وادی ء طائف سے غار ثور تک۔

اس کالم میں معروف کالم نگار وشاعر یونس مجاز نے وادیء طائف کے سفر اوراسکی مزہبی وتاریخی حثیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ غار ثور کے حوالے سے بھی اپنےخوبصورت اسلوب تحریرکے ذریعے روحانی تسکین کا سامان کیا ہے۔۔

کالم نگار۔۔جبل ثور پر جہاں غار ثور واقع ہے

روداد حچ۔۔۔۔۔۔ ۔۔قسط 3
وادیء_طائف سے غارثور تک۔
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔یونس مجاز
صاحبو! مناسک_حج کی ادائیگی سے فارغ ہوئے تو ایک دو دن آرام کیا کیوںکہ انتہائی تھکا دینے والے اس عمل کے بعد کچھ آرام تو بنتا ہے۔ورنہ آپ دیگر عبادات کے قابل نہیں رہتے یا بہت مشکل سے دوچار ہو سکتے ہیں۔میرے والد صاحب حاجی محمد اکبر نے 1980 میں فریضہ حج ادا کیا تھا جب میں میٹرک میں پڑھتا تھا اس زمانے میں لوگ جب والد صاحب کو حج کی مبارک باد دینے آتے تھے تو وہ ان کو حج کی آدائیگی میں مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ " حج تے جوانی دا ای ہوئندے" یعنی حج تو جوانی کا ہی ہوتا ہےاور انڈونشیاں کے لوگ شادی سے قبل حج ادا کرتے ہیں۔لیکن پاکستان میں جب لوگ تمام معاملات سے فارغ اور بوڑھے ہو جاتے ہیں تب جا کر حج کو جاتے ہیں۔شائد پیسے کی کمی بھی آڑھےآتی ہو گی۔لیکن اب تو لوگوں کے پاس پیسے بھی ہیں حج کے لئے نہ بھی ہوں تو عمرہ ضرور کریں گے امیر لوگوں کے لئے فیشن اور آوٹنگ پلیس جہاں شاپنگ اور عمرہ ساتھ ساتھ کر لیتے ہیں بعض اس ٹریپ میں دوبئی کا اسٹے ڈال کر اس ٹوہر کو مزید اجھا بنا لیتے ہیں ۔جب کہ مڈل کلاس لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی بھی اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ فلاں رشتہ دار اور محلہ دار نے اپنی فیملی کے ساتھ عمرہ کیا ہے تو ہم کیوں پیچھے رئیں۔ نیکی کے کام میں ایک دوسرے سے مسابقت کا یہ عمل مثبت معنوں میں بھی لیاجا سکتاہے۔ کہ اللہ کے گھر کا طواف اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ مبارک کا دیدار مقدر والوں کو ہی نصیب ہوتا ۔کیوں کہ میری یاداشت کے مطابق ہمارے گاوں میں اس وقت میرے والد پہلے آدامی تھے جنھوں نے حج ادا کیا تھا اس سےقبل حاجی الیاس صاحب کےوالد حاجی ملک سلمان صاحب نے حج کیا تھاچونکہ اس وقت وہ حیات نہ تھے اور بہت عرصہ پہلے فوت ہو چکے تھے سو میرے والد صاحب ہی پہلے آدمی بنتے تھےاس وقت۔اس زمانے میں وہ سہولیات نہیں ہوں گی جو 2019 میں موجود ہیں۔مثلا" اس وقت الیکٹرک ٹرین کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ائیر کنڈیشن بسیں اور رہائش کے لئے تمام سہولیات سے مذین ہو ٹل ناپید تھے ۔لیکن آج بھی حج کی ادائیگی مشکل اور تھکا دینے والا عمل ہے ہم سےپہلے آئے ہوئے دوستوں سے سنتے تھے توحیرانگی ہو تی۔مگر اس بات کا یقین محکم ہو گیا جب خود اس عمل سے گزرے اور والد صاحب کا جملہ دھرانہ پڑا " حج تے جوانی دا ای ہوئندے"۔ تاہم تجربے اور مشائدہ میں یہ بات آئی ہے کہ ٹرینگ کے متعدد پروگرام اٹینڈ کرنے کے باوجود بہت سے مسائل ایسے ہوتے جن کا حجاج کرام یا عمرہ زائرین کو علم نہیں ہوتا اور اکثریت کسی سے پوچھنے کی جسارت بھی نہیں کرتی۔جس سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔اور جو عمل ثواب سمجھ کر رہے ہوتے ہیں دراصل لا علمی میں ہم الٹا گناہ کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔اگر چہ سعودی حکومت نے حاجیوں کے رہائشی علاقوں میں موجود مساجد میں بھی مختلف مسائل پر بات چیت کے لئے علماء کی موجودگی کو یقینی بنایا ہوتا ہے۔لوگ ان سے استعفادہ بھی حاصل کرتے ہیں۔لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی مسئلہ تجربے اور مشائدے میں آجاتا ہے۔مثلا" پاکستان سے جانے والے حاجی صاحبان حج تہمتع کی نیت کر کے ائیر پورٹ سے ہی احرام باندھ لیتے ہیں۔مکہ پہنچ کر رہائش پر پہنچنے کے بعد اپنی سہولت کے مطابق سب سے پہلے عمرہ ادا کرتے ہیں۔طواف ۔سعی اور قصر یا حلق کے بعد احرام کھول دیتے ہیں۔اور پھر مکہ ہی میں حج کی ادائیگی تک قیام کرنا ہوتا ہے۔درمیان میں بعض لوگ مسجد عائشہ یا مسجد جرانہ سے مزید عمرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ عمل وہ ثواب کی غرض سے کرتے ہیں۔ہمارے بعض دوستوں نے بھی ایسا کیا۔اس بات کو جب بطحہ قریش میں مقامی مسجد کے علماء کے سامنے اٹھا یا گیا تو انھوں نے سوال کرنے والے پر الٹا سوال داغ دیا کہ جناب آپ نے حج تہمتع کیا ہے یا قرائن۔اگر تہمتع کی نیت سے آیے ہیں تو پھر عمرہ کر کے احرام کھولنے کے بعد اب صرف حج کے لئے احرام باندھا جا سکتا ہے درمیان میں کسی عمرہ کی گنجائش نہیں۔کہ یہ سنت کے خلاف ہے اس پر دم لازم تو نہیں آتا تاہم سنت کے خلاف کرنے پر گناہ کے مرتکب ٹھہرے ہیں چونکہ یہ عمل ان سے لاعلمی میں سرزد ہوا ہے اس لئے اللہ سے معافی مانگ لیں اور چھ مسکینوں کو کھانا یا تین روضے رکھ لیں اللہ معاف کرنے والا ہے۔ایک اور مسئلہ جو وہاں شدت سے حل طلب رہا کہ پاکستان سے جانے والے حاجی مکہ میں قصر نماز ادا کریں یا پوری نماز پڑھیں۔بعض کا موقف تھا کہ ہم حج تک 15 دن سے کم قیام کے عامل ہیں سو مسافر ہی ہیں قصر نماز ادا کریں گے۔بعض کا موقف تھا کہ ہم پاکستان سے 40 دن کے قیام کا معائدہ کر کے آئیں ہیں اس لئے ہم مسافر نہیں رہے سو پوری نماز پڑھیں گے۔اس عمل کو انھوں نے منی' اور عرفات میں بھی جاری رکھا چونکہ نیت سب کی خالص تھی اللہ تعالی' سب کی نمازیں قبول فرمائے۔آمین۔ تاہم سعودی علماء کا یہ موقف حقائق کے قریب لگتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حج کےدوران مقامی اور ساتھ آئے ہوئے لوگوں کے ہمراہ عرفات میں ظہر اور عصر کی نمازیں قصر اور ایک ساتھ ادا کی تھیں اسی طرح مزدلفہ میں بھی مغرب اور عشاء کی نمازیں قصر اور ملا کر ادا کی تھیں سو یہ عمل سنت ہے اور حاجیوں کو سنت کی پیروی کرنی چائیے۔۔۔۔۔ایک اور مسئلہ جو راقم کو 2016 میں عمرہ کی ادائیگی کے وقت پیش آیا ۔ہوا یوں کہ ہم نے عمرہ کے ساتھ ساتھ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنے کا پروگرام بنایا ۔18 رمضان المبارک کو مکہ پہنچنے کے بعد عمرہ ادا کیااور 19 رمضان کو مدینہ منورہ پہنچ گئے۔20 کی شام مسجد نبوی میں اعتکاف کر لیا عید کا چاند دکھائی دینے پر اعتکاف ختم ہوا اگلے روز عید مسجد نبوی میں ہی ادا کی ایک دن اور رکنے کے بعد میقات سے احرام باندھ کرمکہ آگئے عمرہ ادا کیا دودن بعد ایک اور عمرہ مسجد جرانہ سے احرام باندھ کر آئے اور ادا کیا۔چونکہ آخری دو عمرہ شوال کا چاند نظر آنے کے بعد ہم نے ادا کئے۔سو اب شرعی لحاظ سے مجھ پر حج فرض ہو گیا تھا کیونکہ قبل ازیں میں نے فرض حج ادا نہیں کیا تھا۔جب کہ میرے دیگر ساتھی حاجی رمضان جو رشتے میں میرا بھانجھا لگتا ہے اور اس کے دیگر دوست حاجی وہاب اور ملک خالد اس فرض سے پہلے ہی سبکدوش ہو چکے تھے۔شرعی لحاظ سے اگر آپ نے چار طواف مکمل کر لئے اور شوال کے چاند کے نظر آنے کی خبر مل گئی تو اب حج فرض ہو گیا ہے اور آپ کو چائیے کہ اب حج تک وئیں رک جائیں اور فرض حج ادا کر کے لوٹیں۔لیکن اب مجبوری یہ ہے کہ سعودی قوانین اور ہمارا ویزہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔سو معذور ٹھہرے ۔لیکن حج فرض ہوگیا زندگی میں جب بھی موقع ملے اس فرض کی ادائیگی ضروری ہو گئی اگر مالی حالات یا زندگی میں ادا کئے بغیر مر گئے تو بھی وارثوں کو حج بدل کرنا ہوگا۔ اس لئے عمرہ کے شوقین حضرات اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اگر انھوں نے قبل ازیں فریضہ حج ادا نہیں کیا یا وہ اس کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ شوال میں عمرہ کی ادائیگی نہ کریں ورنہ ان پر حج فرض ہو جائے گا اور انھیں اس فرض کی ادائیگی ہر حالت میں کرنی ہے۔اس لئے نفلی عمرہ اس ماہ میں ادا نہ کرنا ہی بہتر ہے۔۔۔۔۔ اگلے دن طائف جانے کا پروگرام بن گیا ہمارے ہوٹل بطحہ قریش سے بھی دو گاڑیاں روانہ ہوئیں۔ہمارے گائیڈ نے سفر کی دعا کے بعد وادی ء _طائف اور وہاں موجود زیارتوں کے حوالے سے بریفنگ دی ہم شاہراہ طائف کے دونوں جانب لق دق صحرا اور سنگلاخ پہاڑوں سے لطف اندوز ہوتے طائف کی طرف گامزن تھے۔بھیڑ بکریوں کے باڑے اور جا بجا اونٹوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہم واقعی عرب کے لق دق صحراوں کی زمین سے گزر رہے ہیں۔طائف وہ بستی ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم منصب_ نبوت پر فائض ہونے کے بعدلوگوں کے پاس تبلیغ کے لئے گئے تھے تو وہاں کے لوگوں نہ صرف دعوت اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بچوں کے ذریعے پتھر برسائے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف شدید زخمی ہوئے بلکہ آپ کے نالین یعنی جوتیاں خون سے تر ہو گئیں۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انگوروں کے ایک باغ میں پناہ لی۔ اسی عالم میں جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کی کہ اگر آپ چائیں تو اللہ تعالی ان بدبختوں کو طائف کے پہاڑوں کو آپس میں ملا کر ختم کردیں ۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے منع کردیا اور خدا کے حضور دعا کی اے اللہ ان کو معاف کر دےشائدان کی اولادوں میں سے کوئی تیرا نام لینے والا بن جائے۔سو آج واقعی اس گھاٹی میں اللہ کے نام لیوا بھرپور طریقے سے موجود ہیں۔ طائف کی وادی سرسبز و شاداب ہونے کےساتھ ساتھ مکہ معظمہ اور مدینہ کی نسبت ٹھنڈے علاقہ پر مشتمل ہے۔یہاں انگور اورکھجوروں کے باغات کے علاوہ پھگواڑی کے ڈھوڈے بھی اہم سوغات ہیں۔انگور کی مختلف اور ذائقےدار اقسام یہاں ملتی ہیں۔چونکہ ابھی ِخزاں کا موسم تھا سو ہریالی نہ ہونے کے برابر تھی پہاڑ بھی چٹیل نظر ائے۔طائف میں ہمارا پہلا پیڑاو مسجد عبداللہ بن عباس تھا۔۔یہ مسجد حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا حضرت عباس کے بیٹے عبداللہ بن عباس نے اپنے یہاں قیام کے دوران بنوائی تھی۔اس شاندار مسجد کے ساتھ ہی عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی' عنہ کا مزار اور لائبریری بھی ہے مزار پر بھی تالا تھا اور لائیبریری میں بھی داخلے کی پابندی تھی سو باہر سے ہی دیکھ کر روحانی اسودگی حاصل کی ۔کچھ لوگوں نے مسجد میں نوافل ادا کئے لائیبریری کے سامنے ایک چھوٹے سے پلاٹ کے گرد چاردیواری بنی ہوئی تھی جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پتھر برسائے گئے تھے۔وہاں سے نکل کر کچھ دور آگے گاڑی آئی تو گائیڈ نے چلتی بس سے ہی بتایا کہ دائیں جانب یہ جو باغ دکھائی دے رہا ہے اس باغ میں حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پتھروں سے بچنے کے لئے پناہ لی تھی۔جب کے بائیں جانب پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹی سی بنی مسجد کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالی' نے تعمیر کی تھی۔تھوڑا اور آگے آئے تو بتایا گیا کہ یہ جو دائیں جانب پہاڑ کے دامن میں کچی اور پتھروں کی بنی مسجد ہے اسے مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں آپ نے اس جگہ ایک دیوار کے سائے میں سستا نا چاہا تودشمنوں نے اوپر سے ایک بہت بڑا پتھر نیچے سرکا دیا تھا تاکہ نعوذ باللہ حضور کو نقصان پہنجایا جا سکے مگر ایسا ممکن نہیں ہوا ۔کہ حضور نے پتھر کو حکم دیا اگر اللہ کے حکم سے نیچے آرہا ہے تو آجا اگر کسی اور کے حکم پرآیا ہے تووئیں رک جا ۔سو پتھروئیں رک گیا اور آج بھی بغیر کسی سہارے کے وہاں موجود ہے۔یہاں کچھ دیر گاڑی روکی گئی لوگوں نے مسجد دیکھی سلفیاں لی گئیں اور واپسی کے سفر کا آغاز ہوا راستے میں قرن کبیر یعنی السیل الکبیر جو حرم میں داخلے سے پہلے میقات ہے وہاں رکے وضو کیا نماز ظہر قصر ادا کی احرام باندھے نفل اور نیت عمرہ کی اور ان ہی لق دق صحراوں سے گزر کر واپس ہوٹل پہنچ گئے کھانا کھایا اور نماز عصر کی ادائیگی و عمرہ کا طواف اور سعی کےلئے حرم پاک پہنچ گئے۔ دوسرے دن غار_ثور دیکھنے کے لئے جبل ثور پر چڑھنے کا پروگرام بنا یاگیا جو ہماری رہائشی ہو ٹل کی بیک پر تھا سو ہمیں ٹیکسی کرنے کی ضرورت نہ پڑی ۔صبح نماز فجر کے بعد میں۔ با با خان بہادر ۔قاضی رشید اور ارشد سکنہ حویلیاں سمیت جبل ثور پر چڑھنا شروع کر دیا ڈیڈھ گھنٹے کی دشوار ترین مسافت کے بعد چوٹی پر پہنچے تووہاں ایک لمبی قطارلوگوں کی غار ثور کی زیارت کے لئے موجود تھی ۔میرے ساتھی بھی اسی تگ ودو میں ادھر ادھر ہو گئے میں نے صورت حال کا بغور جائزہ لگاتے ہوئے اپنے دیہاتی پن کا فائدہ اٹھایا اور شارٹ کٹ کے ذریعے غار ثور میں داِخل ہو گیا ۔باہر آکر کچھ دیر ایسے پتھر کے نیچے آرام کیا جو ایک چھت کی مانند تھا ۔ایک طرف پورا جھکا ہواتھا اپنی جڑ سے زمین کے ساتھ تھا لیکن اگلا حصہ کو کوئی خاص سپورٹ نہ تھی پھر بھی اپنی جگہ قائم تھا۔یہ وہ غار ثور ہے جس میں مدینہ حجرت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے یار غار صدیق اکبر رضی اللہ تعالی' عنہ کےہمراہ تین دن گزارے تھے۔اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ جوصدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی تھیں اپنے ایک غلام کے ذریعے کھانا پہنچاتی رئیں۔صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے یار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کندوں پر اٹھا کر اس غار تک پہنچایا تھا تاکہ دشمنوں کو جو ان کی تلاش میں تھے یہ معلوم نہ ہوسکے کہ اس راستہ پر دو آدمیوں نے سفر کیا ہے کہ ایک ہی آدمی کے قدموں کے نشان ہیں۔غار ثور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم صدیق اکبر کی ران پر سر رکھ کر سو گئے اسی اثنا میں غار کے سوراخ سے سانپ نکلا اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے انگوٹھے پر کاٹ لیا لیکن آپ نے اپنی ٹانگ کو ہلنے نہیں دیا کہ کہیں حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آنکھ نہ کھل جائے۔سانپ کے کاٹنے اور زہر سے درد اتنا شدید تھا کہ آنکھوں سے بے اختیار انسو نکل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک پر گر گئے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی۔پوچھا صدیق کیا بات ہے رو کیوں رہے ہو۔عرض کی حضور کچھ نہیں بس سانپ نے کاٹ لیا تھا فرمایا بتایا کیوں نہیں؟عرض کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام میں کہیں خلل نہ پڑ جائے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لب مبارک صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے زخم پر لگایا تو زہر کا اثر زائل ہونے کے ساتھ ہی درد کا بھی خاتمہ ہو گیا۔تھکے ہارےواپس ہوٹل پہنچے۔اگلے روزتھکاوٹ کی وجہ سے حرم پاک میں حاضری سے قاصر رہا اور مقامی مسجد میں نماز یں ادا کیں.چونکہ غارحرا 2016 میں عمرہ کی ادائیگی کے وقت دیکھنے کی سعادت حاصل کر چکا تھا اس لئے اس دفعہ وہاں جانے کا پروگرام نہ بن سکا۔ تاہم مدینہ جانے سے قبل آخری دو روز راتوں کو بھی حرم پاک ہی میں قیام کیا۔اور اللہ تعالی ' اوراس کے گھر کی قربت میں کچھ وقت گزارنے کی سعادت حاصل کی۔حج اور دیگر عبادات کے دوران کسی کمی یا زیادتی کی معافیاں مانگی۔سروروکیف سے بھری یہ راتیں زندگی اور سفر حج کا حاصل ہیں رات کے طوافوں میں ایک آسانی یہ رہی کہ رش کم ہونے کے ساتھ ساتھ دھکم پیل گروپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے ایک مکمل طواف میں 20 منٹ کا وقت صرف ہوتا تھا۔عام حالات 30 سے 35 منٹ لگتے ہیں۔دوسرے روز مکتب کی گاڑیاں آگئیں اور ہم لوگ نماز عصر کے بعد مدینہ منورہ کی طرف عازم_ سفر ہوئے۔۔۔جس کی تفصیل اگلی نشست میں انشاء اللہ۔
 

younas majaz
About the Author: younas majaz Read More Articles by younas majaz: 25 Articles with 30588 views معروف کالم نگار وشاعر محمد یو نس مجاز، کا تعلق ہری پور ہزارہ سے ہے ایم اے اردو پشاور یونیورسٹی سے کیاگزشتہ تیس سال سے دنیا ء صحافت سے منسلک ہیں شا.. View More