میرا سوہنا شہر" قصور"

مقدس رشتوں کی کشش اور محبت خالق کائنات نے کچھ اس طرح انسانوں کے دلوں میں موجزن کررکھی ہے کہ کوشش کے باوجود بھی انسان نہ تو ان کو فراموش کرسکتا ہے اور نہ ہی ان کی محبت کو دل سے بھلا سکتا ہے۔قصور شہر( کوٹ مراد خان ) میری جائے پیدائش ہے جہاں 25 دسمبر 1954ء کو میں پیدا ہوا ۔ اس شہر کی فضاؤں میں مجھے پہلا سانس لینے کا اعزاز حاصل ہے۔ دادا دادی اور والدین کے حوالے سے اور بھی بہت سی یادیں اس شہرسے وابستہ ہیں ۔جبکہ میرے والد کی بہن اور اکلوتی پھوپھو بھی اسی شہر میں کوٹ مراد خان سے ملحق باغیچی فتح دین میں رہائش پذیر ہیں ۔اس کے باوجود کہ قصور شہر لاہور سے صرف 55 کلومیٹر کی مسافت پر ہے لیکن سرزمین لاہور نے قدم کچھ اس طرح اپنے ہاں جما رکھے ہیں کہ یہاں سے نکلنا محال دکھائی دیتا ہے۔ ناسازی طبع بھی ہمیشہ رکاوٹ بنتی ہے ۔ 19 اپریل 2011 ء ( بروز منگل )کی دوپہر جب میں بنک میں اپنے فرائض منصبی انجام دے رہاتھا تو اطلاع ملی کہ پھوپھو کی طبیعت بہت خراب ہے ۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ پھوپھو ( سکینہ بیگم ) اپنے آٹھ بہن بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے۔ تمام بھائی یکے بعد دیگرے اپنی زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن یہ اکلوتی بہن 67 سال کی عمر میں اب بھی کچھ عرصہ پہلے تک بہت حد تک صحت مند اور توانا نظر آتی رہی ہیں۔
اس کے باوجود کہ میں گھٹنوں میں درد اور قوت سماعت میں شدیدکمی کی وجہ سے بہت کم لاہور سے نکلتا ہوں پھر بھی خون نے جوش مارا اور پھوپھو کی بیماری کی خبر سن کر آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ۔ چہرے پر آویزاں غم اور پریشانی کے تاثرات دیکھ کر ساتھی پریشان ہوئے تو مجھے بتانا پڑا کہ میرا دل اپنی پھوپھو کی بیماری کا سن کر غم سے نڈھال ہے اور رشتوں کی یہ محبت مجھے اپنی کشش کا بخوبی احساس کروا رہی ہے ۔بھائی اشرف کااصرار تھا کہ 3 بجے کینٹ اسٹیشن سے قصور کے لیے ایک ریل گاڑی روانہ ہوگی اس پر قصور چلتے ہیں میری رائے تھی کہ ریل گاڑی کا آجکل نہ تو کوئی بھروسہ ہے اور نہ ہی ٹائم ٹیبل ۔ پورا نظا م ہی تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے اس لیے پلیٹ فارم پر گھنٹوں انتظار اور ریل گاڑی کا تکلیف دہ سفر اختیار کرنے کی بجائے کوچ یا ویگن کے ذریعے ہم جلد اور باآسانی قصور پہنچ سکتے ہیں۔ بہرحال بھائی اشرف کے اصرار پر سفر کے لیے ریل گاڑی کاہی انتخاب کرنا پڑا۔حسب پروگرام میں اپنی اہلیہ ( عابدہ بیگم ) سمیت لاہور کینٹ اسٹیشن 3 بجے سہ پہر پہنچ گیا ۔ ٹکٹیں لینے سے پہلے میں نے بھائی کو نصیحت کی کہ پہلے گاڑی کے بارے میں اطمینان کرلیا جائے کہ وہ آبھی رہی ہے یا نہیں ۔ بھائی اشرف نے جنوب کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ جو ٹرین پلیٹ فارم کی طرف بڑھ رہی ہے اسی نے لاہور پہنچ کر واپس قصور کے لیے روانہ ہونا ہے۔ اس پر میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ بھائی چیونٹی سے بھی کم رفتار میں رینگنے والی یہ ٹرین کب لاہور پہنچے گی اور کب واپس قصور جانے کے لیے روانہ ہو گی۔ اب بھی وقت ہے ہمیں وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے کلمہ چوک سے قصور جانے والی کسی بھی ویگن یا کوچ کا انتخاب کرلینا چاہیے۔ میرے اصرار کے باوجود بھائی اشرف اور بھابھی رقیہ کی توجہ کا مرکز ریلوے ٹرین ہی رہی ۔چنانچہ ہم کینٹ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر بیٹھ گئے ۔ ایک گھنٹہ انتظار کیا ٹرین کی آمد کا دور دور تک کوئی آثار نہ مل سکے۔انتظار کی کیفیت بطور خاص ہسپتالوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ صرف وہی جانتا ہے جو اس سے گزرتا ہے پھر کینٹ اسٹیشن پر چند پریشان حال مسافروں کے علاوہ زندگی کی کوئی علامت دکھائی نہ دی جو کبھی ریلوے اسٹیشن کی رونق کا ایک حصہ ہوا کرتی تھی ۔اسی دوران اپر کلاس ویٹنگ روم کے باتھ روم میں جانے کا اتفاق ہوا لوٹا تو وہاں موجود تھا لیکن نلکے سے پانی کی بجائے ہوا نکل رہی تھی۔ پانی کی جستجو میں ٹھنڈے پانی کے کولر سمیت تما م نلکوں کو چیک کیا کہیں بھی پانی موجودنہیں تھا اس لمحے میں نے بھائی اشرف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب لاہور کینٹ اسٹیشن کا نام تبدیل کرکے کربلا اسٹیشن رکھ دیناچاہیے کیونکہ ٹرین کے سفر میں ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے بعد کی بات ہے ۔ پانی کی عدم دستیابی نے ہی پریشان کردیا ہے ۔ یہ بات سن کر میرا بھتیجا ( ثاقب لودھی) بھاگتا بھاگتا گھر گیا جو اسٹیشن سے ایک دو فرلانگ کے فاصلے پر تھا اور گھر سے پانی کی دو بوتلیں اٹھا لایا تاکہ ضرورت کے مطابق ان کو استعمال کیاجاسکے ۔ اس لمحے مجھے اپنی ماں کی حکمت اور دانش کا احساس ہوا کہ وہ اپنا گھر ریلوے اسٹیشن سے اس قدر قریب کیوں بنانا چاہتی تھیں انہیں شاید پہلے سے ہی صورت حال کا علم ہوچکا تھا۔ پلیٹ فارم پر ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھنے کے بعد بھی جب ٹرین نہ آئی تو میں نے قصور میں اپنے چھوٹے بھائی ارشد کو موبائل پر کال کرکے صورت حال بتائی تو اس نے کہا پھوپھو اب پہلے سے بہتر ہیں۔میں نے کہا پھر کل صبح فرید ایکسپریس کے ذریعے ہم آجائیں گے۔ سنا ہے لاہور سے بذریعہ پاکپتن جانے والی وہ ایکسپریس بہت تیز اور سبک رفتار ہے ۔ یہ فیصلہ کرکے ہم پلیٹ فارم سے اٹھ کر بھائی اشرف کے گھر ( آبادی قربان لائن ) آ گئے اور ذہنی اور جسمانی اعتبار سے ہم اس قدر نڈھال ہوگئے جیسے قصور سے لاہور پہنچے ہوں دراصل یہ کیفیت گاڑی کے اس انتظار کی شدت نے طاری کی تھی ۔نہ جانے لاکھوں لوگ ہر روز اس کیفیت سے گزرتے ہیں لیکن ریلوے میں سفر کرنے کا جنون اور شوق پھر بھی کم نہیں ہوتا ۔
اگلی صبح ٹھیک ساڑھے سات بجے ہم لاہور کینٹ اسٹیشن پر پہنچ گئے جبکہ گاڑی کی آمد کا وقت پونے آٹھ بجے تھا ۔7.40 پر لاوڈسپیکر پر اعلان ہوا کہ فرید ایکسپریس آرہی ہے ۔ یہ اعلان ہمارے لیے بہت خوش کن تھا کیونکہ ریلوے کی تاریخ میں جب بھی ہمیں سفر کرنے کا موقع ملا ٹرین کبھی وقت پر نہیں آئی اور نہ ہی منزل مقصو د پر اس نے کبھی وقت پر پہنچایا۔ابھی میں ان تصورات میں کھویا ہوا تھا کہ فرید ایکسپریس دور سے آتی ہوئی دکھائی دی ۔ اے اﷲ یہ معجزہ کیسے ہو گیا دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا ۔ پندرہ بیس مسافر ڈبوں کو کھینچتا ہوا ایک پرانا سا انجن پلیٹ فارم پر آ کر رک گیا مسافر ڈبوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ دروازے ابھی اکھڑ جائیں گے۔ہم ایک ڈبے میں سوار ہوگئے۔ٹرین میں مسافر نہ ہونے کے برابر تھے بلکہ کئی ڈبے تو بالکل خالی دکھائی دیئے۔چند ہی منٹ بعد گاڑی اپنے سفر پر روانہ ہوگئی ۔بظاہر یہ ٹرین شہر کی جانی پہچانی نواحی بستیوں سے گزر رہی تھی لیکن ایک انجان مسافر کی طرح گاڑی کے ساتھ ساتھ رقص کرتی ہوئی ہر چیز مجھے اچھی لگ رہی تھی ۔ ابتدا میں والٹن ٹریننگ سکول ٗ کوٹ لکھپت ٗ کاہنا کاچھا ٗ جیا بگا کے اسٹیشن آئے لیکن سوائے کوٹ لکھپت کے کہیں بھی مسافروں کی بھاگ دوڑ کا وہ ماحول نظر نہیں آیا جو کبھی ماضی کا لازمی حصہ ہوا کرتا تھا اور نہ ہی خوانچہ فروشوں کی آوازیں سنائی دیں جو کئی دنوں کی باسی چیزیں اور پکوڑے فروخت کیا کرتے تھے۔ بطور خاص یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جتنی مرتبہ بھی ماں کے ساتھ نانی کے گھر عارف والا جانے کااتفاق ہوا کبھی بھی ہمیں آرام دہ سیٹ پر سفر کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ٹرین کے اندر مسافروں کا اس قدر رش ہوا کرتا تھا کہ فرش پر ہی ہمیں جگہ ملتی یا ڈبے کے دروازے پر کھڑے ہوکر سفر انجوائے کرتے۔ لیکن اس مرتبہ جہاں ہم سیٹ ملنے پرخوش نصیب تصور کررہے تھے وہاں ریلوے نظام کی تباہی ٗ اسٹیشنوں کی خستہ حالی ٗ ریلوے کوارٹروں کی بربادی خون کے آنسو رلا رہی تھی یوں محسوس ہورہا تھا جیسے صدیوں سے ریلوے اسٹیشنوں پر تعمیر و مرمت کا کام نہیں کیاگیا بلکہ ریلوے انتظامیہ کی لاپروائی کی وجہ سے لوگ کوارٹروں اور ریلوے کی دیگراملاک کی اینٹوں تک کو اٹھا کر لے گئے ہیں ۔تقریبا ہر اسٹیشن کے نزدیک کوڑا کرکٹ کے ڈھیر اور گندے پانی کے بہت بڑے بڑے جوہڑ بھی دکھائی دیئے جو ریلوے ملازمین اور دیگر سول آبادیوں کے لیے بیماریوں کی آماجگاہ بن چکے تھے۔
ایک گھنٹے بعد فرید ایکسپریس رائے ونڈ اسٹیشن پہنچی ۔ٹرین سے اتر کر فرید ایکسپریس کا جائزہ لیا اور ڈیوٹی گارڈ سے پوچھا کہ بورڈ پر لکھا ہے کہ یہ ٹرین پاکپتن کے راستے کراچی تک جا ئے گی کیا واقعی یہ ٹرین کراچی تک پہنچ جاتی ہے مجھے تو یقین نہیں آرہا ۔ اس پر گارڈ نے کہا جناب یہ ٹرین واقعی کراچی جاتی ہے لیکن باقی کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ کیونکہ ہمارا کام تو اسے پاکپتن تک پہنچانا ہے ۔رائے ونڈ سے فرید ایکسپر یس مین لائن سے ہٹ کر برانچ لائن پر چلنے لگی جو پہلے قصورٗ پاکپتن ٗ لودھراں سے ہوتی ہوئی بہاولپور تک جاتی ہے۔ کم ازکم عارفوالا تک اس روٹ پر آنے والے تمام اسٹیشنوں کے نام ہمیں اس لیے ازبر تھے کہ جب ماں عارف والا جاتی تو لاہور سے براستہ قصور کاروٹ ہی اختیار کرتی۔ لیکن اس مرتبہ یہ بات شدت سے محسوس کی گئی کہ فرید ایکسپریس ٹریک کی کمزوری اور خرابی کی وجہ سے پوری رفتار سے چل نہیں پارہی تھی بلکہ یوں محسوس ہورہا تھا کہ کسی بھی وقت ٹرین پٹڑی سے اتر جائے گی۔ بہرکیف جونہی فرید ایکسپریس راجہ جنگ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو آدھا گھنٹہ تک وہیں رکی رہی ۔ میں ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیتا رہا۔آدھے سے زیادہ پلیٹ فارم صفحہ ہستی سے مٹ چکا تھا ریلوے کوارٹر زمین دوز ہوچکے تھے جبکہ بڑی تعداد میں بھینسوں اور ان کا دور دور تک پھیلا ہواگوبر اسٹیشن کے اردگرد نظر آرہا تھا۔ چند خواتین بھینسوں کو چارہ ڈالنے اور گوبر کے اوپلے تھاپنے میں مصروف نظر آئیں ۔جبکہ گندگی اورکوڑا کرکٹ کے انبار بھی دکھائی دیئے۔ ریلوے ٹریک کے ساتھ ساتھ ٹیلی مواصلات کے وہ کھمبے جنہیں ہم عارف والا جاتے ہوئے گنتی کیاکرتے تھے وہ بالکل ناپید ہوچکے تھے کہیں کہیں نظر بھی آتے تو تاریں غائب تھیں اب اس بات کا علم نہیں کہ کھمبے کون اکھاڑ کر لے گیا اور تاریں کس نے چرا لیں ۔جب پاکستان میں باقی سرکاری محکموں میں چور بازاری عروج پر ہے تو ٹیلی مواصلات والے بھی کونسے فرشتے ہوں گے انہوں نے بھی جہاں ہاتھ پہنچا وہی چیز چرا لی سبق پڑ ھ رکھا ہوگا۔ آدھ گھنٹے بعد فرید ایکسپریس اس وقت قصور کے لیے روانہ ہوئی جب پاکپتن پسنجر راجہ جنگ سے لاہور کی جانب جاچکی تھی ۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ڈویژن کی سطح پر ٹرینوں کی آمد ورفت کو لاہور میں بیٹھا ہوا کنٹرولر نامی افسر کنٹرول کرتا ہے میں حیران تھا کہ فریدایکسپریس جس نے کراچی تک جانا تھا اسے آدھ گھنٹہ روک کر ایک پسنجر گاڑی کو گزار دیا گیا اس میں کیا حکمت پنہاں تھی اس کا علم تو کنٹرولر کو ہی ہوگا ۔بہرکیف گاڑی راؤ خاں والا ٗ اٹھیل پور سے ہوتی ہوئی دس بجے قصور شہر پہنچ گئی لیکن روہی نالے کی شکل میں جہاں پہلے دریائے بیاس بہتا تھا وہ مقام بھی نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے ۔
ریلوے اسٹیشن کی عمارت پر جلی حروف میں قصور جنکشن لکھا ہوا تھا ۔قیام پاکستان سے پہلے یہاں سے بھارت کے شہر فیروز پور ٗ فرید کوٹ ٗ دہلی ٗ پاکپتن اور لاہور کے لیے ٹرینیں روانہ ہو ا کرتی تھیں لیکن تقسیم ہند کے بعد قصور سے آگے ٹرین نہیں جاتی بلکہ انجن کا رخ تبدیل کرکے گاڑی پاکپتن کے لیے روانہ ہو جاتی ہے ۔قصور شہر کو تاریخی اعتبار سے بھی بہت اہمیت حاصل ہے ۔ یہ شہر دریائے ستلج اور دریائے بیاس کے درمیان صدیوں پہلے آباد ہوا ۔کہا جاتا ہے کہ ہندو مذہب کے دیوتا رام چندرکے دو بیٹے تھے ان میں سے ایک کانام " لو " اور دوسرے کا نام " کاسو " تھا ۔ رام چندر جی کے ان دونوں بیٹوں کے نام پر شہر لاہور اور قصور آباد ہوئے ۔اس شہر میں( رنجیت سنگھ ) کی شکل میں سکھوں نے بھی بہت عرصہ حکمرانی کی لیکن مغل شہنشاہ بابر کے پوتے شہنشاہ اکبر نے دو عظیم دریاؤں کے سنگم میں آباد اس شہر کو خوشگوار آب و ہوا اور انتہائی اہمیت کے حامل محل وقوع کی بنا پر اپنے قبیلے کے لیے منتخب کیا ۔ چنانچہ کابل سے آنے والے لودھی پٹھا ن اور یوسف زئی قبیلوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو پختونوں نے رہائش کے لیے اس شہر میں الگ الگ چودہ قلعے تعمیر کیے ۔جن کو عرف عام میں کوٹ کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ ان قلعوں میں کوٹ پکا قلعہ ٗ کوٹ نواز خان ٗ کوٹ اعظم خان ٗ کوٹ غلام محمد خان ٗ کوٹ مراد خان ٗ کوٹ حلیم خان ٗ کوٹ پیران ٗ لودھی نگر ٗ کوٹ فتح دین خان ٗ کوٹ عثمان خان ٗ کوٹ بدر دین خان ٗکوٹ رکن دین خان ٗ کوٹ نواب حسین خان اور کوٹ شیرباز خان شامل ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قلعوں کی تعمیرات تو ناپید ہوتی چلی گئیں لیکن اب بھی کہیں کہیں چھوٹی اینٹ کے بنے ہوئے مکانات اور قلعوں کی دیواروں کو دیکھاجاسکتا ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ صدیوں پرانے اس شہر کو سکھوں ٗ ہندؤوں اور دہلی کے حکمرانوں کے ہاتھوں کئی مرتبہ قتل عام کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس جنگی معرکہ آرائی میں بہت بڑی تعداد میں لودھی پٹھا ن اور یوسف زئی قبیلے کے لوگ شہید ہوئے ۔ اس شہر کی نئی آبادیوں میں طارق بن زیاد کالونی ٗ کھارا روڈ ٗ پاکیزہ کالونی ٗ بھٹہ گھوریاں والا ٗ منیر شہید کالونی ٗ کوٹ غلام محمد خان ٗ کوٹ میر باز خان ٗ کوٹ شیر باز خان ٗ کوٹ عبدالقادر ٗ روڈ کوٹ ٗ دھر کوٹ ٗ جناح کالونی ٗ بغدادیہ کالونی ٗ بلھے شاہ کالونی ٗ مشتاق کالونی ٗ غوثیہ کالونی ٗگلبرگ کالونی ٗ گورا نگر ٗ فاضل کالونی ٗ روشن کالونی ٗ شکور کالونی ٗ باسر پورہ ٗ شیخ بھاگو ٗ رکن پورہ ٗ محلہ پیر بلندا ٗ سلامت پورہ ٗ دین گڑھ ٗ علی گڑھ ٗ نیاز نگر ٗ ولی پور ٗ جماعت پورہ ٗ کرشنا نگر ٗ سید چراغ شاہ ٹاؤن ٗ بستی ویناکان ولی ٗ بستی صابر ولی ٗ بستی بارات شاہ ٗ بستی قادر آباد ٗ بستی بابیاں والی ٗ بستی نور شاہ ولی ٗ گارڈن ویو ہاؤسنگ سکیم سٹیل باغ شامل ہیں ۔
اس شہر کی مشہور مصنوعات میں فالودے ٗ اندرسوں کے علاوہ قصوری میتھی بھی شامل ہیں۔جہاں تک میتھی کی غذائی اہمیت اور انسانی زندگی میں اس کی افادیت کا تعلق ہے برصغیرپاک و ہند کے تقریبا سبھی علاقوں میں یہ کاشت کی جاتی ہے لیکن بطور خاص قصور شہر کی میتھی سب سے زیادہ مشہورہے۔ اس کے پودے کی اونچائی ایک سے ڈیڑھ فٹ ہے ۔ میتھی کے پتے اور بیج بطورخاص دواؤں بھی استعمال کئے جاتے ہیں ۔ یہ مختلف کھانوں کو خوشبو دار اور ذائقے دار بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔اچار کے مصالحے میں بھی میتھی کے بیج ڈالے جاتے ہیں ۔ یونانی اور آیوویدک دواؤں میں اس کااستعمال عام ہے ۔ میتھی موسم سرما کے امراض ٗ کمر درد ٗ تلی کے ورم اور گنٹھیا وغیرہ میں فائدے مند ہے ۔بادی امراض کے ساتھ ساتھ چہرے کے داغ دھبوں کو دور کرنے کے لیے ابٹن میں بھی اکثر اس کا استعمال ہوتا ہے۔ حکما کے نزدیک میتھی کے بیجوں کو پانی میں پیس کر ہفتے میں کم ازکم دو مرتبہ ایک گھنٹہ تک لگانے سے بال لمبے اور مضبوط ہوجاتے ہیں ۔آنتوں کی کمزوری سے اگر دائمی قبض ہو تو میتھی کا سفوف گڑ میں ملا کر صبح و شام پانی کے ساتھ استعمال کرنے سے دائمی قبض کا مرض جڑ سے ختم ہوجاتا ہے اور جگر کو بھی طاقت ملتی ہے ۔شوگر جیسی موذی بیماری کی شدت میں کمی بلکہ خاتمے کے لیے بھی میتھی دانوں کو نہایت موثر اور مفید تصور کیاگیا ہے ۔بھارت کے شہر حیدر آباد میں ڈاکٹر آر ڈی شرماورگھورام کی سربراہی میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم عرصہ دراز سے ذیابیطس کے حوالے سے میتھی کے موثر استعمال پر تحقیق کررہی تھی دل اور شوگر کے بیشمار مریضوں کو میتھی کااستعمال کروایا گیا۔ نتائج نے ثابت کیا کہ میتھی دانے شوگر اور دل دونوں موذی امراض کے لیے نہایت فائدے مند ہیں ۔میتھی کے 20 گرام بیج روزانہ پیس کرکھانے سے صرف دس دن کے اندرہی پیشاب اور خون میں شکر کی مقدار کم ہوجاتی ہے بلکہ مریض کو بیماری کی شدت میں کمی کا احساس خود بھی ہوجاتا ہے ۔شوگر کی مقدار کے تناسب سے میتھی دانوں کی مقدار کو 100 گرام روزانہ تک بھی بڑھایا جاسکتا ہے ۔اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی میتھی کی تاثیر اور افادیت انسانی صحت کے لیے بے حد مفید ہے لیکن قصور ی میتھی کی بات ہی کچھ اور ہے کیونکہ جس گھر میں قصور ی میتھی کا استعمال ہوتا ہے بہت فاصلے سے ہی اس کی خوشبو اپنا احساس کروا دیتی ہے ۔اگر کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ قصور شہر کی سوغات میں میتھی کو بہت اہم مقام حاصل ہے ۔
انڈیا کی ممتاز پنجابی گلوکارہ پرکاش کور کا گیت تو ہر شخص کی زبان پر اب بھی موجود ہے جس کے بول تھے" جتی قصوری پیریں نہ پوری ہائے ربا وے سانوں ٹرنا پیا ہائے ربا وے سانوں ٹرنا پیا"گویا کھیس ٗدریوں اور چمڑے کے ساتھ ساتھ جوتا سازی میں بھی قصور شہر اپنی الگ شہرت رکھتا ہے ۔اس شہر کی ممتاز شخصیات میں شہنشاہ موسیقی استاد بڑے غلام علی خان ٗ استاد برکت علی خان ٗ استاد امانت علی خان اور ملکہ ترنم نور جہاں شامل ہیں ۔ جہاں تہذیبی ٗ معاشرتی اور اقتصادی اعتبار سے برصغیر پاک و ہندمیں قصور کا ذکر ملتا ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اﷲ کے ان برگزیدہ ولیوں (جن میں حضرت بابا بلھے شاہ ؒ ٗ حضرت کمال چشتی ؒ ٗ حضرت امام شاہ بخاری ؒ شامل ہیں) نے اس شہر کو اپنی عبادت ٗ ولایت ٗ ہدایت اور تصوف کی بدولت وہ پہچان دی کہ آج شہر قصور کی دھوم دور دور تک سنائی دیتی ہے۔ لیکن اس شہر کی شناخت حضرت بابا بلھے شاہ ؒکے نام سے ہی ہوتی ہے۔
میدان ولایت کی یہ عظیم ہستی بہاولپور کے نواحی گاؤں " اچ گیلانیاں" میں 1016 ھجری کو پیدا ہوئی ۔ آپ کا اصل نام " سیدعبداﷲ شاہ " تھا ۔ آپ کے والد ( سیدسخی شاہ محمد) جید عالم دین اور روحانی طاقت سے مالا مال تھے ۔انتہائی کمسنی میں ایک واقعہ آپ کی قوت ولایت سے منسوب ہے ایک مرتبہ آپ ( حضرت بابا بلھے شاہ ؒ ) مویشیوں کو چرانے کے لیے گاؤں سے نکلے۔ گرمیوں کی دوپہر ایک درخت کے سائے میں آپ کی آنکھ لگ گئی تو مویشی موقع غنیمت جان کرکھیت کاصفایا کرگئے زمیندار کو جب خبر ہوئی کہ اس کا کھیت برباد ہوچکا ہے تو وہ ڈھونڈتا ڈھونڈتا اس درخت کے پاس آ پہنچا جس کے نیچے آپ سو رہے تھے ۔ زمیندار مارنے کے لیے آگے بڑھا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک بہت بڑا سانپ آپ کے بالکل قریب پھن پھیلائے کھڑا ہے ۔ آپ کو بے حس و حرکت دیکھ کر زمیندار اپنا نقصان بھول گیا اور آپ کے والدین کو اطلاع دی کہ سانپ کے ڈسنے سے آپ کا بیٹا ہلاک ہوگیا ہے۔ پریشانی کے عالم میں جب آپ کے والد وہاں پہنچے تو انہوں نے بیٹے کو آواز دے کر پکارا۔ آپ کلمہ پڑھتے ہو ئے نیند سے بیدار ہو گئے آپ کو ٹھیک دیکھ کر زمیندار نے اپنے کھیتوں کی بربادی کا شور مچانا شروع کر دیاکہ اس بچے کی وجہ سے میرا ہرا بھرا کھیت برباد ہوگیا ہے ۔ اس لمحے آپ نے نہایت معصومیت سے کہا کھیت تو بالکل ٹھیک ٹھاک نظر آرہا ہے ٗ آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ میرے مویشیوں نے اسے برباد کردیا ہے ۔جب زمیند ار آپ اور آپ کے والد کو لے کر موقع پر پہنچا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کھیت بالکل پہلے کی طرح صحیح حالت میں ہے ۔ میدان ولایت میں یہ آپ کی پہلی پرواز تھی ۔
کچھ عرصہ بعد آپ کا خاندان " اچ گیلانیاں " کو خیر باد کہہ کر ملکوال کے قریب ہی "پانڈو کے بھٹیاں "گاؤں میں جاکر آباد ہوگیا اورآپ کے والد سید سخی شاہ محمد نے وہاں امامت اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اردگرد کے ہزاروں لوگ مستفیدہوتے رہے۔ لیکن جب آپ سن بلوغت کو پہنچے تو آپ کو حصول تعلیم کے لیے قصور شہر میں ایک ممتاز عالم دین حضرت حافظ غلام مرتضی کے مدرسے میں بھیجا ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دورمیں قصور شہربطور خاص دینی علوم کا گہوارہ تصور کیاجاتا تھا اور ایک لاکھ چالیس ہزار حافظ قرآن وہاں موجود تھے سرزمین قصور کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسی دور میں جب حضرت فرید الدین گنج شکر ؒ قصور تشریف لائے تو انہوں نے عزت اور احترام کی خاطر ننگے پاؤں قصور شہر میں داخل ہونا ضروری سمجھا ۔یہاں آپ( سید عبداﷲ شاہ) نے دینی علوم کے ساتھ ساتھ عربی ٗ فارسی اور سنسکرت کی زبانوں پر مہارت حاصل کی ۔ پھر ایک دن استاذ مکرم حضرت حافظ غلام مرتضی نے فرمایا عبداﷲ تم تمام علوم میں مہارت حاصل کرچکے ہو میری طرف سے اجازت ہے تم واپس پانڈو اپنے والدین کے پاس چلے جاؤ اور ان کی ہدایت کے مطابق باقی زندگی گزارو ۔ چنانچہ آپ قصور سے واپس پانڈو کے بھٹیاں تشریف لے آئے ۔ والد کے استفسار پر آپ نے بتایا کہ تعلیمی منازل تو میں نے طے کر لی ہیں لیکن دل پر ہر لمحے اضطراب ٗ بے قرار ی کی کیفیت طاری رہتی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آپ کی بات سن کر والد گرامی نے فرمایا بیٹا ان تما م کیفیات کا ازالہ کسی مرشد کامل سے ہی ممکن ہوسکتا ہے ۔ ایک رات آپ وظائف پڑھ کرباوضو سوئے تو خواب میں دیکھاکہ آپ سخت گرمی کے عالم میں سفر کرتے ہوئے ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سستانے لگتے ہیں اسی لمحے ایک تخت آسمان کی وسعتوں سے تیرتا ہوا زمین کی طرف آتا دکھائی دیا بلکہ وہ تخت اسی درخت کے پاس آکر ٹھہر جاتا ہے ۔ تخت پر ایک نورانی صورت والے بزرگ تشریف فرما ہیں۔آپ نے آگے بڑھ کر انہیں سلام کیا انہوں نے فرمایا عبداﷲ کیا تم مجھے جانتے ہو کہ میں کون ہوں۔ آپ نے کہا کہ نہیں میں آپ کو نہیں پہچانتا۔ نورانی صورت والے بزرگ نے فرمایا میں پانچویں پشت میں تمہارا جد امجد ہوں اور میرا نام سید عبدالحکیم ہے ۔اب تم ایسا کرو مجھے پانی پلاؤ شدت کی پیاس محسوس ہورہی ہے ۔آپ نے قریب ہی رکھا ہوا دودھ سے بھرا پیالہ بزرگ کو پیش کردیا ۔ بزرگ نے کچھ دودھ پینے کے بعد باقی دودھ آپ کو پینے کے لیے کہا جسے ایک سعادت خیال کرتے ہوئے آپ نے پی لیا۔پھر بزرگ نے فرمایا تم کو چاہیے کہ تم کسی مرشد کامل کی اطاعت اختیار کرلو اس طرح تمہاری بے قراری کو قرار اور تمہارے دل کو سکون حاصل ہوگا اﷲ تبارک و تعالی کی خوشنودی کے ساتھ ساتھ دنیا بھی تم سے فیض یاب ہوگی ۔آپ نے کہا آپ خود ہی رہنمائی فرما دیجیے کہ مجھے کس مرشد کامل سے فیض حاصل ہوگا ان کانام کیا ہے اور وہ کہاں رہتے ہیں۔ بزرگ نے فرمایا عبداﷲ تم لاہور چلے جاؤ ۔ وہاں تم حضرت شاہ عنایت قادری ؒ کے ہاتھ پر بیعت کرلو اور یاد رکھنا کہ خود کو مٹاکر ان کے در اقدس پر حاضری ایک سائل کی طرح دینااور جو بھی مرشد عطا کریں اس پر فخر اور صبر کرنا ۔
نیند سے بیداری کے بعد آپ نے والد گرامی کو خواب کا احوال کہہ سنایا انہوں نے فرمایا بیٹا اس موقع کو ضائع نہ کرو اور لاہور جانے کی تیاری کرو ٗ وہاں مرشد پاک آپ کے منتظر ہوں گے۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ حضرت شاہ عنایت قادری ؒ تصوف کی دنیا میں فقر کے ایک درخشاں ستارے کی حیثیت رکھتے ہیں اپنے دور کے صاحب نظر ٗ صاحب کشف ٗ صاحب کرامت ٗ صاحب تصوف ٗ صاحب تصرف ٗ صاحب مراقبہ ٗ صاحب توحیدٗصاحب مشاہدہ و وصال حق بزرگ ہیں روحانیت کی دنیامیں جب مرید اپنے پیر کی جانب بڑھتا ہے تو پیر بھی اسی کی جانب متوجہ ہوتا ہے ذہن و دل کے یہ رابطے ٹیلی مواصلات کے جدید نظام سے بھی کہیں زیادہ موثر اور فعال تصور کیے جاتے ہیں ۔بہرکیف جنگلوں ویرانوں کا رخ کرتے ہوئے ٗ بستیوں کی خاک چھانتے ہوئے سید عبداﷲ شاہ ؒ لاہور پہنچ گئے ۔سفر کی تھکان سے نڈھال ہوکر ایک درخت کے نیچے سو گئے وہاں ایک بار پھر آسمان سے تخت پر نورانی صورت والے بزرگ سید عبدالحکیم ؒ اتر ے اور فرمایا عبداﷲ تمہارا مرشد اسی شہر میں ہے اس کانام حضرت شاہ عنایت قادری ؒ ہے ان سے مل کر فیض حاصل کرو مزید تاخیر نہ کرو ۔چنانچہ آپ اسی وقت ننگے پاؤں حضرت شاہ عنایت قادری ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ اس لمحے حضرت شاہ عنایت قادری ؒ نے فرمایا کہ میری بیعت کی شرط یہ ہے کہ تم پانچ سو روپے نقد ٗ پانچ طلائی کنگن ٗ پانچ زری پوشاک اور پانچ سو قیمت کاگھوڑا بطور نذرانہ پیش کرو پھر تمہیں مرید کرلیا جائے گا۔ یہ سب اہتمام آج شام سے پہلے پہلے ہونا چاہیے۔اگر تم ایسا نہ کرسکے تو کسی اور جگہ مرشد تلاش کرلو ۔
حضرت شاہ عنایت قادری ؒ کی یہ شرط سن کرآپ بہت پریشان ہوئے کیونکہ اس وقت آپ کے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی دربدر پھرنے والا درویش اس قدر قیمتی اشیاء کہاں سے لاتا ۔ سخت پریشان ہوئے اور اسی عالم میں دریائے راوی کے کنارے بیٹھ کر بہتے ہوئے پانی کی لہروں کو گننے لگے۔ عین اس وقت ایک درویش آپ کے پاس آیا اور کہا میاں میں اس دریا میں غسل کرنا چاہتا ہوں ٗ میرا گھوڑا اوریہ سامان تم اپنے پاس رکھو ۔ابھی آپ نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ وہ شخص خوبصورت گھوڑے سمیت سب کچھ چھوڑ کر دریا میں کود گیا اور پھر پانی کی سطح پر نہ ابھر سکا۔ بہت دیر انتظار کے بعد ادھر ادھر تلاش کیا جب دریا میں کودنے والے کا کوئی سراغ نہ ملا تو آپ نے گٹھڑی کو کھول کر دیکھا تو اس میں وہ سارا سامان موجود تھا جس کا تقاضا حضرت شاہ عنایت قادری ؒ نے آپ سے کیا تھا ۔آپ کو پتہ چل گیا کہ یہ کوئی اور نہیں تھا بلکہ حضرت شاہ عنایت ؒ ہی تھے جنہوں نے بطور آزمائش یہ سب کچھ کیا ہے ۔گھوڑا اور سامان کی گٹھڑی لے کر آپ حضرت شاہ عنایت قادری ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام واقعہ بیان فرمایا ۔ آپ کی بات سن کر حضرت شاہ عنایت قادری ؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا اے سید زادے یہ ہم ہی تھے جو تمہاری مشکل کو آسان کرنے گئے تھے ۔ اب آؤ تمہیں مرید کیے لیتے ہیں ۔یہ سن کر آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ مرشد کامل نے ایک ہی نظر میں طالب صادق مرید کو ولایت عطا کردی ۔ سینہ روشن ہوگیا اور نور توحید کا سورج آپ کے سینے میں چمکنے لگا ۔بعد ازاں آپ کو بلھے شاہ کالقب دے کرنصیحت فرمائی سنو عبداﷲ اپنے نفس کی قوت کو آزمانا ٗ کبھی بھوک اور کبھی پیاس سے ٗ کبھی تیز دھوپ اور کبھی سخت سردی سے ٗ یاد رکھنا کہ ایثار ٗصبر و قناعت اور توکل تصوف کی عمدہ ترین عمارت کے چار ستون ہیں ۔ اگر ایک ستون بھی کمزور رہ جائے تو عمارت میں نقص رہ جاتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ منہدم ہی ہوجائے ۔پھر منزل شوق میں آسانی کی دعا کرتے ہوئے آپ( سید عبداﷲ شاہ المعروف بابا بلھے شاہ ؒ ) کو قصور جانے کا حکم دیاآپ نے اپنی باقی زندگی کو مرشد کے بتائے راستوں پر گامزن رہتے ہوئے ہی گزار دیا ۔آپ ؒ سے وابستہ روحانیت کے بے شمار واقعات زبان زد عام ہیں اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں لیکن یہاں اختصار سے کام لیتے ہوئے ان کا ذکر ضروری نہیں سمجھا گیا ۔
حضرت بابا بلھے شاہ ؒ نہ صرف ایک عظیم صوفی شاعر ٗ ولی کامل اور عالم تصوف کے شہنشاہ تھے بلکہ آپ کو پنجاب کے سب سے بڑے صوفی شاعر کا مرتبہ بھی حاصل ہے آپ کا اکثر کلام کافیوں کی صورت میں ہے۔آپ کی شاعری کو الہامی بھی قرار دیا جاتا ہے ۔ بطور مثال یہاں آپ ؒکی صرف ایک کافی تحریر کی جارہی ہے ۔
بلھیا کیہ جاناں میں کون
نہ میں مومن وچ مسیتاں
5نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں
3نہ میں پاکاں وچ ٗ پلیتاں
3نہ میں موسے نہ فرعون
/بلھیا کیہ جاناں میں کون
نہ میں وچ پلیتی پاکی
1نہ وچ شادی ٗ نہ غمناکی
1نہ میں آبی ٗ نہ میں خاکی
1نہ میں آتش ٗ نہ میں پون
/بلھیاکیہ جاناں میں کون
نہ میں بھیت مذہب دا پایا
;نہ میں آدم حوا دا جایا
7نہ کجھ اپنا نام دھرایا
7نہ وچ بیٹھن ٗ نہ وچ بھون
1بلھیا کیہ جاناں میں کون
اول آخر آپ نوں جاناں
3نہ کوئی دوجا ہور پچھاناں
5میتھوں ود ھ نہ کوئی سیاناں
-بلھا اوھ کھڑا ہے کون
1بلھیا کیہ جاناں میں کون
آپ نے آیات قرآنی کا پنجابی زبان میں ترجمہ بھی کیا یہ اعزاز کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔1147ہجری میں حضرت شاہ عنایت ؒ کا انتقال ہوا تو مرشدپاک کی جدائی میں آپ ؒ بھی بے قرار اور مضطرب رہنے لگے چنانچہ 24 سال بعد 1171 ہجری کو آپ بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور قصور شہر میں ہی آسودہ خاک ہوئے ۔ رحلت کے وقت آپ کی عمر ایک سو دس سال تھی ۔( استفادہ کتاب حضرت بابا بلھے شاہ ؒ از سید ارتضی علی کرمانی )
قصور شہر کی ایک اورمعروف شخصیت ملکہ ترنم نور جہاں بھی ہے ۔جو 21 ستمبر 1926 ء کوٹ مرادخان قصور میں پیدا ہوئیں ۔ والدین نے ان کا نام " اﷲ وسائی " رکھا ۔آپ کے بھائیوں میں نواب دین ٗ گل محمد ٗ محمد حسین ٗ محمد شفیع ٗ اور عنایت حسین شامل ہیں جبکہ عیدن بی بی ٗ گلزار بیگم ٗ مینا بیگم ٗ بھارو ٗ عمدہ بیگم بہنیں ہیں لیکن آپ سب بہن بھائیوں سے چھوٹی تھیں۔ابھی ہوش سنبھالا ہی تھا کہ موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے انہیں قصور شہر میں ہی موجود استاد غلام محمد کے سپرد کردیاگیا ۔نور جہاں نے سات سال کی عمر میں ہی فنی زندگی کا آغاز کردیا تھا ۔ وہ میلوں میں کام کرنے والے تھیڑوں کے سٹیج پر آتی اور دو تین گیت گا کر خوب داد وصول کرتی ۔اسی دوران آپ کے والد(مدد علی ) آپ کو موسیقی کی دنیا کے ایک اور شاہکار جی اے چشتی کے پاس لے گئے اور بچی کی سرپرستی کی درخواست کی ۔بے شک اس وقت جی اے چشتی باقاعدہ موسیقار تو نہیں تھے لیکن ان کی تیار کی گئی دھنیں گانوں کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھیں۔یہیں سے نور جہاں کی کامیابی کا چرچا قصور سے نکل کر فلمی دنیا ( ممبئی ) کے دروازے پر دستک دینے لگا ۔
1942میں ہدایت کار شوکت حسین رضوی نے جب فلم خاندان کا آغا ز کیا تو نور جہاں کو پہلی مرتبہ بطور ہیروئن فلم میں کاسٹ کیاگیا۔یہ فلم نور جہاں اور شوکت رضوی کو اس قدر قریب لے آئی کہ آپ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے ۔قیام پاکستان سے پہلے نور جہاں نے بھارتی اداکار پران اور دلیپ کمار کی فلم میں بطور ہیروئن کام کیا اور نہایت مختصر مدت میں شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچی ۔ آپ نے چن وے ٗ دوپٹہ ٗ گلنار ٗ انارکلی ٗ پردیسن ٗ نیند ٗ کوئل ٗ پاٹے خان ٗ نوراںٗ لخت جگر ٗ چھومنتر اور مرزا غالب میں بطور اداکارہ اور گلوکارہ کام کیا۔بطور اداکارہ مرزا غالب ان کی آخری فلم تھی ۔بعد ازاں نور جہاں اور شوکت رضوی کے مابین اختلاف کی خلیج حائل ہوگئی جو علیحدگی کا روپ دھار گئی ۔شوکت رضوی سے دو بیٹے اکبر حسین رضوی ٗ اصغر حسین رضوی جبکہ بیٹی ظل ہما پیدا ہوئی ۔1960 ء میں نور جہاں نے اداکار اعجاز درانی سے شادی کرلی جہاں تین بیٹیاں حنا ٗ شازیہ اور نازیہ پیدا ہوئیں۔1965 ء میں اعجاز درانی سے طلاق لینے کے بعد نور جہاں نے پھر اپنی زندگی کو صرف اور صرف گلوکاری کے لیے وقف کردیا۔1965 ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران نور جہاں کے جنگی ترانوں نے فوجی جوانوں اور پوری قوم میں نیا جوش و و لولہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ نئی روح بھی پھونک دی ۔ میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیا رکھا ں ٗ اے وطن کے سجیلے جوانو ٗ کرنیل نی جرنیل نی ٗ ایہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے جیسے جنگی ترانوں نے نور جہاں کو ملکہ ترنم نور جہاں کے بلند مرتبے پر فائز کردیا ۔ملکہ ترنم نور جہاں کو پاکستان میں سب سے زیادہ گیت گانے کا اعزاز حاصل ہے یہ گیت اردو ٗ پنجابی ٗپشتو ٗ فارسی اور انگریزی زبانوں میں بھی تھے ۔ان کا مقبول ترین گیت فیض احمد فیض کی غزل " مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ " تھا جبکہ آخری گانا "کیہہ دم دا بھروسہ یار دم آوے نہ آوے " تھا۔یہاں فیض احمد فیض کی معروف ترین غزل کو درج کیا جارہا ہے جو آج بھی ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز میں ہی ذہن و دل میں محفوظ ہے ۔
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا کہ یوں ہوجائے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
اب بھی دل کش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجیے
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
فلمی دنیا اور گائیگی کے میدان میں بے مثال کارکردگی کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کو " پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ " اور " ستارہ امتیاز "دیا گیا۔ پہلے پتے کی بیماری لاحق ہوئی پھر دل کی بیماری نے آگھیرا ۔علاج کی غرض سے لندن ٗ امریکہ بھی گئیں لیکن وطن عزیز کی محبت نے واپس آنے پر مجبور کردیا ۔بیماری کا غلبہ دن بدن بڑھتا چلا گیا حتی کہ 27 رمضان المبارک 23 دسمبر 2000 ء کی سہ پہر آپ کراچی شہر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔اس کے باوجود کہ قیام پاکستان کے بعد ان کی زندگی کا زیادہ عرصہ لاہور اور آخری سال کراچی میں گزرے لیکن کوٹ مراد خان قصور کی فضاؤں میں آج بھی ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز کی گونج سنی جاسکتی ہے ۔جہاں وہ پکار پکار کے مجھ جیسے آنے والوں کو یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ " مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ "۔بہرکیف جہاں قصور شہر کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے وہاں دنیائے موسیقی بھی ملکہ ترنم نور جہاں کے ذکر کے بغیر مکمل قرار نہیں دی جاسکتی ۔وہ صدیوں کی فنکارہ اور گلوکارہ تھیں اس کی آواز میں اﷲ تعالی نے ایک خاص سوز ٗ وصف اور جادو پیداکر رکھا تھا جو سننے والوں کے دل میں اتر کر ان کے دماغ کو قبضے میں کرلیتا تھا اور مدتوں اس کے حصار سے نکل نہ پاتا تھا۔ ان کی گائی ہوئی ایک نظم " ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان " ان کو ہمیشہ سامعین کے دل میں زندہ رکھے گی ۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ تاریخی اعتبار سے قصور شہر کو لاہور شہر کے برابر قرار دیاجاتا ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں حافظ قرآن موجود رہے وہاں گنج شکر حضرت فرید الدین ؒ سمیت کئی ولی کامل کی قدم بوسی کااعزاز بھی سرزمین قصور کو حاصل ہوا ۔چونکہ یہ شہر لاہور سے دہلی کی گزر گاہ پرواقع ہے اس لیے افغانستان سے ہندوستان پر قبضے کا خیال لے کر جو بھی حملہ آور آیا اسے دہلی تک پہنچنے کے لیے سرزمین قصور سے ہی گزرنا پڑا ۔تباہی اور بربادی کے علاوہ یہاں کئی جنگی معرکے بھی لڑے گئے ٗ ان کا ذکر تو کسی نہ کسی طرح تاریخ ہندوستان میں موجود ہوگا لیکن قصور شہر میں واقع عجائب گھر دور حاضر میں بھی ان بیتے ہوئے ادوار کی یادگار کی حیثیت سے ہمارے درمیان آج بھی موجود ہے ۔جو ضلعی کمپلیکس کے بالکل سامنے واقع ہے ۔ آئیے اس عجائب گھر کے اندر جھانک کر دیکھیں وہاں کیا کیا اور کون کونسے تاریخی نوادرات اپنے ماضی کی یاد دلا رہے ہیں۔یہ عجائب گھر پانچ گیلریوں پر مشتمل ہے ۔
پہلی گیلری آثار قدیمہ کے حوالے سے ہے اس گیلری میں چکوال سے دریافت شدہ پرانے درختوں اور ہڈیوں کے نمونے رکھے گئے ہیں۔جن کی عمر کا اندازہ 88 لاکھ سے ایک کروڑ سال تک لگایا گیا ہے اس کے علاوہ ہڑپہ اور چکوال کے دیگر تاریخی مقامات کی کھدائیوں سے ملنے والی پکی مٹی کے برتن ٗ ٹھیکریاں ٗ انسانی اور حیوانی مورتیاں ٗ اوزان کے پیمانے اور باٹ بھی موجود ہیں۔ گیلری میں گندھارا عہد کے متعلق بدھا اور ہندو دیوتاؤں کے مجسمے بھی رکھے گئے ہیں۔
دوسری گیلری میں یونانی ٗ پارتھی ٗ کشان ٗ ہندوستان ٗ قدیم اسلامی ٗ مغل ٗ سکھ اور برطانوی عہد کے سکے بھی موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ گیلری میں 1948 ء سے لے کر اب تک کے جاری ہونے والے سکے اور کرنسی نوٹ بھی ہیں ۔
تیسری گیلری اسلامی کیلی گرافی کے نمونوں اور قدیم اسلحے پر مشتمل ہے۔ اس گیلری کے تین ضمنی حصے ہیں۔ پہلے حصے میں صنائع دستی ٗ لکڑی کی کھدائی والا کام ٗ پچی کاری ٗ زیورات اور گھریلو استعمال کی دیگر اشیاء رکھی گئی ہیں ۔ دوسرا حصہ مخطوطات اور خطاطی پر مشتمل ہے جس میں مشہور خطاط حافظ مرتضی افغان قصوری کے ہاتھ کا 1179 ء میں لکھا ہوا قرآن پاک اور خط نسخ میں عزیز خان کشمیری کے ہاتھ کا لکھا ہوا 1220 ء کا مخطوطہ " دلائل الخیرات " خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔ خط نستعلیق اور دیگرنمایاں رسوم الخطوط کے نمونے بھی یہاں نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔تیسرا حصہ مسلم عہد اور اس کے بعد کے اسلحہ پرمشتمل ہے ۔ اس حصے میں قدیم تلواریں ٗ خنجر ٗ چاقو ٗ زرہ بکتر ٗ پستول ٗ اور بندوقیں رکھی گئی ہیں۔
چوتھی گیلری میں تحریک پاکستان سے منسوب اہم کرداروں اور تحریک آزادی کو قدم بقدم اجاگر کرنے کے لیے داستان کو تصویروں کی صورت میں پیش کیاگیا ہے۔یہاں پر پاکستان کے قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کے ہاتھ سے لکھا ہوا قومی ترانہ بھی آویزاں ہے۔
پانچویں گیلری بطور خاص قصور شہر کے حوالے سے ہے ۔ یہ شہر مدتوں سے لکڑی کی خوبصورت کھدائی کے کام ٗ لکڑی پر روغنی کام ٗ چمڑے کے کام ٗ کھڈی سے تیار کی جانے والی مصنوعات کے حوالے سے مشہور چلا آرہا ہے ۔مقامی ہنرمندوں کے تیار کردہ چار خانوں والے کھیس ٗ دریاں اور چمڑے کی زینیں دنیا بھر میں مشہور رہی ہیں ۔ ان کے نمونے اس گیلری میں موجود ہیں۔
عجائب گھر سے ملحقہ ایک پرشکوہ عمارت ہے جس میں مغل شہنشاہ شیر شاہ سوری کے ایک وزیر کی قبر موجود ہے ۔ سوری دور حکومت میں وکیل خان نامی اس وزیر کی عملداری میں قصور کا علاقہ شامل تھا۔ان کی وفات 1545عیسوی لکھی ہوئی ہے اس عمارت میں شاہی قلعےٗ مینار پاکستان اور چنیوٹ کی شاہی مسجد کے ماڈل بھی پڑے ہوئے ہیں۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ عجائب گھر اور اس میں رکھی گئی تمام نادر اور قدیم اشیاء اور فن حرب نئی نسل کو پرانے وقتوں اور بزرگوں کی شاندار روایات یاد دلانے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔یاد ماضی ہر زندہ قوم کے لیے ایک سرمایے کی حیثیت رکھتا ہے جو قومیں اپنے ماضی کو بھول جاتی ہیں وہ خود بھی ماضی کا حصہ بن جایا کرتی ہیں ۔( استفادہ مضمون برائے قصور عجائب گھر از: عبدالعلیم قمرسنڈے میگزین نوائے وقت 3 جولائی 2011 ء)
بہرکیف ہم قصور اسٹیشن پر اتر کر اپنی پھوپھو ( سکینہ بیگم ) کے گھر واقع باغیچی فتح دین کی جانب بڑھ رہے تھے ۔ ریلوے کوارٹروں سے وابستہ والدین اور دادا دادی کے حوالے سے بے شمار یادیں ذہن میں اتر رہی تھیں ۔قصور ریلوے اسٹیشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں میرے دادا ( خیر دین خان ) بھی کیبن مین کے فرائض انجام دیتے رہے اور میرے والد اور والدہ بھی یہاں کچھ عرصہ ریلوے کوارٹروں میں قیام پذیر رہیں ۔جن کی خوشبو میں وہاں سے گزرتے ہوئے بخوبی محسوس کررہا تھا ۔وقت کتنابے رحم ہے نہ دادا رہے نہ دادی ٗ نہ والد رہے نہ والدہ ۔ سب اپنی اپنی زندگی گزار کر منوں مٹی میں جاملے لیکن جہاں جہاں ان کے شب و روز گزرتے رہے اور جس جس مقام پر ان کے قدم پڑتے رہے وہ سب جگہیں میرے لیے مقدس گاہ کا روپ دھار چکی ہیں۔ چلتے چلتے سوچ رہا تھا کبھی وہ وقت بھی تھا جب شٹل کاک جیسا برقع پہنے ماں کی انگلی تھام کر میں یہاں آیا کرتا تھا لیکن اب ماں تو ساتھ نہیں ہے ماں کی جگہ پر بڑی بھابی رقیہ ضرور موجود ہے جسے میں اب ماں ہی کہتا ہوں ۔ مردوں میں مجھے ہی سب پر برتری حاصل تھی لیکن میں اتنا بڑا کب اور کیسے ہوگیا میں تو ابھی تک خود کو اپنی ماں کی آغوش میں چھپا ہوا بچہ ہی تصور کرتا ہوں ۔یہ الگ بات ہے کہ 56 سال بعد اب ایک عمر رسیدہ انسان بن چکا ہے لیکن دلوں کے راز اﷲ ہی جانتا ہے ۔میں اب بھی ان دنوں کو زندگی کے اہم ترین دن شمار کرتا ہوں جب والدین کے نام سے میری پہچان ہوا کرتی تھی ۔کوئی یہ کہتا کہ یہ ہدایت بیگم کا لڑکا ہے تو کوئی کہتا کہ یہ دلشاد خان کا بیٹا ہے ۔اس لمحے میں فخر سے سر بلند کرکے کہتا جی میں وہی ہوں جو آپ نے کہا ہے ۔میں اس وقت کو ان کیسے بھول جاؤں جنہوں نے مجھے زندگی کا شعور دیا ٗ معاشرے میں چلنا پھرنا سکھایا اور سب سے بڑھ کر پاکستان کاایک باوقار اور وطن سے محبت کرنے والا انسان بنایا ۔
بہرکیف اونچی نیچی گھاٹیوں سے اتر کر جب میں اپنی پھوپھو ( سکینہ بیگم ) کے گھرکی دہلیز پر پہنچا تو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ وہ ہسپتال سے فارغ ہوکر گھر واپس آگئی ہیں ۔گھر میں داخل ہوتے ہی اس کے مکینوں کی درد ناک کہانی نے میرے ذہن میں کروٹ لینی شروع کردی ۔کبھی وہ وقت بھی تھا جب اس گھر میں میرے پھوپھا مرزا محمد بیگ کی حکمرانی تھی وہ پنجاب پولیس میں بطور کانسٹیبل ملازم تھے لیکن فرض شناسی اور نیک نامی کے اعتبار سے ان کو قصور شہر میں ہر کوئی اچھے الفاظ میں یاد کرتا تھا۔اس حوالے سے انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی بھی عطا کیاگیا تھا۔ میں نے تمغہ حسن کارکردگی کے بارے میں جب پھوپھو سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ قصورشہر کی حدود میں ایک قتل ایسا ہوا تھا جس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا بہت تفتیش کے بعد پولیس جب کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی تو انہوں نے اعلان کیا کہ جو بھی پولیس اہلکار اپنی ذہانت اور تحقیق سے اس قتل کیس کا راز حاصل کرے گا اس کو محکمہ پولیس کی جانب سے میڈل دینے کی سفارش کی جائے گی ۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ قصور پولیس کو دو الگ الگ ڈویژنوں میں تقسیم کیاگیا ہے اے ڈویژن اور بی ڈویژن ۔ مرزا محمد بیگ بی ڈویژن کی پولیس چوکی کوٹ مراد خان میں تعینات تھے۔انہوں نے بھیس بدل کر ارد گرد کی آبادیوں اور گاؤں کا رخ کیا کبھی جوگی بن کے ٗ کبھی فقیر بن کے ٗ کبھی عورت کا روپ دھار کے ٗ صبح دوپہر شام پھرتے رہے ۔جب وہ عورت کا روپ دھار کر عورتوں کے ایک جمگھٹے میں موجود تھے تو وہاں عورتیں ایک قتل کے بارے میں گفتگو کررہی تھیں۔گفتگومیں شامل ہوئے بغیر انہوں نے اپنے کان اسی جانب لگا دیئے ۔حتی کہ جب ایک عورت نے انکشاف کیا کہ قتل تو اس شخص ( کسی کانام لے کر) نے کیا ہے لیکن مقتول کی گردن وہاں دفن ہے یہ بات اس کی سہیلی نے بتائی ہے ۔سب عورتیں اس قتل کہانی پرحیران تھیں ۔ مرزا محمد بیگ نے جب اس مقام پر زمین کو کھودا تو واقعی ایک انسانی سر وہاں سے برآمد ہوا ۔اب انہیں یقین ہوگیا کہ عورتیں جن قاتلوں کی نشاندہی کررہی تھیں وہ بھی سچ ہی ہوگا۔ چنانچہ پولیس نفری کے ساتھ مرزا محمد بیگ نے چھاپہ مارا اور تمام قاتلوں کو گرفتار کرلیا ۔ اس اعلی ترین خدمت اور الجھے ہوئے قتل کیس کو سلجھانے کے عوض انہیں تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ جو اب بھی میری پھوپھو کے پاس موجود ہے ۔اس گھر میں عزت ٗ شہرت اور خوشحالی کی خوب ریل پیل تھی ۔اﷲ تعالی نے ایک بیٹا بھی عطا کردیا ۔ باپ کی مناسبت سے جس کا نام مرزا امانت بیگ رکھا گیا وہ بھی نہایت خوبصورت ٗ دراز قد اور مضبوط جسم کا حامل نوجوان تھا ۔مجھے یاد ہے کہ جب میرے پھوپھا لاہور میں ہمارے گھر تشریف لاتے تو میں ان کی ٹوپی اور پولیس والی بیلٹ پہن کرمحلے کے بچوں پر رعب جماتا پھرتا ۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب پولیس والوں کو بھی لوگ بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھاکرتے تھے اور پولیس اہلکار بھی سر عام رشوت خوری ٗ بدقماشوں کی سرپرستی اور چوری ڈاکوں میں اپنا حصہ وصول نہیں کرتے تھے۔ وردی کی جو عزت ماضی میں تھی اب وہ نہیں رہی ۔اس کا جواب خود پولیس ہی دے سکتی ہے کیونکہ اب 80 فیصد جرائم اور کرائم کے پیچھے خود پولیس ہی دکھائی دیتی ہے ۔مرزا امانت بیگ ابھی سکول میں ہی زیر تعلیم تھا کہ ان کے والد اور میرے پھوپھا کاانتقال ہوگیا ۔ مرزا محمد بیگ کی موت کے صدمے سے جہاں سارا خاندان غم سے نڈھال ہوگیا وہاں میری پھوپھو کے گھر میں ویرانیوں ٗ پریشانیوں اور مالی اعتبار سے بدحالیوں کا آغاز ہوگیا ۔میرا کزن مرزا امانت بیگ بھی کچھ عرصہ پولیس میں ملازم رہا لیکن وہ اپنے والد کی طرح ڈیپارٹمنٹ میں نیک نامی کو برقرار نہ رکھ سکا ۔ اس وقت جبکہ اس کی عمر پچیس سال ہوئی تو ماں اس کی شادی کے بارے میں سوچنے لگی تاکہ گھر میں بہو آئے اور رونق ہو ۔لیکن آج سے آٹھ سال پہلے ایک شام وہ بھی دل کا دورہ پڑنے سے موت کی وادی میں جاسویا ۔اکلوتے اور جوان بیٹے کی موت کا صدمہ ایک قہر بن کے اس گھر پر ٹوٹا ۔ پھوپھو کے وہ تمام خواب تنکوں کی طرح بکھر گئے جو وہ اپنے بیٹے کے مستقبل کے بارے میں دیکھاکرتی تھی ۔ قدرت کو کیا منظور ہے کسی کو خبر نہیں ۔ بیٹے کی موت کے بعد وہ گھر میں تنہا ہوگئی ۔وہ کس کے لیے جیے ٗ کس کے لیے کھائے ٗکچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔
جب میری ماں زندہ تھی تو وہ کئی کئی مہینے ہمارے گھر لاہور میں آکر رہ لیتیں اور ماں کے ساتھ چارپائی بچھاکر صبح دوپہر شام ان حسین یادوں کو تازہ کرتیں جو قیام پاکستان سے پہلے فیروز پور اور فرید کوٹ سے وابستہ تھیں ۔ حسن اتفاق سے پھوپھو اور میری والدہ ٗ خالہ زاد بہنیں تھیں اور بچپن کی سہیلیاں بھی ۔جب وہ پرانی یادوں کو تازہ کرتیں تو میں ان کی باتیں سن کر خوب محظوظ ہوتا بلکہ شام ڈھلے جب بنک سے واپس لوٹتا تو اپنے گھر آنے کی بجائے سیدھا ماں اور پھوپھو کی قدم بوسی کے لیے پہنچتا ۔اکثر اوقات رات کا کھانا( جو شام پانچ چھ بجے ہی تیارہوجاتا تھا ) ماں اور پھوپھو کے ساتھ کھاکر اپنے گھر لوٹتا ۔اس کے باوجودہمارے خاندان کے بہت سے اہم لوگ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی ماں اور پھوپھو کی موجودگی میں وقت بہت اچھا گزررہا تھا کہ اچانک 10 جون 2007 کی سہ پہر ماں بھی فرشتہ اجل کے سامنے بے بس ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔ ماں کے انتقال پر میرے بعد سب سے زیادہ آنسو بہانے والوں میں پھوپھو شامل تھیں کیونکہ وہ گھر جس میں وہ اکثر مہمان ہواکرتی تھیں دو الگ الگ گھروں میں تقسیم ہوگئے۔نہ وہ کھلا صحن رہا ٗ نہ امرود کا درخت رہا ٗ نہ وہ برآمدہ رہا جہاں ماں اور پھوپھو صوفے پر دن کا زیادہ حصہ بیٹھ کر گزارا کرتی تھیں ۔سب کچھ تبدیل ہوگیا ۔چھوٹے بھائیوں نے تو گھر کے دو الگ الگ حصے کرکے تین تین منزلہ مکان کچھ اس طرح تعمیر کرلیے ہیں کہ مجھ سمیت گھٹنوں میں درد والا کوئی بھی شخص وہاں بمشکل ہی پہنچ پاتا ہے ۔میں اپنے گھر میں رہنے کے لیے کئی بار پھوپھو کو درخواست کرچکا ہوں لیکن ان کا دل سب سے چھوٹے بھائی ارشد کی جانب اس لیے زیادہ مائل ہوتاہے کہ وہ اوراس کی بیوی دونوں رشتے میں بھتیجے اور بھتیجی لگتی ہیں ۔پھوپھو کچھ عرصہ وہاں رہتیں پھر قصور لوٹ جاتیں ۔ میں کئی مرتبہ ان سے درخواست کرچکا ہوں کہ آپ مستقل طور پر لاہور میں ہمارے پاس قیام پذیر ہوجائیں تاکہ ہم آپ کی بہتر نگہداشت کی ذمہ داریاں احسن طریق سے پوری کرسکیں ۔ لاہور سے بار بار قصور جانا معاشی ذمہ داریوں اور صحت کی خرابی کی بنا پر ممکن نہیں ہے۔لیکن پھوپھو ہماری یہ بات ہمیشہ ٹال دیتیں اور بات آئی گئی ہوجاتی ۔یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پھوپھو ( سکینہ بیگم ) کے چند سسرالی رشتے دار قصور میں مقیم ہیں ان کے شوہر کے تین بھائی (مرزاحمید بیگ ٗ مرزا رمضان بیگ ٗ مرزا اسلم بیگ )بے شک اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن ان کے بیٹیاں اور بیٹے قصور شہر میں ہی رہائش پذیر ہیں پھوپھو کی خدمت میں سب سے زیادہ پیش پیش مرزا اسلم بیگ کی بیٹی باجی ثمینہ اور ان کی فرماں بردار اولاد ہے جن کی رہائش پھوپھو کے گھرکے بالکل پیچھے واقع ہے ۔پھوپھو سکینہ بظاہر تو اس کی رشتے میں تائی لگتی ہیں لیکن باجی ثمینہ حقیقی ماں سے زیادہ ان کا خیال رکھتی ہیں۔جب ہم سب بھائی لاہور میں تھے تو شوگر کم ہونے کی بنا پر جب پھوپھو بے ہوش ہوئیں تو وہی انہیں لے کرفوری طور پر ہسپتال پہنچیں انہی کی نگہداشت کی بنا پر پھوپھو اب پہلے سے بہت بہتر محسوس کررہی تھیں۔
بہرحال ہمیں دیکھ کر پھوپھو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔یہ اپنوں کی وہ کشش تھی جو ہمارے خون میں بھی اسی طرح موجزن تھی۔ رشتوں کی یہی محبت اور کسک سب کچھ چھوڑ کر ہمیں قصور پہنچنے پر مجبور کرگئی ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہمیں اپنے قریب پاکر پھوپھوکوبہت حوصلہ ملا لیکن میں یہ بات شدت سے محسوس کررہا تھا کہ سب کچھ گنوا کر بھی وہ بہت حوصلہ مند تھیں اب ان کے پاس بچا ہی کیا ہے شوہر بھی بیس سال پہلے فوت ہوگیا ۔ اکلوتا بیٹا بھی آٹھ سال پہلے ساتھ چھوڑ گیا اپنوں کی جدائی اورمالی پریشانیوں میں تو ایک ایک لمحہ بھی گزرنا محال ہوتا ہے کہاں شوہر اور بیٹے جدائی کے اعتبار سے ٗکتنے دن ٗکتنی راتیں اور کتنے منٹ اور کتنے سیکنڈ بنتے ہیں جب آگ اپنے دامن کو لگی ہو تو سکون اور قرار کہاں میسر آتا ہے لیکن اﷲ تعالی ہی ہے جس نے ان آزمائشوں میں بھی زندگی گزارنے کا حوصلہ انہیں بخش رکھاہے ۔
میں دیکھ رہا تھا کہ اس گھر میں چرخہ بھی ایک کونے میں موجود تھا ٗ چھج اور چھاننی بھی نظر آئی مرچیں پیسنے والی کونڈی ٗ اچار ڈالنے اور سالن پکانے والی مٹی کی ہانڈیاں بھی ۔ مٹی کا ایک چولہا اور گوبر کے اوپلے ( تھاپیاں )بھی دکھائی دیئے۔ لیکن ان کو استعمال کرنے والے وہ ہاتھ نظر نہیں آئے جو عام گھروں میں بہو ٗ بیٹوں ٗ بیٹیوں اور بچوں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ ایک کمرے کے مکان میں چھت کا کوئی پنکھا نہیں تھا دو ہک تو نظر آئے لیکن ان میں بھونڈوں کا بسیرا تھا ان میں سے ایک بھونڈ تو بھائی اشرف کے ہاتھ اپنی جان گنوا بیٹھا نہ فریج وہاں موجود تھا نہ ٹی وی اور نہ ہی اچھا باتھ روم ۔ گھر میں موجود صرف ایک نلکا تھا جس پر پلاسٹک کی ٹوٹی نصب تھی میونسپل کارپوریشن کے اس نلکے میں بھی دن میں ایک دو گھنٹوں کے لیے ہی پانی آتا تھا پانی ذخیرہ کرنے کی کوئی ٹینکی نہیں تھی نلکے کے نیچے پڑا ہوا ایک ٹب ہی پانی کے حوالے سے پوری کائنات تھا ۔باورچی خانے کی دیواریں تو اٹھی ہوئی تھیں لیکن ایک ایک اینٹ سے ویرانی اور وحشت ٹپک رہی تھی وہ بیٹھک جس میں کبھی میرے کزن مرزا امانت بیگ اور اس کے دوست بیٹھا کرتے تھے ہڑپہ اور موہنجوداڑو کا منظر پیش کررہی تھی گھر میں پہلے ایک بھینس ہوا کرتی تھی وہ بھی مر گئی ۔یہ سب کچھ دیکھ کر میں سوچ رہاتھا کہ زندگی تو ہر انسان کے لیے ایک انمول تحفہ ہوتی ہے جو اسے ہر حال میں گزارنی پڑتی ہے لیکن کانٹوں کی سیج پر زندگی کیسے اورکب تک گزاری جاسکتی ہے ۔اس لمحے میں پھوپھو کی جرات اور بہادری کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا ۔
آج نہایت کمزوری اور لاغر پن کی حالت وہ میرے سامنے تھیں ابتدائی چند سالوں کی خوشیاں اور بیس سال سے غم ہی غم ٗپریشانیوں ہی پریشانیوں نے انہیں کچھ اس طرح گھیر رکھاتھا کہ اس سے نجات کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا ۔ بہت مشکل سے میں اپنے آنسو ضبط کر پارہا تھا دل میں بار بار ابال اٹھ رہا تھا اف ۔ میرے خدایا یہ سب کیا ہے ۔کیا سارے غم اور پریشانیاں میری پھوپھو کے ہی نصیب میں لکھ دی گئی ہیں لیکن پھرمیں رب کا شکر اداکرتا کہ 67 سال کی عمر میں بھی وہ کسی بڑی یا موذی بیماری میں مبتلا نہیں ہیں ۔ صحت اور تندرستی بھی اﷲ تعالی کا بڑا احسان ہے ۔ان سوچوں میں گم اچانک میری آنکھ لگ گئی ۔خواب میں کیا دیکھتاہوں کہ اسی گھر میں مرزا امانت بیگ نہایت اجلے کپڑے پہنے موجود ہے اس کی بیوی چولہے پر کھانا تیار کررہی ہے جبکہ چار بچے شرارتوں میں مصروف ہیں ۔ دادی انہیں پیار بھی کررہی ہے اور شرارتوں پر ڈانٹ بھی رہی ہے۔اسی اثنا میں پولیس کی وردی پہنے میرے پھوپھا گھر میں داخل ہوتے ہیں ۔پوتے اور پوتیاں ٹانگوں سے چمٹ جاتی ہیں کوئی بچہ ٹافی مانگتا ہے تو کوئی بچہ بازار جانے کی ضد کرتا ہے۔دادی کہتی ہے کہ ابھی تو تمہارے دادا ڈیوٹی سے واپس آئے ہیں تم کیوں تنگ کررہے ہو ۔ اسی اثنا میں بجلی بند ہوگئی اور میں نیند سے حالت بیداری میں آگیا اس کے ساتھ ہی وہ سب کچھ ختم ہوگیا جو میں خواب میں دیکھ رہا تھا میرے سامنے ایک بار پھر وہی ویرانیاں تھیں جن کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں۔بے شک گرمی کا آغاز ہوچکا ہے جس گھر میں صرف ایک ہی پنکھا ہو اور وہ بھی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بند ہوجائے ۔اس گھر میں ایک شخص بیمار بھی ہو اور دور و نزدیک سے مزاج پرسی کرنے والے بھی جمع ہوں کیا لوڈشیڈنگ اور گرمی کی شدت عذاب بن کے نازل نہیں ہوتی لیکن عوام پر کیا گزرتی ہے پاکستانی حکمرانوں کو اس سے کیا مطلب۔ ان کے اپنے ائیرکنڈیشنڈ تو کسی بھی لمحے بند نہیں ہوتے ۔بجلی کی لوڈشیڈنگ تو خیر پہلے بھی ہوتی تھی لیکن روٹی کپڑا مکان کا وعدہ کرنے والے حکمران جب سے برسراقتدار آئے ہیں انہوں نے نہ صرف لوڈشیڈنگ میں دوگنا اضافہ کردیاہے بلکہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کردیاہے کہ غریب روٹی کھانے سے بھی ترس رہے ہیں ۔
میری وہ پھوپھو جو بے چاری صرف 1500 روپے ماہانہ ملنے والی شوہر کی پنشن میں زندگی کے آخری دن پورے کررہی ہے کیا یہ زندگی اس کے لیے عذاب نہیں بن گئی لیکن ا ن کے صبر کی انتہا تو دیکھیں کہ وہ روٹی پر ایک آلو رکھ کر بھی پیٹ بھر لیتی ہیں۔ چائے مل جائے تو پی لیتی ہے نہ ملے تو صبر کرلیتی ہے کبھی میٹھے یا خوش ذائقہ کھانوں کی فرمائش نہیں کرتی ۔ میں نے زندگی میں ان سے زیادہ صابر اور شاکر انسان نہیں دیکھا ۔
گھڑی پر جب سہ پہر کے چار بج رہے تھے تو سب نے لاہور واپسی کا ارادہ ظاہر کیا۔ میں پھوپھو سے اجازت اور پیار لینے کے لیے تین مرتبہ گیا اور تینوں مرتبہ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ڈبڈباتے لہجے میں کہا بیٹا تم جارہے ہو اﷲ آپ کی حفاظت کرے ۔ جب وہ میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر رہی تھیں میں نے محسوس کیاکہ ایک ان دیکھی لہر میرے جسم میں سرایت کررہی تھی شاید یہی وہ محبت تھی جو انسانی خون میں پروردگار نے پیدا کررکھی ہے ۔رشتوں کی وسعت اور قربت کے باعث اس میں کمی و بیشی تو ہوسکتی ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہوا کہ میری مرحومہ ماں بھی وہیں پر موجود ہیں اور مجھے کچھ کہہ رہی ہیں کہ اپنی پھوپھو کا خیال رکھو۔کانوں میں پڑنے والی ماں کی اس آواز پر میں نے بہت اصرار کیا کہ پھوپھو ہمارے ساتھ لاہور چلو لیکن ان کااصرار جاری رہاکہ تندرست ہوکر لاہور آؤں گی اﷲ نے اگر چاہا تو ۔پھر جب آخر ی بار پھوپھو سے شفقت بھرا پیار لے کر میں گھر سے رخصت ہو رہا تھا تو میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل رہے تھے ۔اس لمحے باجی ثمینہ نے کہامرد ہوکر رویا نہیں کرتے ۔ ہمت کرتے ہیں ٗ میں نے کہا باجی یہ میدان جنگ نہیں ہے بلکہ میں اس عظیم رشتے کو اپنے آنسووں کا خراج پیش کررہا ہوں جس کی محبت اور شدت میرے لہو میں جوش مار رہی ہے۔میں اس محبت کی شدت سے کیسے بچ سکتا ہوں ۔اس ٹوٹے پھوٹے گھر میں ایک بڑھیا لیٹی ہوئی ہے یہی بڑھیا اس وقت ہمارے خاندان کی سب سے بڑی اور معزز ہستی ہے اس کی دعاؤں کے طفیل تو ہم کامیابیوں کے زینے طے کررہے ہیں لیکن ان کو دینے کے لیے سوائے اپنے آنسووں کے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ۔کیا آنسووں کی شکل میں ان کی بے لوث محبت کی قیمت ادا نہ کی جائے ۔خونی رشتوں میں اب اس کا اور ہے ہی کون سوائے ہمارے ۔ اورہم اس رشتے کی حساسیت کا احساس بخوبی رکھتے ہیں لیکن قسمت تو کوئی نہیں لکھ سکتا ۔ہم اس وعدے کے بعد گھر سے نکل تو آئے کہ صحت یاب ہوتے ہی وہ ہمارے پاس لاہور چلی آئیں گی لیکن بہت دنوں تک پھوپھو کی یاد کو فراموش نہیں کرسکے ٗ ہر لمحے ان کے لیے یہی دعا نکلتی ہے کہ باری تعالی جتنی بھی زندگی ہے انہیں صحت اور تندرستی سے گزارنے کی توفیق عطا فرما کیونکہ زندگی اور موت پر تو ہی قادر ہے ۔
(نوٹ ۔ یہ آرٹیکل 2011ء میں لکھاگیا تھا جب ہم سب نے اپنی پھوپھو کی بیماری کی اطلاع پاتے ہی قصور شہر کا رخ کیا تھا ۔ اب تو پھوپھو کو فوت ہوگئے بھی کئی سال گزر چکے ہیں اﷲ انہیں غریق رحمت فرمائے۔قارئین اسی تناظر میں اس آرٹیکل کو پڑھیں )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 662159 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.