پاک بھارت وزرائے خارجہ اور سکریٹری سطح کے جھرلو مذاکرات

ہمارے سابق وزیر خارجہ محمود قریشی کو ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کی مشروط شمولیت پر فارغ کر دیا گیا۔

کیسی بد دیانتی ہے کہ حکومتی مذاکرات بھی چالبازی اور دھوکہ دہی پر مبنی ہوتے ہیں یہ برصغیر کے بد قسمت عوام پچھلی ساٹھ دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں اور بھارت نے کبھی بھی پاکستان سے مخلص ہو کر مذاکرات نہیں کیے بلکہ ہمیشہ دھوکے اور چالبازی کا رویہ اپنایا ۔ سارک فورم میں مذاکرات ہوں یا کشمیر میں کسی بھی سطح پر بات چیت ، بھارت کا کام ان مذاکرات کو ناکام بنا کر گھما پھرا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ امن کی سنجیدہ کوشش ، اس کا مقصد پاکستان کو ہر سطح پر دھوکہ اور فریب کے ذریعے بہلانا ہے اور وقت حاصل کرنا ہے اور پاکستان کو شدید نقصانات سے دوچار کرنا ہے ۔

آپ اگر انڈیا چائینا جنگ ۹۱۶۲ء کا معائنہ کریں تو اس جنگ کے دوران انڈیا بہت بری طرح بدہواس ہو گیا تھا ایک طرف تو وہ چین سے جنگ چھیڑ کر بری طرح پٹ رہا تھا اور ایسے میں اسے خدشہ ہوا کہ ایسے میں کہیں پاکستان کشمیر پر مجاہدین کی مدد کر کے اس پر اپنا تسلط قائم نہ کر لے ، ایسے میں شاطر انڈیا نے امریکی عہدیداروں کے ذریعے ایوب خان حکومت کو کشمیر پر کسی کاروائی سے باز رکھا جبکہ پاکستان کے دوست ممالک ایوب خان کو قائل کر رہے تھے کہ کشمیر پر تسلط حاصل کرنے کا بہترین وقت ہے اور ایوب خان نے اس موقع کو کھو دیا وہ امریکی دشمنی کے خوف سے کسی اقدام سے باز رہا۔ جبکہ عالمی ادارے اس وقت تک کشمیر کو متنازع حیثیت دیتے تھے۔

لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ پاکستان کشمیرمیں خفیہ آپریشن کرنے میں ملوث ہے( جرنل اختر اس سازش میں ملوث قادیانی سازش ) ،جب انڈیا نے پاکستانی کمانڈوز کو گرفتار کر کے انکے انٹرویو ریڈیو پر نشر کر کے پاکستان کے خلاف دنیا کی ہمدردی حاصل کر کے پاکستان پر حملہ کر دیا اس جنگ کے نتیجہ میں ایوب خان سے ۶۵ء کی جنگ میں مسئلہ کشمیر کے متنازعہ مسئلہ کو تابوت میں بند کرنے کی دستاویز پر تاشقند میں دستخط کروا لیے ۔ یہ انڈیا کی مکاری کی کامیاب چال تھی جسے ایوب خان جیسا فوجی ڈکٹیٹر سمجھ ہی نہ سکا اور پاکستان کا کشمیر پر موقف کمزور ہو گیا ،اس معاہدے کی رو سے پاکستان نے لائن آف کنٹرول کو تسلیم کر لیا اور اسے پار نہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کر دیئے ۔ لیکن بھٹو نے اسی بات کو بنیاد بنا کر ایوب خان کے خلاف عوام کو کھڑا کر کے اقتدار سے باہر کرنے کے لئے استعمال کر لیا ۔

مسئلہ کشمیر پر دونوں ممالک میں جنگیں بھی ہوئیں انڈیا مشرقی پاکستان میں حقوق کے نام پر لوگوں کو مشتعل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور انڈیا نے انکی مدد کے نام پر مشرقی پاکستان میں فوجی یلغار کی اور مشرقی پاکستان ہم سے جدا کر دیا ۔ حالات و واقعات آگاہی دیتے ہیں کہ اس کاروائی میں عالمی طاقتوں کی درپردہ حمایت انٹیا کو حاصل تھی۔ جس کا مقصد ہی پاکستان کو توڑنا تھا، دونوں ممالک نے شملہ معاہدے پر دستخط کیے پاکستان کو بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا پڑا اسی میں تمام مسائل بشمول کشمیر کو باہمی طور پر براہ راست مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی شق بھی شامل کی گئی ، اور پاکستان کی تمام تر مخلصانہ کوششوں کے باوجود انڈیا نے کشمیر کا مسئلہ پر جامع مذاکرات نہیں کیے بلکہ چالبازی دھوکہ دہی اور وقت گزاری کے حربے استعمال کرتا رہا ہے ۔

جب کارگل کا معرکہ ہوا پاکستان نے مجاہدین کی مدد کر کے انڈیا کو اس حالت میں پہنچا دیا تھا کہ انڈیا مسئلہ کشمیر پر فیصلہ کن مذاکرات کر کے کشمیر کا متنازع مسئلہ حل کرے لیکن انڈیا نے باہمی معاہدے شملہ کی شقوں کے باوجود اسکی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکہ کو اس مسئلہ پر مداخلت کا موقع فراہم کیا اور افسوس اس بار بھی نواز شریف جیسا کم ذہن سیاست دان امریکی مداخلت کو قبول کرتے ہوئے پاکستان کے موقف کا دفاع کرنے سے معذور رہا اور دنیا بھر میں پاکستانی فوج کو بد نام کرنے کا موقع فراہم کر دیا ۔ یہاں ایک بیدار مغز سیاست دان کی ضرورت تھی کہ وہ امریکہ سے کشمیر کے معاملے پر بات کرنے سے گریز کرتا چونکہ دونوں ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ تمام مسائل پر کسی کی مداخلت کے بغیر براہ راست مذاکرات سے حل کرنے کے پابند ہیں ۔ انڈیا ایک خود مختار پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے وہ پاکستان پر اپنا تسلط جماکر اسے تابع کرنے کی کوششوں میں عالمی طاقتوں سے مل کر زیر کرنا چاہتا ہے ۔ وہ ایسی کوئی بھی پابندی قبول کرنے کو آمادہ نہیں جس سے پاکستان کو کوئی سہولت مل سکے اور پاکستان کشمیر کے مسئلے کے حل پیش کرنے سے معذور ہے ۔ اور انڈیا دنیا کو دکھانے کے لئے مذاکرات کے نام پر چالبازی اور دھوکہ دہی سے کسی بھی صورت میں کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے پر راضی نہیں ہے کسی نہ کسی بہانے وہ مذاکرات کی کسی بھی سنجیدگی پر آمادہ نہیں ہے ۔ اور وہ پاکستان کے مزید حصہ بخرے کرنے کے منصوبے پر کاربند ہے جس کے اشارے پاکستان ڈرتے چھپتے کرتا ہی رہا ہے لیکن کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے قاصر ہے انڈیا بالکل اسرائیلی طرز کی پالیسی پر عمل درآمد کر رہا ہے فلسطین کی طرح کشمیر بھی مسلمانوں کا مقتل ثابت ہو رہا ہے ۔ انڈیا اس مسئلہ پر کبھی بھی سنجیدگی اختیار نہیں کرے گا یہ تو حکومت کو فیصلہ کرنا ہے کہ اس مسئلہ کو عالمی سطح پر سنجیدہ کس طرح بنایا جا سکتا ہے ، اب تک پاکستان نے جتنی بھی کوششیں کیں وہ ناکامی پر منتج ہوئیں اس ناکامی میں انڈیا کی روائتی چالبازی ، بد نئیتی اور ہٹ دھرمی قرار دیا جاسکتا ہے جسے عالمی بدمعاش ریاستوں کی تائید و حمایت حاصل ہے ۔

انڈیا جب چاہتا ہے پاکستان پر الزامات عائد کر کے مذاکرات سے منہ پھیر لیتا ہے اور جب چاہتا ہے پاکستان کو جھرلو مذاکرات میں گھسیٹ کر بہلانے کے اقدامات کرتا ہے اور ہم اسکے جال میں خود پھنسنے چلے جاتے ہیں۔

ہمارے سابق وزیر خارجہ محمود قریشی نے ان مزاکرات کو بشمول کشمیر نتیجہ خیز بنانے پر زور دیتے ہوئے ان مزاکرات میں پاکستان کی شرکت کو مشروط قرار دیا جس پر انہیں اس عہدے سے وفارغ کر دیا گیا۔ اسے عالمی دباؤ قرار دیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی قوم محمود قریشی کے اس طرز عمل پر انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔

اب کرکٹ دپلومیسی کی آڑ میں کیا گل کھلاتا ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا جس میں اسکا مقصد عالمی طور پر یہ باور کرانا ہے کہ ہم کوششیں کر رہے ہیں جیسے اسرائیل امن مزاکرات کا دھنڈورا پیٹ کر فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے اور انکی عسکری اور افرادی قوت کا خاتمہ کس خوبصورتی سے کیا وہ انڈیا کے لئے مشعل راہ ہے اور اس سے وہ استفادہ حاصل کر رہا ہے اور عالمی طاقتیں اسکی پیٹ ٹھونک کر اسکے اقدامات کو جائز قرار دے کر پاکستان میں دھشت گردی کا ملبہ گرا کر اسکی مدد کی آڑ میں انارکی پھیلانے میں مشغول ہیں۔

عالمی بدمعاشوں کے اس کردار کو عیاں کرنے کی ضرورت ہے اور مسلمان اپنے معاملات سے ان بدمعاشوں کو دور رکھیں تاکہ امن قائم کرنے میں آسانی ہو۔ لیکن اس تمام میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب صہیونی بدمعاش ریا ستوں کے آلائے کار اس ملک کے کلیدی غہدوں سے نکال باہر کر دیے جائیں اور کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر کر دیے جائیں ورنہ قوم مزید سو سال غلامی کا طوق گلے سے اتارنے سے معذور ہی رہے گی۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75679 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More