22 ویں کنیسٹ (پارلیمانی) انتخابات میں نیتن یاہو کی
جماعت لیکود اور سابق آرمی چیف بینی گانتز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کو کم
وبیش برابر نشستیں حاصل ہوئیں۔ نتین یاہو کی جماعت لیکود کی سربراہی والے
اتحاد کو 120 کے ایوان میں 55 نشستیں جبکہ بائیں بازو کے اتحاد کو 56
نشستیں حاصل ہوئی ہیں حالانکہ حکومت بنانے کے لئے کسی بھی پارٹی یا اتحاد
کو 61 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں سے اکیلےحکمران جماعت لیکوڈ نے صرف
31 جبکہ ان کی حریف نیلی اور سفید پارٹی کو ۳۳ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی
ہے۔ عرب اتحاد 12 سیٹوں پر کامیاب ہوا ہے ۔اس معمولی کا میابی کی خاطر نیتن
یاہو نے ایک انتخابی جلسے میں اعلان کردیا تھا کہ وہ 17ستمبر کو ہونے والے
عام انتخابات میں کامیابی کے بعد وادی اردن اور شمالی بحر مردار کے علاقے
کو اسرائیل میں ضم کردے گا۔
اس احمقانہ اور غیر ذمہ دارانہ بیان پر عالم اسلام کا شدید رد عمل سامنے
آیا۔حکومت اسرائیل کی اس مذموم حرکت کو تُرک وزیرخارجہ مولود جاووش اوگلو
نےگھٹیا انتخابی نعروں کے ذریعے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی ناکام
کوشش بتایا ۔ جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم 'او آئی سی' کے وزراء خارجہ کے
اجلاس میں اسے غیرآئینی ،ناقابل قبول اور حقائق کو تبدیل کرتے ہوئے اپنی
مرضی کا اسٹیٹس کو مسلط کرنے کی سعی قرار دیا۔وادی اردن کو اسرائیل میں ضم
کرنے کا اعلان بالکل ایسا ہی دعویٰ ہے جیسا کہ آج کل پاکستان مقبوضہ کشمیر
کے حوالے سے وزیر خارجہ جئے شنکر سے لے کر وزیر داخلہ راجناتھ تک بیان پر
بیان دےرہے ہیں ۔
جغرافیائی اعتبار سے وادی اردن شمال میں بحیرہ طبریا سے بحیرہ مردار تک
پھیلی ہوئی ہے۔ فی الحال مغربی کنارے سے بحیرہ مردار تک صہیونی ریاست
کاغاصبانہ قبضہ ہے جسے عالمی برادری تسلیم نہیں کرتی ۔ مغربی کنارے کے مشرق
میں واقع وادی اردن کی لمبائی 120 کلو میٹر اور چوڑائی 15 کلو میٹر ہے۔ اس
کا مجموعی رقبہ 16 لاکھ دونم ہے اس میں سے 2 لاکھ 80 ہزار دونم قابل کاشت
ہے۔ فلسطینیوں کے پاس فی الحال اس کا 50،000 دونم ہے جبکہ 27 ہزار یہودی
آباد کاروں کے قبضے میں ہے۔ آبادی کا تناسب دیکھیں تو اس وادی میں فلسطینی
65 ہزار اور یہودی آباد کار 11 ہزار ہیں۔ یہ مغربی کنارے کا 30 فی صد
علاقہہے۔ اسرائیل نے سنہ 1967 میں وادی اردن پرقبضے کے بعد وہاں پر 90 فوجی
کیمپ اور چھائونیاں قائم کیں اور 31یہودی بستیاں تعمیر کرکے اس پرقبضہ کرنے
کی مذموم کوشش کرچکا ہے۔ اس دوران وادی اردن کے 50،000 سے زیادہ باشندوں کو
بےخانماں کیا گیا ۔
اسرائیل اور پی ایل او کے مابین 1993 میں طے پانے والے اوسلو معاہدے کے
مطابق اس علاقے کے 90 فی صد حصے کو 'زون C' میں شامل کرکے اسرائیلی سکیورٹی
اور انتظامی کنٹرول میں دے دیا گیا تھا۔وادی اردن میں آبادی کم ہے مگر زمین
انتہائی زرخیز ہے۔ اس لیے یہاں پر شہری مراکز ، توانائی اور صنعت کے شعبوں
میں برآمدات اور بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کو ترقی دے کر اسے تجارتی مرکز
بنایا جاسکتا ہے۔نیتن یاہو کے اس اعلان پر فلسطینی برادری ،بین الاقوامی
اور عرب ممالک کی سطح پر شدید مذمت اور غم وغصہ کا اظہار کیا گیا اور مسلم
ممالک کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئےسب سے پہلے جرمنی نے اس کو مسترد
کیا۔ اس کے بعد یورپین یونین اور اقوام متحدہ نے اس کی مخالفت کو اور روس
نے بھی اس کے بھیانک انجام کا اشارہ دیا۔ اس طرح دنیا کے بڑے حصے کو ناراض
کرنے والی اس انتخابی شعبدہ بازی کا بھی یاہو کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دوستی اور حمایت بھی اس بار نتین یاہو کی کشتی
کو پار نہیں لگا سکی حالانکہ انہوں نے نریندر مودی سےاپنی قربت کو بھنانے
کی بھی کوشش کی تھی۔ انتخابی نتائج کے بعد یاہو پر مایوسی طاری ہے انہوں نے
ابھی تک جیت یا ہار تسلیم کرنے کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے یعنی جوڑ توڑ
میں لگے ہوئے ۔ مودی کے ہم عمر 69 سالہ نیتن یاہو نے اپنے ایک مختصر بیان
میں صرف یہ کہا ہے کہ ان کا ارادہ عرب جماعتوں کے بغیر ’صہیونی حکومت‘ قائم
کرنے کا ہے کیونکہ عرب جماعتیں گانتز کی حمایت کرسکتی ہیں۔ان کی گھبراہٹ کا
یہ عالم ہے کہ انہوں نےداخلی سیاسی صورتحال کے پیش نظر اپنا اقوام متحدہ کا
دورہ منسوخ کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران اسرائیلی وزیراعظم ڈونلڈ ٹرمپ
سے مل کر خراج عقیدت پیش کرنے والے تھے لیکن جب کامیابی ہی نہیں ملی تو
کیسا شکریہ ؟ فی الحال اسرائیل کے اندر اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ دونوں
طرف کے رہنما حکومت سازی کا دعویٰ کررہے ہیں ۔ ا س میں اگر یاہو پھر سے
کامیاب ہوجائیں تو مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے
گا لیکن بینی گانتز کے اقتدار سنبھالنے سے جزوی تبدیلیاں واقع ہوں گی اور
عالمی سیاست پر بھی اس کا واضح اثر دکھائی پڑے گا۔ وادی ٔ اردن سمیت سارے
ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بعد بھی ہاتھ آنے والی ناکامی نے نیتن یاہو کو
باولہ کردیا ہے اور عجیب و غریب احمقانہ بیانات دینے لگے ہیں ۔ اقتدار کی
ہوس میں یاہو اپنے مخالف بینی گنتز کے سامنے ایک مشترکہ قومی حکومت کی
تجویز رکھی یعنی دو سال وہ خود اور دو سال بینی حکومت پر فائز رہیں ۔ بینی
گنتز نے بلا توقف اسے یاہو کے منہ پر دے مارا ۔
سوال یہ ہے کہ دس سالوں تک حکومت کرنے کے بعد یاہو نے یہ موقف کیوں اختیار
کیا؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے انتخاب سے قبل اسرائیل کی مختلف سیاسی جماعتیں
کیکڑے کی طرح ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتی رہیں اور انتخاب کے بعدیہ چھوٹی
چھوٹی جماعتیں مینڈک کی مانند اچھل کود کررہی ہیں ۔ ایسے میں ان پر اعتماد
کرنا مشکل ہے کیونکہ سب کے سب مادہ پرست اور موقع پرست ہیں ۔ اس لیے یاہو
نے نے سوچا کہ اگر دو سب سے بڑی جماعتیں یکجا آجائیں تو ۱۲۰ میں سے ۶۴ کی
اکثریت بن جا تی ہے اور وہ مل کر باقی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو کچل سکتے ہیں
۔ اقتدار کی خاطر بنُے گئے یاہو کے اس مکڑ جال کو بینی کے ایک تیز جھونکے
سے تار تار کردیا اور سب طویل عرصہ اسرائیل پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے
والا حکمراں رسوا ہوکر رہ گیا ۔ یاہو کے اس پیشکش کی دوسرا سبب بدعنوانی کے
معاملات میں ہیں جن سے وہ اقتدار کی وجہ سے محفوظ تھے ۔ چدمبرم کی طرح جیل
جانے خوف انہیں ابھی سے ستانے لگا ہےاس لیے وہ چھٹپٹا رہے ہیں ۔ اسی لیے دی
گارڈین نامی اخبار نے یاہو کی کوشش کو ’اقتدار کی زخمی ہڑ بڑاہٹ‘ سے تعبیر
کیا ہے۔ نیتن یاہو نے جس طرح چدمبرم کے انجام سے سبق سیکھا اسی طرح امیت
شاہ کو بھی چاہیے کہ وہ یاہو کےناکامی سے عبرت پکڑے اس لیے اگر وادیٔ اردن
کا سیاسی کھیل ناکام ہوسکتا ہے تو وادیٔ کشمیر کے معاملے میں کامیابی
کیونکر ممکن ہے؟
|