بسم اﷲ الرحمن الرحیم
زلزلہ ، سیلاب ہو یا کوئی اور قدرتی آفت سعودی عرب نے ہرمشکل وقت میں
پاکستان کاساتھ دیا ہے
پاکستان کی معیشت بہتر بنانے کیلئے سعودی عرب نے اربوں ڈالرز دیے، ایٹمی
دھماکوں کے وقت بھی نمایاں کردار ادا کیا
وزیراعظم عمران خان کی سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کی مذمت، سعودی قیادت کا
بھی پاکستان کی مکمل حمایت کا اعلان
سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کی سفارتی سرگرمیوں سے دونوں ملکوں کے
دوستانہ تعلقات میں مزید مضبوطی آئی ہے
سعودی عرب کا قومی دن ہر سال 23ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن 1932ء میں
پیش آنے والے ان واقعات کی یاد کو تازہ کرتا ہے جب مملکت سعودی عرب کے بانی
شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعودنے ایک بکھرے ہوئے ملک کو متحد کیا اور
اسلامی اصولوں پر مبنی ایک متحدہ مملکت کے قیام کا اعلان کیا۔ پندرہ جنوری
1902میں شاہ عبدالعزیز نے دارالحکومت ریاض کو واگزار کروایا اور اپنے ورثے
کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کی بدولت علاقے میں آل سعود کی
حکمرانی واپس آئی۔ اس مملکت کے بانی نے آئندہ 31سال پوری یکسوئی کے ساتھ
منتشر و شورش زدہ مملکت کو متحد کرنے میں صرف کر دیے۔ شاہ عبدالعزیز
1953میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ انہوں نے اپنی عمر کے آخری دو عشرے
ایک جدید اور پرامن ملک کی بنیادیں رکھنے میں صرف کئے۔ بانی مملکت کے
نظریات ان کے بعد مسند نشیں ہونے والوں میں منتقل ہوئے اور وہ بھی پوری
ایمانداری کے ساتھ اپنے بزرگ کے نقش قدم پر چلے تاکہ ملک کو ترقی یافتہ
بنایا جائے۔ اس عمل میں ہر احتیاط کارفرما رہی کہ عقیدے کے اصولوں سے
انحراف نہ کیا جائے۔ شاہ سعود نے سب سے پہلے 1953سے 1964ء تک زمام اقتدار
سنبھالی۔ ان کے بعد شاہ فیصل شہید 1964سے 1975ء تک برسراقتدار رہے جن کے
بعد شاہ خالد آئے جو 1982میں وفات پاگئے۔ ان کے زمانے میں تیل کی آمدنی کی
خردمندی سے استعمال کر کے مملکت نے تمام جہتوں میں نمایاں ترقی کی جس سے اس
کی معیشت مضبوط ہو گئی اور اقوام عالم میں اس کا اپنا جائز مقام حاصل ہوا۔
1982ء سے لیکر 2005ء تک زمام اقتدار شاہ فہد بن عبدالعزیزکے ہاتھ میں رہی۔
یکم اگست 2005ء کو شاہ فہد کی وفات پر حکمران خاندان اور عوام نے ولی عہد
شہزادہ عبداﷲ بن عبدالعزیز کو سعودی عرب کا چھٹا بادشاہ خادم الحرمین
شریفین اور وزیر اعظم بنانے کا عہد کیا۔سعودی عرب کی خارجہ پالیسی
جغرافیائی، تاریخی، مذہبی، اقتصادی، امن و سلامتی، سیاسی اصولوں اور حقائق
پر مبنی ہے۔ اس کی تشکیل میں سب سے اچھی ہمسائیگی کی پالیسی، دوسرے ملکوں
کے داخلی امور میں عدم مداخلت، خلیجی ممالک اور جزیرہ عرب کے ساتھ تعلقات
کو مستحکم تر کرنا، عرب اور اسلامی ملکوں کے مفاد عامہ کی خاطر ان سے
تعلقات کو مضبوط کرنا، ان کے مسائل کی وکالت کرنا، غیر وابستگی کی پالیسی
اپنانا، دوست ممالک کے ساتھ تعاون کے تعلقات قائم کرنا اور عالمی و علاقائی
تنظیموں میں مؤثر کردار ادا کرنا شامل ہے۔
سرزمین حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب پوری دنیا کے مسلمانوں کا دینی
مرکز سمجھا جاتا ہے۔ مسجد الحرام، مدینہ منورہ میں مسجد نبوی اور حج کے
مقدس مقامات کے خادم ہونے پر سعودی حکام کو یقینی طور پر فخر محسوس ہوتا ہے
کیونکہ زائرین عمرہ اور حجاج کرام کی خدمت کرنا واقعتا ایک اعزاز ہے۔مقدس
مقامات کی دیکھ بھال اور ترقی کیلئے مملکت کی کاوشیں شاہ عبدالعزیز کے دور
سے لیکر اب تک کئی گنا ہو چکی ہیں۔ حرمین شریفین اور مقدس مقامات میں متعدد
توسیعی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ سعودی حکومتوں نے مسجد
الحرام، مسجد نبوی، منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ میں توسیع اور ترقی کے کئی
منصوبے مکمل کئے ہیں جن میں شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز کا 19اگست 2011سے شروع
کیا گیا مسجد الحرام کا عظیم الشان تاریخی توسیعی منصوبہ خاص طور پر قابل
ذکر ہے۔ اس توسیع کے بعد یہاں 25لاکھ مزید نمازیوں کی گنجائش پیدا ہو گئی
ہے۔ اس توسیع کے مرکزی دروازے کا نام باب شاہ عبداﷲ رکھا گیا ہے۔یہ توسیعی
منصوبہ مسجد الحرام کے شمال اور شمال مغرب میں واقع چار لاکھ مربع میٹر
اراضی پر محیط ہو گا۔ اس میں مطاف کی توسیع بھی شامل ہے جبکہ تمام نئی
عمارتیں ایئر کنڈیشنڈ ہوں گی۔ یہ عظیم تر توسیعی منصوبہ بنیادی ضروریات کی
تمامتر خدمات، سازوسامان بالخصوص صفائی ، امن وامان کے جدید نظام اور پینے
کے پانی کے فواروں جیسی سہولیات سے مزین ہے۔ اسی طرح شاہ عبداﷲ بن
عبدالعزیز کی جانب سے مسجد نبوی کی توسیع کے احکامات صادر فرمائے جس سے
مسجد نبوی میں مزید 16لاکھ نمازیوں کی گنجائش پیدا ہوئی ہے ۔ شاہ عبداﷲ بن
عبدالعزیزکی جانب سے شروع کئے گئے ان توسیعی منصوبوں پر شاہ سلمان بن
عبدالعزیز کے دور اقتدار میں بہت کام ہوا اور یہ توسیعی منصوبے پایہ تکمیل
کو پہنچے ہیں۔ سعودی عرب کا دستور قرآن و سنت ہے‘ تمام آئینی قوانین انہی
دو مصادر سے اخذ کئے گئے ہیں۔ یہاں نظام حکومت بادشاہت ہے جس میں بادشاہ
اور وزراء کی کونسل انتظامی اور مقننہ کے اختیارات رکھتی ہے۔ مملکت شوریٰ
کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی معاملے پر اپنی رائے دے۔ برادر اسلامی ملک
میں اسلام قانونی نظام اور حکومت کی بنیاد ہے۔ عربی اس مملکت کی قومی زبان
ہے جبکہ شہری علاقوں میں انگریزی بھی بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ سعودی
عرب مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سب سے بڑی آزاد منڈی کی معیشت ہے جو
عرب جی ڈی پی کے پچیس فیصد حصہ پر مشتمل ہے۔ مملکت کا جغرافیائی محل وقوع
اسے یورپ، ایشیا اور افریقہ کی درآمدی منڈیوں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ یہ
ایک مسلسل پھیلتی ہوئی منڈی ہے جس میں آبادی 3.5فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ
رہی ہے اور یہ مضبوط قوت خرید رکھتی ہے۔ سعودی عر ب میں سرمایہ کاری کا
ماحول لبرل اوپن مارکیٹ اور پرائیویٹ انٹر پرائزز پالیسی کی روایات کا عکاس
ہے اور اس کا نیا بیرونی سرمایہ کاری کا قانون ، کاروباری اور رئیل اسٹیٹ
کی سو فیصد ملکیت کی اجازت دیتا ہے۔ مملکت سیاسی اور معاشی استحکام کے ایک
متاثر کن ریکارڈ رکھنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح کا ایک جدید ترین بنیادی
ڈھانچہ رکھتی ہے۔سعودی عرب کے پاس دنیا کے سب سے زیادہ تیل کے ذخائر موجود
ہیں(جو پچیس فیصدبنتے ہیں)۔ مملکت کو دوسرے قدرتی وسائل بھی عطا ہوئے ہیں
جن میں صنعتی خام مال اور پاکسائیٹ، لائم سٹون، جپسم، فاسفیٹ اور آئرن جیسے
معدنیات کی بڑی مقدار شامل ہے۔ یہاں نہ تو فارن ایکسچینج پر کوئی پابندی ہے
اور نہ ہی کیپیٹل اور منافع کی واپسی پر لہٰذا اس کی کرنسی بہت مضبوط ہے
اور کمپنیوں کو سو فیصد منافع واپسی کی اجازت ہے۔ مملکت کے تمام شعبوں میں
افرادی قوت کے اخراجات بہت کم ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے خادم الحرمین
شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس کے بعد ویژن
2030کا اعلان کیا گیا ہے جس کے اصل محرک سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن
سلمان ہیں۔ اس منصوبے کے تحت سعودی معیشت بتدریج تیل کی بجائے صنعت و تجارت
کے دوسرے شعبوں پر استوار کی جائے گی۔ سعودی معیشت کی ترقی میں نجی و
غیرملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور تیل کی آمدن پر انحصار
کم سے کم کردیا جائے گا۔انھوں نے اس ویژن کے خدوخال بتاتے ہوئے کہا کہ اس
کے تحت سرکاری اثاثوں کو فروخت کیا جائے گا۔ٹیکسوں کی شرح بڑھائی جائے گی
اور اخراجات میں کمی کی جائے گی۔اس کے علاوہ سعودی عرب کے زرمبادلہ کے
ذخائر کے انتظام میں بھی جوہری تبدیلی لائی جائے گی۔نجی شعبے کے لیے قومی
معیشت کی ترقی میں زیادہ کردار ادا کرنے کے مواقع پیدا کئے جائیں گے۔ سعودی
ویژن 2030کے اعلان پر پوری دنیا کی طرف سے ان کے اس فیصلہ کی تحسین کی
جارہی ہے۔ بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں سعودی
معیشت اور زیادہ مضبوط ہو گی۔ سعودی ترقی ایک متوازی ترقی ہونے کے ساتھ
ساتھ اسلامی تعلیمات و اقدار جیسی تمام جہات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
اس طرح مملکت کے لئے مادی راحت اور اقتصادی کارکردگی مذہبی، روحانی اور
اخلاقی اقدار کے امتزاج کے ساتھ ممکن ہو سکی ہے۔
سعودی عرب کے پاکستان سے تعلقات ہمیشہ بہت مضبوط و مستحکم رہے ہیں۔کلمہ
طیبہ کی بنیاد پر قائم ان رشتوں میں کوئی کمزوری نہیں آئی بلکہ دن بدن ان
میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سعودی عرب کا قومی دن دنیا بھر کی طرح پاکستان میں
بھی انتہائی تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ امسال بھی اس دن کی مناسبت سے
مسلم خطوں و ملکوں میں امن و سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں کی جائیں گی۔ سفارت
خانوں میں خاص طور پر ہر سال پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے
سعودی عرب سے تعلقات چونکہ شروع دن سے انتہائی مضبوط اور مستحکم رہے ہیں اس
لئے وطن عزیز پاکستان کا ہر شہری چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر اور شعبہ ہائے
زندگی سے تعلق رکھنے والا کیوں نہ ہو سرزمین حرمین الشریفین کیلئے ہمیشہ دل
کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں کرتا ہے اور سعودی عرب کا نام سنتے ہی محبت،
اخوت اور ایثارو قربانی کا جذبہ اس کے دل میں جاگزیں ہونے لگتا ہے۔پاک
سعودی تعلقات اگرچہ ابتدا سے ہی خوشگوار رہے ہیں لیکن شاہ فیصل کے دور میں
ان تعلقات کو بہت زیادہ فروغ ملاانہوں نے پاکستان سے تعلقات بڑھانے اور صرف
دونوں ملکوں کو قریب کرنے کیلئے ہی نہیں پوری امت مسلمہ کے اتحاد کیلئے
زبردست کوششیں کیں جس پر دنیا بھر کے مسلمان انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے
ہیں اورسبھی مسلم حکمرانوں کو ان جیسا کردار ادا کرنے میں کوشاں دیکھنا
چاہتے ہیں۔سعودی عرب ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے ہمیشہ مسئلہ
کشمیرسمیت تمام معاملات پر کھل کر پاکستان کے مؤقف کی تائید و حمایت کی ہے
۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کی وسیع پیمانے پر
مدد کی ۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور
اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا
اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔
1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے
تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو
سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور
فنی ماہرین کو رخصت کردیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل
کی گئیں۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انہی کے نام
پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ انہی کے نام پر
شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے
سیلاب زدگان کی کھل کر مالی امداد کی، دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان
کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی
پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے
پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔شاہ
فیصل کی وفات کے بعد بھی سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی کمزوری
نہیں آئی خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداﷲ پاکستان آئے تو پاکستانی عوام نے
ان کا بھرپور استقبال کیا جس سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور کہاکہ ہم
پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں ۔2005ء میں آزاد کشمیر و سرحد کے
خوفناک زلزلہ اور 2010ء کے سیلاب کے دوران بھی مصائب و مشکلات میں مبتلا
پاکستانی بھائیوں کی مدد میں سعودی عرب سب سے آگے رہا او ر روزانہ کی بنیاد
پر امدادی طیارے پاکستان کی سرزمین پر اترتے رہے یہی وجہ ہے کہ اسلام پسند
اور محب وطن حلقوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سعودی عرب کے اسلامی اخوت پر مبنی
کردارسے پاکستان کی نوجوان نسل کو آگا ہ کیا جائے اور اس کیلئے وہ اپنا
کردار بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔ وطن عزیزپاکستان اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے
ایٹمی قوت ہے ۔جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنا تھے اور امریکہ ویورپ سمیت
پوری دنیا کا دباؤ تھا کہ پاکستانی حکومت ایٹمی دھماکوں سے باز رہے۔اس مقصد
کے تحت دھمکیاں بھی دی گئیں اور لالچ بھی دیے جاتے رہے ۔ یہ انتہائی مشکل
ترین صورتحال تھی مگر ان حالات میں بھی سعودی عرب نے اس وقت کی حکومت کا
حوصلہ بڑھایا اور اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ اس طرح اگر یہ
کہاجائے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں میں سعودی عرب کابھی بہت بڑا کردار ہے
تو یہ بات غلط نہ ہو گی۔ یہ ساری رپورٹ سعودی اخبار المدینہ میں تفصیل سے
شائع ہو چکی ہے۔سعودی عرب کو اﷲ تعالیٰ نے تیل کے ذخائرکی دولت سے نواز
رکھا ہے اسلامی ممالک کے مسائل حل کرنے کے لیے اقتصادیات، تعلیم اور دوسرے
موضوعات پر ماہرین کی عالمی کانفرنسیں طلب کرنے جیسے اقدامات کر کے سعودی
عرب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھ
سکیں اور ان کو حل کرنے کے لیے مشترکہ طریق کار طے کرسکیں۔ سعودی عرب کی
مالی امداد سے دنیا میں اسلام کی تبلیغ کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔سعودی
عرب میں مختلف اسلامی ممالک سے جو طلباء تعلیم کی غرض سے آتے ہیں انہیں نہ
صرف مفت کتابیں و رہائش فراہم کی جاتی ہے بلکہ انہیں 800سعودی ریال وظیفہ
بھی دیا جاتا ہے حج کیلئے لاکھوں مردوخواتین میں ان کی مادری زبانوں میں
قرآن پاک اور دیگر اسلامی لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں کتاب
و سنت کی دعوت جس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے اس میں سعودی عرب کا کردار کلیدی
نوعیت کاہے۔ تعلیم اور صحت کے منصوبوں پر سعودی حکومت بے پناہ خرچ کرتی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کیا اور
سعودی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ وزیر اعظم اس وقت امریکہ کے دورہ پر ہیں
جہاں وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے بھی خطاب کریں گے۔ امریکہ جانے سے قبل ان
کے دورہ سعودی عرب کو بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔اس کا واضح مقصد
یہ تھا کہ جنرل اسمبلی اجلاس میں جانے سے پہلے سعودی عرب کے اعلیٰ حکام کو
کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا جائے۔وزیر اعظم عمران خان نے سعودی
عرب میں ہونے والی تیل تنصیبات پر حملوں کی شدید مذمت کی ۔اسی طرح سعودی
قیادت نے بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کیلئے
پاکستان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم
عمران خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سعودی قیادت سے ہونے والی مسلسل
ملاقاتوں کے نتیجہ میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نئی جہت پیدا ہوئی
اور سٹریٹیجک شراکت داری مزید مضبوط ہونے سے پاک سعودی تعلقات میں ایک نیا
ولولہ پیدا ہوا ہے۔ عمران خان نے جب چند ماہ قبل سعودی عرب کا دورہ کیا تو
برادر اسلامی ملک نے وطن عزیز پاکستان میں 10 ارب ڈالر سرمایہ کاری کرنے کا
معاہدہ کیا۔سی پیک کے حوالہ سے بھی خوش آئندہ بات یہ ہے کہ سعودی عرب سی
پیک میں تیسرا پارٹنر ہو گا اور سی پیک منصوبوں میں بڑی سرمایہ کاری کرے گا
۔پاکستان اور سعودی عرب کے مابین بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو دیکھا جائے
تو سعودی عرب کے پاکستان میں تعینات سفیرنواف بن سعید المالکی کا کردار بہت
نمایاں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی کامیابی کے بعد سے وہ مسلسل پاکستانی
حکام کے رابطے میں ہیں۔ نواف بن سعید المالکی پاکستان میں ملٹری اتاشی کے
طور پر کام کر چکے ہیں اس لئے انہیں یہاں کے حالات سے مکمل آگاہی حاصل ہے۔
سفارتی حلقوں میں ان کی پہچان ایک سنجیدہ طبع اور نفیس شخصیت کے طور پر ہے۔
جن لوگوں کو انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں
کہ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک سفیر اور سعودی عرب جیسے اسلامی
ملک کے نمائندہ میں ہونی چاہئیں۔پاکستان میں سعودی سفارت خانے کے میڈیا
سیکشن کے انچارج علی خالد الدوسری بھی متحرک کردار ادا کرتے ہوئے میڈیا کے
ذریعہ پاک سعودی تعلقات مضبوط بنانے کیلئے بھرپور کردارا دا کر رہے ہیں۔
بہرحال ہم سعودی عرب کے قومی دن کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے خادم الحرمین
الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز، ولی عہد محمد بن سلمان اور پوری سعودی
قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ برادر اسلامی ملک سعودی
عرب کو اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں سے محفوظ ومامون رکھے اور دن دوگنی رات
چوگنی ترقی عطا فرمائے۔آمین۔
|