70سال گزرنے کے باوجود پنجاب پاکستان کا سب سے بڑاصوبہ ہے
جسے سیاسی لوگ اپنے مفادکی خاطرتقسیم کرنے سے کتراتے ہیں۔اکیلا پنجاب ملک
کا 63فیصد ہے اورباقی صوبے صرف 37%ہیں اسی لیے ریجنل ازم کی بنیاد علاقائی
طور پر سیاسی ،سماجی اور معاشی ترقی کو توجہ کا مرکز بنایا جاتا ہے۔ریجن
ایک یا زیادہ ہو سکتے ہیں۔علاوہ جغرافیائی شناخت کے ریجنل لسانی اکائیاں،
مذہبی اقلیتی گروپس،قومیتیں اور ثقافت ریجنل ازم کی ڈومین میں آتیں ہیں ۔اقتدار
کی مرکزیت میں بتدریج کمی کرکے ریجن کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دینا
ہے۔ریجنل ازم میں مرکزی ریاست کی بنیاد ریجن پر مبنی ہوتی ہے،جس طرح
یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ ہے۔پچاس ریجن کا ایک وفاق ہے۔علاقائیت کی سیاست
سے وفاقیت کو تقویت ملتی ہے ۔آج کا عہد تقاضا کرتا ہے کہ علاقائی خطوں کی
بات کی جائے ۔جیساکہ میرے قارائین جانتے ہوں گے جب مدینہ منورہ میں آبادی
زیادہ ہوگئی تونبی کریمﷺ نے نئے شہرآبادکرنے کا حکم دیا اس لیے اسلام کی
روسے بھی نیاصوبہ وقت کی ضرورت ہے ۔ریجنل ازم سے ریاست مضبوط اور وفاق طاقت
ور ہوتا ہے۔۔اگرالگ صوبوں کی مثال اس طرح دوں توکچھ غلط نہ ہوگاجب ایک
بھائی(پنجاب)جس کے پاس گھرکے تین حصے ہوں اورباقی تین بھائیوں کے پاس ایک
حصہ تولڑائی جھگڑافساد توہونا ہے جیسے پنجاب پاکستان کا 63%اورباقی صوبے
صرف37فیصد اسی لیے جنوبی پنجاب کے حقوق پرڈاکہ ڈالاجاتاہے اورسرائیکی وسیب
والے بارباراپرپنجاب کوگالیاں دیتے ہیں اورنفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
کیونکہ اگرکوئی بھوکاہے اوراس سے نوالہ چھین لے گیں تواس نے جنگ توضرورکرنی
ہے۔ریجنل علاقے وفاق کی عمارت میں بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔وفاق پسند اس
امر کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ وفاق کی عمارت کی بنیادیں کمزور ہوں تو وفاق
کمزور ہوگا۔عمار ت اپنی بنیادوں پر ہی مضبوط ہوتی ہے۔دوسری اہم ترین بات کہ
جب ریجنل سطح پر نئے صوبوں کی مانگ بڑھ رہی ہے ۔یہ نئی صورتحال ہے۔آئندہ
سیاست نئے صوبوں پر ہوگی۔نئے صوبوں کی تشکیل سے انکار ممکن نہیں ہو سکے
گا۔ریاست اور حکومت کو حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔خدا ناخواستہ اس امر سے
پہلوتہی برتی گئی تو پھر حالات ہاتھ سے نکل جاتے ہیں ۔پچھتاوئے کے سوا کچھ
ہاتھ نہیں آتا ہے۔اس وقت سندھ ،پنجاب ،خیبرپختونخوا سمیت بلوچستان میں نئے
صوبوں کی تحریکیں ابھر رہی ہیں ۔پنجاب میں تحریک صوبہ پوٹھوہار اور
سرائیکستان ،جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبے کی مانگ دن بدن زور پکڑ رہی
ہے۔جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبہ کیلئے شور ایوانوں میں سنائی دے رہا ہے ۔خیبر
پختونخوا میں تحریک صوبہ ہزارہ تناور درخت بن چکی ہے۔سندھ سے جنوبی سندھ
صوبہ کی بازگشت ہے۔بلوچستان سے بھی پشتون صوبے کے آثار ابھرتے ہوئے نظر
آرہے ہیں۔اب سننے میں آیاہے کہ سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی نے حکومت
کو100دن کاوقت دیاہے جس کے بعدبھی صوبہ نہ بناتوپنجاب اسمبلی ،گورنرہاؤس،اوراسمبلی
ہال کے سامنے احتجاج ہوں گے جس سے ملک کے مسائل بڑھیں گے ۔وفاق پاکستان میں
ریجنل بنیادوں پر کمر جوڑنے کی ضرورت ہے۔ ریاست،ریاستی ادارے،حکومت اور
وفاق پسند طبقات اگر چاہتے ہیں کہ وفاق مضبوط اور توانا رہے تو پھرپاکستان
میں بسنے والی قومیتوں،لسانی اکائیوں سمیت صوبائی اور ریجنل اکائیوں کو ان
کی مانگ کے مطابق بنیادی انسانی حقوق سمیت سیاسی ،سماجی اور آئینی حقوق
دینا ہوں گے۔قومیتوں کو دبانے سے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے ہیں ۔اس
حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وفاق پاکستان ابھی ریجن کو کچھ دینے سے قاصر
ہے۔یہی وجہ ہے کہ ستر سال کی فاقہ مستی کے بعد ریجن انگڑائی لے رہے ہیں ۔پسماندگی،سیاسی
و سماجی اور معاشی ناہمواریاں نئے صوبوں کی آواز کا سبب بن رہی ہیں ۔وفاق
کا کھوکھلا پن پچھلی حکومت سے زیادہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔نیا پاکستان کا
خواب چکنا چور ہو چکا ہے۔وفاق پاکستان،وفاقی حکومت اور وفاقی اداروں کا
استحکام اسی صورت میں ممکن ہوسکے گا ۔جب ریجن کی جانب قوت اقتدار منتقل کی
جائے گی۔وفاق پاکستان اب مزید نئے تجربات کی سکت نہیں رکھتا ہے۔اس سنگینی
کو ریاست کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ
وفاقی ریاستی ادارے اور وفاقی سیاسی جماعتیں ریجنل کی سیاسی پارٹیوں کو
سپورٹ کریں ،ریجنل پارٹیاں وفاق میں حصہ نہیں مانگتی ہیں ۔ریجنل لیڈرشپ
وزارت عظمیٰ کے امیداور نہیں ہیں ۔ریجنلسٹس صرف اپنے اپنے ریجن کی سیاسی ،سماجی
،ثقافتی اور معاشی ترقی چاہتے ہیں۔علاقے وفاق سے صرف داخلی خود مختاری
چاہتے ہیں تاکہعلاقے کے وسائل کوعلاقے میں خرچ کرکے مقامی افراد کو بنیادی
انسانی حقوق اور ضروریات فراہم کر سکیں۔اگرایسانہ ہواتوہمیشہ ہم ایک دوسرے
سے جھگڑتے رہیں گے۔
|