جو ہنسے گا وہ ہنسا جائے گا!!!!مت کریں ایسا!!!

آج ہم آپ تک پہنچائیں گے ایک ایسی معلومات کہ آپ بھی کہیں گے کہ ہاں !!!!!!!ایسا تو ہے اور آئندہ ایسا نہ کریں ۔ناظرین :بات کچھ اس طرح ہے کہ جیسے جیسے وقت گزررہاہے ہم اخلاق و آداب کے اعتبار سے زوال پزیر ہوتے چلے جارہے ہیں ۔۔کسی کا مذاق اُڑانا،اسکی ہجو کرنا جیسے قابل گرفت اعمال سے بچنا تو کجاانھیں براجاننے کا conceptبھی تیزی سے ختم ہوتاچلاجارہاہے ۔بات بہ بات دوسری کی چڑ،دوسرے کی کسی بات پر اس کانام رکھ کر اس بار بار tease کرنا۔۔۔۔۔
قارئین :آپ ہی بتائیں !!!!!!ایسا کرنا چاہے !!!!!!!!!!!یقیناََ ہر مہذب شخص کی زبان سے بے اختیار یہی جاری ہوگا۔ایسا نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ہر گز ایسا نہ کریں ۔۔۔۔۔۔
قابل توجہ بات !!!!ایک مومن پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعا ناجائز ہے۔ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک اہم طریقہ کسی کا مذاق اڑانا ہے۔مذاق اڑانے کا عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت و آبرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے۔
اس تضحیک آمیزرویے کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ چنانچہ باہمی کدورتیں، رنجشیں، لڑائی جھگڑا، انتقامی سوچ،بدگمانی، حسد اور سازشیں دنیا کی زندگی کو جہنم بنادیتے ہیں ۔ دوسری جانب اس رویے کا حامل شخص خدا کی رحمت سے محروم ہوکر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا ، اپنی نیکیاں گنوابیٹھتا اور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار ہوجاتا ہے۔
قارئین :ہم آپ کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ وعیدات جاننے کے ساتھ ساتھ ہیں اس روئیے کی سائنٹفک انداز میں محرکات بھی جان لینے چاہیے، اس کے اسباب جانے جائیں اور اس سے بچنے کے لئے عملی مشقیں مکمل کی جائیں تاکہ دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا کو حاصل کیا جاسکے۔
ماہرین نے مزاح کرنے کے تین بڑے اسباب بیان کئے ہیں ۔ پہلا سبب برتری کا احساس ہے چنانچہ اس احساس کے تحت ہم جسے کم تر ، بے ڈھنگا، بد صورت ، غلط، احمق یا کسی اور پہلو سے کمتر سمجھتے ہیں تو اس پر ہنستے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایک اور سبب غیر مطابقت ہے یعنی جب نتائج مروجہ توقعات کے مطابق نہیں ہوتے تو ہم ہنس پڑتے ہیں جیسے ایک غیر اہل زبان اردو کا کوئی لفظ ادا نہ کرپائے تو لوگ ہنستے ہیں۔ اسی طرح ایک اور سبب دباؤ کی تخفیف ہے یعنی لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے یا ہلکا پھلکا ہونے کے لئے بھی مزاح کرتے ہیں۔
ہے نا !!ایسامعاملہ !!!!!!!!آئیے !!دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں جانتے ہیں کہ دوسروں کا تمسخر اور ہجو کرنے والوں کے لیے کیاپیغام ہے ۔
کسی کے عیوب ونقائص کو اس طرح ظاہر کرنا کہ لوگ اس پر ہنسیں تمسخر(مذاق اڑانا )کہلاتا ہے ۔ اس کے لئے کبھی تو کسی کے قول یا فعل کی نقل اتاری جاتی ہے اور کبھی اس کی طرف مخصوص انداز میں اشارے کئے جاتے ہیں۔ یہ اس لئے ممنوع ہے کہ اس میں دوسروں کی تحقیر اور اہانت ہے اور یہ حرام ہے۔ ، رب تعالیٰ فرماتا ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسْخَرْ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوْمٍ عَسٰ ۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنْہُنَّ()
ترجمۂ کنزالایمان : اے ایمان والو!نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اورنہ عورتیں عورتوں سے دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہترہوں۔ (پ ۲۶،الحجرات:۱۱ )
حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ کونین صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا : لوگوں سے استہزاء کرنے والوں کیلئے روزقیامت جنت کا ایک دروازہ کھول کر کہا جائے گا ۔یہاں آجاؤ !! جب وہ پریشانی کے عالم میں دروازے کی طرف دوڑ کر آئیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا یہ عمل بار بار کیا جائے گا یہاں تک کہ پھر ان میں سے ایک کے لئے دروازہ کھولاجائے گا اور اسے بلایا جائے گا لیکن وہ ناامید ہونے کی وجہ سے نہیں۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں !!!!!!!کسی کی عزت سے کھیلنا اور اس کا مذاق اُڑانا کسی طور پر بھی قابل تعریف نہیں ۔
اب یہ بھی جان لیجئے کہ شریعت ہم سے کیا تقاضاکرتی ہے ۔
اہانت اور تحقیر کیلئے زبان یا اشارات، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے۔ کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اوردکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں اتنا اتنا مال مجھے مل جائے۔(احیاء علوم الدین،کتاب آفات اللسان،الآفۃ الحادیۃعشرالسخریۃوالاستھزاء، ج۳،ص۱۶۲)
ایک اور مقام پر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آؤ آؤ تو وہ بہت ہی بے چینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے سامنے آئے گا مگر جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہو جائے گا پھر ایک دوسرا جنت کا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گاکہ آؤ یہاں آؤ چنانچہ یہ بے چینی اور رنج وغم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا

،اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہو تا رہے گا یہاں تک کہ دروازہ کھلے گا اور پکارپڑے گی تو وہ نہیں جائے گا۔ (اس طرح وہ جنت میں داخل ہو نے سے محروم رہے گا)۔(احیاء علوم الدین،کتاب آفات اللسان،الآفۃ الحادیۃعشرالسخریۃوالاستھزاء، ج۳،ص۱۶۲)
آہ !!اے میرے مالک کرم !!!!!!!!!!کیا بنے گاان کا !!!!!!!وہ جو لمحہ بھر بھی کسی کا مذاق اُڑانے میں سوچتے نہیں ۔۔
احیأ العلوم میں نقل ہے کہ ’’ جو اپنے کسی دینی بھائی کو اس کے کسی ایسے گناہ پر عار دلائے گا جس سے وہ توبہ کرچکا ہو تو عار دلانے والا اس وقت تک نہیں مریگا جب تک کہ وہ خود اس گناہ کو نہ کر لے۔‘‘(احیاء علوم الدین،کتاب آفات اللسان،الآفۃ الحادیۃعشرالسخریۃوالاستھزاء،ج۳، ص۱۶۳)
بہر حال کسی کو ذلیل کرنے کے لیے اور اس کی تحقیر کرنے کے لیے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا ،اس کا مذاق اڑانا،اس کی نقل اتارنایا اس کو طعنہ مارنا یا عار دلانا یا اس پر ہنسنا یا اس کو برے برے القاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اڑانا مثلا آج کل کے بزعم خود اپنے آپ کو عرفی شرفاء کہلانے والے کچھ قوموں کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں اور محض قومیت کی بنا پر ان کا تمسخر اور استہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور قسم قسم کے دل آزار القاب سے یاد کرتے رہتے ہیں۔ کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں۔ کبھی عار دلاتے ہیں یہ سب حرکتیں حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔
قارئین :
ان حرکتوں سے توبہ لازم ہے، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں گے۔ اسی طرح سیٹھوں اور مالداروں کی عادت ہے کہ وہ غریبوں کے ساتھ تمسخر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں اور طرح طرح سے ان کا مذاق اڑایا کرتے ہیں۔ جس سے غریبوں کی دل آزاری ہوتی رہتی ہے۔ مگر وہ اپنی غربت اور مفلسی کی وجہ سے مالداروں کے سامنے دم نہیں مار سکتے۔ ان مالدارو ں کو ہوش میں آ جانا چاہیے ۔۔
تو پھر کیا سوچا آپ نے !!!!!!!!!!!!!آئندہ کسی کا مذاق ،کسی کی دل آزاری کریں گے ؟
نہیں ؟!!!!!ہم بھی آپ سے یہی مدنی التجاکرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدارا اس بری عادت سے بچیں !!!!!!!!
اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے کے لیے !!!!!ایسا نہ کریں !!!!!!!!!بالکل بھی ایسا نہ کریں !!!!!!!!خدارا!!ایسا نہ کریں ۔۔

نوٹ:قارئین :سلامت تاقیامت رہیں ۔ہماراعزم انسانیت کی خدمت ۔آپ طبی مشورے ،کیرئیر کونسلنگ ،روحانی پریشانی ،معاشی پریشانی کے حوالے سے ہم سےرابطہ کرسکتے ہیں ۔آپ ہمارے لیے ہر لمحہ ہر وقت محترم ہیں ۔کاروباری مشوروں ،کیرئیر کونسلنگ اور طبی مشوروں کے حوالے سے اب آپ
0311-2268353پر وٹش ایپ کرسکتے ہیں ۔۔مذید تفصیلات بیان کے لیے آپ [email protected] پر بھی ای میل کرسکتے ہیں ۔۔۔آئیں مل کر انسانیت کی خدمت کا پیشہ اپناتے ہیں ۔۔۔۔۔

 

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542254 views i am scholar.serve the humainbeing... View More