وزیراعظم کا دورہ امریکہ

 مطلوبہ ہدف کوپوری محنت،لگن اورایمانداری سے حاصل کرلیناکامیابی کہلاتا ہے۔کامیابی ایسے درخت کی مانند ہوتی ہے جس کابیج بونے سے پودہ ،پودے سے درخت اوردرخت پرپھول سے پھل بننے اورپھرپھل پکنے تک محنت اورمہارت کے ساتھ دیکھ بھال کی ضرورت رہتی ہے یعنی کامیابی ایسی چیزنہیں جسے فوراًحاصل کیاجاسکے،جتنابڑامقصدہواتنی ہی زیادہ محنت،لگن اورایمانداری،تحمل مزاجی اورصبرکے ساتھ مسلسل کوشش کرناپڑتی ہے۔بڑے مقاصد کیلئے کوشش کرنے والوں کوہمیشہ تنقیدکاسامناکرناپڑتاہے۔یوں توہرمعاملے میں کوئی نہ کوئی تنقیدی پہلوموجودہوتاہے پرموجودہ معاشرہ ایسے کسی پہلوکا محتاج نہیں رہا۔ہم تنقید کرنے میں اس قدرماہرہوچکے ہیں کہ جہاں ایساکوئی پہلومیسرنہ آئے خودسے تراش لینے کاہنربھی ہم سے معافی کاطلبگارمعلوم ہوتاہے۔ان دنوں وزیراعظم پاکستان عمران خان امریکہ کے دورے پرہیں جہاں وہ دن رات بین اقوامی رہنماؤں کے ساتھ آن ریکارڈاورآف ریکارڈملاقوں میں مصروف ہیں۔وزیراعظم پاکستان دنیاکے سامنے نہ صرف مسئلہ کشمیرکے پرامن حل کا مطالبہ رکھ رہے ہیں بلکہ عالم اسلام کے ترجمان کی حیثیت اختیارکرچکے ہیں۔الحمدﷲ آج مجھے باحیثیت مسلمان اپنے وزیراعظم پرفخرمحسوس ہورہاہے۔عمران خان نے’’نفرت انگیز تقاریر‘‘سے نمٹنے سے متعلق کانفرنس سے تاریخی خطاب میں کہاکہ نائن الیون سے پہلے 75فیصد حملے تاملوں نے کئے جو ہندو تھے ۔اس سے پہلے دوسری جنگ عظیم میں بھی جاپانی فوجیوں نے خود کش حملے کئے۔نائن الیون کے بعد دہشتگردی کو مسلمانوں سے نتھی کردیا گیاپرکسی نے ہندومذہب کو دہشتگردی سے نہیں جوڑا۔یہودی سوسائٹی میں انتہا پسند ہیں اور ہندوستان میں بھی انتہا پسند ہیں۔ہم بنیاد پرست اسلام کی اصطلاح سنتے ہیں۔اسلام صرف ایک ہے جو ہمار ے آخری نبیﷺ نے ہم کو سکھایا ہے۔ہم مغرب کونہیں بتا سکتے کہ مذہب کی توہین سے ہم کو کتنا دکھ پہنچتا ہے۔نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی پر مسلمانوں کی دل آزار ی ہوتی ہے ۔ مغربی لوگوں کومعلوم ہی نہیں کہ مسلمان نبی ﷺ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔مغرب میں لوگ وہ درد محسوس نہیں کرسکتے جو مسلمانوں کو مذہب کی توہین سے ہوتا ہے ۔مغرب میں ہولو کاسٹ کی بات نہیں کی جاتی کیونکہ اس سے یہودیوں کی دل آزاری ہوتی ہے ۔نفرت انگیز بیانیے کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بھارت میں انتہا پسند اقتدار میں آگئے ہیں۔نفرت انگیز تقاریر اور اسلامی فوبیے کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جرمن مسجد میں مسلمانوں کا قتل عام کیاگیاپر اس سانحہ کا تعلق دہشت گردی سے نہیں جوڑا گیا۔بدقسمتی سے مغربی رہنماؤں نے اسلام کودہشت گردی سے جوڑاہے۔میں سمجھتاہوں کہ وزیراعظم پاکستان ذمہ داراسلامی ملک کے سربراہ کی حیثیت سے انتہائی موثرکرداراداکرنے کے ساتھ عالمی امن کے حوالے سے بھی انتہائی فکری اورذمہ دارانہ مشاورت میں پیش پیش ہیں جسے دیکھ کرمحسوس ہورہاہے کہ آنے والے دنوں میں نہ صرف دنیاپاکستان کے موقف کوسمجھے گی بلکہ ساتھ بھی دے گی۔یہاں ایسے لوگ بھی وزیراعظم پاکستان کے دورہ امریکہ پرتنقیدکریں گے جن کے پسندیدہ حکمران کسی ایک ملاقات میں بات کرنے کیلئے اپنے ہاتھ میں پرچیاں تھامے نظرآتے تھے۔اقوام متحدہ کے اجلاس میں وزیراعظم کے ساتھ اُن کی اہلیہ اورنواسی کی بجائے وزیرخارجہ اوراقوام متحدہ میں پاکستانی سفیرکوبیٹھے دیکھ کربھی تسلی ہوئی کہ اب ماضی کی طرح اقوام متحدہ کے اجلاس کوفیملی تفریحی پروگرام کی بجائے اہم ترین ذمہ داری سمجھاگیاہے ۔وزیراعظم پاکستان کادورہ امریکہ کتناکامیاب رہا؟آنے والے دنوں میں اس موضوع پربہت سارے تبصرہ نگاراپنی رائے کااظہارکریں گے جبکہ راقم نے پاکستان کی 72سالہ تاریخ میں ایساپاکستانی وزیراعظم نہیں دیکھاجس نے اس قدرمہارت اورسنجیدگی کے ساتھ اقوام عالم کے سامنے اسلامی اورملکی موقف پیش کیاہو۔وزیر اعظم عمران خان نے چینی نمائندے سے ملاقات میں کہاکہ چین ہمارے لئے ترقی کا ماڈل ہے جس نے اپنے کروڑوں شہریوں کو غربت سے نکالا۔مجھے بھی ان کی طرح حکم کا اختیار ہو تو پاکستان سے کرپشن اور غربت ختم کردوں۔ ہم نے امریکی مطالبے پر سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ کیلئے جنگجو مجاہدین تیار کرنے میں مددکی پر اب پالیسی بدل چکی ہے۔امن کیلئے امریکا کو افغانستان سے نکلنا ہوگا۔دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج کے طالبان 2001 والے طالبان نہیں۔طالبان کی اکثریت اعتدال پسند ہے۔امریکا افغانستان میں 19 سال لڑکرکامیاب نہیں ہوا تو اگلے 19 برسوں میں بھی کامیاب نہیں ہوگا۔ہمیں ورثے میں بدحال معیشت ملی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف جانا پڑا۔ چین نے مشکل معاشی حالات میں ہمارا ساتھ دیا اور کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا جس سے ہمارا اقتدار متاثرہو۔وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ مجھے بھی چینی حکمرانوں کی طرح حکم کا اختیار ہو تو پاکستان سے کرپشن اورغربت ختم کردوں۔عمران خان کے اس بیان سے اُن کی بطوروزیراعظم پاکستان بے اختیاری اوربے بسی کااندزاہ لگایاجاسکتاہے۔ہم پہلے بھی یہی کہتے آئے ہیں کہ تب تک چہرے بدلنے کاکوئی فائدہ نہیں ہوگاجب تک نظام نہیں بدلتا۔نظام بدلے گاتب ہی حالات بدلیں گے۔رائج الوقت نظام کوبدلنے کیلئے انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اورانقلاب ہمیشہ باصلاحیت لیڈرشپ کی بدولت رونماہوتے ہیں۔اختیارنظام نہیں عوام دیتے ہیں جب عوام اپنی لیڈرشپ پراعتمادکرتے ہیں تب لیڈرشپ بے اختیاریابے بس نہیں رہتی۔ لیڈرکی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ درپیش مشکلات کامقابلہ اپنے عوام کواعتمادمیں لے کرکرتاہے اور جہاں کہیں بے بسی بے اختیاری راستے کی رکاوٹ بنے عوام کی بھرپور طاقت کے ذریعے ایسی رکاوٹ کودورکرتاہے۔غیرمقبول لیڈرنظام کے ساتھ نہیں لڑسکتاجبکہ عوام میں مقبول لیڈردنیاکوبدل سکتاہے۔ملک میں مہنگائی کے باعث عمران خان کی عوامی مقبولیت کوشدیدجھٹکالگ چکاہے جسے نہ صرف بحال کرنے کی ضرورت ہے بلکہ مزید اضافے کے ساتھ عوام کااعتمادبحال کرنے کی شدیدضرورت ہے۔خیریہ ایک الگ بحث۔میرے خیال میں وزیراعظم کادورہ امریکہ نہ صرف کامیاب بلکہ انتہائی شانداررہے گاجس کے مثبت اثرات ہم آنے والے دنوں میں عالمی منظرنامے پردیکھیں گے۔دنیابھرکامیڈیااس وقت ہمارے وزیراعظم کے چہرے کے تاثرات اورمنہ سے نکلے ایک اک لفظ کونوٹ کررہاہے جس پرکئی دن تبصرے اورتجزے پیش کئے جائیں گے اورآنے والے دنوں میں پاکستان کے موقف کوعالمی امن اورانسانی حقوق کے موضوعات میں مثال کے طورپرپیش کیاجائے گا۔بھارت ہماراازلی دشمن ہے کبھی ہمیں نقصان پہچانے کاموقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتاپھربھی ہم بھارت کے عوام کیلئے فکرمندہیں۔ہم نہیں چاہتے کہ بھارت میں لوگ بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہیں اورپاک بھارت کشیدگی سارے وسائل کھاجائے۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں آج بھی خوشحال ملک ہے اورپاکستانی عوام کوبھارتی عوام کے مقابلے میں کہیں بہترآزادی اورسہولیات میسرہیں۔پاکستان اوربھارت کے ماحول میں زمین آسمان کافرق ہے۔پاکستان میں کسی اقلیت کوتشددکاسامنا نہیں۔ہم کسی کومذہب کی بنیادپرنفرت کانشانہ نہیں بناتے جبکہ بھارت میں قدم قدم پرانسانیت کی تذلیل ہورہی ہے۔ہم امن کی بات کرتے ہیں توبھارت کے جنونی حکمران کمزوری سمجھ کراپنے عوام کوگمراہ کرتے ہیں۔یادرہے کہ بزدل ہمیشہ جنگ وجدل کی بات کرتے ہیں جبکہ بہادراوربڑے دل والی قومیں ہمیشہ امن کی بات کرتی ہیں۔میں آج بھارتی عوام کودعوت دیناچاہتاہوں کہ وزیراعظم پاکستان کی گفتگوکوایک بارٹھنڈے دل اوردماغ کے ساتھ سننے اورسمجھنے کی کوشش کریں توآپ کومعلوم ہوجائے گاکہ ہم بھارت کیخلاف نہیں بلکہ ظلم اورظالم طبقوں کیخلاف بات کرتے ہیں۔ہم کسی مذہب پردہشتگردی کی مہرنہیں لگاتے ۔ابھی وزیراعظم پاکستان کااقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے مرکزی خطاب باقی جس میں وہ تحفظ ناموس دین اسلام اورتحفظ ناموس رسالتﷺ کی اہمیت سے دنیاکوآگاہ کریں گے۔نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی امن کی بات کریں گے۔بھارتی انتہاء پسندحکمرانوں کے چہرے بے نقاب کریں گے
 

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 511299 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.