سوال(1):بواسیر میں بہنے والا خون ناقض وضو ہے ، اس سے
طہارت کیسے کریں اور نماز کیسے پڑھیں؟
جواب: جسم کے کسی حصے سے خون بہنے سے وضو نہیں ٹوٹتا،شریعت نے خون بہنے کو
کہیں ناقض وضو نہیں کہاہے،ہاں بواسیر میں مقعد کے داخل سے خون نکلے تو ناقض
وضو ہوگا کیونکہ سبیلین سےبہنے والی چیز نکلنے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ جہاں
تک طہارت حاصل کرنے کا مسئلہ ہے تو جس جگہ خون لگا رہے اسے دھولیا جائےاور
مسلسل خون آئے توہرنماز کے لئے وضو کرلے۔نماز پڑھنے میں حسب طاقت وسہولت
کیفیت اخیتار کی جائے جیساکہ نبی ﷺ نے صحابی رسول کو حکم دیا تھا۔ عمران بن
حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ مجھے بواسیر کا مرض
تھا اس لئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بارے میں دریافت
کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:صَلِّ قَائِمًا، فإنْ لَمْ
تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فإنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ.( صحيح
البخاري:1117)
ترجمہ: کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور
اگر اس کی بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔
سوال(2): جس طرح رمضان میں سحری کے لئے اذان ہوتی ہے کیا دوسرے روزوں کے
لئے مثلا عاشوراء ، عرفہ اور ایام بیض وغیرہ لئے سحری کی اذان دے سکتے ہیں
؟
جواب : اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ سحری کی اذان رمضان کے ساتھ خاص نہیں ہے
اس لئے ضرورت وحاجت کے وقت اذان دی جاسکتی ہے لہذا اگر کسی جگہ نفلی روزوں
کے لئے سحری کی اذان دینا چاہے تو دی جاسکتی ہے ۔
سوال(3): ایک بہن اپنی کسی رشتہ دار کے آپریشن پہ روزہ رکھنا چاہتی ہے کیا
ان کا یہ عمل درست ہوگا؟
جواب : یہ عمل صحیح نہیں ہے کہ کسی کا آپریشن ہورہاہو تو اس کے واسطے روزہ
رکھا جائے ، ہاں ایک کام کیا جاسکتا ہے کہ وہ بہن منت مان سکتی ہے کہ اگر
آپریشن کامیاب رہا تو میں اتنے روزہ رکھوں گی ۔ اس طرح کرنا درست ہوگا۔
سوال(4): آج کل مساجد میں نکاح کرنا عام ہوگیا ہے ، اس موقع پر عورتین بن
سنور کر مسجدمیں آتی ہیں اور بغیر حجاب وعبایا کے پورے مسجد میں فنکشن ہال
کی طرح گھومتی ہیں اس عمل کا اسلام میں کیا حکم ہے ؟
جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ مسجدمیں نکاح کرنے کو باعث فضیلت اور
مسنون سمجھتے ہیں وہ غلط ہے ، ہاں یہ الگ بات ہے کہ مسجد میں نکاح جائز ہے۔
آج کل عقد نکاح میں قسم قسم کے خرافات پائے جاتے ہیں ، عورتوں کی بھی جم
غفیر ہوتی ہے ایسے میں مسجدمیں نکاح کرنا مسجد کی توہین ہوسکتی ہے ۔ کتنی
حائضہ عورت اور کتنے جنبی مرد وعورت مسجد میں داخل ہوجائیں گے ، شورشرابہ،
لغو باتیں ، ہنسی مذاق اپنی جگہ پھر عورتوں کا برہنہ پن ظاہر کرنا اپنی جگہ
۔ چند افراد مل کرمسجد میں عقد نکاح کریں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن عورت
ومرد کی جم غفیر کے ساتھ وہاں نکاح کاعمل انجام دینا فساد واہانت کا باعث
ہوسکتا ہے۔
سوال(5): کیا حجامہ کروانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب : بدن سے آپ خود خون نکلنے یا ضرورت کے تحت نکالنے سے وضو نہیں
ٹوٹتاکیونکہ شریعت نے خون نکلنا ناقض وضو نہیں قرار دیا ہے بلکہ متعدد آثار
سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ بدن سے خون نکلنے پر بھی وضو نہیں دہراتے اوراسی
حالت میں نماز ادا کرتے تھے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مثال جب وہ زخمی
ہوئے تھے۔بعض اہل علم نے قلیل اور کثیر مقدار میں خون کی بحث کی ہے مگر
راحج یہی ہے کہ حجامہ سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا ہے تاہم وضو کرلینا بہتر ہوگا
۔
سوال(6): نبوت کے بعد نبی ﷺ کا ذریعہ معاش کیا تھا ، حضرت عائشہ بیان کرتی
ہیں کہ کئی کئی دن تک گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا؟
جواب : نبوت کے بعد آپ ﷺ نے نہ تو بکریاں چرائیں اور نہ ہی کوئی تجارتی
مشغلہ اپنا یا بلکہ دعوت وتبلیغ اور نبوت ورسالت کے لئے پورے طور پر متفرغ
ہوگئےاور اللہ تعالی نے آپ کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال سے اور مال غنیمت
ومال فےسے مالدار بنادیاجیساکہ اللہ کا فرمان ہے : وَوَجَدَكَ عَائِلًا
فَأَغْنَى(الضحى:8)یعنی اے نبی ہم تجھے نادار پائے توآپ کو مالدار بنا دیا۔
سوال(7): کیا مقلدو ں کے چینل کو سبسکرائب کر سکتے ہیں؟
جواب : تقلید کرنے والوں کا بیان تقلید کی طرف بلانے پر ہی مشتمل ہوگا، وہ
جب بھی کوئی بات کرےگا اپنا مسئلہ امام کی طرف منسوب اقوال سے بیان کرے
گاجبکہ ایک مسلمان کو قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنا ہے تاکہ وہ اللہ اور اس
کے رسول کے احکام پر ٹھیک ٹھیک عمل کر سکے ۔ یہ مقصد مقلدوں کے چینل سے
پورا نہیں ہوگا بلکہ کم پڑھے لکھے اور دین سے انجان لوگ مقلدوں کی بات سے
بہک سکتے ہیں اس لئے عام آدمی تو ان کے چینل کو سبسکرائب کرے ہی نا، البتہ
دین کا مستحکم علم رکھنے والےاس وجہ سے ان کا چینل سبسکرائب کریں کہ ان کی
غلطیوں اور خطاؤں پر عوام کو متنبہ کرسکیں تو ٹھیک ہے ۔ قرآن وحدیث پر
مشتمل بہت سارے سلفی چینلز ہیں عوام کو ان سے ہی فائدہ اٹھانا چاہئے ۔
سوال(8): نقلی زیورات پہن سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب : بلاشبہ عورت مصنوعی زیوارت کا استعمال کرسکتی ہے خواہ کسی بھی دھات
مثلا لویا، تانبا، پلاسٹک،اسٹیل، کانچ وغیرہ کے بنے ہوں حتی کہ ان چیزوں کی
انگوٹھی بھی پہن سکتی ہے اور اس میں نماز بھی ادا کرسکتی ہے ۔ لوگوں میں جو
یہ خیال ہے کہ عورتیں لوہے کا استعمال نہیں کرسکتی یا سونا چاندی کے علاوہ
دوسرے دھات کی انگوٹھی نہیں پہن سکتی یا لوہے کی انگوٹھی وغیرہ پہن کر نماز
نہیں ہوتی ، یہ سب خیالات باطل ہیں، ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
سوال(9): کتنے کلو میٹر پر اورکتنے دن تک نماز قصر کرکے پڑھ سکتے ہیں؟
جواب : اس میں شدید اختلاف ہے کہ کتنے کلومیٹر تک سفر کرنے پر قصر کریں گے
، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں مختلف قسم کے نصوص ملتے ہیں گویا یہ ایک
طرح سے اجہتاد ی نوعیت کا مسئلہ بن گیاہے۔ اس مسئلہ میں مجھے جس بات پر
اطمینان حاصل ہے وہ یہ کہ تقریبا اسی کلومیٹر کا سفرکرنے پر قصر کیا جائے
گاکیونکہ اونٹ یا پیدل ایک رات اور ایک دن کا سفر اسی مقدار کا ہے۔لہذا جو
اسی کلومیٹر یا اس سے زائد کا سفر کرے وہ قصر کرے اورچار دن تک جہاں قیام
کا ارادہ کرے قصر کرے گا اور چار دن سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو تو پھر
مسافر نہیں رہ جاتا مقیم کے حکم میں ہے اس صورت میں مکمل نماز پڑھنی ہے ۔
سوال(10)ایکشن اور حرکت کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنا کیسا ہے ؟
جواب : قرآن کی تلاوت عبادت ہے ، جس طرح اس کا پڑھنا عبادت ہے اسی طرح اس
کا غور سےسننا بھی عبادت ہے ۔ اور قرآن کی تلاوت کا مقصد محض برکت کا حصول
نہیں بلکہ اصل مقصد غوروفکر کےساتھ پڑھنا اور ہدایت حاصل کرنا ہے ۔ تلاوت
محفل میں ہو تب قاری کے ساتھ سامع پر بھی دھیان سے سننا اور اس میں غورکرنا
ضروری ہے ۔ ایکشن کے ساتھ تلاوت کرنے پر قاری کی اصل توجہ ایکشن کی حسن
ادائیگی پرہوگی اور سامع بھی انہیں حرکات وایکشن میں تحسن تلاش کرے گا۔ پھر
سوال یہ ہے کہ تلاوت جیسی عبادت کے لئے ایکشن کی کیوں ضرورت پڑرہی ہے اور
اس ایکشن کا سرا کہاں سے جڑا ہے؟۔ جواب تلاش کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس
کا سرا غیروں کی نقالی اور رقص سے جڑا ہوا ہے ۔ گوکہ اس کی انجام دہی چھوٹے
بچےاور بچیوں کے ذریعہ ہوتی ہے مگر یہ فساد کا پیش خیمہ ہے اس وجہ سے اس کا
سدباب ہونا چاہئے ۔
سوال(11): ایک شخص کسی کو گاڑی خریدکر دیتا ہے یا کسی کو دوکان کرکے دیتا
ہے اس شرط کے ساتھ کہ روزانہ یا ماہانہ اتنے روپئے دینا ہےتو کیا اس طرح
متعین صورت میں رقم لینا جائز ہے ؟
جواب: اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی سامان خرید کر کسی کوتجارت کی غرض سے
دے اور اس سے منافع لے مگر منافع لینے کا طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ جو آمدنی
ہو اس میں سے پانچ یا دس فیصد پیسہ لگانے والے کا ہو یعنی مناسب پرسینٹ پر
آپس میں منافع طے ہو، ساتھ ساتھ نقصان میں بھی دونوں شریک ہوں گے۔رقم لگانے
والا اگر منافع اس طرح طے کرے کہ ماہانہ بیس یا تیس ہزار مجھے ملنا چاہئے
تو غلط ہے۔ یہ تو تجارت کرنے والی چیزہے اورکرائے والی چیز کا مسئلہ الگ ہے
، اگر کوئی اپنی گاڑی یا مکان کرایہ پر دے تو اس سے ماہانہ یا یومیہ کرایہ
طے کرسکتا ہے۔
سوال(12):کیا میاں بیوی کے درمیاں محبت پیدا کرنے کے لئے کوئی وظیفہ یا دعا
ہے ، اگر ہے تو براہ کرم مجھے بتلادیں ؟
جواب : میاں بیوی کے درمیان محبت پیدا کرنے کے ہزاروں قسم کے ڈھونگ سماج
میں رائج ہیں اور باطل طریقوں سے عیارومکار عاملین عوام کا خصوصا خواتین کا
پیسہ لوٹتے ہیں ۔ ڈھونگی مولوی قرآن کے نام پردھوکہ دیتا ہے،کوئی تعویذ
دیتا ہے تو کوئی کھانے پینے کی چیز میں دم کرکےدیتاہے ۔ کوئی وظیفہ خاص
بتلاتا ہے۔ سورہ فاتحہ ایسے پڑھو، سورہ اخلاص اس دھنگ سے پڑھو، الم نشرح کا
وظیفہ اتنی بار ایسے پڑھو، رات میں روزانہ سورہ نساء کی تلاوت کرو۔ حیرت ہے
دارالعلوم دیوبند کے مفتی بھی اس میدان میں پیچھے نہیں ، وہ فتو ی دیتے ہیں
بسم اللہ 786 مرتبہ پڑھو، کبھی کہتے ہیں یا لطیف کا گیارہ سو گیارہ مرتبہ
وظیفہ پڑھو۔
یہ سب دھوکے باز میں اور امت کو گمراہ کررہے ہیں اور باطل طریقے سے مال
کھارہے ہیں۔ قرآن وحدیث میں ایسا کوئی خاص عمل یا خاص وظیفہ نہیں ہے جس کے
انجام دینے سے میاں بیوی میں اچانک محبت پیدا ہوجائے گی ۔ میاں بیوی میں
محبت پیدا ہونے کے لئے اس سلسلے میں جو اسلامی تعلیمات ہیں ان کو برئے کار
لانا پڑے گا۔ اسلام نے شوہر کو کچھ حقوق دئے ہیں بیوی وہ حقوق شوہر کے لئے
اداکرے اور جو حقوق بیوی کے لئے ہیں وہ شوہر ادا کرے ہمیشہ آپس میں
پیارومحبت قائم رہے گی اور جھگڑے لڑائی کی نوبت نہیں پیدا ہوگی ۔
سوال(13):کیا مسجد میں ہنسنا اندھیرا لاتا ہے ؟
جواب : جواب: ایسی کوئی بات نہیں ہے ،ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جس کو دیلمی
نے مسند الفردوس (3891) میں ذکر کیا ہے ۔ حدیث اس طرح ہے ۔ الضَّحِكُ في
المسجدِ ظُلْمَةٌ في القبرِ۔
ترجمہ: مسجد میں ہنسنا قبر میں اندھیرے کا باعث ہے ۔
اس کو شیخ البانی نے موضوع قرار دیا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:3818)
مسجد میں اچھی باتیں کرنا اور ہنسنا منع نہیں ہے ، عہد رسول میں صحابہ کرام
بھی نبی ﷺ کی موجودگی میں مسجد میں ہنسا کرتے تھے آپ نے منع نہیں
فرمایا۔سماک بن حرب نے کہا کہ میں نے سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے
کہا:
أَكُنْتَ تُجَالِسُ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ؟ قالَ:
نَعَمْ كَثِيرًا، كانَ لا يَقُومُ مِن مُصَلَّاهُ الذي يُصَلِّي فيه
الصُّبْحَ، أَوِ الغَدَاةَ، حتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتِ
الشَّمْسُ قَامَ، وَكَانُوا يَتَحَدَّثُونَ فَيَأْخُذُونَ في أَمْرِ
الجَاهِلِيَّةِ، فَيَضْحَكُونَ وَيَتَبَسَّمُ.(صحيح مسلم:670)
ترجمہ: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتے تھے؟ انہوں نے
کہا کہ بہت، پھر کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ اپنی
نماز کی جگہ بیٹھے رہتے صبح کے بعد جب تک کہ آفتاب نہ نکلتا۔ پھر جب سورج
نکلتا اٹھ کھڑے ہوتے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر ذکر کیا
کرتے تھے کفر کے زمانہ کا اور ہنستے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے
رہتے تھے۔
سوال(14): ہر چیز میں طاق کا استعمال کرنا سنت ہے ؟
جواب : علی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: إنَّ اللهَ وِترٌ يحبُّ الوِترَ(صحيح الترمذي:453) کہ اللہ
وتر (طاق) ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں اہل علم بیان کرتے ہیں کہ تمام اقوال و افعال میں طاق
عدد کا خیال کرنا مسنون ہے، اس لئے کوئی طاق عدد کا خیال کرتا ہے تو اس میں
کوئی حرج نہیں ہے اچھی بات ہے مگر اس کو واجب خیال کرنا غلط ہے اور ہرحال
میں طاق ہی برتنا اپنے نفس پر مشقت لازم کرنا ہے۔
سوال(15): کیا میراث نہ دینے والا جہنم میں جائے گا؟
جواب: مجھے صحیح حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں ملی، ضعیف احادیث میں اس قسم
کی متعدد باتیں موجود ہیں مثلا "جو اپنے وارث کی میراث سے راہ افرار اختیار
کرے تو اللہ تعالیٰ روز قیامت جنت سے اس کی میراث منقطع فرما دیں گے"۔اسی
طرح یہ بات کہ ساٹھ سال عبادت کرنے والےمرد یا عورت کوجب موت آتی ہے تو وہ
وصیت میں نقصان پہنچانےوالے ہوتے ہیں اس وجہ سے ان دونوں کے لئے جہنم واجب
ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح ایک آدمی ستر سال خیروالا عمل کرتا ہے اور جب وصیت
کرتا ہے تو ظلم کرتا ہے اور اس کا خاتمہ بالشر ہوتا اور وہ جہنم میں داخل
ہوتا ہے ۔ ان ساری روایات کو شیخ البانی نےضعیف ابن ماجہ اور ضعیف الترغیب
وغیرہ میں ضعیف کہا ہے ۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ حقوق العباد بہت اہم ہے اور اس بابت لوگوں کا معاملہ
قیامت میں بڑا سخت ہوگا، مسلم شریف میں ہے کہ ظالم کے سر مظلوم کا گناہ
کردیا جائے گا۔ جب حقوق العباد ختم کرتے کرتے ظالم کی نیکیاں ختم ہوجائیں
گی تب وہ جہنم رسید ہوگا۔
|