خوش نصیب ہیں دیامر کے تمام آفیسرز بالخصوص کمشنر، ڈپٹی
کمشنر،ایڈیشنل کمشنر اور انتظامیہ کے دیگر آفیسرز جن کی ہمایت، طرفداری،
ایمان داری، الوالعزمی اور مخلصی ثابت کرنے اور چار دانگ عالم پھیلانے کے
لیے دیامر کے کچھ لکھاری، صحافی، رپورٹر، سوشل ایکٹوسٹ اور طلبہ ہمہ وقت
تازہ دم رہتے ہیں.بلکہ شاید تازہ دم رکھے جاتے ہیں.
اس کام میں ایک فایدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح لکھنے کی مشق بھی ہوتی رہتی ہے
اور کرایہ خرچہ بھی ملتا رہتا ہے جو کہ کسی بھی لکھنے والے کا بنیادی حق
ہے. اپنے حق سے کیونکر دستبردار ہوسکتا کوئی. سو لگے رہیو منا بھیا
میرے ایک جاننے والے نے دیامر کے ایک ذمہ دار آفیسر کے حق میں اردوئے معلی
میں کمال تحریریں لکھنا شروع کیا. بہت ہی دلچسپ اور مدلل تحریریں ہوتی،
مخالفین کی گانڈ گردن ایک کی جاتی تھی. تشبیہ و استعارہ، ضرب الامثال،
محاورہ اور روزمرہ کا خوب استعمال کیا جاتا. لطیف کنایے ہوتے. دیامر کی سطح
پر بہترین اور شستہ اردو لکھاری جو مدلل بھی لکھ رہا تھا دیکھ کر خوشگوار
حیرت ہوئی. اردو سے میرا تعلق دو عشروں پر محیط ہے.اچانک ایک نوجوان کو
اتنی اچھی اردو لکھتے دیکھ کر کچھ حسد ہونے کا گمان بھی ہوا لیکن خوشی کا
عنصر غالب تھا. میں نے ان صاحب سے دو بار جاننے کی کوشش بھی کی کہ واقعی یہ
پوسٹیں/تحریریں آپ خود لکھتے ہیں؟ اس نے ڈھٹائی سے ہاں کہا.پھر میں نے
انہیں بڑے لکھاری بننے کی نوید بھی سنادی اور کچھ مشورے بھی دیے.
اور
پھر جب اس ایکٹیوو آفیسر کی دیامر سے پوسٹنگ ہوئی تو آج تک اس صاحب اسلوب
البیلے لکھاری کی ایک پوسٹ بھی دیکھنے کو نہ ملی، کسی بھی طرح کی، یعنی
چراغوں میں روشنی ہی نہ رہی(یعنی بہت ساری تحریریں لکھوا کر عنایت کی جاتیں
ہیں کہ اپنی وال سے شیئر کیجے). دیامر کی سطح پر ایسے سینکڑوں کردار ہیں جو
روز خود کو ایکسپوز کرتے رہتے ہیں.
پھر یہ المیہ کیا کم ہے کہ ایک آفیسر ایک رپورٹر یا سوشل ایکٹوسٹ کو اپنا
بندہ بناکر سروسز لیتا ہے تو دیگر اس کے خلاف ہوتے ہیں اور بلیک میلنگ پر
اتر آتے ہیں.مجموعی صورت حال افسوسناک ہے. رپورٹر کا کام خبر دینا ہوتا ہے
خبر میں تبصرہ اور مشاہدہ شامل نہیں کیا جاتا. خبریت پر توجہ مرکوز کی جاتی
ہے. اور سوشل ایکٹوسٹ رائے بناتا ہے. اچھے اور برے میں تمیز بیان کرتا ہے.
اچھے کی تعریف اور اسی اچھے کی برائی کو ببانگ دھل بیان بھی کرتا ہے. اہل
علم و رائے ساز لوگوں کا کام ہی یہی ہے کہ ذات وشخصیت کے بجائے کام اور عمل
کو دیکھتے ہیں اور اچھے برے میں تمیز کرکے اصلاح احوال کی کوشش کرتے ہیں نہ
ذاتی مفادات اور ذات پات کے چکر میں برے کو اچھا اور اچھا کو برا کہتے ہیں.
تنقید کا مطلب ہی یہی ہے کہ غلطی کی نشاندہی کی جاوے اور اصلاح کی تجویز دی
جاوے . تو
احباب کیا کہتے ہیں؟ |