حضرت لقمان علیہ السلام اور آج کے حکمران

شیخ سعدی ؒ لکھتے ہیں کہ حضرت لقمان سیاہ فام تھے اور تن پرور اور نازک بدن نہیں تھے ایک دفعہ بغداد کے ایک امیر آدمی کا ایک سیاہ فام غلام بھاگ گیا اور اس امیر آدمی نے غلطی سے حضرت لقمان کو اپنا بھاگا ہوا غلام سمجھ لیا اور انہیں اپنا مکان بنانے پر لگا دیا وہ بچارے سارا دن گارا اور اینٹیں ڈھوتے رہتے یہاں تک ایک برس گزر گیا اور مکان تیار ہو گیا اتفاق سے انہیں دنوں امیر آدمی کا بھاگا ہوا غلام بھی واپس آگیا وہ امیر آدمی سخت شرمندہ ہوا اور حضرت لقمان کے پیروں میں گر پڑا اور کہنے لگا مجھے معاف کر دیں ۔ حضرت لقمان ہنس پڑے اور کہا کہ اب معافی کا کیا فائدہ میں سال بھر خون جگر پیتا رہا ہوں اس کو ایک دم کیسے فراموش کر دوں لیکن خیر میں تمہیں معاف کرتا ہوں کیونکہ تمہیں فائدہ پہنچا اور مجھے کوئی نقصان نہیں ہوا میرا بھی ایک غلام ہے بعض اوقات میں اس سے سخت کام لیتا ہوں آئندہ میں اسے کبھی نہیں ستاﺅں گا کیونکہ مجھے سال بھر یہ مٹی اٹھانے کی مشقت یاد رہے گی ۔۔۔

قارئین عوام اور حکمرانوں میں یہی وہ فرق ہے کہ جس کی وجہ سے نہ تو عوام کی مشکلات ختم ہونے کا نام لے رہی ہیں اور نہ ہی حکمران عوامی مشکلات کو سمجھ پا رہے ہیں ۔ جاگیردارانہ ، صنعت کارانہ اور سرمایہ دارانہ پس منظر رکھنے والے لوگ نہ تو فیکٹریوں ، کھیتوں اور دفتروں میں محنت مزدوری کرنے والے محنت کش کی مشکلات سے آگاہی حاصل کر سکتے ہیں اور نہ وہ درد محسوس کر سکتے ہیں جو حضرت لقمان نے ایک سال کی بیگار کے بعد محسوس کیا اور اس بات کا تہیہ کیا کہ وہ آئندہ اپنے غلام سے کوئی سخت کام نہیں لیں گے پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ ان کی غالب اکثریت حکمران ابن حکمران طبقے سے تعلق رکھتی ہے ۔ ایچی سن کالج ، چیفس کالج اور آکسفورڈ اور کیمبرج سے پڑھنے والے لوگ ٹاٹ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی مشکلات کیسے سمجھ سکتے ہیں جن کے دسترخوانوں پر ناشتوں سے لیکر ڈنر تک بوفے سٹائل کے کھانے پیش کیے جاتے ہوں بھلا آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافے اور ان کی قلت سے انکا کیا تعلق ۔۔۔اور اگر وہ کسی جذبہ ہمدردی کے تحت ان حادثات پر کوئی بات بھی کریں گے تو وہ روس کی ملکہ میری جیسی ہو گی کہ اگر ان غریبوں کو کھانے کے لئے روٹی نہیں ملتی تو وہ ڈبل روٹی کیوں نہیں کھاتے ۔۔۔؟

قارئین اگر عوام یہ چاہتے کہ ان کے حکمران ان کا درد محسوس کریں اور ان کے درد کے مداوے کی کوشش کریں تو اس کے لئے یا تو ان حکمرانوں کو بھی ایک انقلاب کے ذریعے محنت مشقت اور تکلیفوں کی اسی آزمائش سے گزارا جائے جس سے 18کروڑ عوام گزر رہے ہیں اور یا پھر پوری کی پوری صف الٹ دی جائے اور تمام قیادت تلف کر کے ایک نئی قیادت چنی جائے اور انقلاب کی وہ داستان لکھی جائے کہ آئندہ کسی بھی عوام کے امین کو یہ جرات نہ ہو کہ وہ غریب عوام کی امانتوں کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کر سکے یہ ہماری کمزوریاں ہی ہیں جو کسی غاصب کو ہم پر ظلم کرنے پر اکساتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے دن کا بھی درس یہی ہے کہ ظلم برداشت کرنا بھی ظلم کرنے کی ایک قسم ہے ۔۔۔۔

قارئین آخر کیا وجہ ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہمارے نمائندے ، بیوروکریسی کی سیٹوں پر براجمان پبلک سرونٹس اور دیگر عوامی خدمت کے اداروں میں بیٹھے ہمارے خادم ہماری خدمت کی بجائے شب وروز ہماری مرمت کے کام میں لگے ہوئے ہیں اور خدمت کی بجائے بادشاہت اور حکمرانی کا تصور اسی طرح پروان چڑھا رہے ہیں جس طرح ملوکیت اور قیصرو کسریٰ کی سلطنتوں میں نظر آتا تھا آج پاکستان اور آزاد کشمیر خطہ عرب سے اٹھنے والی آوازوں کے زیر اثر آنے والے ہیں اور 18کروڑ عوام مصر سے شروع ہونے والے عوامی انقلاب کا راستہ دیکھ رہے ہیں اور آئندہ چند سالوں میں یہ انقلاب سرزمین پاک پر بھی آئے گا ۔ نہ تو اس کا کوئی راستہ روک سکتا ہے اور نہ ہی اس سے منہ موڑ سکتا ہے جب عوامی وسائل کو اس حد تک استحصال کا نشانہ بنایا جائے کہ غریب کو دو وقت کی روٹی بھی ملنا محال ہو جائے تو پھر وہ جینا چھوڑ کر مرنے کا حق استعمال کرتا ہے ۔۔۔
مری ہستی فضائے حیرت آباد ِتمناء ہے
جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے
خزاں کیا ؟ فصل ِگل کہتے ہیں کس کو ؟ کوئی موسم ہو
وہی ہم ہیں ، قفس ہے اور ماتم بال وپر کا ہے

قارئین ہم 18کروڑ اہل گلشن اس وقت اہل قفس کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور اب ہر حلقہ زنجیر میں زباں رکھنے کا موسم آ چکا ہے یہ ایک عجیب بات ہے کہ عوام کو کھانے کے لئے آٹا میسر نہیں ہے اور یہاں دوسری طرف عوامی حکومت کے لیڈر فرانس اور مشرق وسطیٰ میں اپنی جائیدادوں اور آمدن کے حساب کتاب لینے کےلئے عوامی ٹیکس سے ادا کردہ رقوم پر ان ممالک کے دور ے فرما رہے ہیں ، توانائی کا بحران ملک کی 80فیصد کے قریب انڈسٹری کو نزع کے قریب پہنچا چکا ہے اور یہاں پرائم منسٹر ہاﺅس ، ایوان صدر اور سرکاری دفاتر میں مفت بجلی استعمال کرنے کے ریکارڈ قائم کیے جا رہے ہیں اور دوسری جانب اپوزیشن کے رہنماء اپنی انڈسٹریز اور تخت لاہور کے لئے کوئی بھی قربانی دے سکتے ہیں لیکن چیتے اور شیر پالنے سے پرہیز نہیں کر سکتے ۔ عوام کو دال روٹی ملنا مشکل ہے اور یہاں پالتو شیروں اور چیتوں کے لئے بکرے چھترے پیش کیے جا رہے ہیں چاہے شیروں اور چیتوں کو وہ اپنی ہی حق حلال کی کمائی سے کیوں نہ پال رہے ہوں اگر وہ عوامی قیادت کا نعرہ لگاتے ہیں تو عوام کی طرح جینا بھی سیکھیں اور وہ طرز زندگی ترک کریں تاکہ عوام کم از کم یہ سمجھ سکیں کہ ان کے دکھ درد میں ان کی قیادت برابر کی شریک ہے ۔ لندن ، فرانس ، مشرق وسطیٰ بیٹھ کر عوامی دکھڑے رونا تو بہت آسان ہے لیکن بھوک کی دھوپ اکٹھے عوام کے اندر رہ کر جھیلنا دوسری بات ہے اور قیادت کا کام یہی ہوتا ہے کہ وہ عوام کی طرف آنے والے تیروں کو اپنی چھاتی پر روکتی ہے ورنہ کارلوس ، شاہ ایران اور ہوگو شاویز سمیت تمام آمروں اور عوام کی آمدن پر جینے والے درندوں کا انجام دنیا نے پہلے بھی دیکھا اور دنیا آئندہ بھی دیکھے گی ۔ ۔۔

18کروڑ پاکستانیوں اور کشمیریوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت کو ضائع مت کریں اور وہ قیادت سامنے لیکر آئیں کہ جو حقیقی رہنمائی کے فرائض انجام دے سکیں ۔دعائیں مانگنا اپنی جگہ ، اللہ پر توکل اپنی جگہ لیکن ہمارے اپنے فرائض اور ہمارا اپنا کام اپنا کام ہم نے خود کرنا ہے اپنے فرائض سے پہلو تہی کر کے ہر کام تقدیر کی سپرد کر دینے والی قومیں کبھی ترقی بھی نہیں کرتیں اور نہ ہی انقلاب کی برکتیں ایسی قوموں پر رحمت کی بارش کرتی ہیں۔

آزاد کشمیر میں اس وقت الیکشن 2011کی آمد آمد ہے پاکستان پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ ن اور مسلم کانفرنس سمیت مختلف جماعتیں اپنی انتخابی ایجنڈوں کے ساتھ اکھاڑے میں اتر چکی ہیں عوام کا یہ فرض ہے کہ ووٹ مانگنے والے ہر امیدوار سے اسکا ایجنڈا ضرور پوچھیں اور برادری ازم ، علاقائیت پرستی اور دیگر چیزوں کو چھوڑ کر اس امیدوار کا انتخاب کریں جو سچا ، اہل ، قابل ، دیانتدار اور ووٹ کا درست حق دار ہو ، انقلاب کا پرامن ترین راستہ یہی ہے ۔۔۔

آخر میں حسب روایت ایک لطیفہ ۔۔۔
رشیدہ ایم اے فائنل کا پیپر دینے گھر سے نکلی تو کافی پریشان تھی کیوں پیپر کافی مشکل تھا اور تیاری مناسب نہ تھی راستے میں اسے محلے کی مسجد کے مولوی صاحب نظر آئے رشیدہ نے ان کے قریب پہنچ کر رقت آمیز لہجے میں کہا ” مولوی صاحب ایک بجے میرا اردو کا پیپر شروع ہو گا ، آپ دو بجے میرے دعا ضرور کیجئے گا “۔
مولوی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا آپ کا پیپر ایک بجے ہے اور آپ دعا کا دو بجے کا کہہ رہی ہیں ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟
تو رشیدہ نے جھجکتے ہوئے جواب دیا ۔
” دراصل مولوی صاحب ایک گھنٹہ اپنے طور پر میں ادھر ادھر سے کوشش کرنا چاہتی ہوں ۔ “

قارئین ہمیں ادھر ادھر کی کوششیں چھوڑ کر اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے حق کا انتخاب اور اس کے لئے جدوجہد خود کرنا ہو گی ۔ انقلاب اسی طرح آئے گا۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336926 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More