لوٹوں! قائد اعظم کو تو بخش دو

لوٹا کریسی تو وطن عزیز میں پہلے سے موجود تھی اور اس پر تمام لوٹوں کو ایک شرمندگی کا احساس بہرحال ہوتا تھا اور لوٹا بننے والا عوام سے اور میڈیا سے تھوڑا دب کر، تھوڑا شرمندگی سے بات کرتا تھا ۔اپنی وفاداری کی تبدیلی کے لئے کئی جواز گھڑتا تھا لیکن ! پنجاب اسمبلی میں میاں برادران نے ق لیگ سے ان کے لوٹے ارکان کو واپس لینے اور یونیفیکیشن بلاک بننے کے بعد لوٹا کریسی کو جو عروج حاصل ہوا ہے اور جو قانونی جواز عطا کیا گیا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ کے جواز میں کہا گیا کہ ’’ یہ ہمارے ہی تو ارکان تھے جنہیں ایک آمر نے اغوا کرلیا تھا اور اب بازیاب ہوگئے ہیں ‘‘ اس طرح لوٹا کریسی کی حمایت کر کے جس گھناؤنے فعل کا آغاز کیا گیا تھا،جن پست روایت کا آغاز کیا گیا تھا ، اب وہ پستی کی انتہائی شکل میں جا پہنچا ہے۔اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اب ہمارے یہ کرپٹ، فراڈی، بیحس و بے ضمیر سیاستدان اپنے ان مکروہ افعال کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ مرحوم کے عمل سے تشبیہہ دی جارہی ہے۔

گزشتہ روز یعنی 25 مارچ 20011 ء کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں یونیفیکیشن بلاک کے شیخ علاؤالدین کی جانب سے قائد اعظم ؒ کے بارے میں ہرزاہ سرائی کی گئی ۔’’تفصیلات کے مطابق پنجاب اسمبلی میں یونیفکیشن بلاک کے شیخ علاؤالدین کی طرف سے قائداعظمؒ کے متعلق ریمارکس پر اس وقت ہنگامہ شروع ہوگیا جب نے یونیفیکیشن بلاک کے شیخ علاؤالدین نے کہا کہ بانی پاکستان قائداعظم نے بھی کانگریس پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ کو جوائن کیا تھا اور وہ دونوں پارٹیوں کے ممبر کافی عرصہ رہے تھے۔ جس پر اپوزیشن نے زبردست احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کر دیا۔ شیخ علاؤالدین نے کہا کہ میں اس بارے 2گھنٹے بحث کرنے کے لئے تیار ہوں میرے پاس ریکارڈ ہے۔ شیخ علاؤالدین نے دعویٰ کیا کہ 1913 سے لیکر 1920ء تک قائداعظم محمد علی جناح بیک وقت کانگریس اور مسلم لیگ کے رکن رہے اور اگر میں یہ بات ثابت نہ کر سکوں تو صرف میں ہی نہیں بلکہ ہمارے گروپ کے 47 اراکین اسمبلی استعفیٰ دیدیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم تو بیک وقت دو پارٹیوں کے رکن رہے اور ہم نے تو پارٹی بھی نہیں چھوڑی آج بھی اپنی پارٹی میں ہی ہیں‘‘ اس پر مسلم لیگ ن کے رانا تجمل حسین نے کہا’’ میں شیخ علاؤالدین کو چیلنج کرتا ہوں مناظرہ کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بانی پاکستان قائداعظمؒ سے جذباتی وابستگی ہے آپ لوگ اپنی خامیاں غلطیاں چھپانے کے لئے قائداعظمؒ کی مثالیں نہ دیں‘‘۔

گویا کہ اب یہ’’ لوٹے‘‘ اپنی وفاداریوں کی تبدیلی،اپنی ضمیر فروشی اور بد ترین ہارس ٹریڈنگ کو بھی قائد اعظم سے منسوب کریں گے۔ دیکھیں شیخ علاؤ الدین صاحب کی یہ بات تو درست ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے ممبر رہے تھے بلکہ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کی ابتداء آل انڈیا نیشنل کانگریس سے ہی کی تھی اور انہوں نے 1905میں کانگریس کو جوائن کیا تھا ، ابتداء میں قائد اعظم بھی متحدہ قومیت اور ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے اور انہوں نے ہی 1916میں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان ایک معاہدہ (جو کہ میثاق لکھنو کہلاتا ہے)کرایا تھا ، لیکن موہن داس کرم چند گاندھی کے تعصب اور ہندو قوم پرستی کے باعث انہوں نے 1920میں کانگریس سے مکمل علیحدگی اختیار کی۔جبکہ مسلم لیگ کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کا تعلق 1912میں شروع ہوا ۔یہاں تک تو جناب شیخ علاؤالدین کی باتیں درست ہیں لیکن ؟؟

لیکن سوچنے کی بات ہے کہ انہوں نے جو اپنی ’’لوٹا کریسی ‘‘ کو قائد اعظم سے تشبیہہ دہی ہے تو کیا وہ درست ہے؟ کیا قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے پارٹی بدلی تھی؟کیا انہوں نے چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ جوائن کی تھی؟ جواب ہے کہ نہیں! قائد اعظم نے اپنے مفادات کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کی خاطر مسلم لیگ جوائن کی تھی، اس میں ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا۔اگر قائد اعظم محمد علی جناحؒ چاہتے تو کانگریس میں ہی رہ سکتے تھے اور وہاں ان کی بہت قدر ہوتی ان کے لئے کونسل کی ممبری یا کوئی وزارت حاصل کرنا چنداں مشکل نہ تھا لیکن انہوں نے ان سب باتوں کے بجائے مسلمانوں کے اجتماعی مفاد اور الگ وطن کی جدو جہد کو ترجیح دی۔

دوسری بات کہ جب قائد اعظمؒ نے مسلم لیگ جوائن کی تھی اس وقت برِ صغیر میں انڈین نیشنل کانگریس ہی ایک مضبوط جماعت تھی اور اس کے مقابلے میں آل انڈیا مسلم لیگ نوزائیدہ تنظیم تھی ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ جس وقت قائد اعظم نے کانگریس چھوڑی تھی اس وقت برصغیر کے کئی چوٹی کے رہنما انڈین نیشنل کانگریس میں تھے،اور بظاہر مسلم لیگ کی کوئی اہمیت نہ تھی ۔ایسے حالات میں انہوں نے مسلم لیگ جوائن کی تھی۔

اب اس کے برعکس ان ’’لوٹوں ‘‘ کا عمل دیکھیں اور اس کے پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو یہاں پارٹی بدلنے کی،وفاداریاں تبدیل کرنے کی ،ضمیر فروشی کی واحد وجہ صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہے۔ سب کسی بھی طرح حکومت میں شامل رہا جائے۔ اور یہ ابھی سے نہیں ہو رہا ہے بہت پہلے سے ہو رہا ہے۔ ہمارے پاس پرانے لوگوں کی تو نہیں لیکن موجودہ دور کے کئی سیاستدانوں کی مثال موجود ہے کہ انہوں نے اپنے مفادات کے لئے کس کس طرح پارٹیاں بدلی ہیں۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ ان ضمیر فروشوں میں ،’’لوٹوں ‘‘ میں زیادہ تر لوگ مسلم لیگ سے ہی وابستہ رہے ہیں ۔ یہاں ہم کسی کا نام نہیں لے رہے لیکن قارئین خود ہی غور کریں اور پھر سوچیں کہ جو جو لوگ آج ق لیگ میں شامل ہیں وہ کل کونسی جماعت میں تھے؟ جو لوگ آج ن لیگ میں ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو کل کسی اور پارٹی میں تھے ؟ اسی طرح پی پی پی میں نظر ڈالیں تو یہاں بھی یہی صورتحال ہے اب لوگ صرف دیکھیں اور یاد کریں کہ کل یہ لوگ کونسی پارٹی میں تھے اور آج کس پارٹی میں ہیں؟

اسی طرح اگر تمام لوگ ایک کام اور کریں کہ موجودہ دور کے پی پی پی ،ق لیگ اور ن لیگ کے وزراء،اور ارکان اسمبلی کی فہرست بنائیں اور محفوظ کرلیں اور آئندہ الیکشن کے بعد دیکھیں کہ کتنے لوگ اسی پارٹی میں رہتے ہیں اور اور کتنے ایک بار پھر اپنے ضمیر کی قیمت لگاتے ہیں؟ یہ ضمیر فروش ،بے حس لوٹے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں دنیا کے اور مسلمانوں کے عظیم لیڈر،با اصول اور قانون پسند، اور اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل قائد اعظم محمد علی جناحؒ مرحوم سے! شرم آنی چاہئے ان لوگوں کو ا نکی جرائت کیسے ہوئی کہ وہ اپنے مکروہ فعل کو قائد اعظم کے کانگریس چھوڑنے کے عمل سے تشبیہہ دیں؟ میں اس فورم کے ذریعے ان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ تمام قوم سے اس بات کی معافی مانگیں اور مسلم لیگ ن کے رانا تجمل حسین کی بھی یہی کہونگا کہ جناب آپ کس منہ سے ان کی مذمت کر رہے ہیں ؟ آپ ہی کے لیڈر نے تو ان لوٹوں کو اپنے مغوی ارکان کہا تھا۔ آپ ہی کے لیڈر نے تو یہ لوٹا کریسی شروع کی تھی ۔پہلے آپ اپنے لیڈر کی مذمت کریں اسکے بعد ہی شیخ علاؤالدین یا کسی اور کی مذمت کیجئے گا۔ میری ان لوٹے ارکان سے یہی گزارش ہے کہ خدار اپنی اس گندی سیاست میں قائد اعظم کو تو نہ گھسیٹیں ان کو تو بخش دیں۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520039 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More