چلی کی دو بار صدر مملکت منتخب ہونے والی مچلی بچلٹ نے
اپنے والدین سمیت کئی برس تک سیاسی قید کاٹی ہے۔ آپ کے ولد ائر فورس میں
جنرل تھے، قید کے دوران ہی دنیا سے چل بسے۔ قید سے رہائی کے بعد والدہ کے
ہمراہ کئی برس تک جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔حالات بدلتے
دیر نہیں لگتی۔ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ حالات نے کروٹ لی۔بچلٹ ملک
کی دو بار صدر منتخب ہوئیں اور اب اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی
حقوق ہیں۔شاید وہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی ظلم و جبر اور جارحیت، قید و بند
کی سنگینی کو سمجھ سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بھارتی اقدامات کی بھر
پور مخالفت کی ہے۔ ان کا بھارت کو صاف طور پر یہ پیغام دینا غیر معمولی
اہمیت رکھتا ہے کہ’’ کسی بھی فیصلے کے عمل میں کشمیری عوام کی شمولیت اور
مشاورت ضروری ہے کہ جس کے اثرات ان کے مستقبل پر پڑتے ہوں‘‘۔ بھارتی
اقدامات اور فیصلوں کے عمل میں کشمیریوں کی کوئی مشاورت یا شمولیت نہیں۔
5اگست کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی صدر کا راج تھا، صدر ہند نے اپنے حکمنامے
میں کشمیر کے دو ٹکڑے کرنے اور دونوں کو براہ راست بھارتی مرکزی کنٹرول میں
لانے کاا علان کیا اور یہ کہا گیا کہ صدر نے ریاستی حکومت کی مشاورت سے یہ
فیصلہ کیا ہے۔ کشمیر پر صدر کا راج تھا تو صدر نے کس سے مشاورت کی۔ خود سے
ہی مشاورت سے کشمیریوں پر آمرانہ فیصلہ مسلط کرنے کا یہ پہلا سانحہ نہیں ہے۔
مظلوم کشمیری ایک صدی سے اسی آمریت اور غلامی کے شکار ہیں۔ جس کا اندازہ
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمشنر لگا سکتی ہیں۔ اس کا انھوں نے اظہار بھی
کیا۔اس لئے 27ستمبر تک جاری رہنے والے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے
اجلاس میں کشمیر پر بحث کے آپشن پر پاکستان کام کر سکتا ہے۔ 47رکنی کونسل
میں امریکہ بھی شامل تھا جو گزشتہ سال اس عالمی ادارے پر اسرائیل سے متعلق
جانبداری کا الزام لگا کر نکل گیا۔ امریکہ ہمیشہ فلسطینیوں کے خلاف
اسرائیلی ریاستی دہشتگردی کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔جس طرح امریکہ نے عرب
دنیا میں اسرائیل کو اپنا لے پالک بنا رکھا ہے اسی طرح بھارت کو جنوبی
ایشیا کا تھانہ دار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا اندازہ ہیوسٹن میں
نریندر مودی کا صدر ٹرمپ کے حق میں انتخابی جلسہ کرانا ہے۔ مودی اور ٹرمپ
کا ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی پھیلانا مسلم دنیا
کا خواب غفلت میں مبتلا ہونے کی دلیل ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی لاک ڈاؤن اور سخت پابندیوں کے51دن مکمل ہو چکے ہیں۔
مگر ابھی تک او آئی سی بھارت پر دباؤ ڈالنے پر آمادہ نہیں۔ عالم کفر متحد
ہو رہا ہے۔ مسلم دنیا منتشر ہے۔ ورنہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمان یوں بیرونی
قبضے اور جارحیت ، غلامی، بدترین مظالم اور تشدد کا شکار نہ بنائے جاتے۔
انہیں مسلمان ہونے کی سزا نہ دی جاتی ہے۔ پاکستان سے عالم اسلام کے حقوق کی
آواز بلند ہو رہی تھی۔ یہ آواز بھی خاموش کرائی جا رہی ہے۔ پاکستان کا
گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔یہ سلسلہ دہائیوں نہیں بلکہ قیام پاکستان سے جاری
ہے۔پاکستان کے واجبات ابھی بھی انڈیا کے ذمہ واجب الادا ہیں۔ پاکستان کو
’’بنانا ری پبلک‘‘ یاناکام ریاست قرار دلانے کی کوششیں بھی کامیاب نہیں ہو
سکی ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی ٹیکنالوجی کے انتہا پسندوں کے ہاتھ لگنے کا
پروپگنڈہ کیا گیا۔ مگر ایٹمی ٹیکنالوجی کے دہشتگرد ملک اسرائیل کو فراہمی
پر دنیا خاموش ہے۔ آج انڈیا میں اقلیتوں کا دشمن اورہندو دہشتگرد ی کا
علمبردار نریندر مودی حکمران ہے، مگر دنیا انڈیا کے ایٹم بم کے ہندو دہشگرد
حکمران کے ہاتھ لگنے پر بھی خاموش ہے ، بلکہ مودی کو تمغے دے رہی ہے۔
نریندرمودی کو اپنا شدت پسند نظریہ دنیا میں پھیلانے کے لئے اسے امریکہ ہی
نہیں بلکہ مسلم ممالک بھی عام جلسے کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ کشمیریوں پر
قیامت گزر رہی ہے اور مسلم حکمران مودی کو اپنے ممالک میں مندر تعمیر کرنے
، بت تراشنے اور بتوں کی پوجا پاٹ کرنے کی دعوتیں دے رہے ہیں۔یہ المیہ ہے۔
صدر ٹرمپ اپنے ووٹ بینک کے لئے مودی کے کشمیریوں پر مظالم کی انتہا کو نظر
انداز کر رہے ہیں۔ مودی کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر مقدمہ چلانے
کے بجائے انہیں مزید جرائم کرنے کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں گو کہ قرارداد پیش نہ ہوسکی ، مگر
پاکستان کے پاس ابھی بھی کئی آپشنز ہیں۔ پاکستان مسلہ کشمیر کا فریق ہے۔
اقوام متحدہ کا رکن ملک ہے۔ اسے اپنی حیثیت منوانا ہے۔ دنیا بھر میں پانی
سفارتکاری پر از سر نو غور کرنا ہے۔کیا وجہ ہے کہ دنیا انڈیا کے مقابلے میں
پاکستان کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔ فوری سفارتی اصلاحات کیسے ممکن ہو
سکتی ہیں۔اس کے کیا امکانات ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر سفارتی تقرریاں ریاست کے
مفاد میں نہ ہوں تو اس پالیسی کو ختم کر دینے میں کیا رکاوٹ ہوسکتی ہے۔
ریاست نے کسی ایک پارٹی کا مفاد فروغ دینا ہے یا مملکت کی کوئی اہمیت ہوتی
ہے۔ جو سفارتی سرگرمیاں پاکستان نے نیو یارک، واشنگٹن، برسلز، ماسکو، جدہ،
برلن، انقرہ،جنیوا جیسے مراکز میں تیز کرنا ہیں، وہ نظر نہیں آ رہی ہیں۔
وزیراعظم، وزیر خارجہ، سیاسی وفود کے دنیا کے دورے اور موثر لابنگ ضروری
ہے۔ صرف ٹیلیفون کالیں، خطوط ، پیغامات سے کام نہیں چل سکا ہے۔ اگر انڈیا
کے جارھانہ اور انسانیت کش اقدامات کو دنیا میں مزید بے نقاب نہ کیا گیا
اور دنیا نے سیاسی، معاشی اور سفارتی دباؤ سے انڈیا کو نہ روکا تو اس کے
نتائج پاکستان اور بھارت ہی نہیں دنیا کے لئے سنگین ہو سکتے ہیں۔ کیوں کہ
انڈیا پر ایسا حکمران براجمان ہے جو توسیع پسندی اور جارحیت کی سوچ اور
پالیسی رکھتا ہے، اس کا اعلان بھی کر رہا ہے۔ پاکستان واھد ملک ہے جو
کشمیریوں کی آواز ہے۔ اس آواز کا مزید توانا ہونا ضروری ہے۔ یہ پاکستان کے
وسیع تر مفاد میں ہے کہ کشمیریوں کو انڈیا کی غلامی سے نکالنے کے لئے نتیجہ
خیز اقدامات کئے جائیں۔ حکمت عملی پر از سر نو غور کیا جائے۔ پاکستان
دشمنوں کو پروپگنڈہ کا کسی بھی صورت میں موقع فراہم نہ کیا جائے۔ جو
توانائیاں پاکستان اور کشمیر میں صرف ہو رہی ہیں، اس سے بڑھ کر دنیا کو
انڈیا کی جارحیت اور کشمیریوں کی نسل کشی کے بارے میں آگاہ کرنے پر زیادہ
توجہ دی جائے۔
|