاضر تک علم و ادب
کی کئی اکابر شخصیات نے اس خطہ میں جنم لیا اور عربی، فارسی، اُردو اور
پنجابی زبان میں علم و ادب میں نمایاں خدمات سر انجام دے کر بین القوامی
سطح پر اپنے علاقے کا نام روشن کیا تاہم ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اپنے
علاقہ کے اس اثا ثہ کو عہد بہ عہد محفوظ نہ کیا جا سکا جس کی وجہ سے ہمیں
مختلف ادوار میں ایک خلاء دکھائی دیتا ہے۔ اس کا دوش ہم حوادث زمانہ کو دیں
یا پھر کسی اور کو یہ ایک سوالیہ نشان ہے"۔!
کتاب کے مقدمے میں نند کشور وکرم لکھتے ہیں کہ ارشد سیماب ملک نے دستاویز
کے عنوان سے ایک قابل قدر تحقیقی کتاب پیش کی ہے۔جس میں انہوں نے کیمبل پور
اٹک کے افسانہ نویسوں کا تذکرہ قلم بند کر کے صنف تذکرہ کی تاریخ میں
نمایاں کام کیا ہے۔ گو کہ کسی تحقیقی کام کو حتمی نہیں کہا جاسکتا لیکن پھر
بھی سیماب ملک نے اس سلسلے میں بھرپور کوشش کی ہے کہ معروف افسانہ نگاروں
کے ساتھ ساتھ چند نئے لکھنے والوں کو بھی جگہ دی جائے۔یہ کوئی آسان کام
نہیں ، یہ محقق حضرات ہی جانتے ہیں کہ کسی شاعر یا ادیب کے حیات و فن سے
متعلق مواد تلاش کرنے میں کتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بعض
اوقات اسے کوہ بے ستون سے جوئے شیر لانے کے مترادف کہا جائے تو غلط نہیں ہو
گا۔مصنف کتاب دستاویز اس بات کے لیے بھی قابل تحسین ہیں کہ انہوں نے اس خطے
کے پہلے اور اُردو کے دور اولین کے افسانہ نگار امر سنگھ منصور سے لے کر
حال تک کے افسانہ نگاروں کو اس تحقیقی دستاویز میں محفوظ کر دیا ہے۔
ٍ
معروف صحافی و کالم نگار محمد اظہار الحق ارشد سیماب ملک کے تحقیقی کام کے
حوالے سے لکھتے ہیں کہ" ادب بھی عجائبات اور حیرتوں کی دُنیا ہے! کوئی
عالمی ادب کا شائق ہے اور نوبل انعام یافتہ ادیبوں کی تخلیقات پر کام کر
رہا ہے۔ کوئی اپنے اپنے خطے کے حوالے سے مصروف تحقیق ہے جیسے سارک، مشرق
وسطیٰ یا مشرق بعید۔ کوئی اپنی زبان او ر ملک کے لٹریچر پر محنت کر رہا ہے
اور کوئی ایک مخصوص علاقے ایک خاص جغرافیائی پٹی کے ادب کو پروموٹ کر رہا
ہے۔ارشد سیماب ملک بھی عجائبات اور حیرتوں کے اس جہاں میں اس حوالے سے
مصروف کار ہے۔تذکرہ شعراء اٹک "کے بعد ارشد سیماب ملک اس علاقے کے افسانہ
نگاروں کا تذکرہ سامنے لایا ہے ۔ اس کام میں دو پہلو بطور خاص لائق تحسین
ہیں۔ اول اس نے ان لکھاریوں کو شامل کیا ہے جو اس مٹی کے سپوت ہیں مگر
تقسیم ہند کے بعدہجرت کے سیلاب میں بہہ کر سرحد پار پہنچ گئے۔ ان میں اکثر
اب بھی اپنی شناخت، اپنی جنم بھومی ہی کے حوالے سے کرتے ہیں۔دُوسرا اس نے
پنجابی کہانی کاروں کو بھی اس تذکرے میں شامل کیا ہے۔ اٹک کے علاقے میں
گھیبی، چھاچھی اور پنجابی کے دوسرے لہجے رائج ہیں اور پنجابی ادب کی شان
بڑھاتے ہیں۔
اپنے ابتدائیے میں مصنف ارشد سیماب ملک نے بہت محنت شاقہ سے ضلع اٹک میں
افسانہ نگاری کے مختلف ادوار اور افسانہ نگاروں کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے
ہیں کہ شعر کوئی کے ساتھ کیمبل پور کے افسانوی ادب کی روایت بھی یقینا اتنی
ہی قدیم ہے جتنی کہ خود اُردو افسانہ یا پنجابی کہانی کی۔ اگر ہم طبع شدہ
افسانوی ادب پر نگاہ ڈالیں تو لے دے کے ہمیں گورنمنٹ کالج کیمبل پور میں
تقسیم ہند سے چند سال قبل فروغ پانے والا افسانہ ہی دیکھائی دیتا ہے۔ اس
قبل دھول مٹی اور گرد ہی جمی دیکھائی دیتی ہے۔ جسکی وجہ شائع شدہ مواد کی
عدم دستیابی اور غیر محفوظ ہونا ہے۔ تاہم اس کھوج میں کیمبل پور اٹک کی
افسانوی روایت کا ایک اہم نام امر سنگھ منصور کا سامنے آیا جو سجاد حیدر
یلدرم، کرشن چند اور پریم چندکے ہم اثر کہانی کار تھے۔
گورنمنٹ کالج کیمبلپور نے جہاں تنقید، تحقیق، نظم ، غزل اور ڈاکٹر غلام
جیلانی کے اُردو ماہیا کو زمانی اعتبار سے چراغ حسن حسرت کے اُردو ماہیا پر
فوقیت اور فروغ دیا ، وہیں افسانے کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ تقسیم
ہند سے قبل اندر سروپ دت اور دیوینداسرنے افسانے لکھ کر کیمبل پور میں
افسانے کی راہ ہموار کر چکے تھے۔ پچاس سے ستر کی دہائی تک منیر احمدمنو
بھائی، عنایت الہی، شفقت علی، سیعدہ فیض، وقار بن الہی، احمد جاوید،
پروفیسر انور جلال اور مرزا حامد بیگ نے کیمبل پور میں افسانے کو توانا اور
مستحکم بنایا۔ گورنمنٹ کالج اٹک کے اساتذہ ڈاکٹر سعد اﷲ کلیم، پروفیسر انور
جلال اور معروف افسانہ نگار منیر احمد شیخ نے کالج می اپنے قیام کے دوران
اردو افسانے کے فروغ اور طلباء کی حوصلہ افزائی کے لیے خود بھی افسانے لکھے
اور طلباء میں تحریک بھی پیدا کی۔دیویندارسر، اندرسروپ دت اور ڈاکٹر ستیہ
پال آنند نے کیمبل پور سے ہجرت کے بعد بھی اُردو افسانے کے فروغ میں اہم
کردار ادا کیا۔وقار بن الہی، رخسانہ صولت، احسان بن مجید ساٹھ کی دہائی میں
بیانیہ روایت کے امین ٹھہرے۔ علی تنہا،احمد جاوید، احمد داؤد، سن ستر کی
دہائی میں اردو افسانے کے افق پر نمودار ہوئے۔محمد حمید شاہد، امان اﷲ خان
، سید نصرت بخاری، طلعت نورین سحر اور نگہت یاسمین بھی کئی سالوں سے افسانہ
لکھ رہے ہیں ۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاعری ، تنقیداور تحقیق کے ساتھ
افسانوی ادب میں کیمبل پور (اٹک) کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔
اُردو افسانے کے ساتھ کیمبل پورمیں پنجابی کہانی کی روایت کا آغاز بھی
تقسیم ہند سے قبل ہو چکا تھا۔گُرمکھ مسافر اور سردار سنگھ نارنگ پنجابی
کہانی کے سُرخیل ہیں۔ چھاچھی بولی کے سرخیل منظور عارف ہیں۔مقامی بولی
چھاچھی میں لکھنے کی بنیاد ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے ڈالی۔پروین ملک ، مشتاق
عاجز اور توقیر چغتائی پنجابی اور مقامی بولی میں متواتر کام کر رہے ہیں۔ |