سبق پھر پڑھ۔۔۔!

وہ دونوں بغل گیر تھے،محبت سے چور اور ملت واحدہ کے نشے سے مخمور مجمع کی داد سے دل پزیر تھے۔طاقت بولی "اسلامی دھشت گردی" تو ھال تالیوں سے گونج اٹھا۔جیسے انجانی خوشی نے دل کے تار چھیڑ دیے ھوں۔اس کے بعد مزاحمت کے موجد سب خاموش۔یہ جلسے کا جواب تھا یہ ایک عہد ساتھ چلنے کا یا پیغام تھا کہ اب ھماری مرضی چلے گی۔یہ کوئی افسانہ نہیں لکھ رہا بلکہ مودی کے امریکہ میں جلسے کا منظر ھے۔جہاں ثالثی کی پیشکش کرنے والے ٹرمپ بھی شامل تھے۔جس نے انڈین قوم کا علم اٹھا لیا اور کشمیری عوام کے خون سے رنگین مودی کے ھاتھ ٹرمپ کی بغل میں تھے ویسے ان کی بغل میں ہمیشہ چھری ھوتی ھے۔اور منہ پر رام رام۔مگر ٹرمپ کو معلوم نہیں ہو گا۔اتناطویل کرفیو اور کشمیری عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ نے کے بعد بھی وہ پوتر ٹھہرے اس کو کیا سمجھا جائے گا؟ پاکستان کے وزیر اعظم نے کچھ عرصہ پہلے جلسہ کیا تھا یہ اس کا شدت سے ردعمل ھے۔لیکن یہاں قصہ یہ چل رہا ہے کہ اقوام متحدہ میں کشمیر پر قرارداد کیوں نہیں پیش کی گئی جس کا حکومت کو جواب دینا پڑے گا۔کیا حمایت حاصل نہ تھی تو بتانے میں حرج نہیں کیونکہ پیشہ ورانہ خارجہ پالیسی ھمارے کسی حکمران کی ترجیح نہیں رہی بلکہ گزشتہ سالوں میں تو سفارت کاری اور سفارت کار سیاسی رشوت کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔اب کچھ بہتر بندوں کو سفیر لگایا گیا ہے جس کے نتائج آنے میں دیر لگے گی۔اب کشمیر پر جو کوئی بھی آواز بلند ھو رہی ہے وہ عمران خان کی ذاتی کوشش اور شہرت کے بل بوتے پر مشتمل ہے۔اس سے آگے دو سال بعد دیکھیں کہ نتائج بہتر ھوں گے۔اپ نے ایک میدان میں محنت ھی نہیں کی تو پھر پچھتاوا کس بات کا اور بھارتی جلسے سے احساس کمتری کیوں ھے۔یہ قصہ نصف صدی کا کے بھارتی نژاد امریکی ماہر سفارت کاری بھی کرتے ہیں اور اپنے ملک سے جڑے ہوئے ہیں ھزاروں نوجوان تعلیم حاصل کر کے امریکہ کے پالیسی سازوں میں شامل ہیں ان کا ایجنڈا اور امریکی پالیسی میں زیادہ فرق نہیں ہے۔جب یہ نوجوان پڑھنے جا رہے تھے ھم سوشلزم اور گرم پانی تک رسائی روکنے اور جہاد میں مصروف تھے۔قومیں تو تعلیم اور جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے طاقتور بنی ھیں ھم تعلیم اور جدید سائنس سے بے بہرہ ھیں۔ان حالات میں موجود حکومت کو دوش نہیں دے سکتے۔کشمیر کا مسئلہ جذباتی تقاریر سے حل نہیں ھو گا طویل سفارت کاری کے ساتھ کشمیری قیادت پر ھے کہ وہ کس تک سیاسی محاذ پر اتحاد اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتی ھے۔راجہ فاروق حیدر صاحب آج کنٹرول لائن عبور کرنے اور حملہ کرنے کا درس دیتے ھیں کیا یہی رویہ ان کا میاں نواز شریف کے دور میں بھی تھا؟ انہوں نے تاریخی تقریر کی مگر کیا آج آزاد کشمیر میں قیادت نام کی کوئی چیز ہے ؟آپ لوگ تو سردی گرمی کشمیر ھاؤس میں گزارتے ہیں۔اج کے ایچ خورشید،سردار ابرہیم ھے یا کم ازکم سردار عبد القیوم جیسی کوئی قیادت ھے جو خوداری اور دانشمندی سے فیصلہ کرے۔پہلے آپ قیادت کا بحران دور کریں بارڈر کے لوگوں کے مسائل حل کریں پھر بارڈر بھی کراس کر لیں گے۔ آپ اگے، ھم آپ کے پیچھے۔مودی کی چالاکی امریکہ میں کام کر گئی ہے تو ھماری حکومت بھی کرے گی۔یک طرفہ ٹریفک پاکستان کے خلاف زیادہ دیر نہیں چل سکے گی۔البتہ جب اسلامی دھشت گردی کی بات ھوتی ھے تو پھر دنیا عرب وعجم کیوں خاموش رہتی ہے۔کیا یہ صرف ھمارا مسئلہ ہے؟ آگے بڑھنے کے لیے کوئی سبق ماضی سے سیکھنا ھو گا ابھی امید باقی ہے کہ شاید ھم ایک نظریہ پاکستان پر اکٹھے ہو جائیں تو کوئی دشمن ھمیں شکست نہیں دے سکے گا۔بس فیصلہ کرنے کی دیر ھے۔تعلیم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنا ھو گا۔ایک مشترکہ کشمیر بیانیہ ترتیب دینا ھو گا۔
 

Sardar Khursheed Akhtar
About the Author: Sardar Khursheed Akhtar Read More Articles by Sardar Khursheed Akhtar: 89 Articles with 68525 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.