ٹرک کی بتّی کے پیچھے بھاگنے والی احتجاجی جماعتیں

اِب کے مار، اِب کے مار کے دکھا

جب عوام کے پاس اپنی بات سنانے کا یا اپنے جذبات آگے پہنچانے کے کوئی ذریعہ نہ بچے تو وہ احتجاج کا سہارا لیتے ہیں۔ اگرچہ حکومتیں اور دوسرے اداراے تو مختلف طرح کی سہولیات استعمال کر کے اپنی بات ہر جگہ پھیلا سکتے ہیں مگرعوام کے پاس اپنے جذبات کے اظہار کا آخری ذریعہ جلسے، جلوس یا دھرنے ہی رہ جاتے ہیں۔ بیشتر حالات میں احتجاج چونکہ مقتدرہ کے خلاف ہوتا ہے لہٰذا یا تو عوام اپوزیشن رہنماؤں کی سرکردگی میں احتجاج کرتے ہیں یا پھر اپوزیشن رہنما کوشش کر کے احتجاج کی عنان اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔ بہر حال یہ بات اتنی بری نہیں ہوتی کیونکہ بے سمت اور بے قابو احتجاج فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث ہوتا ہے۔

احتجاج سیاست کا اہم حربہ ہے مگر یہ تب ہی مؤثر ہوتا ہے جبکہ اسے سمجھداری سے، صحیح وقت، صحیح جگہ اور صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے۔ کثرت استعمال سے یہ غیر مؤثر ہوتا چلا جاتا ہے۔

سیاست کی دنیا میں سب سے بڑا ہتھیار "اعتبار" ہوتا ہے۔ باقی تمام حربے مثلاْ احتجاج، جلسے، جلوس، دھرنے، مارچ، بائیکاٹ، وغیرہ مقاصد حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ گرچہ یہ حربے حصولِ مقاصد میں اکثر مددگار ثابت ہوتے ہیں مگر ان کا غیر دانشمندانہ استعمال نہ صرف ان کی افادیت کھو دیتا ہے بلکہ الٹا مقصد سے بھٹکانے کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مخالف سمجھدار ہو تو اس لائحہ عمل کو اپنے حق میں استعمال کر کے احتجاجی سیاست کرنے والوں کو بھگا بھگا کر ہانپنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

وطن عزیز کی تاریخ دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ مسلمانانِ ہند نے کئی احتجاجی تحریکیں چلائیں جن سے قوم میں ولولہ تو پیدا ہوا مگر پاکستان کا قیام ایک سوچے سمجھے سیاسی پلان کے تحت مسلم لیگ کی پر امن تحریک کی بدولت ہوا۔ مسلم لیگ نے پہلے انتہائی فراست کا مظاہرہ کر کے مخالف قوتوں کے ساتھ "رُولز آف گیم" طے کئے یعنی ہندو اور مسلم اکثریتی علاقوں میں علیحدہ ریاستوں کے قیام کا اصول طے کیا اور پھر پاکستان بننے والے علاقوں میں مسلم اکثریت ثابت کر دی۔ اس کے بعد کسی مخالف کے پاس کوئی جواز نہ بچا اور پاکستان وجود میں آگیا۔

پاکستان بننے کے بعد بھی ملک میں کئی احتجاجی تحریکیں چلیں۔ ان میں سے کئی تحاریک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں جزوی یا کلی طور پر کامیاب رہیں۔ ان میں ایوب خان کے خلاف تحریک، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک، قادیانیوں کے خلاف تحریک، بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک اور پرویز مشرف کے خلاف وکلاء اور "سول سوسائٹی" [ میں نے جان بوُجھ کر عوامی نہیں لکھا ] کی تحریک شامل ہیں۔ سنہ 1977 میں پیپلز پارٹی کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک آخری عوامی تحریک تھی جس میں پورے پاکستان سے عوام نے شرکت کی۔ بلاشبہ مغربی پاکستان میں یہ کسی بھی احتجاجی تحریک کا نقطہ عروج تھا۔ اس تحریک کی ابتدا تو بھٹو حکومت کے خلاف انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سے ہوئی مگر اس کو مہمیز اس وقت ملی جب اس میں نظامِ مصطفٰی کے قیام کی جدّوجہد کا وعدہ بھی شامل ہو گیا۔ یہ تحریک ایک طرف تو انتہائی کامیاب رہی کہ اس نے پورے ملک کے عوام اور بھانت بھانت کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا اور نتیجے میں پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے باہر کر دیا۔ مگر دوسری طرف یہی تحریک نہ صرف جمہوریت کے اختتام کا باعث بنی بلکہ نفاذِ اسلام میں بھی ناکام رہی۔

اس تحریک میں پاکستانی عوام نے احتجاجی رہنماؤں کا دل کھول کر ساتھ دیا۔ عوام نے قومی اتحاد کے رہنماؤں کو وہ سب کچھ دیا جس کی کوئی بھی رہنما تمناّ کر سکتا تھا۔ مگر اس تحریک کے اختتام نے عوام کو ششدر کر دیا۔ ان سے کہا گیا تھا کہ یہ احتجاجی تحریک جمہوری نظام میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ہے۔ مگر اس کا اختتام ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے استقبال اور اس کی کابینہ میں شرکت پر ہوا۔ عوام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ ساتھ دیں تو نظامِ مصطفیٰ نافذ کیا جائے گا۔ مگر ایک آمر کے اقتدار پر غیر آئینی قبضے کو تسلیم کر کے اپنی تحریک کو ختم کر دیا حالانکہ اس وقت اس نے نفاذِ اسلام کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا بلکہ 3 ماہ میں انتخابات کرانے کا وعدہ کر کے حکومت پر قبضہ کیا تھا۔ اس بات سے محض چار سال پہلے انہی رہنماؤں نے آئین پر حلف لیا تھا کہ مارشل لاء غیر قانونی عمل ہوگا جس کی سزا موت ہوگی۔ رہنماؤں کی یادداشت تو شاید بہت خراب تھی مگر عوام کو اچھی طرح یاد تھا کہ محض 5 سال پہلے تک اس ملک پر تقریباْ 13 سال مارشل لاء نافذ رہا جس نے عوام کے مسئلے تو حل نہیں کرائے مگر پاکستان کو دولخت کر دیا۔ یہی رہنما کل تک اپنے اوپر مارشل لاء کی جانب سے ہونے والے مظالم پر عوام میں جا کر مظلومیت کے قصےّ سناتے تھے مگر محض 5 سال بعد پھر مارشل لاء کے تحت حلف اٹھاتے نظر آ رہے تھے۔ یہ تھا وہ پس منظر جس کے بعد آج تک پاکستانی قوم نے متحدہ طور پر کسی بھی احتجاجی تحریک کو ویسی پذیرائی نہیں بخشی ۔

سنہ 1977 کی احتجاجی تحریک میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت نے ایک طرف تو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا کہ وہ جب چاہیں عوام کو متحرک کر کے اپنے مطالبات پورے کروا سکتی ہیں۔تو دوسری طرف ملک کی مقتدرہ اور ، اگر میں مذہبی جماعتوں کے موقف کو بھی شامل کر لوں تو، بین الاقوامی قوتوں سرکردہ قوتوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ آئندہ کے لئے کسی بھی طرح اس نوع کی تحریکوں کی پیش بندی کر لیں۔ اس حوالے سے دوطرفہ حکمت عملی اختیار کی گئی۔ ایک طرف تو ملک میں نئی سیاسی قوتیں تیار کی گئیں جو کہ مقتدرہ کے اشاروں پر چل کر ان کے مقاصد پورے کر سکیں۔ جب آپ 1978 سے 1986 کے درمیان بننے والی نئی جماعتوں اور اس زمانے میں ابھرنے والے سیاسی اور مذہبی رہنما وں پر ایک نظر ڈالیں گے تو بات باآسانی سمجھ آ جائے گی۔

دوسری طرف احتجاجی تحریکوں کو اپنا سب سے موثر ہتھیار سمجھنے والی جماعتوں کو مختلف اتحادوں میں الجھا کر اپنے گماشتوں کے ذریعے "ٹرک کی بتیّ کے پیچھے بھاگنے" جیسے احتجاجوں کے پیچھے لگا دیا۔ یہاں میں آپ کو پچھلے 30 سال کے بجائے صرف پچھلے 3 ماہ کی مثال دیتا ہوں۔ جنوری کے آخر میں جب ریمنڈ ڈیوس پکڑا جاتا ہے تو احتجاج پسند جماعتیں پاکستانیوں کے قتل کے خلاف ملزم کو سزا دلانے کے لئےاحتجاج شروع کر دیتی ہیں۔ مہینے سے زیادہ یہ احتجاج جاری رہتا ہے گرچہ اس کی شدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس اثناء میں پیٹرول کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور یہ جماعتیں ایک نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے یعنی پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر احتجاج شروع کر دیتی ہیں۔ ابھی یہ مسئلہ بھی حل نہیں ہونے پاتا کہ حکومت بڑی چالاکی سے ریمنڈ ڈیوس کو چلتا کر دیتی ہے اور احتجاج کے لئے ایک نئے ٹرک کی بتی کا انتظام ہوجاتا ہے۔ چونکہ ریمنڈ ڈیوس کے نام پر احتجاجی مظاہرے کئی قوتوں کو پسند نہیں لہذٰا وہ احتجاج کے لئے ایک تازہ ڈرون حملے کا بندوبست کر دیتے ہیں۔ تاکہ احتجاج کا رخ وہاں مڑ جائے۔ مگر پچھلے ہفتے ہونے والے احتجاج میں ریمنڈ ڈیوس اور ڈرون حملے کے خلاف مشترکہ احتجاج ہو جاتا ہے۔ نتیجتاْ اس ہفتے نئے ٹرک کی نئی بتیّ تیاّر کی جاتی ہے یعنی ایک ملعون پادری کو خبثِ باطن کے مظاہرہ کا اشارہ کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے اسے پچھلی دفعہ روکا تھا اس بار وہ ایسی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ اور نتیجہ ان کی توقع کے مطابق ہی نکلتا ہے۔ اس جمعے کے احتجاج کا موضوع اس جہنمیّ پادری کی جسارت ہوتی ہےاور ریمنڈ ڈیوس کا ذکر غائب ہوتا ہے۔ چند مہینوں میں دیکھئے گا کہ ریمنڈ ڈیوس کا نام بھی لوگوں کو بھولنا شروع ہو جائے گا۔ آخر کتنوں کو یاد ہے کہ اس جمعے کو احتجاج کرنے والی جماعتیں دسمبر میں کس بات پر احتجاج کر رہی تھیں؟ مجھے یقین ہے ان میں سے کئی جماعتوں کے اکثر کارکنوں تک کو یہ بات یاد نہیں ہوگی۔

خلاصہ کلام یہ کہ متواتر اور روزانہ احتجاج اس کا اثر کھو دیتا ہے۔

مقصد حاصل کئے بغیر احتجاج ختم کرنا جہاں قیادت کی کمزوری اور نااہلی کو عیاں کرتا ہے وہاں عوام اور کارکنوں کو مایوس بھِی کرتا ہے۔

جن احتجاجی تحریکوں کے نہ مقاصد متعینّ ہوں اور نہ اہداف واضح ، وہ بظاہر موُثر نظر آنے کے باوجود بھی مطلوبہ نتائج مہیا نہیں کرتیں۔

اور آخری بات، جو جماعتیں احتجاج کو احتیاط سے استعمال نہیں کرتیں ان کے مخالف چھوٹے چھوٹے شوشے چھوڑ کر ان جماعتوں کو احتجاج کے جنگل میں اکیلا بھٹکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

ایسی جماعتوں کی حالت فسانہ آزاد کے خوجی کی سی ہو جاتی ہے جو کہ مستقل پٹتا جا رہا ہو تا ہے اور ہر دفعہ اپنی ہیکڑی میں پٹ کر کہہ رہا ہوتا ہے۔
اب کے مار، اِب کے مار کے دکھا۔
ارے او گیدی نہ ہوئی میری قرولی۔
MAQ
About the Author: MAQ Read More Articles by MAQ: 23 Articles with 23403 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.