پاکستان جیسے ترقی پذیر اور غریب ملک میں مسائل کے انبار
تو ہر شعبے میں موجود ہے جس میں اب پہلے سے بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے ،جہاں
70سال سے بنیادی ضروریات زندگی میسر نہیں ، کرپشن اور لوٹ مار میں وہ لوگ
ملوث ہے جن کا کام لوٹ مار اور کرپشن کرنے والے لوگوں کو پکڑنا ہوتاہے وہاں
پر حالات خراب نہ ہواورعام آدمی کی زندگی مشکل سے نہ گزرے تو یہ قانون قدرت
کے منافی عمل ہوگا ۔ سیاست دانوں کے ساتھ کاروباری مافیاز نے ہر جگہ
اثرورسوخ قائم رکھا ہے، پیسے بنانے کے چکر میں صحیح اور غلط کی سوچ ختم
ہورہی ہے جس نے ملک کا بیڑا غرق کیا ہے وہاں پر ان مافیاز کی وجہ سے صحت
جیسے بنیادی مسئلے کو بھی کافی نقصان پہنچایا گیا ہے ۔
پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں صحت کے بنیادی علاج معالجے میں بھی
کافی کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے جس کی کئی وجوہات ہے لیکن ایک
بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومتوں نے اس جانب کوئی خاص توجہ بھی نہیں دی ہے
۔ ماضی کی حکومتوں کے کارنامے تو ہمارے سامنے ہیں لیکن موجو دہ حکومت جن کے
منشور میں صحت کی معیاری سہولت ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ یہ تحریک انصاف
کامنشور میں شامل تھا کہ ہم ہسپتالوں کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ آدویات کی
معیار کو بہتر کرنے اور کم درجہ والے آدویات جس کو حرف عام میں دو نمبر اور
تین چار نمبر کہا جاتا ہے اس کا خاتمہ کریں گے تاکہ عام آدمی کو صحت کی
بنیادی سہولت علاج کی شکل میں میسر ہوجائے۔بدقسمتی سے ایک سال گزرنے کے
باوجود اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ آدویات کی قیمتوں سے لے مرض
کو دوا تجویر کرنے تک وہی پرانا طریقہ جاری ہے جس کا خاتمہ آج کے جدید دور
میں بہت ضروری ہے۔
25ستمبر کو ہر سال فارماسسٹ کا عالمی دن منا یا جاتا ہے اس دن کا مقصد
عالمی سطح پر اور خاص کرترقی یافتہ ممالک میں کیاہے وہاں سے زیادہ ہمارے
جیسے ترقی پذیر بلکہ غریب ملک کیلئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے تاکہ عام
لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی پیدا ہو جائے۔ ہمارے ملک میں عام لوگوں کو تو
کیا ڈاکٹرز اور پڑھ لکھے لوگوں کو بھی معلوم نہیں کہ فاماسسٹ کون ہے اور ان
کی اہمیت علاج معالجے یعنی صحت کے شعبے میں کتنااہم ہے ۔
فارماسسٹ دوا بنانے سے لے کر مریض کو دوا تجویز کرنے تک پورے عمل کا حصہ ہے
لیکن ہمارے ملک میں بدقسمتی سے اس سارے عمل میں ہمیں فارماسسٹ بہت ہی کم
نظر آتے ہیں پہلے تو ان لوگوں کا یعنی فارماسسٹ کا دور دور تک کوئی عمل دخل
نہیں تھا جبکہ اب وقت کے ساتھ ساتھ خاص کر پی ٹی آئی کی صوبہ خیبر پختونخوا
میں پہلی حکومت میں اس جانب تھوڑی بہت توجہ دی گئی تھی کہ ہسپتالوں میں
فارماسسٹ ہی دوا لکھا گا اور ہر ہسپتال میں فارماسسٹ موجود ہو گا لیکن اب
وہ عمل روک بھی کیا ہے ۔ فارماسسٹ ایک پڑھ لکھا شخض ہوتا ہے جو ریسرچ اور
تجربات سے دوا بنتا ہے ،اس کے بعد دوا متعلق بیماری میں تجویز کرتا ہے۔
فارماسسٹ بنیادی طور پر دوا بنانے سے لیکر مریض کو کتنی مقدار میں کب کب
اورکس کس وقت دینی ہے یہ سب فارماسسٹ کی ڈیوٹی یعنی فرائض میں شامل ہوتا ہے
۔ فارماسسٹ ہی وہ شخص ہے جو ادویات کواچھی طرح سمجھتا یعنی مکمل معلومات
رکھتا ہے۔
پاکستان میں جب ہم دیکھتے ہیں تو اس پورے عمل میں ہمیں فارماسسٹ نظر ہی
نہیں آتے جس کی وجہ سے نہ صرف کمپنیاں بلکہ ڈاکٹرز عام لوگوں کی زندگی سے
کھیلتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے بی بی سی نے پاکستان کے ڈاکٹروں کے بارے میں
رپورٹ شائع کی تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام آدمی کو ہمارے یہ ڈاکٹرز صحت
یعنی علاج نہیں بلکہ موت کا علاج کراتے ہیں ۔ بدقسمتی سے صحت کے شعبے میں
جتنی کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے اس کی مثال پوری دنیا میں کیا
پاکستان کے بھی کسی دوسرے شعبے میں نہیں ملتی کہ ہر دن اربوں کا کاروبار
آدویات کی شکل میں ہوتا ہے ۔ 50روپے والے دوا کی قیمت 450بلکہ اس سے کئی
گنا زیادہ بھی ہے ، لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ بہت سی کمپنیا ں دوا پر 50
روپے خرچ آنے اور قیمت 450 روپے ہونے کے باوجود بھی وہ دوا مواثر نہیں ہوتی
وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس میں شامل اجزا صرف کاغذ پر درج ہوتی ہے اس کی روک
تھام بالکل نہ ہونے کے برابر ہے اسلئے ہمارے مریض دوا کھاتے ہیں لیکن ٹھیک
نہیں ہوتے ۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ پوری دنیا میں ڈاکٹرز کا کام مرض کا
تشخیض کرنا ہوتا ہے پاکستان میں ڈاکٹروں کا کام فارماسسٹ کا ہے یعنی تشخیض
کی بجائے دوا لکھنا ہے جو کہ عالمی وصول کے مطابق دو سے زیادہ قسم کی نہیں
لکھی جاسکتی وہاں مریض کو پانچ سے لیکر 7,6قسم کی دوا صر ف اپنی کمیشن کی
خاطر لکھی جاتی ہے جس کی وجہ سے مریض کا ایک مسئلہ ٹھیک ہونے کے بجائے مزید
امراض پیدا ہوناشروع ہوجاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ میڈیکل ڈاکٹرز سے زیادہ
فارماسسٹ آدوایات کی جانکاری رکھتا ہے۔
اب وقت کا تقا ضا ہے کہ تمام ہسپتالوں میں فارماسسٹ کو بٹھایا جائے ، دوا
صرف فارماسسٹ تجویز کریں اور میڈیکل سٹور میں صرف کو لیفیڈ فارماسسٹ موجود
ہو تاکہ اس طرح بلیک مارکیٹ کا خاتمہ ممکن ہو جائے اور فارماسسٹ کو جوابدے
بنایا جائے ۔ یہ عمل پوری دنیا میں موجود ہے کہ جہاں دوا کی ریسر چ ،بنانے
، تجویز کرنے سے لے کر فروخت کرنے تک سارا کام فارماسسٹ کا ہوتا ہے ۔ہمارے
ملک میں سب کچھ ڈاکٹرز کرتا ہے جو کہ بیگاڑ کا باعث بنا ہوا ہے۔
موجود حکومت کو اس جانب تو جہ دینی کی فوری ضرورت ہے تاکہ مزید عام لوگوں
کی زندگی سے جاری کھیل کا خاتمہ ممکن ہوجائے۔ اس بارے میں نہ صرف معاشرے کو
آگاہ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے
آگاہی مہم اور سیمنار منعقد کیے جائیں تا کہ علاج کی وجہ سے جو نئے امراض
پیدا ہوتے ہیں یا مریض موت کے منہ میں چلاجاتا ہے ان سب کا خاتمہ ممکن
ہوجائے۔
|