چوروں کا باورچی خانہ، گپیں لگانے والوں کا کلب یا کفن چوروں کا ٹولہ

UNOسے اُمت مسلمہ کو کیا ملے گا؟

 انجمن اقوام متحدہ کے قیام کو 75 برس ہونے والے ہیں مگر اس ادارے سے وابستہ عالم اسلا م کو اس سے کیا ملا ؟ افسوسناک امر یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب سے زائد امت مسلمہ اس اسلام دشمن ادارے کے رحم وکرم پر ہے۔ اسلام دشمن کفریہ طاقتوں کیوجہ سے دنیائے اسلام پر عرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے مگرآفرین ہے عالمی امن کے ٹھیکیداراس ادارے کے نام نہاد کرداروں پر کہ وہ کسی ایک بھی مسلم ملک کے مظلوم و بے کس افراد کو ظالموں سے بچانے کے لئے ٹس سے مس تک نہ ہوئے بلکہ خون مسلم بہانے میں اپنا اپنا گھناؤنا کردار بڑی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی کی ساتھ ادا کرتے نظر آ تے ہیں۔جنگ عظیم اول ۔1914ء سے1917ء تک جاری رہی تو 28جون 1919ء میں لیگ آف نیشنز کی بنیاد اس لئے رکھی گئی تھی تاکہ انسانیت مزید کسی بڑی ہولناک جنگ سے محفوظ رہ سکے مگر اندرونی کہانی یہ ہے امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کو ایک ایسے اسٹیج کی ضرورت تھی جس میں وہ اپنی مرضی کے ڈرامے سجا کرکمزورممالک کو مزید بے دست و پا کرکے اپنی اجارہ داری قائم کر سکیں۔تاہم دوسری عالمگیر جنگ ہوئی اور نتیجے میں دنیا میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد فروری 1945ء کو سان فرانسسکو میں انجمن اقوام متحدہ (UNO) کا قیام عمل میں لایا گیا بظاہر اس کا مقصد دنیا میں قیام امن کی ضمانت کی فراہمی تھی مگر اس کے در پردہ بھی سامراجی بڑی طاقتوں کے توسیع پسندانہ عزائم اور انکی اجارہ داری قائم کرنامقصود تھی یہی وجہ ہے کہ اس ا دارے کی تشکیل کے ساتھ ہی پانچ بڑی طاقتوں کو ویٹو پاور کا اختیار دے کر ناانصا فی کا آغاز کر دیا گیا۔ جو عدم مساوات کے اصول پر مبنی اور ان بڑی طاقتوں کی بد نیتی کا بین ثبوت ہے مستقل ارکان اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر قرادادیں منظور کر تے ہیں اس اختیار نے انصاف کے حصول کے تمام تر راستے بند کر رکھے ہیں یواین او کے منشور کے مطابق سلامتی کونسل میں کسی بھی قرارداد کی منظوری کے لئے ضروری ہے کہ 15میں سے 9ارکان کی حمایت حاصل ہو تاہم کسی ایک ویٹو پاور ہولڈر کی مخالفت پر یہ قرارداد پیش ہی نہیں کی جاسکتی جس ادارے کا منشور ہی طاقتور اور کمزور کے لئے الگ الگ قوانین ہوں۔ ظا لمانہ نظام پر مبنی ایسے ادارے سے انصاف کی توقع عبث ہے نام نہاد سلامتی کونسل جس کے پانچ مستقل رکن اور دس غیر مستقل رکن ہیں غیر مستقل ارکان دو سال کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں مستقل ارکان میں سے کوئی ایک اپنے حاصل شدہ ویٹو پاور کی بنیاد پر کسی بھی اہم مسئلے کے حل کے لئے آنے والی قرارداد کو مسترد کر سکتا ہے اور چاہے دوسرے چار مستقل ارکان اور دس غیرمستقل ارکان ہی کیوں نہ اس کے حق میں ہوں۔ رفتہ رفتہ دنیا میں امن و امان قائم کرنے کی اصل غرض وغایت ختم ہو کر رہ گئی اور بڑی طاقتوں نے اپنی اجارہ داری قائم کرکے یو این او کو بھی اپنی باندی بنا کر من مر ضی کے فیصلے صادر کرنے شروع کر دیے ہیں نتیجے میں دنیا کا امن و امان تہ و بالا ہو چکا ہے مسئلہ کشمیر اور فلسطین جو کہ در اصل برطانیہ اور امریکہ ہی کا پیدا کردہ ہے اس لئے یہ اپنے حاشیہ نشین بھارت اور اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کی قاتل حکومتوں کی کئی عشروں سے اسلحہ کی فراہمی میں مصروف ہیں۔ یہ عالمی سطح پر بڑی طاقتوں کی بد معاشی اور غنڈہ گردی کی واضح مثال ہے جو عالمی امن کی راہ میں بڑ ی رکاوٹ ہے۔ یو این او ، ویٹو پاور ہولڈرز ان پانچ بڑی طاقتوں کی کٹھ پتلی ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ظلم و بربریت کا دور دورہ ہے انسانیت گاجر مولی کی طرح کٹ رہی ہے مگر عالمی ضمیر خاموش تماشائی بنا رہتا ہے ویٹو پاور کا مطلب پوری دنیا کو پانچ قصائیوں کی چھری تلے رکھنا ہے ۔ نام نہادسلامتی کونسل کو ختم کرکے ویٹو پاور کا اختیار سرے سے ختم کر دیا جائے بڑی طاقتوں کی اجارہ داری ختم کئے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ سارے فیصلے جنرل اسمبلی میں اتفاق رائے سے کیے جائیں اس طر ح دنیا میں دیر پا قیام امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے ۔ ایک صدی کے اب تک کے فیصلوں سے تو لگتا ہے کہ یہ ادارہ صرف مسلم دنیا کو ختم کرنے کے لئے بنا یا گیا ہے۔لیگ آف نیشنز کے قیام کے ساتھ ہی اس وقت روس کے کیمونسٹ رہنما لینن نے اپنے تاریخی جملے میں لیگ آف نیشنز کو ’’چو ر وں کا باورچی خانہ‘‘ کہا تھا۔وقت کیساتھ ان کے یہ الفاظ بالکل صحیح ثابت ہوئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منتخب ہونے کے بعد اپنے ٹویٹ میں ا قوام متحدہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے محض وقت گزاری اورگپیں لگانے کا مرکزقرارد ے کر کہا تھاکہ یہا ں لوگ جمع ہوتے ہیں اور باتیں کرکے چلے جاتے ہیں۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان جناب سرا ج الحق نے کراچی میں اتحاد امت رسول ﷺ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ اقوام متحدہ ’’کفن چوروں کا ٹولہ‘‘ ہے جہاں سے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے لئے حق مانگنا ہو گا۔ مشرقی تیمور اور سوڈان میں تو فوری ایکشن لیا جاتا ہے مگر فلسطین ،کشمیر، افغانستان ،شام،لیبیا ،عراق، روہنگیا، یمن، سمیت کئی دیگر مسلم ممالک میں جاری خانہ جنگی پر بڑی طاقتوں امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس کی مجرمانہ خاموشی رہتی ہے، کشمیر، فلسطین ، افغانستان ،حلب، برما، اور دیگر مسلم ممالک کے مظلوم مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اندھی بہری اور گونگی ہو چکی ہے ۔ لہٰذا اس ادارے سے منسلک رہنا لاحاصل عمل ہے جو وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ یواین او کی جانب دارانہ پالیسیوں اور اسلام دشمن سرگرمیوں کے باعث ترکی کے صدر جناب طیب اردگان یہ تجویز دے چکے ہیں کہ اب مسلم ممالک کویو این او کو خیرباد کہہ دینا چاہئے اور اپنے باہمی تنازعات اور مسائل کے حل کیلئے اپنی ایک الگ تنظیم بنا لینی چاہیے کیونکہ اس ادارے سے مسلم ممالک کو انصاف ملنے کی توقع عبث ہے۔ یو این او بارے عالمی رہنماؤں کے چشم کشا ریمارکس کے بعداس ادارے سے وابستہ رہنے کی کیاگنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ اس وقت بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس خطے پر جبری غاصبانہ قبضہ کرلیا ہے اور پچھلے دوماہ سے کشمیر کا محاصرہ کررکھا ہے کرفیو نافذ ہے اور دنیا سے روابط منقطع ہیں نہتے عوام پر ظلم وبربریت کے پہاڑ ڈھائے جار ہے ہیں۔ کشمیریوں کی نسل کشی ہو رہی ہے ۔ مسٹر مودی کو تو شاید آخری کشمیری بچے کی شہادت کا انتظار ہے تاکہ وہ ہندو تواکے اقتدار کا خواب پورا کرسکے۔ دو روز قبل بھارتی وزیر اعظم مسٹر مود ی اور امریکی صدر مسٹرٹرمپ کے امریکہ میں گٹھ جوڑ اور مشترکہ خطاب کے بعد تو مسلم حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں،یو این او کی جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، انسانی حقوق کونسل، دیگراکثر عالمی تنظیموں سے سوائے بیان بازی اور زبانی جمع خرچ کے ہمیں ان سے عملی طور پرکچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر کشمیری مسلمانوں کی مرضی کے مطابق پرامن طریقے سے حل نہ ہوا توایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ٹکراؤ یقینی ہے جس سے دنیا کا امن وامان تباہی سے دوچار ہوسکتا ہے۔ لہٰذایہ وقت ہے کہ امت مسلمہ کی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اور اس نام نہاد ادارے سے ناطہ توڑ کر اپنے فیصلے خود کرنے کے لئے اپنی تنظیم بنائے اور اسے فعال کرے۔ اسی میں ہی مسلمانوں کی بقا، بھلائی اور ترقی کا راز مضمر ہے ۔
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام ٭
 

Muhammad Manzoor Anwar
About the Author: Muhammad Manzoor Anwar Read More Articles by Muhammad Manzoor Anwar: 3 Articles with 1449 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.