دل کو یک گونہ سکون ملا کہ جوکام کرنے کی کوشش کررہاہوں
اسے پسندکرنے والوں کی کمی نہیں گزشتہ کچھ عرصے سے کوئی کالم یاآرٹیکل نہ
لکھ سکا تو میرے کرمفرماؤں نے ای میل ، مسینجر، فون، واٹس ایپ اور
دیگرذرائع سے غیرحاضری کی شکایت کی میں کچھ ذاتی مسائل میں الجھنے کے باعث
اپنے قارئین سے دورہوچکاتھا اب انشاء اﷲ اس دوری کاازالہ ہوگا۔
آتے ہیں آج کے موضوع کی جانب ، آج مسئلہ کشمیرپرکچھ گزارشات پیش کرناچاہوں
گاجیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ بھارت کی ہٹ دھرمی کے
باعث مسئلہ کشمیر سلجھنے کی بجائے الجھ چکاہے اگرچہ بھارتی انتخابات کے وقت
ہمارے’’ ہردلعزیز وزیراعظم ‘‘ نے نریندرمودی کی دوبارہ کامیابی کی خواہش
اسلئے ظاہرکی تھی کہ اس سے مسئلہ کشمیرحل ہونے میں مددملے گی اب یہ ہمارے
خان صاحب کوکوئی الہام ہواتھا یاپھرانکے سیاسی تجربے کاکمال تھاکہ انہوں نے
مودی سے کشمیرکامسئلہ حل کرانے کی امیدباندھ لی مودی جی نے دوبارہ منتخب
ہوتے ہی واقعی مسئلہ کشمیرتقریباً حل کرلیاہے ہمارے وزیراعظم کے’’ کامیاب‘‘
دورۂ امریکہ میں صدرٹرمپ نے کشمیرپرثالثی کی پیشکش کی جس پرہمارے ہاں
شادیانے بجانے کاروایتی سلسلہ یقینی تھاہم پاکستانی کسی امریکی صدرکے منہ
سے کشمیرکانام بھی سن لیں تو اسے حکومتی کامیابی سے جوڑنے میں دیرنہیں
لگاتے مگرصدرٹرمپ کی ثالثی والے بیان پرہم ابھی سرشاری کے عالم میں ہی تھے
کہ مودی جی نے کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیرکوبھارت میں ضم کرلیاناہی
صدرٹرمپ کی ثالثی کاکوئی اثرہوااورناہی ہمارے ہاں سے مودی جی کی دوبارہ
کامیابی کی خواہش نے ان کادل موم کیاکشمیرمیں گزشتہ ماہ کی پانچ تاریخ سے
مسلسل کرفیونافذہے گھرگھرتلاشی کاسلسلہ جاری ہے، خوراک اورادویات کی کمی
کاسامناہے ، لاکھوں کشمیری اپنے گھروں میں محصورہوچکے ہیں اورانہیں عالمی
قوانین کے مطابق زندگی کی بنیادی حقوق اور سہولیات سے محروم کردیاگیاہے اس
صورتحال پرہمارے ہاں سے حسبِ روایت بیانات کاسلسہ شروع ہوچکاہے جنگ کی
دھمکیاں دی جارہی ہیں ، بھارت کونیست ونابودکرنے کی ڈینگیں ماری جارہی ہیں،
ایٹم بم کے استعمال کی باتیں ہورہی ہیں ، وزراء کی جانب سے نت نئے الفاظ
میں دھمکیوں کاسلسلہ دراز ہوچکاہے اورپاکستان کے اندرماحول کوگرم رکھنے کی
کوشش جاری ہے یہاں شیخ رشیدوغیرہ ہیں جوآسمان کی جانب پتھرپھینک پھینک
کرتھکتے نہیں ہم الحمداﷲ ڈینگیں مارنے میں خودکفیل ہیں اپنی قدسے اونچی
اونچی مارنے کوپشتومیں’’ڈوزے‘‘ کہتے ہیں اوراس لحاظ سے ’’ڈوزے ‘‘اڑانے والے
کو’’ڈوزمار‘‘کہاجاتاہے ہمارے ہاں ان ڈوزماروں کی کمی نہیں بعض وزراء صاحبان
کے بیانات سن کرلگتاہے کہ مودی اس بیان کے بعدکشمیرکوکسی طشتری میں سجاکراس
وزیرصاحب کی خدمت میں پیش کردے گابیانات اوردھمکیوں سے اگرمسائل حل ہوتے
توہمارے وزراء صاحبان اب تک کشمیرسمیت قبرص بھی آزادکرواچکے ہوتے وزیرخارجہ
کوجب جاگ آئی تب تک کشمیرمیں پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ
چکاتھامگرحکومت ، وزیرخارجہ اوروزارتِ خارجہ بضدہیں کہ انہوں نے مسئلہ
کشمیرکو’’اجاگر‘‘کیاہے 1998 میں جب سرتاج عزیزوزیرخارجہ تھے تووہ بھی
ہرفورم پریہی فرماتے رہے کہ ہم نے مسئلہ کشمیرکواجاگرکیاہے جس پریارلوگوں
نے انہیں اجاگرعزیزکاخطاب دے ڈالا ہم گزشتہ 72برسوں سے مسئلہ
کشمیرکواجاگرکررہے ہیں حل کرنے کی جانب کوئی توجہ نہیں جتنی توانائیاں
اجاگرکرنے میں صرف ہوچکی ہیں اگرانکے نصف بھی مسئلے کے حل پرخرچ کی جاتیں
توشائدکوئی قابل قبول حل اب تک سامنے آچکاہوتا آثاروقرائن یہی بتارہے ہیں
کہ مسئلہ کشمیرحل ہوچکاہے مگربھارت کے حق میں ،پاکستان کے ہاتھ کچھ نہیں
آیااورناہی کشمیریوں کوآزادی نصیب ہوسکی ہے بھارت ، امریکہ اوراسرائیل کے
گٹھ جوڑنے کشمیرکوبھارت کی جھولی میں ڈال دیاہے پینتالیس روزسے جاری
کرفیونجانے کب اٹھایاجائیگااورجب اٹھایاجائیگااس وقت کشمیرمیں بسنے والوں
کی کیاحالت ہوگی ، دنیاتوکشمیرسے بے خبرہے ، ذرائع ابلاغ پرپابندی ہے، لوگ
گھروں میں محصورہیں ، انٹرنیٹ کی سہولت چھینی جاچکی ہے، آزادی سلب ہوچکی ہے
اورہم اپنے میڈیاکے ذریعے یہ سب کچھ ناصرف اپنے عوام کودکھارہے ہیں بلکہ
دنیاکوبھی دکھانے کی کوشش کررہے ہیں اگرچہ دنیامیں ہماری بات کی بجائے
بھارتی مؤقف کوزیادہ پذیرائی مل رہی ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے ملک
کومضبوط کرسکے اورناہی خودکودنیامیں باوقارجمہوری قوم ثابت کرسکے جس ملک
میں 72سالوں سے طرزحکومت کے جھگڑے ہوں اس کی بات کس نے سننی ہے ؟ امریکی
دوچارسینیٹرزاپنے سفیروں کوخط لکھ دیتے ہیں یاکوئی غیرمعروف امریکی صدارتی
امیدوارخاتون کوئی بیان داغ دیتی ہیں تو ہم بغلیں بجاناشروع کردیتے ہیں کہ
’’مسئلہ کشمیراجاگرہوگیا‘‘ ہم نے مسلم امہ کواعتمادمیں لینے کی کوئی
ترددکرنے کی زحمت گوارانہیں ، او آئی سی کااجلاس نہیں بلایاگیا، سفیروں
کوکوئی خصوصی ہدایات جاری نہیں کی گئیں ، مضبوط روابط استوارنہیں کئے
گئے،کسی مربوط حکمت عملی کے تحت کام نہیں کیاگیابس یہ کافی سمجھ لیاگیاکہ
اپنے ملک میں جمعے کے روزآدھے گھنٹے کیلئے کھڑے ہوگئے، اگلے جمعے
کومظفرآبادمیں جلسہ کیاگیااوراس جلسے میں دنیاکے سب سے زیادہ ’’ڈوزے‘‘ مارے
گئے ڈوزمارقوم اورکربھی کیاسکتی ہے ؟ ضرورت اس امرکی تھی کہ ہم کشمیرکی
خصوصی حیثیت ختم ہونے کے فوراًبعد حرکت میں آتے مسلم ممالک کواعتمادمیں
لیتے او آئی سی کاہنگامی اجلاس بلاتے اورمسلمان ممالک کواس بات پرقائل
کرلیتے کہ وہ کشمیرکے حوالے سے ناصرف واضح مؤقف اپنائیں بلکہ کشمیریوں
پرمظالم بندکرنے ،وہاں کرفیواٹھانے تک بھارت کی اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ
کی قراردادمنظورکراتے مسلم ممالک کب ایک دوسرے کے کام آئینگے اس طرح
اگرتتربتررہیں گے توکوئی بعیدنہیں کہ کل فلسطین( جوکہ مسلمانوں کاقبلہء اول
ہے) ہاتھ سے نکل گیاآج کشمیرمٹھی سے ریت کی طرح پھسل رہاہے کل کسی اور ملک
کی باری آئے گی اس طرح باری باری مارکھاتے رہیں گے ہماری زمینوں ،ملکوں
اورخطوں پرغیرمسلم قابض ہوتے رہیں گے اورہم مسائل کواجاگرکرنے کی خوشیاں
مناتے رہیں گے اب تک پاکستان مسئلہ کشمیرکے حوالے سے جوکچھ کرچکاہے وہ ملک
کے اندراپنی سیاست کومہمیزدینے کے سواکچھ نہیں کشمیرپریاتوبھارت نے
بزوربازوقبضہ جمالیاہے یاپھرپاکستان نے مشرف دورکاتصفیہ خفیہ طورپرقبول
کرلیاہے اب جوچائے کی پیالی میں طوفان برپاہے یہ محض کشمیریوں کی دل جوئی
اورپاکستان میں بھارت کے خلاف بیان بازی سے اپنی سیاسی قدکاٹھ بڑھانے کے
چونچلے ہیں ہم مسئلہ کشمیراجاگرکررہے ہیں جبکہ بھارت کشمیریوں کی آوازدبانے
میں کامیاب ہوتاہوانظرآرہاہے باقی خداخیرہی کرے اگریہی صورتحال برقراررہتی
ہے توکہیں ہم سری نگرکانام لے لے کرمظفرآبادسے ہی محروم نہ ہوجائیں دنیامیں
سراٹھاکرجینے اوراپناحق حاصل کرنے کیلئے ’’ڈوزماروں‘‘کی نہیں باوقارقیادت
کی ضرورت ہوتی ہے جن کی بات کودنیااہمیت دیتی ہو۔
|