کربلا سے کشمیر تک

ایک طرف ہم حضرت امام حسین سے محبت اور عقیدت کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری جس مقصد کے لیے آپ نے اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی قربانی دی اس مقصد کی مخالفت میں ڈٹے ہوئے ہیں ۔ کیا ہم سب بھی کوفی ہیں؟

شہادت امام حسینؓ اسلامی تاریخ کاایک ایسا باب ہے جس پر ہر مکتب فکر کے مسلمان تاسف اور اندوہ کااظہار کسی نہ کسی انداز میں ضرور کرتے ہیں ۔ جو لوگ بظاہر غم کا اظہار نہیں کرتے دل میں وہ بھی اس شہادت پردکھ ضرور محسوس کرتے ہیں۔ لیکن وہ اہم ترین مقصد جس کے لیے اسلامی تاریخ کی عظیم ترین قربانی پیش کی گئی اسے سمجھنے اور پورا کرنے کے لیے ہم میں سے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے ۔ حالانکہ کہا یہ جاتاہے کہ اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ کون سا اسلام تھا جس کو از سرنو زندہ کرنے کے لیے امام ؓ نے اپنے اہل و عیال سے سمیت اسلامی تاریخ کی اتنی بڑی قربانی پیش کی ؟اگر دیکھا جائے تو شروع میں اسلام کو قائم کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓنے جو قربانیاں پیش کیں وہ باطل ، کفر اور شرک کے خلاف تھیں ۔ لیکن امام حسین ؓ کی شہادت تو ایک اسلامی مملکت میں ہوئی جس میں نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج سمیت تمام اسلامی عبادات و رسومات پر کوئی پابندی نہیں تھی ۔ اگر امام حسین چاہتے تو مسجد نبوی مین بیٹھ کر عبادت کر سکتے تھے ۔ چاہتے تو خانہ کعبہ میں بیٹھ کراللہ کو یاد کر سکتے تھے ۔ اس حوالے سے ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی پوری اسلامی ریاست میں کہیں بھی نہیں تھی ۔ پھر آخر نواسہ ٔ رسول ﷺ کو اتنی عظیم قربانیاں پیش کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ۔اگر اس معاملے پر کوئی عام شخص بھی ذرا غور کرے تو اس پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ یہ صرف اسلام کا سیاسی نظام تھا جس کے لیے تاریخ کی اتنی بڑی قربانیاں پیش کی گئیں لیکن آج کتنی آسانی سے لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اسلام کا سیاست سے کیا تعلق ؟

اصل میں آج ہم نے اسلام کو ایک دائرے کے اندر محدود کر لیا ہے اور اسے محض عبادات و رسومات کا ایک مجموعہ سمجھ رکھا ہے ۔ حالانکہ اسلام تو ایک مکمل نظام حیات ہے جو زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی گوشوں پر محیط ہے ۔جس طرح انفرادی سطح پر عبادات و رسومات کی دین میں اہمیت ہے اتنی ہی اہمیت اجتماعی سطح پر اسلام کے معاشی ، سیاسی اور معاشرتی نظام کی بھی ہے ۔یزید کے دور میں اسلام زندگی کے تمام بقیہ انفرادی و اجتماعی گوشوں میں زندہ تھا لیکن صرف سیاسی گوشے میں خوس ساختہ تبدیلی آئی تھی کہ یزید نے نظام خلافت کو ملوکیت میں بدل دیا تھا ۔اسلام کے سیاسی گوشے یعنی نظام خلافت کی اہمیت کا اندازہ واقعہ کربلا سے ہوتاہے کہ اس کے لیے اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی قربانی دی گئی ۔آج ہم شہادت امام حسین ؓ کے غم میں آنسو تو بہت بہاتے ہیں اور آپ ؓ سے محبت اور ہمدردی کا اظہار مختلف طور طریقوں سے ہر سطح پر کرتے ہیں لیکن جس مقصد کے لیے آپ ؓ نے اتنی بڑی قربانی دی اس مقصد کو ہی فراموش کیے بیٹھے ہیں ۔یعنی نظام خلافت کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کرنے سے بھی عاری ہیں ۔ آج پوری دنیا میں 58اسلامی ممالک ہیں لیکن کسی ایک میں بھی اسلامی نظام نافذ نہیں ہے مگر اس پر دنیا کے پونے دوارب مسلمانوں کو کوئی فکر نہیں ہے جبکہ دوسری طرف حضرت حسین ؓ سے وفاداری کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہی وہ فکر تھی جس کی خاطر حضرت امام حسینؓ نے اس قدر قربانیاں اور شہادتیں پیش کیں ۔ حضرت امام حسین سے عقیدت اور ہمدردی کے اظہار کا اصل تقاضا تو یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے انہوں نے شہادت پیش کی ہم اس مقصد کو پورا کریں ۔مگر بجائے اس کے آج نظام خلافت کا نام لینا بھی جرم بنا دیا گیا ۔ اگر دنیا میں چند لوگ اس نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کر بھی رہے تھے تو ہم نے عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر کچل ڈالنے کی پالیسی اپنائے رکھی ۔ افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں جیسی بھی تھی لیکن دنیا کی واحد اسلامی حکومت قائم ہو گئی تھی لیکن اس کو ختم کرنے کے لیے ہم نے اسلام دشمن قوتوں کی توقع سے بھی بڑھ کر کردار ادا کیا ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ایسی کوئی بھی کوشش کرنے والے پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کے لیے داعش جیسی خود ساختہ تنظیمیں قائم کی گئیں اور ان کے ذریعے ہر وہ کام کروایا گیا جس سے خلافت کا نام بدنام ہو ۔ گویا ہم نے حضرت امام حسین ؓ کے اس مشن کو ہی بدنام کر دیا ۔ یعنی جس نظام خلافت کے لیے حضرت امام نے اپنے اہل و عیال سمیت اتنی بڑی قربانی دی اسی نظام کو ہم نے دنیا میں گالی بنا دیا اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج حرم میں ٹی وی چینل ، اخبارات اور سوشل میڈیا پر وہ لوگ سب سے زیادہ حضرت امام سے محبت و عقیدت کا اظہا ر کرتے نظر آتے ہیں جو یہودو نصاریٰ سے بھی بڑھ کر نظام خلافت کی تحقیر کرتے نظر آتے ہیں ۔ آج وہ بھی حضرت امام ؓ کی محبت کے سب سے بڑے داعی ہیں جو کہتے ہیں کہ آج کے جدید دور میں 14سو سال پہلے کے نظام کی بات کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔حالانکہ یہ سب لوگ اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھیں تو وہ نظام خلافت ہی تھا جس کے لیے حضرت امام نے اتنی بڑی قربانیاں اور شہادتیں پیش کیں ۔ لہٰذا اگر ہم حضرت امام ؓ سے محبت اور عقیدت میں مخلص ہیں تو ہمیں اس مشن کو سچے دل سے اپنا لینا چاہیے جو حضرت امام کا مشن تھا ۔ جس طرح آپ ؓ نے کربلا میں نظام خلافت کے لیے قربانیاں پیش کرکے ایک مثال قائم کر دی اسی طرح آپؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیں بھی نظام خلافت کے قیام کے لیے قربانیاں پیش کرنی چاہئیں یا کم از کم جو لوگ واقعی میں اسلام کے نظام عدل و اجتماعی کو شریعت کی بنیادوں پر قائم کر نے کی جدوجہد کررہے ہیں ، قربانیاں پیش کر رہے ہیں ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے ۔

ہم نے یہ ملک حاصل ہی اس لیے کیا تھا کہ ہم یہاں پر اسلام کا نظام عدل اجتماعی قائم کریں گے ۔ ہمارا مقبول نعرہ تھا ’’ پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ ۔‘‘ اسی مقصد کے لیے لاکھوں نے لوگوں نے قربانیاں دیں ، اپنے گھر بار ، کھیت کھلیان ، روزگار ، کاروبار سب کچھ چھوڑ ا ، ہجرت کی اور دوران ہجرت تاریخ کے بدترین مصائب اُٹھائے اور عظیم ترین قربانیاں پیش کیں ۔ ان سب لوگوں کے سامنے صرف ایک ہی مقصد تھا کہ وہ دورخلافت راشدہ کے طرز کے نظام کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور ان کا یہی خواب تھا کہ ان کی نسلیں اسلام کے نظام عدل اجتماعی کے اندر رہتے ہوئے زندگیاں گزاریں گی ۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو اس نظام کی جانب بڑھنے کی بجائے اس جانب اُٹھنے والے ہر قدم کو ہم نے روکنے کی کوشش کی ۔ اگرچہ مذہبی طبقہ نے ابتداء میں دباو ڈال کر قرار داد مقاصد پاس کروائی لیکن بعد ازاں اس کو آئین پاکستان کا باقاعدہ حصہ بنانے کی بجائے تمام تر کوششیں اسے کو غیر موثر کرنے میں صرف کی گئیں ۔اس کے بعد ایک بار پھر جب نظام مصطفی کے نام پر عوام کو اُٹھایا گیا تو پھر عوام نے قربانیاں پیش کیں ، جیلیں کاٹیں اور سینوں پر گولیاں کھائیں لیکن بعد ازاں معلوم ہوا نظام مصطفی کی تحریک بھی سیاسی مقاصد کے لیے چلائی گئی تھی اور عوام کو دھوکہ دے کر استعمال کیا گیا ۔حالیہ دور میں ایک بار پھر عوام کو ریاست مدینہ کے خواب دکھاکر اُٹھایا گیا اور پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے بلند و بانگ دعوے کیے گئے ۔ لیکن ایک سال گزرنے باوجود حکومت نے ایک قدم بھی اس جانب نہیں بڑھا یا ۔72سال سے ہمارا معاشی نظام سود کی بنیاد پر کھڑا ہے ، معاشرتی سطح پر بھی ہمارا نظام مغربی تہذیب کے گرداب میں دھنستا چلا جارہا ہے ، عریانی ، فحاشی ، بے حیائی اپنے عروج پر ہے ، اسی طرح سیاسی نظام میں سے بھی اسلام اور دین کو نکال باہر کر دیا گیا ۔ ہمارا عدالتی نظام بھی انگریزکا بنایا ہوا نظام ہے جس میں غریب پھنس جاتاہے جبکہ امیر کو ہر طرح سے چھوٹ مل جاتی ہے ۔ اگرچہ شریعت کورٹس بنائی گئیں لیکن ان کا دائرہ کار اس قدر محدود کر دیا گیا کہ وہ باطل نظام پر کسی طرح سے بھی اثر انداز نہ ہونے پائیں ۔ اسی طرح ہماری مذہبی جماعتوں نے بھی ہمیشہ جمہوریت کے لیے تو تحریک چلائی ہے لیکن اسلامی نظام کے قیام کے لیے کبھی تحریک چلانے کی انہیں توفیق تک نہیں ہوئی ۔حالانکہ حضرت حسین کا اُسوہ تو یہ تھا کہ اسلامی نظام میں صرف ایک دراڑآئی تھی اور آپ نے اپنے اہل وعیال سمیت قربانی پیش کر دی ۔ آج ہم ہر سطح پر دین اسلام سے بغاوت پر آمادہ ہیں اور دوسری طرف حضرت امام حسین ؓ سے محبت اور عقیدت کا دم بھی بھرتے ہیں ۔ کیا حضرت حسین ؓ سے محبت اور عقیدت کے ان سب ذرائع اور طریقوں کا کوئی فائدہ ہوگا جبکہ دوسری طرف ہم حضرت حسین کے مشن کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں ۔

آج کشمیری بھی جس مقصد کے لیے قربانیاں پیش کر رہے ہیںوہ ان کے مقبول ترین نعرے سے خوب عیاں ہے کہ پاکستان سے رشتہ کیا : لاالٰہ الا اللہ ۔حقیقت میں یہ رشتہ اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب پاکستان میں عملی طور پر لاالٰہ الا اللہ قائم ہو گا ۔ ورنہ بالفرض اگر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو بھی جائے اورپاکستان میں اسی طرح باطل کا نظام قائم رہا ، عدل و انصاف کا قتل عام ہوتا رہا ، امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قانون اور نظام رہا ، فحاشی ، عریانی اور بے حیائی کا بازار اسی طرح گرم رہا ،اسلامی تہذیب کی بجائے مغربی تہذیب پروان چڑھتی رہی اور اہل اسلام کی بجائے سیکولراور لبرلز کا نظام پر شکنجہ مضبوط سے مضبوط تر ہو تاگیا تو جس طرح آج کشمیر بھارت کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں اسی طرح پاکستان کے خلاف بھی لگائیں گے ۔ کیونکہ وہ جس مقصد کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں وہ پور انہیں ہوگا تو لازماً انہیں اپنے مقصد کے تکمیل کے لیے ایک نئی جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا ۔کیونکہ نماز ، روزہ ، حج تو وہ بھارت کے ساتھ رہ کر بھی کر سکتے تھے ۔ اگر وہ بھارت سے آزادی چاہتے ہیں تو صرف اس لیے کہ انہیں اسلام کاسیاسی نظام چاہیے جس کے انفرادی اور اجتماعی دونوں گوشوں میں اسلام نافذ ہو اور وہ اپنی زندگیاں اسلام کے مطابق گزار سکیں ۔ لہٰذا ہمارا کشمیر سے اور کشمیریوں سے رشتہ حقیقی معنوں میں تب ہی مضبوط اور گہرا ہوگا جب ہم پاکستان میں عملی طور پر لاالٰہ اللہ کو قائم کریں گے ۔ اگر ہم اس پہلو پر سوچیں ، غورو فکر کریں تو ہمیں حضرت امام ؓ کی شہادت کے بنیادی مقاصد بھی سمجھ میں آسکیں گے اور پھر جب ان مقاصد کو سمجھنے کے بعد ان کو پورا کرنے کی عملی جدوجہد ہماری زندگی کا مقصد بن جائے گی تو نہ صرف حضرت حسین ؓ سے ہماری محبت اور عقیدت کے اصل تقاضے پورے ہوں گے بلکہ ہماری دعائیں بھی قبول ہوں گی ،اللہ کی مدد اور نصرت بھی ہمیں حاصل ہوگی ۔ جس کے بعد نہ صرف کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا بلکہ پاکستان بھی حقیقی معنوں میں مضبوط و مستحکم ہو گا ۔ کیونکہ جس مقصد کے لیے ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا وہ مقصد اگر پورا ہو گا تو قوم میں وحدت آئے گی اوریہ وحدت پاکستانی قوم کو تمام صوبائی ، نسلی اور لسانی تعصبات سے نکال کر ایک بار پھر مسلم قوت بنا دے گی ۔

Rafique Chaudhary
About the Author: Rafique Chaudhary Read More Articles by Rafique Chaudhary: 38 Articles with 52244 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.