شاہد جوئیہ: ایک ہزار میں کاروبار کروانے والا یوٹیوبر

اگر آپ کا پاکستان کے ضلع خانیوال کے گاؤں چک 79 جانا ہو اور شاہد حسین جوئیہ نام کے کسی شخص سے ملنا ہو تو آپ کو پتا ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں۔
 

image


گاؤں میں داخل ہوں اور کسی بھی راہ چلتے شخص کو روک کر پوچھ لیں۔ اگر کوئی دکان پاس ہو تو دکان دار سے معلوم کرلیں۔ یا پھر کوئی چنکچی رکشہ پاس سے گزرے تو اسے ہاتھ دے کر روک لیں۔ ڈرائیور سیدھا آپ کو شاہد جوئیہ کے گھر کے دروازے پر جا اتارے گا۔

34 سالہ شاہد حسین جوئیہ نہ تو علاقے کی کوئی بااثر شخصیت ہیں، نہ بڑے زمیندار ہیں اور نہ ہی کوئی سیاست دان ہیں۔ ہاں ایک صلاحیت ایسی ضرور ہے جس کی وجہ سے گاؤں کا بچہ بچہ انھیں پہچانتا ہے۔

جھاڑو لگانے کی نوکری
ایک اتوار شاہد حسین جوئیہ کے گھر سے متصل ڈیرے پر پہنچا تو وہ مہمانوں سے مل رہے تھے۔ لوگوں کا تانتا بندھا تھا جن میں سے اکثر ایک رات پہلے ہی یہاں پہنچ گئے تھے۔ ملاقاتیوں سے چند لمحے فراغت کے ملے تو شاہد حسین نے بتایا کہ ان کا ملتان میں فرٹیلائزر کا کاروبار ہے۔ وہ مائع فرٹیلائزر بڑے پیمانے پر تیار کر کے فیکٹریوں کو فروخت کرتے ہیں۔

وہ بتانے لگے کہ 'میں نے اپنا سفر بالکل نچلی سطح سے شروع کیا۔ ابتدا میں میں ملتان کی ایک فیکٹری میں جھاڑو دیا کرتا تھا۔ بارہ سال کے عرصے میں اپنی محنت اور مستقل مزاجی کے باعث ترقی کرتے ہوئے اسی فیکٹری میں جنرل مینیجر کی پوزیشن پر پہنچ گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اِس دوران مجھے صنعتی شعبے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور اپنے مشاہدے کی عادت کی وجہ سے جلد ہی اس شعبے کی تمام باریکیوں سے واقف ہو گیا۔'
 

image


یوٹیوب یونیورسٹی
شاہد حسین جوئیہ بتاتے ہیں کہ ان کا کاروبار چل پڑا تو اکثر دوست احباب مشورے کے لیے ان کے پاس آنے لگے۔ جب یہ سلسلہ بڑھا تو انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ ایسے ہی کاروباری مشورے دوسرے لوگوں تک بھی پہنچائے جائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 'میں یوٹیوب تفریح کے لیے دیکھا کرتا تھا۔ تو ایک دن میری نظر سے کچھ پاکستانی یوٹیوبرز گزرے جو کاروبار کرنے کے نت نئے طریقے بالکل عام فہم انداز میں بتا رہے تھے۔

'میں نے مشہور ولاگرز آزاد چائے والا اور ریحان اللہ والا سے متاثر ہو کر یوٹیوب کے لیے ویڈیوز بنانا شروع کر دیں۔ ابتدا میں مجھے زیادہ ویوز نہیں ملے لیکن میں اپنے شوق کی وجہ سے ویڈیوز بناتا رہا۔'

ڈھائی سال سے بھی کم عرصے میں شاہد حسین جوئیہ کے یوٹیوب چینل 'بزنس ٹاکس' کے تین لاکھ سے زائد فالورز ہو چکے ہیں۔

وہ اپنی ویڈیوز میں مختلف کاروباری آئیڈیاز پر گفتگو کرتے ہیں۔ ان ویڈیوز کے ذریعے کسی بھی کاروبار کو شروع کرنے کے لیے درکار سرمائے، مشینری، افرادی قوت اور خام مال کے بارے میں مکمل اور جامع معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
 

image


ایک ہزار روپے میں کاروبار
شاہد حسین کا دعویٰ ہے کہ 'آپ ایک ہزار روپے جیب میں ڈال کر آئیں، میں آپ کو اسی دن کاروبار شروع کرا کے واپس بھیج سکتا ہوں۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ 'یہی نہیں میرے پاس کئی ایسے بزنس پلانز ہیں جو صفر سرمائے سے شروع کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ میں مٹی جیسی بیکار چیز کو بھی بیچ کر پیسے کمانا سِکھا سکتا ہوں۔'

شاہد حسین کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کاروبار بڑے پیمانے پر کیا جائے۔ سمجھداری کا تقاضہ ہے کہ کسی بھی نئے کاروبار کو چھوٹی سطح پر شروع کیا جائے تاکہ ناکامی کی صورت میں نقصان بھی کم ہو۔

وہ بتاتے ہیں کہ 'ہم پاکستان اور دنیا بھر میں جتنی بڑی کاروباری شخصیات کو دیکھتے ہیں، انھوں نے ابتدا میں اپنا کام چھوٹے پیمانے پر شروع کیا اور آہستہ آہستہ اس کو ترقی دے کر آج اِس مقام پر پہنچے ہیں۔‘

'کہیں نہ کہیں سے سفر شروع کرنا ہوتا ہے۔ اگر منزل دور ہو تو کامیابی کے لیے چھوٹے چھوٹے قدم لینے پڑتے ہیں۔'
 

image


بزنس سکول جس کی کوئی فیس نہیں
ہفتے میں ایک دن پاکستان بھر سے آئے لوگ چک 79 میں شاہد حسین جوئیہ کے گھر سے متصل ورک شاپ میں جمع ہوتے ہیں۔ یہاں مختلف چھوٹے بڑے کاروباری منصوبوں پر گفتگو کی جاتی ہے اور معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس بزنس سکول کی کوئی فیس نہیں ہے، داخلے کے لیے شرائط نہیں ہیں، اور تو اور تعلیمی قابلیت کی بھی کوئی قید نہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ 'میں اِن لوگوں کو ایک بنیادی فیزیبلٹی بنا کر دیتا ہوں کہ کوئی بھی کاروبار کیسے شروع ہوتا ہے اور اس کے لیے کیا کیا عملی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو میں انھیں اِس سارے عمل میں معاونت بھی فراہم کرتا ہوں۔'

کاروباری اور سوشل میڈیا شخصیت ریحان اللہ والا خانیوال کے گاؤں میں چلنے والے اس بزنس سکول کے دلدادہ ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کے ہر بڑے شہر میں بے شمار ٹیک انکوبیٹرز قائم ہیں جہاں نت نئے کاروباری آئیڈیاز پر کام کیا جا رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'شاہد جوئیہ کا کام اس لیے قابلِ ستائش ہے کیونکہ یہ چھوٹے کاروبار کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ٹیک انکوبیٹرز اکثر نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو ٹیکنالوجی سے متعلق کاروبار شروع کرنے میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔ شاہد حسین کے پاس جو لوگ آتے ہیں ان کی اکثریت ناخواندہ ہوتی ہے۔'
 

image


واشنگ پاؤڈر، ملتانی مٹی اور سولر پینلز
شاہد حسین جوئیہ سے کاروبار سیکھنے والے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرونِ ملک بھی موجود ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہر روز انھیں بے شمار ٹیلی فون کالز آتی ہیں۔ کچھ افراد انڈیا سے بھی رابطہ کرتے ہیں جبکہ افغانستان سے تو لوگ باقاعدہ سیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

'سمندر پار خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں بسے پاکستانی جب چھٹیوں پر یہاں آتے ہیں تو مجھ سے ضرور ملتے ہیں۔ ان میں سے اکثر وطن واپس آ کر کوئی نہ کوئی کاروبار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور مجھ سے رہنمائی چاہتے ہیں۔'

شاہد جوئیہ نے مجھے بہاولنگر سے تعلق رکھنے والے محمد عمیر سے ملوایا جو پہلی بار یہاں آئے تو واشنگ پاؤڈر کے کاروبار کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ آج ان کی اپنی فیکٹری ہے۔

ساتھ ہی اٹک سے آئی رقعیہ بی بی سے بھی ملاقات ہوئی جو گھر بیٹھے ملتانی مٹی بیچنے کا کام کر رہی ہیں۔ اس مٹی سے خواتین اور مردوں کے لیے فیس ماسک تیار کیے جاتے ہیں۔

اور خوشاب کے احمد رضا بھی وہیں موجود تھے جنھوں نے شاہد جوئیہ کے مشورے سے سولر پینلز فروخت کرنے کا بزنس شروع کیا تھا۔ اب وہ پاکستان کے سولہ شہروں میں کاروبار کر رہے ہیں۔
 

image

دیسی مشینیں
ابتدا میں شاہد جوئیہ اپنے پاس آنے والوں کو صرف زبانی معلومات دیا کرتے تھے۔ لیکن اکثر لوگوں کا سوال ہوتا تھا کہ مصنوعات کی تیاری کے لیے مشینیں کہاں سے حاصل کی جائیں۔

'کچھ لوگوں کے پاس اتنا قلیل سرمایہ ہوتا ہے کہ وہ درآمد شدہ مہنگی مشینیں نہیں خرید سکتے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے میں نے بڑی مشینری کو چھوٹی مشینوں میں تبدیل کر دیا۔

'میری کوشش ہوتی ہے کہ یہ تمام مشینیں ایسی ہوں جو یا تو سنگل فیز بجلی پر کام کریں یا پھر سرے سے بجلی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔'

ملتان چیمبر آف کامرس کے نائب صدر شیخ محمد امجد مقامی طور پر تیار کردہ مشینری کے حامی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دیسی ساختہ مشینوں کے ذریعے درآمد شدہ مشینری پر اٹھنے والا بھاری زرِ مبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔

'گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں تیار کی جانے والی لوکل مشینری بے شمار چھوٹی صنعتوں میں استعمال ہو رہی ہے۔ یہ مشینیں نہ صرف چین سے درآمد شدہ مشینری سے بہت بہتر ہیں بلکہ ان کے استعمال سے مصنوعات کی مینوفیکچرنگ لاگت بھی کم ہو جاتی ہے۔'
 
image


ہاتھ سے چلنے والی مشینیں
شاہد حسین کے مطابق بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور کم وولٹیج کی وجہ سے چھوٹے شہروں اور قصبات کے کارخانوں میں بھاری مشینری کا استعمال ممکن نہیں۔

'اس مشکل کا حل میں نے یہ نکالا کہ ایسی مشینیں تیار کیں جنھیں بغیر بجلی کے ہاتھ سے آپریٹ کیا جاسکے۔ اس سے ایک تو مشین کی لاگت بہت کم ہو جاتی ہے دوسرا یہ کہ بجلی کے بل سے بھی نجات مل جاتی ہے۔'

شاہد حسین بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنی ورکشاپ میں باقاعدہ سٹاف رکھا ہوا ہے۔ وہ مشینوں کی ڈرائنگز اور پیمائش فراہم کرتے ہیں اور ویلڈرز اور فیبری کیٹرز اس کے مطابق مشینیں تیار کرتے ہیں۔

میری فرمائش پر کہ اپنی تیار کردہ کچھ مشینیں تو دکھائیں، شاہد فوراً ایسے تیار ہو گئے جیسے کوئی بچہ مہمانوں کو اپنے پسندیدہ کھلونے دکھانے لگا ہو۔

انھوں نے مجھے ہوائی چپل بنانے کی مشین دکھائی جس کے اندر فوم اور سانچہ رکھ کر ہینڈل دبائیں تو چپل کا تَلا تیار ہو جاتا ہے۔ کچھ فاصلے پر سٹین لیس سٹیل کی ایک مشین نظر آئی۔

پوچھنے پر پتا چلا کہ بغیر موٹر کی اس مشین میں ایک وقت میں بیس کلو واشنگ پاؤڈر بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ شیمپو، ہینڈ واش، ڈش واش لیکوئڈ اور ٹوائلٹ کلینر بھی اس مشین کے ذریعے تیار کیا جا سکتا ہے۔
 

image


درآمدات سے نجات
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے جی ڈی پی کا 20 فیصد سے بھی کم مینوفیکچرنگ کے شعبے پر مشتمل ہے۔ قومی ادارہِ شماریات کے مطابق گذشتہ مالی سال کے دوران بڑے پیمانے پر ہونے والی مینوفیکچرنگ میں تین اعشاریہ چھ فیصد کمی دیکھی گئی جو گذشتہ دس سال کی بلند ترین سطح ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستانی معیشت کو مینوفیکچرنگ کے شعبے کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ملتان چیمبر آف کامرس کے نائب صدر شیخ محمد امجد کہتے ہیں کہ اگر مقامی مینوفیکچرنگ میں اضافہ کیا جائے تو مصنوعات کی درآمدات پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے جس سے ملکی معیشت مستحکم ہو گی۔

شاہد حسین جوئیہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عام استعمال کی بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو دیسی ساختہ مشینوں پر مقامی طور پر تیار کی جا سکتی ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ لوکل مینو فیکچررز کو اس طرف راغب کیا جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'شیمپو، لیکوئڈ ہینڈ واش، واشنگ پاؤڈر اور فرٹیلائزرز ایسی چیزیں ہیں جن کی تیاری کے لیے بڑی مشینری اور سرمایے کی ضرورت نہیں ہے۔ مناسب معلومات ہوں تو اعلیٰ کوالٹی کی اشیاء مقامی طور پر تیار کی جا سکتی ہیں۔'

چھوٹے کاروبار
ماہرین کے مطابق چھوٹے کاروبار معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملتان چیمبر آف کامرس کے نائب صدر شیخ محمد امجد کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا دارومدار چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار پر ہوتا ہے۔

'ضرورت اِس بات کی ہے کہ ملک میں کاروباری سرگرمیوں کے لیے حالات سازگار بنائے جائیں۔ حکومت اور نجی بنکوں کو چاہیے کہ وہ چھوٹے کاروباری افراد کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کریں تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔'
 

کاروباری شخصیت اور وِلاگر ریحان اللہ والا کے مطابق چھوٹے کاروبار نہ صرف کم آمدنی والے افراد کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دے رہے ہیں بلکہ ملک میں معاشی سرگرمیوں میں اضافے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔

'کیونکہ اِن کاروباری منصوبوں کے لیے انتہائی کم سرمایہ درکار ہوتا ہے لہذا ہزاروں لاکھوں لوگ اُنھیں کر سکتے ہیں۔ اِس طرح یہ ملازمتوں کے مواقعوں میں اضافے کا ذریعہ بن کر بے روزگاری پر قابو پانے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔'

نوکری نہیں کاروبار
شاہد حسین جویا کا ماننا ہے کہ نوکری ایک گھر کو چلاتی ہے جبکہ کاروبار پورے خاندان کو چلاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ آج کل کی نئی نسل ملازمت میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتی۔

'وہ کاروبار کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انھوں نے سمجھ لیا ہے کہ نائن ٹو فائیو ملازمت کے ذریعے اتنی آمدنی ممکن نہیں جتنی پیسے کاروبار کے ذریعے کمائے جا سکتے ہیں۔'

ریحان اللہ والا کے مطابق صنعتی دور میں یہ تصّور پروان چڑھا کہ لوگ تعلیمی درسگاہوں اور تکنیکی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ملازمت اختیار کرنے لگے۔ گذشتہ ایک دہائی میں دنیا بھر میں یہ تصور تبدیل ہو چکا ہے۔

'اب کوئی بھی حکومت یا ادارہ اتنی زیادہ ملازمتیں فراہم نہیں کر سکتا لہذا کاروبار خاص طور پر چھوٹے کاروبار ہی ترقی کا واحد راستہ ہیں۔

'ہاتھ سے کام کرنے یا دفتری ملازمتوں کے علاوہ دیگر پیشوں کے بارے میں پایا جانے والا منفی معاشرتی رویہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جوتے بنا کر اپنی کمپنی چلا سکتا ہے اور کوئی بھی اُسے تضحیک کا نشانہ نہیں بناتا۔'

شاہد جویا بھی مانتے ہیں کہ آج کے جدید زمانے میں صرف یونیورسٹی ڈگری ہی کافی نہیں بلکہ اِس کے ساتھ ساتھ تکنیکی تعلیم اور پیشہ ورانہ مہارت وقت کی ضرورت ہے۔

'پہلے یہ تھا کہ لوگ ہاتھ سے کام کرنا اپنی شان سے کم سمجھتے تھے۔ مغرب نے تو یہ بات بہت پہلے سمجھ لی تھی لیکن اب ہمارے یہاں بھی یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے میں کوئی برائی نہیں بلکہ یہ کسی دوسرے کے لیے ملازمت کرنے سے بہت بہتر ہے۔'


Partner Content: BBC
YOU MAY ALSO LIKE: