تحریر :سید عاصم محمود --------------انتخاب و پیشکش
:محمداسلم لودھی
8 اکتوبر 2005ء بروز ہفتہ صبح 8 بج کر 52 منٹ ہوئے تھے‘ میں دفتر میں بیٹھا
حسبِ معمول لکھنے پڑھنے میں مصروف تھا کہ یکایک میری میز کو جھٹکا لگا۔ میں
نے محویت کے عالم سے نکل کر گردن اُٹھائی تو مجھ پر یہ ہولناک انکشاف ہوا
کہ کمرے کا فرش‘ چھت اور اس میں موجود ہر شے لرز رہی ہے۔ ایک لمحے کے لیے
مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا اور میں کچھ بھی سمجھنے سے قاصر رہا۔ ہوش قابو میں
آئے تو میرے ذہن میں سورۂ الزلزال کی یہ آیتیں تیزی سے گردش کرنے لگیں:
’’جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی اور وہ اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے
گی (تب) انسان کہنے لگے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے؟ اس دن زمین اپنی سب خبریں
بیان کر دے گی اس لیے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا……‘‘
گو زمین کو پوری طرح جھنجھوڑا نہیں گیا تھا اور نہ وہ دن آیا جس کے بارے
میں یہ آیات نازل ہوئیں پھر بھی مجھے یوں لگا کہ چھت ابھی میرے سر پر آ گرے
گی۔ اس عالم میں انسان چاہے جتنا بھی باہمت ہو‘ خوف کے مارے تھرا اُٹھتا
ہے۔ میں نے بے اختیار اپنے رب کو یاد کیا اور اس کی پناہ مانگتا ہوا دفتر
سے باہر نکل آیا۔ صحن میں پہلے ہی ہمارے ساتھی امجد اور خان ڈرائیور خوف
زدہ حالت میں کھڑے تھے۔ جلد ہی کاروانِ علم فاؤنڈیشن کا علی بھی بھاگتا ہوا
باہر نکل آیا۔
ہم سب دَم بخود لڑکھڑاتی زمین اور ہلتے ڈولتے مکانوں کو دیکھتے اور استغفار
پڑھتے رہے۔ اردگرد کے گھروں سے بھی مردوزن اور بچے نکل کر گلی میں کھڑے ہو
گئے تھے۔ ہر کسی کی زبان پر یہی جملہ تھا کہ اس نے آج تک ایسا خوف ناک
زلزلہ نہیں دیکھا۔ اگلے دن اخبار پڑھ کر ہی حقیقی طور پر اندازہ ہوا کہ اس
زلزلے کی شدت کتنی زیادہ تھی اس نے آزاد کشمیر اور ہزارہ ڈویژن میں شہر‘
قصبات دیہات کے دیہات صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالے تھے۔
اس زلزلے کا برمرکز (Epic Centre) چونکہ آزاد کشمیر میں تھا اس لیے وہیں سب
سے زیادہ تباہی ہوئی۔ یہ زلزلہ تقریباً ڈیڑھ منٹ تک رہا اس کا برمرکز
بالاکوٹ کے قریب اور مظفر آباد سے شمال مشرق کی طرف 22 کلومیٹر (13.7میل)
دُور تھا اس کی شدت (Magnitude) 7.6 تھی اور ماہر ارضیات کے مطابق وہ
’شدید‘ تھا۔ یاد رہے کہ 1906ء میں آنے والے امریکہ کے مشہور ’سان
فرانسسکوزلزلے‘ کی شدت بھی 7.7 تھی۔
یہ زلزلہ زمین کی دو پرتوں (پلیٹوں)…… بھارتی پرت اور یورشیائی پرت کے
ٹکرانے سے پیش آیا۔ (مزید تفصیل منسلک باکس میں دیکھیں) جاپانی موسمیاتی
ایجنسی کے مطابق تو اس کی شدت 7.8 تھی اس قدرتی آفت نے کابل سے لے کر دہلی
تک زمین کے طبق ہلا دیئے مگر سب سے زیادہ تباہی آزادکشمیر اور ہزارہ ڈویژن
کو برداشت کرنا پڑی اس وقت تک زلزلے کے باعث ہلاک ہونے والوں کی سرکاری
تعداد کم از کم اسی ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ نیز ہزاروں زخمی ہیں۔ غیرسرکاری
ذریعوں کے مطابق کم از کم ایک لاکھ اموات ہوئی ہیں اور ہزاروں زخمی۔ مرکزی
زلزلے کے بعد مزید کئی سو جھٹکے (After Shocks) محسوس کیے گئے۔ ان میں سے
ایک کی شدت 6.2 تھی جو ماہرینِ ارضیات کے مطابق طاقت ور ہوتا ہے۔ مزید برآں
26 زلزلوں کی شدت پانچ سے زیادہ تھی۔
آزاد کشمیر
کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے پاس ہے‘ وہ عرفِ عام میں آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔
گو اس کا مکمل نام ’آزاد جموں و کشمیر‘ ہے اس کا رقبہ 13200 کلومیٹر
(5135میل) ہے۔ دارالحکومت مظفر آباد اور آبادی تیس لاکھ کے قریب ہے۔ یہ سات
اضلاع مظفر آباد‘ پونچھ‘ کوٹلی‘ بھبمر‘ باغ‘ سدھنوٹی اور میرپور میں تقسیم
ہے۔ 91 فیصد کشمیری دیہات میں رہتے ہیں‘ باقی شہروں میں مقیم ہیں۔ یہ علاقہ
بلند و بالا پہاڑوں‘ وسیع و عریض جنگلات اور حسین وادیوں کے باعث پوری دنیا
میں مشہور اور ارضی جنت کہلاتا ہے۔
ہزارہ ڈویژن
ہزارہ صوبہ سرحد کا سب سے بڑا ڈویژن اور پانچ اضلاع‘ ایبٹ آباد مانسہرہ‘
ہری پور‘ بٹ گرام اور کوہستان پر مشتمل ہے۔ ڈویژن کی 75 فیصد آباد ہند کو
اور باقی پشتو بولتی ہے۔ یہ علاقہ بھی اونچے پہاڑوں‘ قدرتی مناظر اور صحت
افزا مقامات کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے اس کی مجموعی آبادی چالیس
لاکھ سے زیادہ ہے۔
بالاکوٹ کا المیہ
تاریخ پاک و ہند میں مانسہرہ کا یہ قصبہ سید احمد شہید کی جنگ کے باعث
مشہور ہے۔ 6 مئی 1831ء کو سید صاحب اور ان کے ساتھی سکھوں کے خلا دادِ
شجاعت دیتے ہوئے یہیں شہید ہوئے تھے۔ بالاکوٹ ایبٹ آباد سے 45کلومیٹر دُور
واقع ہے اس کی آبادی تیس ہزار تھی۔ بالاکوٹ 8 اکتوبر سے قبل پاکستان کے خوب
صورت ترین مقامات میں سے ایک تھا مگر اب یہ کھنڈر بن چکا ہے چونکہ برمرکز
کے نزدیک ہی تھا اس لیے زلزلے نے یہاں بڑی تباہی پھیلائی۔ 90 فیصد گھر تباہ
ہوگئے اور 60 فیصد آبادی موت کے گھاٹ اُتر گئی۔ 8 اکتوبر کو وہاں ہر طرف
گرے مکان اور لاشیں نظر آ رہی تھیں۔
صوبہ سرحد اور آزاد کشمیر میں ہفتے کے دن سکول کھلتے ہیں اس لیے جب زلزلہ
آیا تو جماعتیں لگی ہوئی تھیں۔ زلزلے سے زیادہ تر سکولوں کی عمارتیں گر
گئیں اور ملبے کے نیچے دب کر کئی سو بچے اور بچیاں ہلاک ہو گئے۔ ملبے تلے
بیسیوں لوگ زندہ تھے مگر ملبہ اُٹھانے والی مشینیں نہ ہونے کے باعث انہیں
نکالا نہ جا سکا اور وہ سسک سسک کر دَم توڑ گئے۔ ان کے عزیز و اقارب کی
چیخوں اور آنسوؤں نے سب کے دل دہلا دیئے۔ کئی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت
زخمیوں کو نکالنے کی کوششیں کیں مگر ناکام رہے۔ آخر ہتھوڑیاں اور چھینیاں
کہاں تک ساتھ دیتیں؟
زلزلے نے بالاکوٹ کے مرکزی بازار کا نام و نشان ہی مٹا ڈالا۔ اسے دیکھ کر
لگتا ہے کہ وہاں کارپٹڈ بمباری ہوئی ہے۔ (یہ ایک جنگلی اصطلاح ہے اس کے
معنی ہیں:
’’مخصوص علاقے میں یوں بم گرانا کہ وہاں موجود سب تعمیرات ملیامیٹ ہو
جائیں)
جب بالاکوٹ میں لڑکیوں اور لڑکوں کے ہائی سکولوں سے بچے بچیوں کی لاشیں
نکالی گئیں تو ان کے والدین نے ماتم کرتے ہوئے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔
واقعی اس قدرتی آفت نے آزادکشمیر میں آدھی سے زیادہ نئی نسل کو مٹا ڈالا۔
بالاکوٹ میں زندہ بچ جانے والوں کو حکومت سے شکایت ہے کہ اس نے علاقے میں
بروقت امدادی کارروائیاں شروع نہیں کرائیں ورنہ کئی انسان زندہ بچ جاتے مگر
مسئلہ یہ ہے کہ زلزلے نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی تھی اور حکومت کے
پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ سب کی فوری مدد کرتی۔ نیز بالاکوٹ جانے والی
سڑک تباہ ہو گئی تھی اور وہاں سامان لے جانا ناممکن ہو گیا تھا۔
زلزلے آنے کی وجہ
ہم جس زمین پر چلتے پھرتے ہیں‘ وہ بظاہر ٹھوس اور ساکن محسوس ہوتی ہے لیکن
ایسا نہیں ہے۔ یہ خشک سطح دراصل سات بڑی اور کئی چھوٹی پرتوں پر مشتمل ہے
جو مسلسل حرکت میں رہتی ہیں۔ گو وہ اتنی معمولی ہوتی ہیں کہ ہم اسے محسوس
نہیں کر سکتے۔ حرکت کی وجہ یہ ہے کہ ہماری زمین کی تہ کئی سطحوں پر مشتمل
ہے۔ پرتیں زمین کی سب سے اوپری سطح ’’غلاف‘‘ پر مشتمل ہے‘ یہ ٹھوس سطح ہے
اس سے نچلی سطح ’’کُرۂ استھوائی‘‘ (Asthensophere) کہلاتی ہے۔
کُرۂ استھوائی زمین سے سو کلومیٹر نیچے واقع ہے اب جوں جوں گہرائی بڑھتی
جائے‘ درجہ حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سو کلومیٹر کی گہرائی میں چونکہ
چٹانی مواد پگھل جاتا ہے اس لیے کُرہ استھوائی پگھلے ہوئے چٹانی مواد پر
مشتمل ہے۔ پرتیں اس مائع مواد کے اوپر واقع ہیں اس لیے وہ حرکت کرتی ہیں۔
حرکت کے باعث وہ اربوں سال سے کئی بار ایک دوسرے سے ٹکرائی ہیں اسی ٹکراؤ
کے باعث دنیا میں پہاڑ‘ آتش فشاں‘ سمندروں میں گڑھے اور زلزلے پیدا ہوئے۔
سات بڑی پرتوں میں بحرالکاہل‘ شمالی امریکہ‘ یوریشیائی‘ (ایشیائی اور
یورپی) انصارکٹکا‘ افریقی‘ کوکوس اور نازیکا پرتیں شامل ہیں۔ بھارتی پرت
بھی بڑی پرتوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ سب پرتیں ایک دوسرے سے ٹکراتی رہی ہیں۔
ان کے ٹکراؤ کے مقام پر چونکہ زبردست دباؤ ہوتا ہے اس لیے وہاں زمین ٹوٹ
پھوٹ جاتی ہے یعنی پرتوں کے ٹکراؤ سے پہاڑ بن جاتے ہیں یا گڑھے اور کھائیاں
نمودار ہو جاتی ہیں جس جگہ پرتیں ٹکرا رہی ہوں‘ اسے درزیادراڑ (Fault) کہتے
ہیں۔ یہ درز چند ملی میٹر سے لے کر ہزاروں کلومیٹر لمبی ہو سکتی ہے جب شدید
دباؤ کے باعث درز کے آرپار کی دیوہیکل چٹانیں ہلتی ہیں تو زلزلہ جنم لیتا
ہے۔
چٹانوں کے ہلنے یا ٹکرانے کے باعث آس پاس کے علاقوں میں بھونچال آ جاتا ہے‘
ٹکراؤ جتنا شدید ہوگا‘ بھونچال کی شدت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ مزیدبرآں
اگر کم گہرائی میں چٹانیں ٹکرائیں یا سرکیں تو زلزلے سے زیادہ تباہی آئے گی
کیونکہ اوپری زمین زیادہ شدت سے ہلے گی۔ یاد رہے کہ چٹانوں کے درمیان دباؤ
کئی سو یا ہزاروں سال کے عرصے میں بھی جنم لے سکتا ہے کیونکہ پرتوں کے
سرکنے کی رفتار انتہائی معمولی ہوتی ہے۔
پرتوں میں موجود دیوہیکل چٹانوں کے ٹکراؤ سے زبردست توانائی جنم لیتی ہیں
جو لہروں کی شکل میں دُور تک سفر کرتی ہیں۔ ان لہروں کو ناپ کر سائنس دان
فیصلہ کرتے ہیں کہ زلزلہ کتنی شدت کا ہے۔ انہیں ناپنے والا آلہ ’’زلزلہ
پیما‘‘ کہلاتا ہے۔ آج کل ریکٹر پیمانے کے ذریعے زلزلے کی شدت ناپی جاتی ہے۔
ریکٹر پیمانے پر چھ اور اس سے کم شدت کے زلزلے کمزور عمارتیں گرا سکتے ہیں۔
6.1 سے 6.9 شدت والے سو کلومیٹر کے دائرے میں خاصی تباہی پھیلا سکتے ہیں۔
7.0 سے 7.9 تک کے زلزلے شدید ہوتے ہیں۔ ان کا دائرۂ کار 150 سے 300 کلومیٹر
تک کے قطر پر محیط ہوتا ہے۔ 8 اور اس سے زیادہ شدت والے زلزلے خطرناک ہوتے
ہیں‘ وہ کئی سو کلومیٹر میں تباہی پھیلاتے ہیں۔
یہ یاد رہے کہ ریکٹر پیمانہ بنیادی طور پر لوگارتھم ہے اس میں ہر ایک
میگناٹیوڈ کے اضافے سے زلزلے کے حدود کی وسعت دس گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے
یعنی 6 شدت زلزلے کی لہروں کی وسعت 5 شدت والے سے دس گنا زیادہ ہوگی لیکن
زلزلے کی شدت کے حساب سے ہر ایک عدد بڑھنے پر شدت 32 گنا زیادہ ہو جاتی ہے
یعنی 7 شدت والا زلزلہ 6 کے مقابلے میں 32 گنا زیادہ شدیدہوگا۔
کشمیر میں حالیہ زلزلہ آیا وہ 7.6 کی شدت کا تھا اس زلزلے سے اتنی توانائی
خارج ہوئی جو 160 میگاٹن ٹی این ٹی (دھماکہ خیزمواد) کے برابر تھی۔ یاد رہے
کہ امریکیوں نے ہیروشیما پر جو ایٹم بم گرایا وہ 13 کلوٹن کی ٹی این ٹی کا
تھا۔ اس نے 80 ہزار انسان مار دیئے تھے۔ 7.6 شدت کا زلزلہ 150 سے 300
کلومیٹر تک زبردست تباہی پھیلانے کی قدرت رکھتا ہے۔
’باغ‘ جو اُجڑ گیا
ہفتے کی صبح باغ کے مرکزی بازار میں کاروبار اپنے جوبن پر تھا۔ رمضان شروع
ہوئے دو دن ہو چکے تھے اس لیے یہاں کے رہائشی صبح تین چار بجے ہی بے دار ہو
جاتے تھے۔ باغ ضلع کا صدر مقام ہے۔ ضلع کی آبادی چار لاکھ اور صدر مقام کی
آبادی پچاس ہزار ہے۔ یہ قصبہ اسلام آباد سے ستر کلومیٹر دُور ہے۔
اس دن دفاتر میں بھی حسبِ معمول چہل پہل تھی۔ قصبے کے دو سکولوں اور ایک
کالج میں طلباء و طالبات اپنی پڑھائی میں مصروف تھے کہ اچانک زمین تھرانے
لگی اور چند ہی لمحوں بعد گھر‘ عمارتیں‘ دفاتر اور دُکانیں مٹی کا ڈھیر بن
گئیں۔ 750 طلباء و طالبات چل بسے اس لیے اب باغ میں بہت کم بچے نظر آتے
ہیں۔ محکمہ بجلی کے مقامی دفتر میں 350 لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں سے ایک
بھی زندہ نہیں بچا۔ دفتر کی پوری عمارت ڈھے گئی تھی اسی طرح تھانہ بھی
پیوند خاک ہو گیا اور حوالات میں بند قیدی چل بسے۔
باغ کے مرکزی بازار میں دو ہزار چھوٹی بڑی دُکانیں تھیں‘ وہ اب ملبے کی شکل
میں موجود اپنی حالتِ زار کی اندوہناک کہانی سنا رہی تھیں‘ وہ اب
کنکریٹ‘اینٹوں اور مٹی کے ڈھیر میں بدل چکی ہے۔80 فیصد باغ اُجڑ گیا اور اس
کے بیشتر مکین اﷲ کو پیارے ہو گئے۔
کئی علاقوں کی طرح یہاں بھی فوج کے جوان اور رضاکار امدادی کارروائیاں کرنے
کے لیے ہفتے یا اتوار ہی کو پہنچ گئے لیکن مشینوں کی کمی اور منصوبہ بندی
کے فقدان کے باعث ان کا جوش و خروش کام نہیں آیا۔ وہ ملبے میں دبے بہت کم
لوگوں کو بچا سکے۔ اس زلزلے نے اتنی سرعت سے آن دبوچا تھا کہ لوگوں کے ہوش
و حواس ہی رخصت ہو گئے۔
آخر جب 11 اکتوبر کو ہالینڈ سے امدادی کارکنوں کا ساٹھ رُکنی دستہ باغ
پہنچا تو ان کی سرکردگی میں منظم طریقے سے امدادی کارروائیاں شروع ہوئیں۔
ان کے ساتھ ایسے کتے بھی تھے جو ملبے میں دبے انسانوں کو سونگھ کر ڈھونڈ
نکالتے ہیں مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ انہوں نے جس تباہ شدہ گھر کا
معائنہ کیا‘ لاشیں ہی ملیں…… بس لاشیں!
مظفر آباد سوگوار ہے
آزادکشمیر کا سب سے بڑا شہر مظفرآباد سترہویں صدی میں کشمیری بمبا خاندان
کے حکمران‘ مظفر خان نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ چاروں اطراف سے پہاڑوں میں
گھرا ہوا نہایت خوب صورت علاقہ ہے لیکن اب یہاں گرے ہوئے گھر‘ ٹوٹی پھوٹی
سڑکیں اور گاڑیاں‘ تعفن زدہ لاشیں اور امداد لانے والے ٹرکوں کے پیچھے
دوڑتے بھاگتے لوگ ہی نظر آتے ہیں۔ ہر سو قیامت کا سماں ہے۔
زلزلے نے یہاں بھی بڑی آفت مچائی اور تقریباً ہر گھر زمین بوس ہو گیا۔ دو
لاکھ آبادی والے اس شہر میں کئی ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ کئی دن
تک لاکھوں لوگوں کو کھلے آسمان تلے دن رات بسر کرنے پڑے کیونکہ اب بھی
زلزلے کے جھٹکے آ رہے تھے۔ ان جھٹکوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔
ایک عینی شاہد کے مطابق مظفر آباد سے بیس کلومیٹر دُور ہی تباہی کے آثار
نظر آنے لگتے ہیں اس علاقے میں کئی دیہات صفحۂ ہستی سے مٹ گئے‘ وہاں کوئی
گھر بچا نہ کوئی بشر۔ مظفر آباد سے بھی زندہ بچ جانے والے بیشتر لوگ نقل
مکانی کر چکے ہیں کیونکہ وہاں اب ایسی کوئی سہولت موجود نہیں جو سانس کی
ڈور ٹوٹنے سے بچا سکے۔ وہ شدید تباہی کے باعث شہر سے زیادہ قبرستان نظر آتا
ہے۔
سکولوں اور کالجوں کی عمارات گرنے سے سب سے زیادہ الم ناک داستانوں نے جنم
لیا۔ رضوان پبلک سکول مظفر آباد کا مشہور سکول تھا اس میں 650 بچے زیرتعلیم
تھے۔ 8 اکتوبر کو جب زلزلہ آیا تو تیسرا گھنٹہ جاری تھا۔ تین منزلہ عمارت
دھڑام سے گر گئی‘ صرف 350 بچوں کو بچایا جا سکا‘ باقی سب چند لمحوں میں موت
کا لقمہ بن گئے۔ شہر کے بقیہ تعلیمی ادارے بھی زمین بوس ہو گئے اور ان میں
ہنسنے‘ بولنے والے پھول جیسے بچے بھی۔
حالیہ زلزلے سے مظفرآباد اور دیگر علاقوں میں موجود نوے فیصد سرکاری عمارات
چند ہی لمحوں میں زمین بوس ہو گئیں اس حقیقت سے سرکاری ٹھیکے داروں کی بے
ایمانی کھل کر سامنے آئی ہے اگر انہوں نے عمارتوں کی تیاری میں ایزانداری
سے خالص گچ مسالہ استعمال کیا ہوتا تو یقینا وہ زلزلے کے جھٹکے سہار جاتیں
ویسے بھی عقل کہتی ہے کہ سرکاری طور پر تعمیر شدہ عمارات کو دوسری عمارتوں
سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے۔
شہر کی وسیع تباہی دیکھتے ہوئے منصوبہ بندی کے ایک ماہر کا کہنا ہے:
’’مظفر آباد کو اگلے چالیس برس میں بھی پہلے کے مانند آباد نہیں کیا جا
سکتا۔ میں حکومت کو مشورہ دوں گا کہ اب وہ آزاد کشمیر کے صدر مقام کو کسی
نئی جگہ نئے سرے سے بسائے۔ مالیاتی طور یہ اقدام زیادہ موزوں ہے۔ وجہ یہ ہے
کہ تباہ شدہ شہر سے ملبہ اُٹھانے پر زیادہ خرچ آئے گا۔‘‘
جناب خلیق نظامی مظفر آباد میں ’’ڈان‘‘ کے نمائندے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’9 اکتوبر کی رات میں نیشنل بینک آف پاکستان کی تباہ شدہ مرکزی عمارات کے
سامنے سے گزر رہا تھا کہ آواز آئی ’مجھے بچاؤ‘ میں زندہ ہوں۔ خدا کے لیے
مجھے یہاں سے نکالو‘‘ میں نے اس آدمی کو دیکھنے کی کوشش کی مگر وہ ملبے تلے
دبا ہوا تھا۔ بس اس کی آواز آ رہی تھی لیکن میں اس کی کیسے مدد کرتا؟
کرینوں اور بلڈوزروں کے بغیر ملبہ ہٹانا ناممکن تھا۔ مجھے کئی جگہ مدد کی
ایسی درد بھری التجاؤں کا سامنا کرنا پڑا اور میں بے بسی کے عالم میں ہاتھ
ملتا رہ گیا۔‘‘
مانسہرہ
ہزارہ ڈویژن میں ضلع مانسہرہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ دس لاکھ آبادی والے
ضلع میں اب تک چھ ہزار اموات ہو چکی ہیں۔ ضلع مانسہرہ کا ایک دیہاتی فضل
الٰہی بتاتا ہے:
’’اس زلزلے نے میرا بھی سب کچھ ختم کر دیا‘ گھر اور خاندان بھی۔‘‘
جب اس کا گھر گرا تو بیوی بچے فوراًچل بجے‘ چودہ سالہ بیٹی شدید زخمی ہوئی‘
وہ اسے اُٹھا کر چھیالیس کلومیٹر دُور واقع مانسہرہ کے ہسپتال لے گیا لیکن
وہاں پہنچتے اس کی چہیتی بیٹی زخموں کی تاب نہ لا کر دَم توڑ گئی۔
ضلع مانسہرہ کے زیادہ تر دیہات میں عمارات گر چکی ہیں اور اب ان کی تعمیر
نئے سرے کی کی جائے گی۔ زلزلے کے متاثرین کے لیے یہ نہایت مشکل گھڑی ہے اور
انہیں حوصلے اور صبر سے یہ وقت گزارنا ہوگا۔
ضلع مانسہرہ میں گڑھی حبیب اﷲ کا قصبہ زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔
وہاں تقریباً 99 فیصد عمارات تباہ ہو گئیں۔ یہیں وہ سکول واقع ہے جہاں تین
سو بچیاں سکول کے ملبے تلے دب گئیں۔
ایبٹ آباد
ضلع ایبٹ آباد میں زلزلے کے باعث ستر فیصد گھر گر گئے اور اب ان کے مکین
خیموں میں زندگی بسر کر رہے ہیں اس ضلع کی آبادی دس لاکھ ہے اور یہاں کم از
کم تین ہزار اﷲ کو پیارے ہوئے۔ ایبٹ آباد کا ایوب میڈیکل کمپلیکس زلزلے کے
بعد زخمیوں سے بھر گیا۔ ضلع کے صوبائی رُکن اسمبلی‘ سید مظہر علی شاہ کا
گھر بھی گر گیا اورہ اہلِ خانہ کے ہمراہ ملبے تلے دب گئے۔ انہیں تو بحفاظت
نکال لیا گیا مگر ان ے 22 رشتے دار اس حادثے میں جاں بحق ہو گئے اس ضلع میں
سکولوں کی عمارتیں گرنے سے کئی سو بچے بچیاں ہلاک ہو گئے۔
اسلام آباد
ہمارا دارالحکومت زلزلے کے برمرکز سے گو دُور تھا لیکن زلزلے کے شدید
جھٹکوں نے فلیٹوں کی بلند و بالا عمارت مارگلہ ٹاورز کا ایک حصہ گرا دیا جو
84 اپارٹمنٹوں پر مشتمل تھا۔ ملبے تلے کئی افراد پھنس گئے۔ دیکھنے والے
بتاتے ہیں کہ عمارت لاش کے پتوں کی طرح چند لمحوں میں ڈھے گئی۔ اسلام آباد
میں اس کے گرنے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور کئی سو افراد عمارت
کی طرف بھاگے جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ہر طرف گردوغبار پھیلا ہوا ہے۔
عمارت میں پھنسے ہوئے بدقسمت لوگوں کی چیخوں‘ آہوں اور سسکیوں سے فضا گونج
رہی تھی
وہ نہایت خوف ناک اور ناقابلِ یقین منظر تھا‘ اردگرد کے بلاکوں میں آباد
لوگ دہشت زدگی کے عالم میں نکل رہے تھے۔ وہ شبینہ کپڑوں میں ملبوس تھے اور
انہوں نے ہاتھوں میں ادھ سوئے بچے تھام رکھے تھے‘ کئی لوگ برہنہ پا تھے‘
انہوں نے جب ایک بلاک گرتے دیکھا تو نہایت افراتفری میں اپنے فلیٹوں سے نکل
آئے۔ کئی لوگوں نے فلیٹوں کی کھڑکیاں توڑ دیں تاکہ بستر کی چادریں اور دیگر
کپڑوں سے بنائی گئی رسیوں کے ذریعے جلد از جلد فرار ہو سکیں۔
مارگلہ ٹاور میں رہنے والوں کے رشتے داروں کو اس سانحے کی خبر ملی تو وہ
سفر کا جو ذریعہ ہاتھ آیا اس کے ذریعے جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ مرد ہو یا
عورت‘ ہر کوئی اشک بار تھا۔ کچھ چیخ چلا رہے تھے مگر مارگلہ ٹاور میں ان کا
راستہ انہوں نے روک لیا جو خوف زدہ حالت میں بلاکوں سے باہر آ رہے تھے۔ سب
لوگ پھر سراسیمگی کے عالم میں اپنے پیاروں کو ٹیلی فون کرنے لگے۔ کچھ بے
بسی اور لاچاری کے عالم میں ادھر ادھر پھرنے لگے اس دوران امدادی
کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ فلیٹوں کے زیادہ تر مکین اپنے گھروں کے باہر آ کر
زمین پر یوں بیٹھ گئے جیسے ان پر فالج گر پڑا ہے۔ ان کے ساتھ جو خوف ناک
تجربہ پیش آیا اس نے انہیں گنگ کر دیا تھا۔ ہیلی کاپٹر ان کے قریب آ کر
رُکتے‘ گرد اُڑاتے مگر انہیں کچھ خبر نہ تھی۔ بہت دیر بعد ان کے ہوش و ہواس
بحال ہوئے۔
زلزلے سے بچ جانے والوں کے لیے یہ نہایت ڈراؤنا خواب تھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ
وہ موت کے منہ میں جاتے جاتے رہ گئے۔ مارگلہ ٹاورز کی ایک مکین مریم شکیل
کہتی ہیں:
’’جب زلزلہ آ رہا تھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ قیامت آ پہنچی ہے اور اب سب
لوگ مر جائیں گے۔‘‘
برصغیر پاک و ہند میں ارضیاتی تبدیلیاں
خشکی کی پرتیں چونکہ حرکت میں ہیں اس لیے جب سے ہماری زمین وجود میں آئی ہے
یعنی ساڑھے چار ارب سال پہلے‘ یہاں کئی براعظم وجود میں آ چکے ہیں۔ وقت کے
ساتھ ساتھ وہ ٹوٹ گئے اور ان کی جگہ نئے براعظم تخلیق ہوئے۔ ماہرینِ ارضیات
کے مطابق تیس کروڑ سال پہلے دنیا کے براعظم ایک ہی بڑے براعظم ’’پانگیا‘‘
پر مشتمل تھے۔ سولہ کروڑ سال پہلے پانگیا دو براعظموں یوریشیا اور گونڈوانا
لینڈ میں تقسیم ہو گیا۔ یوریشیا آج کے روس‘ یورپ‘ گرین لینڈ اور شمالی
امریکہ پر مشتمل تھا۔ دوسرے براعظم میں جنوبی افریقہ‘ افریقہ‘ برصغیر پاک و
ہند اور آسٹریلیا جڑے ہوئے تھے۔
کچھ ہی عرصے بعد گونڈوانا لینڈ ٹوٹ گیا اور برصغیر پاک و ہند کا خطہ روسی
علاقے کی طرف سفر کر نے لگا۔ سمندر میں سفر کرتے کرتے خشکی کا یہ بہت بڑا
ٹکڑا دو کروڑ سال پہلے آخرکار اس براعظم سے جا ٹکرایا جو آج ایشیا کہلاتا
ہے اس زبردست ٹکراؤ کے باعث ہی وہ پہاڑی سلسلے پیدا ہوئے جو کراچی کے قریب
سے لے کر برما تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان پہاڑی سلسلوں میں ہمالیہ‘ قراقرم‘
پامیر اور ہندوکش نمایاں ہیں۔ ٹکراؤ کے باعث دونوں براعظموں کے اگلے حصے
پہاڑوں کی شکل میں اوپر اُٹھ گئے جہاں ٹکراؤ شدید تھا وہاں دنیا کے سب سے
بلند پہاڑ وجود میں آئے جن میں ایورسٹ اور کے ٹو بھی شامل ہیں۔
زمینی پرتیں چونکہ مسلسل حرکت کر رہی ہیں اس لیے بھارتی پرت اب بھی ایشیائی
(یا یوریشیائی) پلیٹ کی سمت سفر کر رہی ہے۔ وہ ہر سال پانچ سینٹی میٹر اور
فی ہفتہ ایک ملی میٹر روس کی طرف کھسک رہی ہے۔ دونوں پرتوں کے ٹکراؤ کے
باعث ماضی میں زلزلے آئے ہیں‘ آتے ہیں اور آتے رہیں گے۔
ماہرینِ ارضیات کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے سے بھارتی پرت فعال ہو گئی ہے یعنی
وہ زیادہ رفتار سے شمال کی طرف سفر کرنے لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دسمبر 2004ء
میں بحر ہند میں 9.0 شدت کا زلزلہ آیا جس نے ساحلی شہروں کو ملیامیٹ کر
دیا۔ یہ زلزلہ اس جگہ آیا جہاں بھارتی پرت پرمی پرت سے ٹکرا رہی ہے اسی
علاقے میں مارچ 2005ء میں 8.7 شدت کا ایک اور خطرناک زلزلہ آیا اب علاقہ
کشمیر پرت کی نقل و حرکت کا نشانہ بن گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں زلزلہ آنے کی توقع تھی لیکن اتنی شدت کا نہیں۔
یہ ایک خطرناک امر ہے کیونکہ چٹانوں کے ٹکرانے یا ایک دوسرے سے رگڑ کھانے
کے باعث ان کے آس پاس دباؤ جنم لیتا ہے۔ جتنا وقت گزرے یہ دباؤ بڑھتا چلا
جاتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ وقفوں سے زلزلے آتے رہیں اس طرح دباؤ جمع نہیں
ہو پاتا اگر دباؤ لمبے عرصے کے لیے جمع ہو جائے تو پھر وہ نہایت شدید زلزلے
کی صورت میں خارج ہوتا ہے چونکہ برصغیر پاک و ہند میں آبادی بہت زیادہ ہے
اس لیے ٓ تا 9 شدت والا کوئی بھی زلزلہ یہاں زبردست تباہی پھیلا سکتا ہے۔
کشمیر کا حالیہ زلزلہ ہندوکش سلسلے میں آیا ہے اس کابرمرکز مظفر آباد سے
صرف دس کلومیٹر تھا اس لیے وہاں بہت تباہی ہوئی۔ ایک وجہ یہ ہے کہ زلزلہ
صرف دس کلومیٹر گہرائی میں آیا جو کم شمار ہوتی ہے اس لیے بھی زلزلے کی شدت
زیادہ تھی۔ ماہرین کو تشویش ہے کہ آزاد کشمیر اور ہزارہ ڈویژن کے نیچے
پرتوں کی نقل و حرکت میں تیزی آ گئی ہے اس کا مطلب ہے کہ لاہور سے پشاور کے
درمیان واقع شہر مستقبل میں کم یا زیادہ شدت والے زلزلوں کا شکار رہیں گے۔
مصیبت یہ ہے کہ جدید سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود یہ معلوم کرنا
تقریباً ممکن ہے کہ زلزلہ کب آئے گا۔
یہ یاد رہے کہ شدت کے ذریعے زلزلے کی توانائی کا تخمینہ لگایا جاتا ہے‘
زلزلے سے جو تباہی پھیلے اس پر دیگر وجوہ بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ مثلاً
زلزلے نے کہاں حملہ کیا اس علاقے میں زمین کیسی ہے اور وہ کتنا گہرا تھا
چونکہ کشمیر کا زلزلہ کم گہرا تھا اس لیے وہ زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات نے ان پاکستانی علاقوں کو چار خطوں میں تقسیم کر
رکھا ہے جہاں زلزلے آتے رہتے ہیں۔ ’’پہلے خطے‘‘ میں بلوچستان کے بالائی
مغربی علاقے اور بھارتی سرحد کے ساتھ موجود علاقے شامل ہیں۔ ’’دوسرا خطہ‘‘
آزاد کشمیر‘ پنجاب‘ سندھ اور سرحد کے جنوبی علاقوں پر مشتمل ہے۔ حالیہ
زلزلہ اسی خطے میں آیا۔ پاکستان کا بیشتر ساحلی علاقہ یشمول کراچی اور صوبہ
سرحد کے بالائی ’’تیسرے خطے‘‘ کا حصہ ہیں۔ ’’چوتھے خطے‘‘ میں کوئٹہ کے آس
پاس کا علاقہ‘ ساحلِ مکران اور سرحد کے شمال مغربی علاقے شامل ہیں۔
لاہور پہلے خطے میں واقع ہے اس لیے 1905ء میں مشہور ’’کانگڑا زلزلہ‘‘ آیا
تو اسے کافی نقصان پہنچا تھا۔ بلوچستان کے زیادہ تر حصوں میں بھی زلزلے آتے
رہتے ہیں۔ زلزلے کی سرگرمیاں ان علاقوں میں زیادہ ہیں جہاں پاکستان کی
سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں۔
پاکستان کے تمام پہاڑی مقامات پر درزیں (Fault) موجود ہیں تاہم شمالی
علاقوں میں پہاڑوں کی کثرت کے باعث انہیں دریافت کرنا مشکل ہے۔ دیگر مقامات
پر درزیں دریافت کر لی گئی ہیں جن میں ’’چمن درز‘‘ شامل ہے۔ یہ پاکستان اور
افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ پھیلی ہوئی اور قلات کے ذریعے کوئٹہ اور
کابل تک پہنچ جاتی ہے۔ ساحلِ مکران پر بھی ایک درز موجود ہے۔ ماہرینِ
ارضیات کے مطابق اس درز کی خصوصیات مہاراشٹر (بھارت) کے مغربی ساحل پر
پھیلی درز سے ملتی جلتی ہیں۔
ساحلِ مکران کے درز حرکت میں ہے۔ یہیں 1940ء میں 7.9 شدت کا زلزلہ آیا تھا
جس کے باعث بارہ میٹر اونچی سونامی لہریں پیدا ہوئیں، حرکت کی وجہ یہ ہے کہ
یہ دراز ایران اور عرب کی ذیلی پرتوں سے ٹکرا رہی ہے۔ یہ درز کیرتھر‘ کوہ
سلیمان اور کوہستان نمک تک پھیلی ہوئی ہے اس کے علاوہ کراچی اور دریائے
سندھ کے اردگرد چار درزیں موجود ہیں‘ ان میں سب سے بڑی ’’اﷲ بنددرز‘‘ ہے۔
اﷲ بند درز شاہ بندر سے شروع ہو کر جاہ پاکستان سٹیل ملز سے گزرتے ہوئے
کراچی میں داخل ہوتی اور پھر راس مونز (Cape Monz) پر جا ختم ہوتی ہے۔ ماضی
میں یہ درز کئی بڑے زلزلوں کا باعث رہی ہے۔ بھنبھور شہر اس درز پر واقع تھا
جو تیرہویں صدی میں ایک شدید زلزلے کے باعث تباہ ہو گیا۔ 1896ء میں شاہ
بندر کو بھی ایک زلزلے نے نقصان پہنچایا۔
دوسری درز رن آف کچھ سے شروع ہوتی ہے۔ تیسری یب درز کہلاتی ہے وہ ساحلِ
مکران کے نزدیک بحیرۂ عرب تک جاتی ہے۔ تیسری درز ضلع دادو کے زیریں علاقے
سے شروع ہو کر سرجانی (کراچی) تک پھیلی ہوئی ہے۔
دنیا کے خونی ترین زلزلے
نمبرشمار
مقام
ہلاکتیں
میگناٹیوڈ
تاریخ
-1
شانسی (چین)
830000
8
23 جنوری 1556ء
-2
%سماٹرا (انڈونیشیا)
283000
9.0 تا 9.3
26 دسمبر 2004ء
-3
تیانگ شان (چین)
255000
7.5
27 جولائی 1976ء
-4
حلب (شام)
230000
9 اگست 1138ء
-5
دمگان (ایران)
200000
22 دسمبر 856ء
-6
%ننگسا‘ گاسنو (چین)
200000
8.9
16 دسمبر1920ء
-7
تیسنگھی (چین)
200000
7.9
22 مئی 1927ء
-8
اردبیل (ایران)
150000
23 مارچ 893ء
-9
کانٹو (جاپان)
143000
7.9
یکم ستمبر1923ء
-10
-اشک آباد (ترکمانستان)
110000
7.3
5 اکتوبر 1948ء
دنیا کے دس طاقت ور ترین زلزلے
۔
نمبرشمار
تاریخ
جگہ
میگناٹیوڈ
-1
22 مئی 1960ء
چلی
9.5
-2
16 اکتوبر 1737ء
کماچٹکا (روس)
9.3
-3
28 مارچ 1964ء
الاسکا (امریکہ)
9.2
-4
26 دسمبر 2004ء
%سماٹرا (انڈونیشیا)
9.0 تا 9.3
-5
9 مارچ 1957ء
الاسکا (امریکہ)
9.1
-6
4 نومبر 1952ء
کماچٹکا (روس)
9.0
-7
26 جنوری 1700ء
)کیلی فورنیا (امریکہ)
9.0
-8
31 جنوری 1902ء
%کولمبیا (ایکواڈور)
8.8
-9
4 فروری 1965ء
الاسکا (امریکہ)
8.7
-10
24 نومبر 1833ء
%سماٹرا (انڈونیشیا)
8.7
پاک و ہند میں
آنے والے بڑے زلزلے
برصغیر پاک و ہند میں شدت کے حساب سے سب سے شدید زلزلہ فروری 1929ء کو
شمالی علاقہ جات کے ضلع بونیر میں آیا تھا۔ وہ 8 شدت کا تھا چونکہ اس زمانے
میں شمالی علاقوں میں اضافی آبادی بہت کم تھی اس لیے مالی و جانی نقصان
زیادہ نہیں ہوا۔
٭…… انسانی جانوں کے ضیاع کے لحاظ سے سب سے خطرناک زلزلہ 893ء میں دیبل کے
علاقے میں آیا تھا جس کے باعث دیبل شہر مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ مؤرخین کے
مطابق اس زلزلے میں ڈیڑھ لاکھ افراد مارے گئے تھے تاہم زیادہ تر اتنی تعداد
نہیں بتاتے اس کی شدت 7.5 بتائی جاتی ہے۔
٭…… 1905ء میں بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے شہر کانگڑا میں زلزلہ آیا جس کے
نتیجے میں تقریباً بیس ہزار افراد ہلاک اور بے شمار زخمی ہوئے۔
٭…… جدید تاریخ کا سب سے تباہ کن زلزلہ 30 مئی 1935ء کو بلوچستان میں آیا
جس نے کوئٹہ شہر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ زلزلے نے ساٹھ ہزار افراد کو موت
کے گھاٹ اُتار دیا اس کی شدت 7.6 شدت تھی یعنی کشمیر کے حالیہ زلزلے جتنی۔
٭…… 16 جون 1819ء کو رَن گچھ میں زلزلہ آیا جس سے 3200 انسان چل بسے اس کی
شدت 7.5 تھی۔ زلزلے سے بھائی صوبے گجرات اور جنوبی پنجاب میں کئی دیہات
اُجڑ گئے۔
٭…… 26 نومبر 1945ء کو مکران (بلوچستان) میں زلزلہ آیا‘ زلزلے کے باعث 12
میٹر اونچی سونامی لہروں نے جنم لیا جو بمبئی کے ساحل تک گئیں اس زلزلے کے
باعث 12000 افراد مارے گئے۔
٭…… 5 اگست 1947ء کو مکران میں دوبارہ زلزلہ آیا جس کی لپیٹ میں آ کر پانچ
ہزار انسان چل بسے۔
٭…… 28 دسمبر 1974ء کو مالاکنڈ میں زلزلہ آیا اس نے پانچ ہزار انسانوں کو
موت کی نیند سُلا دیا۔
٭…… 26 جنوری 2001ء کو بھارتی ریاست گجرات میں زلزلہ آیا جس کی وجہ سے بھوج
نامی شہر تباہ ہو گیا اس کے باعث چودہ ہزار انسان لقمۂ اجل بن گئے اس کی
شدت بھی 7.6 تھی۔
لاہور پر کیا گزری
زلزلہ اتنا شدید تھا کہ لاہور تک بھی اس کے زبردست جھٹکے محسوس کیے گئے اور
انہوں نے لاہوریوں کو دہشت زدہ کر دیا۔ جھٹکوں کے باعث کئی کمزور عمارتیں
گر گئیں اور کئی کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ لاہور کی تاریخ میں اتنا
خوف ناک زلزلہ کبھی نہیں آیا۔ لوگ کلمہ پاک کا ورد کرتے ہوئے گھروں اور
دفاتر سے نکل آئے‘ جھٹکے اتنے شدید تھے کہ چلتی ہوئی گاڑیاں اُچھلنے اور
کانپنے لگیں۔ لوگ سمجھے کہ ان کے ٹائر پھٹ گئے ہیں جب گاڑیاں روکی گئیں تو
انہیں احساس ہوا کہ زلزلہ آ رہا ہے تاہم لاہور میں آنے والے زلزلے کی شدت
کم تھی کیونکہ جو مقام برمرکز سے جتنا دُور ہو وہاں زلزلے کی شدت اتنی کم
ہوئی ہے۔
خوش قسمت کوئٹہ
حالیہ خوف ناک زلزلے میں کوئٹہ محفوظ رہا جو 1935ء میں اس قدرتی آفت کے
باعث ملبیکا ڈھیر بن گیا تھا اس المیہ میں بلوچستان کے ساٹھ ہزار سے زائد
افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حالیہ زلزلے سے سندھ اور بلوچستان متاثر نہیں ہوئے
کیونکہ ان کے خطے الگ الگ ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے منسلک باکس دیکھیے)
کوئٹہ چمن درز میں واقع ہے جس میں زلزلہ نہیں آیا۔
تربیلا اور منگلا بند
پاکستان کے دو بڑے بند اس علاقے کے بہت قریب واقع ہیں جہاں حالیہ زلزلہ
آیا۔ ماہرین اب اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ اگر مستقبل میں زیادہ شدید زلزلہ
آیا تو ان بندوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اگر آنے والے زلزلے کا برمرکز ان
بندوں کے قریب ہوا تو صرف 6 شدت والا زلزلہ بھی یہ بند توڑنے کے لیے کافی
ہے جو سائنس داں اور ماہرین بڑے بند بنانے کے مخالف ہیں انہیں حالیہ زلزلے
نے ایک اور جواز فراہم کر دیا۔ واپڈا نے بڑے بند بنانے کے جتنے منصوبے بنا
رکھے ہیں‘ وہ سب شمالی علاقہ جات میں یا ان کے قریب ہیں‘ خاص طور پر بھاشا
ڈیم۔
اموات اور زخمی (پاکستان)
ماہرین کے مطابق 8 اکتوبر کو جو زلزلہ آیا اس کے باعث 28000 مربع کلومیٹر
رقبے پر بسنے والے چالیس لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ ان میں سے بیس لاکھ لوگ صوبہ
سرحد کے چار اضلاع (مانسہرہ‘ بالاکوٹ‘ بٹگرام اور ایبٹ آباد) کے رہائشی
ہیں۔ ان میں آدھے لوگ بے گھر ہیں۔ سرحد کے اضلاع میں سب سے متاثرہ ضلع
مانسہرہ ہے۔
آزاد کشمیر کے تین اضلاع (مظفر آباد‘ باغ اور پونچھ) زلزلے سے زیادہ تباہ
ہوئے۔ ان میں بیس لاکھ سے زیادہ افراد مقیم تھے اب ان میں سے آدھے بے گھر
ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق زلزلے سے پانچ ارب ڈالر (تیس ارب روپے) کا
نقصان ہوا ہے۔ فی الوقت پچیس سے تیس لاکھ افراد بے گھر ہیں‘ اتنے زیادہ
لوگوں کو آباد کرنا یقینا انتہائی دشوارمرحلہ ہے۔
صوبہ پنجاب کے کئی دیہات اور قصبوں میں بھی کئی سو مکانات گر گئے اور اموات
بھی ہوئیں۔ آزاد کشمیر کے متاثرہ علاقوں میں سب سے نمایاں مظفر آباد‘ باغ‘
راولاکوٹ‘ باتیکا‘ گڑھی دوپٹر‘ ہتیاں‘ چکار‘ ہرشہ اور ہری گیٹ ہیں۔ صوبہ
سرحد میں مانسہرہ‘ بالاکوٹ‘ بٹ گرام‘ شنکیاری اور گڑھی حبیب اﷲ کے علاقوں
کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔
اندازوں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد لاکھ سے زائد پہنچنے کا خدشہ ہے
کیونکہ صرف ایدھی فاؤنڈیشن نے پچاس ہزار لاشیں دفنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
زخمیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔
بھارت میں زلزلہ
مقبوضہ کشمیر میں اڑی‘ ترگدر (Targdhar) اور کپواڑہ کے اضلاع زلزلے سے
متاثر ہوئے۔ چالیس ہزار سے زیادہ گھر مٹی کا ڈھیر بن گئے جب کہ تہتر ہزار
کو شدید نقصان پہنچا۔ ضلع اڑی میں سوا لاکھ کشمیری بے گھر ہو گئے جب کہ
ترگدر میں تیس ہزار کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔ زلزلے کے باعث تیرہ
سو افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ ہزاروں زخمی ہوئے۔ سرینگر میں درگاہ حضرت
بل کے منار کو بھی نقصان پہنچا نیز ضلع پونچھ میں دو سو سال پرانا قلعہ
موتی محل زمین بوس ہو گیا۔
بھارت میں زلزلے کے شدید جھٹکے دہلی اور امرتسر تک محسوس کیے گئے۔ انہوں نے
بھارتی صوبہ گجرات میں بھی افراتفری پھیلا دی جہاں اکثر زلزلے آتے رہتے
ہیں۔
زلزلے کا شاید واحد فائدہ یہ ہوا کہ کشمیر میں پاکستان اور بھارت کی افواج
ایک دوسرے کے خلاف اُٹھے ہوئے ہتھیار پھینک کر امدادی کارروائیوں میں جت
گئیں حتیٰ کہ معاصر فوجیوں نے ایک دوسرے کی مدد بھی کی۔ لائن آف کنٹرول کے
پار موجود بھارتی فوجیوں کو چند پاکستانی فوجیوں کی آواز آئی جو اپنے
مورچوں میں پھنس گئے تھے۔ بھارتی فوج نے جا کر انہیں نکالا اور مورچے درست
کرنے میں مدد دی تاکہ وہ رات کو وہاں سو سکیں۔
مزید برآں عرصہ دراز بعد بھارت کی طرف سے امداد بھی پاکستان پہنچی جب 12
اکتوبر کو بھارت کا ایک فوجی ہیلی کاپٹر پندرہ ہزار کمبل‘ 50 خیمے اور
ہزاروں ادویہ لے کر پاکستان پہنچا۔ بھارتی وزیراعظم نے بیان بھی دیا کہ وہ
ہر ممکن مدد دینے کے لیے تیار ہیں۔
افغانستان بھی بچ نہ سکا
وسطی اور مشرقی افغانستان کے علاقے بھی اس قدرتی آفت سے لرز اُٹھے تاہم
وہاں جانی و مالی نقصان کم ہوا۔ تازہ رپورٹوں کے مطابق وہاں تین افراد ہلاک
ہوئے۔ 10 اکتوبر کو افغان حکومت نے اعلان کیا کہ پاکستان میں زبردست تباہی
کے پیشِ نظر افغانستان کا جھنڈا تین دن تک سرنگوں رہے گا۔
ماں…… میرا دَم گھٹ رہا ہے
حکیماں احتیاط سے پکڑنا‘ احتیاط سے
آنکھیں پھٹی اور ناک ہے پچکی ہوئی
جسم میں خون کی گردش ہے بند
سبھی اس چھت کے نیچے دب کے ٹوٹا
رابطہ چھوٹا‘ بدن کا روح سے
وہ چھت جو ماں میرے لیے سایہ تھی‘
چھپا لیتی تھی‘ بارش اور ہواؤں سے
اور جب اندھیرا رات کا مجھ کو ڈراتا تھا
وہ اک سایہ تھی چھت
وہ چھت اک بوجھ بن کر آ گری ہے
میرا دَم گھٹ رہا ہے‘ ماں میرا دَم گھٹ رہا ہے
مگر ماں‘ تو تو خود بھی ساتھ ہی لیٹی ہوئی ہے
ہمیں تو موت نے اک ساتھ آ جکڑا
جلا ڈالا‘ گراڈالا‘ مٹا ڈالا‘ چبا ڈالا
اور فنا کر کے ہمیں وہ خود کھڑی ہے
ہنس پڑی ہے‘ وہ ظالم موت ہستی جا رہی ہے
(حافظ مظفر محسن)
قطعاتِ نادم
یہ زلزلہ بھی ایک قیامت سے کم نہ تھا
زمین شق ہو گئی‘ آسمان پھٹ گیا
فلک بوس عمارات زمین بوس ہو گئیں
دل دہل گیا اور جگر کٹ گیا
٭٭٭٭
ایسی لہر گزر گئی سینۂ ارض سے
اک آن میں بستیاں ویران بن گئیں
جس جگہ کل تلک ریل پیل تھی
وہ آبادیاں اب قبرستان بن گئیں
٭٭٭٭
کیسا عذابِ الٰہی نازل ہو گیا
جسے دیکھتے ہی ہوش گم ہو گئے
زیب تن تھے جو خوش نما لباس
پل بھر میں وہ کفن پوش ہو گئے
٭٭٭٭
یہ زلزلہ اک آزمائش کی گھڑی ہے
بڑا ہی سخت آج امتحان ہے
بیٹھے رہے گھروں میں جو آرام سے
سمجھیں ان کا کمزور ایمان ہے
(سید محمد یعقوب نادم‘لاہور)
زلزلہ یا قہر
سرحد میں آیا ایک قہر…… کشمیر سب سے بے خبر
بہتی رہی خوں کی نہر…… عوام بھوکے بے خبر
توبہ ہے رب العالمین
رحمت پہ ہم رکھیں یقیں
معصوم بچے بچیاں‘ چیخیں پکاریں‘ لیں ہچکیاں
امداد کو دوڑیں کہاں‘ باقی نہ تھا کوئی وہاں
توبہ ہے رب العالمین
رحمت پہ ہم رکھیں یقیں
بے گھر ہوئے لاکھوں بشر‘ آئی تباہی واں نظر
اُجڑے وہاں سارے شہر‘ دیکھو ذرا تم نظر بھر
توبہ ہے رب العالمین
رحمت پہ ہم رکھیں یقیں
تو غیب سے امداد کر‘ پھر سے انہیں آباد کر
عبدل تو ان کو یاد کر‘ اﷲ سے فریاد کر
توبہ ہے رب العالمین
رحمت پہ ہم رکھیں یقیں
(عبدالصمد‘ کراچی)
|