میں اکثر سوچتی ہوں کہ موسموں کی دلکشی ، جھرنوں کی نغمگی
، ہواؤں میں چھپی بے خودی ، رخِ جاناں کی تازگی ، بہاراں میں بہار دکھاتا
رنگ و بو ، پت جھڑ میں دُھول ہوتے خواب ،گُم گُشتہ محبتوں کے سراب ، جاڑے
کی یخ بستہ راتوں میں ہجراں کے عذاب ، دشت کی بے کلی ، ڈال ڈال چومتی
دیوانگی ، پونم رات کی حیرانی ، اماوس کی رائیگانی ،گھُٹن زدہ قُربتوں کی
پریشانی،اَذِیت کی طلسمی تاروں سے جُڑی یادوں کی سنسانی،فراق و وصال کی
سرشاری میں وَجد آفریں لَے پر رقصاں رُوحوں کی بیقراری کیسے بیان ہوتی اگر
شاعر نہ ہوتا ۔ایک شاعر ہمارے احساسات و جذبات کا وہ سفیر ہے جو ان کہی کو
الفاظ دیتا ہے ،بے خودی کو پرواز دیتا ہے،نغمگی کو ساز دیتا ہے اور لاشعوری
کرداروں کو خدوخال دیتاہے جس سے قاری کہہ اٹھتا ہے کہ :’’ جب بھی چاہوں ترے
احساس کو پیکر کر لوں ،تو حواسوں پہ میرے ایسے چھایا ہے ‘‘ ۔ ایسے میں خیال
نغماتی اظہار میں ڈھل جاتا ہے اور شعر انسانی ذہن کو ’’سائیکی ‘‘ کی
گہرائیوں میں اتار دیتا ہے ۔ سائیکی کے آہنگ کی غنایت و معنویت سے جمالیاتی
انبساط حاصل ہوتا ہے اور شعر ہمارے احساسات وجذبات کا ترجمان بن جاتا ہے
اسی لیے کچھ اشعار ہمیں اچھے لگتے ہیں کیونکہ ان سے الوہی نغمے پھوٹتے ہیں
جو روح و بدن میں طوفان برپا کر دیتے ہیں ۔جن کی روح میں شِکستگی ، کَرب
اور پچھتاوا ہو وہ بے چینی ،اضطراب و ملال کے مُتلاطم سمندر میں غوطہ زن ہو
جاتے ہے اور جو خواب وادی کے مسافر ہوں وہ گمان کے جزیروں میں بھٹکنے لگتے
ہیں ۔ہر اعلیٰ تخلیق ایسی ہی جمالیاتی فضا بناتی ہے ۔یعنی اعلیٰ تخلیق نفسی
رحجان سے مشروط ہے اور نفسی رحجان اساطیری روایتوں اور قصوں سے ترتیب پاتا
ہے شاید ہی کوئی اعلیٰ درجہ کا ادب یا فن لطیف ہو جس کی تخلیق میں شعوری یا
غیر شعوری طور پر قدیم قصوں کے اثرات موجود نہ ہوں ۔البتہ ایسا ضرور ہوا ہے
کہ تماثیل، تاریخ اور شعری شہ پاروں کو نا قابل یقین اساطیر کے قالب میں
ڈھال کر پیش کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اسا طیری روایتیں اور قصے انسانی
زندگی اور انسانی نفسیات کا حصہ بن چکے ہیں لیکن یہی اساطیر ی لہریں جب عصر
حاضر کی تکنیکی ہیتیوں سے ٹکراتی ہیں تو نئی جہتیں اور تک بندیاں سامنے آتی
ہیں ۔تخلیق کار کا وژن نئی علامتوں اور معنی خیز جہتوں سے ہمکنار ہوتا ہے
یہاں ہم محدود کو لامحدود بنتے ہوئے دیکھتے ہیں اسی لیے فنون لطیفہ کو
جمالیاتی حس کے اظہار کا ذریعہ اورجاندار جمالیاتی ذوق کے اظہار کا محرک
اسطوری قصے اور قیاسات کو قرار دیا گیا ہے ۔تخلیقی شہ پارے کے اساطیر سے
باطنی رشتے سے تہہ در تہہ معنویت اور مفاہیم کے وہ در وا ہوتے ہیں جو تخلیق
کار کو آفاقی فکر و نظر عطا کر کے تاریخی قرطاس کا انمٹ کردار بنا دیتے
ہیں۔کو ئی بھی بڑا تخلیقی فنکار کلاسیکی رنگ سے گریز نہیں کر سکتا ۔البتہ
ایسا ممکن ہے کہ اسے ابتدا میں اس کی تحریک نہ ملے اور وہ ظاہری متحرک
روایات میں الجھا رہا مگر تب تک اس کی تخلیق بے جان ہی رہتی ہے اس میں جان
تبھی آتی ہے جب کوئی تکلیف ،درد ،خوشی یا غم ضرب بن کر اس کے لاشعور سے
ٹکراتا ہے تو اعلیٰ درجے کی تخلیق وجود میں آتی ہے ۔
ایسی ہی اعلیٰ شعری تخلیق ’’وجد ‘‘ ماجد جہانگیرمرزا کے قلم سے منظر عام پر
آئی ہے جو اپنی پہلی نظر میں بارگاہ ِفکر میں ہیجان برپا کر دیتی ہے ۔بہت
عرصے بعد ادبی افق پر ایک ایسا ستارہ نمودار ہوا ہے جس کی شاعری اس کی عمر
سے بہت آگے نکل گئی ہے ۔ماجد جہانگیر کے کلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ
ہمیں شاعر روایت سے جڑا ہوا محسوس ہوتاہے مگر حقیقتاً اکسویں صدی میں سانس
لے رہا ہے ۔ماجد جہانگیر کی اپنی شعری کائنات ہے جس میں تتلی کے رنگوں کی
طرح زندگی کے سبھی رنگ اور ڈھنگ اس ترتیب سے پائے جاتے ہیں کہ کسی رنگ ساز
کی رنگ سازی کا گمان ہوتا ہے ۔ موصوف نے اپنے اس شعری مجموعے میں غزل کو
ایسی تروتازگی اور شادابی عطا کی ہے جس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماجد
جہانگیر عہدِ موجود کا اہم ترین شاعر ہے ۔جس کا ادراک خود موصوف کو بھی ہے
کہتے ہیں :
نظر انداز کرنے والے سن لیں
مجھے تاریخ لکھے گی مسلسل ۔!
ماجد جہانگیر نے اپنے پہلے شعری مجموعے سے دوسرے مجموعے تک جو رفعتیں حاصل
کی ہیں وہ بلاشبہ کم لکھاریوں کو نصیب ہوتی ہیں کیونکہ ان کا تعلق جس محکمے
سے ہے وہاں انسانی نفسیات اور گردو پیش کے حالات کو سمجھنا اور پرکھنا قدرے
آسان ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا شعر لمسیاتی مستی اور نشاطی لمحوں سے بے بہرہ
ہوکر دیارابہام میں الہام کی شاخوں پر جھول رہا ہے۔یہی فنا و بقاکا راز ،حد
درجہ فکر اور ضبط و برداشت اسے اس وجدانی کیفیت میں لے آتی ہے جہاں تصور
مجسم صورت اختیار کر لیتا ہے اور شاعر سرور کی بیکراں جھیل میں غوطے کھانے
لگتا ہے ۔یہاں شاعر کو نئے کیف کی ،ایک میٹھے دکھ کی لہر اپنی لپیٹ میں لے
لیتی ہے کہ وہ کثیف روشنیوں سے دور ہو جاتا ہے یہ دوری اس کے اندر وہ گداز
و لطافت پیدا کر دیتی ہے کہ جس سے اﷲ سبحانہ و تعالی کے کرم کی بارش روح پر
برسنے لگتی ہے ۔یہی وہ منزل ہے جہاں خود پسندی کے آئینے ٹوٹ جاتے ہیں اور
جب آئینے کا طلسم ٹوٹتا ہے تو حرف فریاد بن جاتے ہیں :ان کے کلام کا حسن
ملاحظہ فرمائیں!
ممکن ہے آسمان کے سینے کو چیر دیں
کچھ سسکیاں روانہ ہوئی ہیں دعا کے ساتھ !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ماہ قبل مر گیا اک اور بے گنہ
بروقت فیصلہ جو سنایا نہیں گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو بھی غلام تھا ترے بچے بھی غلام ہیں
ہر سمت چھائی رات کو بس دیکھتے رہو
اردو شاعری کا دامن ہر قسم کے موضوعات سے بھرا ہوا ہے لیکن رومانوی خیالات
و افکارحاوی نظر آتے ہیں یقینا ہنر مندی یہی ہے کہ استعاروں ،تلمیحات
،کنایہ اور تشبیہات کو یوں برتا جائے کہ ایسی جمالیاتی فضا قائم ہو جائے کہ
سخن وری میں محبت سراب سے حقیقت کی طرف سفر کرتی دکھائی دے جیسا کہ ’’کبھی
اے حقیقت منتظر نظر آلباس مجاز میں ‘‘ا ور اشعار ہر درون دل کا نوحہ لگیں
اور موصوف کے اوصاف میں یہ صفت جا بجا موجود ہے ۔سر ورق پر موجود غزل ہی
دیکھ لیجیے جسے پڑھتے ہی احساس ہوتا ہے کہ عشق طاری ہے ،عجب خماری ہے بس بے
اختیاری ہے لیکن دوسرے ہی لمحے محسوس ہوتا ہے کہ شاعر ابہام کے پاتال میں
چھپی زندگی کو تلاشتے تلاشتے ظاہری دنیا سے باطنی دنیا کی سیاحت کو نکل گیا
ہے:
ؔ تمہارے عشق کی لو میں دھمال ڈالوں گا
تمہیں خبر ہے کہ کتنی کمال ڈالوں گا
یہ جن و انس و ملائک بھی سر کھجائیں گے
فلک کی گود میں ایسا سوال ڈالوں گا
میں لفظِ کن کی حقیقت سمجھ نہیں پایا
صنم کدے میں اذانِ بلال ڈالوں گا
آج ہم انسانی تاریخ کے انتہائی تلخ اور تاریک دور سے گزر رہے ہیں ۔ چار
مسلمان تبھی اکٹھے ہوتے ہیں جب جنازے کی چارپائی اٹھانی ہو اس بے حسی سے
ایک حساس دل کیسے غافل رہ سکتا ہے ۔جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔۔
کون کیسے مرا ہم کو مطلب ہے کیا
آؤ گھر کو چلیں حادثہ ختم شد
عصر حاضر کا کرب حکمرانوں کی بے حسی اور ہر طرح کی ہوس پرستی ہے ۔ماجد نے
اس کی عمدہ ترین منظر کشی کی ہے ۔
مسند کے پجاری ہیں مرے دیس کے حاکم
ہیں مستِ مفادات نہیں فکر فنا کی
موصوف کا اسلوب انھیں ہم عصروں سے ممیز کرتا ہے جو کہ غیر شعوری طور پر اس
کے کلام کو نکھار دیتا ہے موصوف نے اپنے پہلے مجموعہ کلام میں ہی شہرت کے
اعتبار سے وہ مقام حاصل کر لیا تھا جس کا خواب تو ہر کوئی دیکھتا ہے مگر اس
کی تعبیر سب کے مقدر میں نہیں ہوتی ۔ادبی حلقوں کی طرف سے ہمیشہ اس کی
اہمیت کو تسلیم کیا گیا اور اس کے تخیل کی اڑان کا اعتراف کیا گیا یہ مقام
بھی سب کو نصیب نہیں ہوتا ۔تاہم ماجد جہانگیرکے پہلے مجموعہ کلام کو پڑھ کر
احساس ہوتا ہے کہ وہ تمام نظمیں اور غزلیں موصوف نے اپنی ذات کے لیے لکھی
ہیں مگر دوسرے مجموعہ کلام کے بعدیقین ہو جاتا ہے کہ ان کے ذہن کی روحانیت
نمایاں ہو رہی ہے جس سے وجدانی کیف ان کے کلام پر غالب آرہا ہے کہ :
نجانے کون سے لمحے جدائی ہو جائے
تمہارا ہجر مسلسل کمائی ہو جائے
مجھے تو عشق کا مطلب یہی سمجھ میں آیا
دوئی کمال کو پہنچے اکائی ہو جائے
جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اچھا شاعر وہ ہوتا ہے جو کہ قدیم علامتوں کو اس
انداز سے برتے کہ ان کے ساتھ نئے مفاہیم منسلک ہو جائیں ،موصوف کی غزلوں
میں ہمیں پرانی علامتوں کی تکرار اور گھسے پٹے تلازموں کے بجائے تازہ
علامتیں اور الفاظ کے نئے تلازموں کے ساتھ پرانے الفاظ بھی ایک نئی معنویت
میں ملتے ہیں ۔اس طرح غزل کی لفظیات اور اس کی مخصوص فضا بالکل بدلی ہوئی
محسوس ہوتی ہے ۔
بھڑکتی آگ میں شعلہ تلاش کرتا ہوں
کہانی کار ہوں قصہ تلاش کرتا ہوں
خیال یار کی دنیا عجیب دنیا ہے
جبیں پہ آخری بوسہ تلاش کرتا ہوں
موصوف کے کلام میں خواہش کا کسک بن جانا اور خواب کا سراب ہوجانا بھی دلچسپ
ڈھب سے سامنے آتا ہے جو اس کی اظہاری بلاغت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
ضبط لازم تھا کر لیا میں نے
جتنا ممکن تھا ڈر لیا میں نے
ہجر پھینکوں گا تیری جانب میں
اپنے حصے کا مر لیا میں نے
ماجد جہانگیر کی غزلوں میں ایک طرف زندگی کی تازگی ،اپنی زمین سے قربت اور
اس کی سوندھی سوندھی خوشبوہے تو دوسری طرف سسٹم کی خرابی کا غم ،لاقانونیت
اور نا انصافی بارے فکر و اظہار سب کے لیے نئی بصیرت عطاکرتا ہے ۔
اُف ! درندوں کی بقا معصوم جانیں لے اڑی
کچھ شکم میں ،کچھ زمیں پر پاؤں دھرتے مر گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرطاس کی دھمال پہ نظریں جمائیے
ٹپکے گا خون، لکھوں گا جب واردات کو
محکمہ پولیس میں ہونے کی وجہ سے جو سچائیاں موصوف پر کھلتی ہیں وہ عوام پر
نہیں کھل سکتیں ۔یہی وہ مقام ہے جہاں ایک حساس دل ایسی دنیاؤں کی سیاحت پر
نکل کھڑا ہوتا ہے جہاں جورو ستم اور نا انصافیوں کا گزر نہ ہو اور یہی داخل
کی دنیا کا سفرتصوف کا راستہ ہموار کرتا ہے ۔
اہل دنیا سے مل چکا ماجد
اب ستاروں سے بات کرنی ہے
۔۔۔۔۔۔
جسم کا روح سے رابطہ ختم شد
آگے دیوار ہے راستہ ختم شد
حکمائے قدیم کے نزدیک تصوف کی یہی بابت ایک عام نظریہ یہ کارفرما تھا کہ
زندگی کی رعنائیوں اور بشری تقاضوں سے مکمل طور پر دستبردار ہونے اور اپنے
نفس کو لاشعور کے حوالے کرنے کا نام تصوف ہے ۔جب انسان اپنی ذات اور
معاشرتی احساسات سے غافل ہوتا ہے تو رہبانیت کا بھی مرتکب ہوتا ہے اس مقام
پر مذہب اور تصوف کا آپس میں ٹکراؤ ہوتا ہے کیونکہ مذہب دین اور دنیا کو
ساتھ لیکر چلنے کا حکم دیتا ہے ۔موصوف کا کلام تصوف کا رنگ اوڑھ رہا ہے
مگراس میں کہیں ٹکراؤ نہیں بلکہ غافلوں کے لیے اشارہ ہے ۔۔
ذرا سی دیر کو غافل ہوا تھا حکم ربی سے
سزا ایسی ملی اب تک زمیں پر رنگتا ہوں میں
موصوف نے فرقہ واریت پھیلانے والوں اورمذہب کی آڑ میں مفادات کا بیوپار
کرنے والوں کو بھی آڑھے ہاتھوں لیا ہے جو ان کی مذہبی وابستگی کا مظہر ہے
۔۔
واعظ نے بیچ ڈالا ہے دین محمدی ؐ
لگتا ہے اب امام کی آمد قریب ہے
۔۔۔
اس کے پیچھے نماز پڑھنی ہے
فرقہ بندی سے جو مبرا ہو
معاشرے کے حساس موضوعات پر لکھنے والا خود بھی جانتا ہے کہ سچ بولنا اتنا
آسان نہیں کہ انسان تو انسان آئینے بھی چیخ اٹھتے ہیں ۔۔
کیسے میں چند سکوں میں ایمان بیچ دوں
زندہ ہوں ، با ضمیر ہوں ،ہاں بولتا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔
ہم تو صداقتوں کے ازل سے امین ہیں
دھوکے سے وار کرنا سکھایا نہیں گیا
یہ ایک المیہ ہے کہ بہت سے لوگ جسمانی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں
مگر دل سے ساتھ نہیں ہوتے اور جو ساتھ ہوتے ہیں وہ ایک ساتھ نہیں چل پاتے
یہی وجہ ہے کہ میں نے کہیں نہ کہیں ہر انسان کو تنہا ہی پایا ہے ۔نارسائی
کا دکھ ایک حساس دل ہی سمجھ سکتا ہے اور اس کا احساس ماجد کو بخوبی ہے تبھی
صاحب ذوق قاری کو تلقین بھی کر دی کہ :
دل رکھ کے ہتھیلی پر اشعار مرے پڑھنا
تب جان سکوگے تم احساسِ زیاں کیا ہے
موصوف نے اپنی نظموں میں حساس موضوعات جیسا کہ طاقتور کمزور کو اپنا نوالہ
بنا لیتا ہے جیسی تلخ سچائیوں کو اپنا موضوع بنایا ہے مگر ان میں بھی ایسی
شعری لطافت اور معنویت پیدا کی ہے جو اس کے کلام کو مزید جلا بخشتی ہے ۔۔
درد رسنے لگ گیا
جس کی دیوار سے
لفظ نشتر بن گئے
بے خبر نے دیکھیے
کیا حقارت دان کی
ہوں سراپا مطلبی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور۔۔۔۔
اچھوت لوگو ۔۔۔
اٹھو اور اپنے حقوق چھینو
اچھوت لوگو
غلام ابن غلام بن کر جو چند سانسیں ملی ہیں تم کو گنوا نہ دینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امین و صادق کہاں کھڑے ہیں
سنا ہے تبدیلی آرہی ہے
پرانے چہروں سے تنگ آکر
میں گھر سے نکلا ہوں ووٹ دینے
مگر یہاں پر عجیب صورت بنی ہوئی ہے
پرانے چہرے ہی دکھ رہے ہیں
وہی لٹیرے جو کچھ ٹکوں کا سہارا لے کر
غریب کا حق خریدتے ہیں ۔۔۔۔۔
مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں ہے کہ’’ ماجد جہانگیر لمحہ موجود کا
شاعر‘‘ ہے ۔اس کے مضامین وجود سے نکل کر آگہی کا کلاسیکی لبادھا اوڑھ کر
عصری رکھ رکھاؤ کے ساتھ یوں جلوہ گر ہیں کہ لمحہ موجود کا بیان ہر دل کا
گمان بن کر روح میں جان پرورکیفیت پیدا کر دیتا ہے اور ایک اچھا قلم کار
وہی ہوتا ہے جو ہر دل کی زبان بن جائے ۔یقینا ماجد جہانگیرمرزا کی منزلیں
منتظر ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ادبی افق پر ایک روشن ستارہ اپنا وجود
برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گا اور ہماری تائید ماجد جہانگیرمرزا کی ہی
غزل کے یہ اشعار بخوبی کر رہے ہیں کہ :
یہ عشق کے مقام کی ادنی مثال ہے
دنیا کو اپنے ہاتھ پہ دنیا دکھاؤں گا
ماجد درودپاک کی کثرت سے ایک دن
رستے پکاریں گے مجھے منزل میں پاؤں گا
ہم ماجد جہانگیر کی کامیابیوں کے لیے دعاگو ہیں ۔اﷲ کرے زور قلم اور زیادہ
! |