کہتے ہیں کہ اگر آپ نے کسی کی شخصیت کے بارے میں اندازہ
لگانا ہو تو اسکے ساتھ کھانا کھا لیں ،سفر کرلیں یا پھر وقت گذار لیں مگر
آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں اس پیمانہ کے زریعے انسانوں کا قد کاٹھ
ناپنا قدرے مشکل ہے یہی وجہ ہے کہ لوٹ مار کے اس دور میں اچھے انسانوں کا
ہونا کسی نعمت سے کم نہیں ہے اور اچھے انسانوں میں نرم دل لوگ تو خالق
کائنات کی سب سے خوبصورت تخلیق ہے پھر نرم دل لوگوں کاشاعر بن جانا کسی
معجزے سے کم نہیں اور پھر ان سب خوبیوں والے انسان کا سرکاری افسر بن جا نا
پاکستان کی عوام کی خوش قسمتی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے اور ایک ایسا ہی
درددل رکھنے والا خوبصورت انسان اس وقت ساہیوال میں ڈائریکٹر انٹی کرپشن کے
عہدے پر کام کررہا ہے اور اﷲ کی قدرت دکھیں کہ اس خوبصورت اور دلفریب انسان
کے جیسے کام ہیں اسی نسبت سے انکا نام بھی شفقت اﷲ مشتاق ہے ان سے ملنے کے
بعد انسان کو احساس ہوتا ہے کہ یہی وہ انسان ہیں جن سے معاشرہ قائم ہے ورنہ
تو ہمارے اداروں کے اندر بیٹھے ہوئے بھیڑیوں نے جس طرح مظلوموں کو نوچ نوچ
کر عوام کا جینا محال کیا ہوا ہے اگر ایسے افرادبھی نہ ہوتے تو آج رہا سہا
پاکستان بھی ایتھوپیا کا منظر پیش کررہا ہوتا کیونکہ ہمارے سیاستدان تو
پانچ سال کے لیے آتے ہیں جو انہوں نے کرنا ہوتا ہے وہ کرکے چلے جاتے ہیں
اصل میں تو حکمرانی انہی افسران کی ہوتی ہے جو 60سال تک عوام میں رہتے ہیں
اگر دیکھا جائے تو ایک ضلع میں تقریبا 36سرکاری ادارے کام کررہے ہوتے ہیں
اور ان اداروں میں بیٹھے کام کرنے والے اگر 36افراد بھی شفقت اﷲ مشتاق کی
طرح اﷲ کی مخلوق سے پیار کرنے والے موجود ہوتے تو آج پاکستان کا یہ حال نہ
ہوتا جو ان سب نے مل کر کردیا ہے بلخصوص ہماری پولیس نے جس طرح معاشرہ کی
تباہی کا ٹھیکہ لے رکھااگر انٹی کرپشن والے نہ ہوتے تو تھانے بازار حسن کا
منظر پیش کررہے ہوتے جہاں کھلے عام بولیاں لگتی جسم بکتے ،کٹتے اور نیلام
ہوتے اور ہماری پولیس تو ویسے بھی ماہر ہے جعلی مقابلوں کی فرضی مقدموں کی
اور نام نہاد ریکوریوں کی ایسے معاشرہ میں جہاں انسان انسانوں کے لیے ناسور
بنے ہوئے ہیں اسی معاشرہ میں شفقت اﷲ مشتاق جیسے افراد امید کی واحد کرن
ہیں جن کے ساتھ سفر کرکے ،کھانا کھا کر اور وقت گذار کر یہ حقیقت کھل کر
سامنے آجاتی ہے کہ آج ہم اگر سکون سے زندگی گذار رہے ہیں تو انہی لوگوں کا
کمال ہے میں اپنے دوست سینئر صحافی ،کالم نویس ،تجزیہ نگار اور نامور شاعر
جناب شفقت حسین شفقت کا بھی ممنون ہوں کی انکی محبت سے ایسے شخص سے ملاقات
ہوئی جو کھلے عام کہتا پھرتا ہے کہ
ترلے پاون نالوں چنگا رج کے محنت کرلے
جے تو جینا چاہنا ایں بندیا مرن تو پہلاں مرلے
ویلا تیرا ساتھ ناں دیسی ایہہ گل پکی ٹھکی
سوچی کیوں پینا ایں شفقت جھبدے بھانڈا بھر لے ۔
شفقت اﷲ مشتاق کی خوبصورت شاعری پر مشتمل دو کتابیں مارکیٹ میں آچکی ہیں
اور تیسرا شعری مجموعہ تیاری کے مراحل میں ہے اور پچھلے دو دن انکے ساتھ
ساہیوال میں گذارنے کا موقعہ ملا انہیں اور اسکے لیے میں اپنے دوست شفقت
حسین شفقت کا شکر گذار ہوں کہ وہ مجھے لاہور سے ساہیوال لے گئے اور پھر دو
دن کتنی تیزی سے گذر گئے اس بات کا احساس اس وقت ہوا جب میں بوجھل دل کے
ساتھ واپسی کے لیے نکلا ان دو دنوں میں شفقت اﷲ مشتاق صاحب نے ایک منٹ کے
لیے بھی ہمیں بوریت کا احساس نہیں ہونے دیا پہلے دن اپنے سرکاری کام نمٹا
کر ہڑپہ عجائب گھر کی سیر کروائی اور اگلا دن جمعرات کا تھاجو ہم نے پاکپتن
میں دربار حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اﷲ علیہ کے مزار پر گذارا جب
ہم پاکپتن شریف پہنچے تو اس وقت سورج غروب ہورہا تھا مغرب کی نماز باجماعت
ادا کی اور پھر ذکر اذکار میں مصروف ہوگئے اسی دوران عشاء کی اذان ہوگئی
پھر تھوڑی دیر دربار کے احاطہ میں چہل قدمی کی نماز باجماعت اداکرنے کے بعد
نیچے مینجر کے کمرہ میں چلے گئے جہاں پرتکلف لنگر کا اہتمام تھا لنگر سے
فارغ ہونے کے بعد وہی پر جناب شفقت اﷲ مشتاق کی زیر صدارت محفل مشاعرہ
منعقد ہوگیا کیونکہ جہاں پر تین یا چار شاعر اکٹھے ہو جائیں وہاں پر تو
ویسے بھی شاعرے کا ماحول بن جاتا ہے اور اس وقت تو ہمارے ساتھ مشاعرے
کروانے والے جناب شفقت حسین شفقت بھی موجود تھے جنہوں نے سیکیرٹری کی ذمہ
داریاں سنبھال کر مجھے مہمان خصوصی بنا کر باقاعدہ اپنے کلام سے مشاعرہ
شروع کردیا بس پھر کیا تھا خوبصورت شاعری کا ایک طوفان تھا جو رکنے کا نام
نہیں لے رہا تھا شفقت حسین شفقت کے بعد پاکپتن کے صحافی اور شاعر جناب اے
ڈی شاہد صاحب نے اپنا خوبصورت کلام سنایا انکے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر انٹی
کرپشن ساہیوال ریجن جناب چیمہ صاحب نے ماں کی شان اور اپنے شہر بورے والا
پر خوبصورت کلام سنایا اور آخر میں صدر مجلس اور ہمارے میزبان جناب شفقت اﷲ
مشتاق صاحب نے اپنا تازہ اور خوبصورت کلام سنایا اور میں ذاتی طور پر
سمجھتا ہوں کہ جناب شفقت اﷲ مشتاق صاحب کا کلام دور حاضر کا ترجمان ہے انکی
شاعری نوجوان نسل کی پسندیدہ شاعری ہے انکے چند شعر میں اپنے پڑھنے والوں
کی نظر کرتا ہوں جو ہم نے پاکپتن میں سنے۔
کیوں دھر دھر پیا کریناں ایں ایہو جیہا ناں کر سلوک میاں
تیرے ورگے خاکی بندے ہائیں نالے رب دی ہائیں مخلوق میاں
تیرے ڈھڈ دے وچ اے اچیائی دا پھوہڑا وچھیا لماں
ایہہ اگ دا بالن ہے شفقت ایہنوں تیلی لا تے پھوک میاں
توئیں آونا نئیں ایمڑکے ہن ناں پچھاں مڑ کے ویکھنا پر
دل دے کھوہ دے وچوں تاں کیوں مڑ مڑ نکلے ہوک میاں
ایہہ جثہ تیرا جثہ اے ایہداساڈا کجھ نئیں چناں وے
ایہہ ساڈے بھانے مویا اے ایہنوں تیری لگ گئی سوک میاں
چاہن دے جرم دے وچ ای تاں پئے مینوں شریک مریندے ہن
تینوں ہاڑا ای رب رسول دا ہن کدی اٹھ کے مار تاں شوک میاں
آخر میں اتنا بتا دو کہ محکمہ انٹی کرپشن میں جس محنت ،جانفشانی اور شفقت
سے وہ کام کرکے ساہیوال ڈویژن کو کرپشن فری بنانے میں مصروف ہیں یہ انہی کا
ہی کام ہے ورنہ تو اور بھی بڑے بڑے افسران پڑے ہوئے ہیں جو زمانے کے رنگ
میں رنگ جاتے ہیں ۔ |