منٹو کا شمار اردو کےُان چند بڑے نامور افسانہ نگاروں میں
ہوتا ہے ۔جو اردو ادب کی تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے ۔ سعادت حسن منٹو نے
جتنی شہرت حاصل کی اس سے زیادہ ُان کے حصے میں بد نامی بھی آئی
لیکن آپ مستقل مزاجی سے اپنی روش پر قائم رہے۔منٹو کی ایک خاص خوبی یہ ہے
کہ ان کے افسانوں میں حقیقت نگاری کا تاثر پایا جاتا ہے ۔منٹو نے اپنے
افسانوں میں نہ صرف حقیقت نگاری کے فن کو قائم رکھا بلکہ سچائی کے ساتھ
ساتھ طنز و مزاح کا استعمال بھی کیا۔
منٹو کے افسانوں پر بعض مصنفین نے یہ اعتراضات اٹھائے کہ منٹو نہ صرف ایک
فحش افسانہ نگار ہی نہیں بلکہ منٹو کی نظر صرف معاشرے کی برائیوں پر ہی رہی
ہے ۔ منٹو کے افسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ منٹو کے افسانے
دراصل جس حقیقت کی تصویر کشی کرتے ہیں ۔وہ کتابوں سے نہیں بلکہ اصل زندگی
سے اخذ کی گئی ہیں ۔انسان کے جتنے روپ ہو سکتے ہیں منٹو اُس کے رمز شناس
ہیں ۔ کیونکہ منٹو نے اپنے ارد گرد ، اپنے ماحول، اور عہد میں جو کچھ دیکھا
اسے حقیقت اور سچائی کے ساتھ اپنی کہانیوں میں بیان کر ڈالا ۔یہی وجہ ہے کہ
اس دورکے حالات وواقعات آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتے ہیں ۔
پھر کیوں بعض مصنفین نے منٹو کو فحش افسانہ نگار قرار دیا ہے؟ جب کہ وہ تو
اپنے عہد کے حالات واقعات کو قلمبند کرتے رہے ہیں ۔
بقول منٹو کے؛
"زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔ اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو
میرے افسانے پڑھئے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا
مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں وہ اس عہد
کی برائیاں ہیں میری تحریر میں کوئی ایسا نقص نہیں جس کو میرے نام سے منسوب
کیا جاتا ہے۔ دراصل وہ موجودہ نظام کا نقص ہے۔۔۔۔۔۔"
منٹو کے جن افسانوں پر فحاشی کا الزام لگایا گیا ہے ۔اُن چند افسانوں
میں"کالی شلوار" "ٹھنڈا گوشت" "کھول دو" "بو" "دھواں"اور " اوپر نیچے اور
درمیان" شامل ہیں ۔ اگر منٹو کے افسانے"کھول دو" کا ذکر کیا جائےتویہ منٹو
کا ایک ایسا افسانہ ہے جو تقسیم ہند کے ہنگامے،لوٹ مار،فسادات کو بیان کرنے
کے ساتھ ساتھ کہانی کے مرکزی کردار "سکینہ" نامی لڑکی کے بارے میں ہے ۔کہ
جس میں کسی بھی ملک کے رکھوالے، عزتوں کے پاسبان، جب انسان ، خاص کرعورت کو
بے بس و مجبور پاکر اپنے فرائض ادا کرنے کے بجائے غفلت سے کام لیتے ہیں اور
نہ صرف اپنے دین ایمان کو بلکہ گناہ بے لذّت کی خاطر اپنے اعمال خراب کر
لیتے ہیں ۔جہاں ملک کےرکھوالے ہی عزتوں کو داغدار کرنے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑتے ۔
منٹو کا یہ افسانہ نہ صرف تقسیم ہندکے ہنگامے ، بلکہ ہمارے موجودہ دور کی
ایک حقیقت کو بیان کرتا ہے ۔منٹو اپنی کہانیوں کےکردار معاشرے سے لیتے ہیں
۔اور انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ معاشرے کا تلخ واقعہ ہو یا
پھر شیریں ۔اُن کا مقصد صرف حقیقت کو بیان کرنا ہے ۔منٹو نے اپنے عہد کے
بھوک، افلاس، غربت، عشق ومحبت، اور جنس جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا ۔
منٹو نے اپنے افسانوں کے ذریعے دراصل ہمارے معاشرتی مسائل اور حقیقتوں کو
اُجاگر کیا ہے ۔اور مختلف اشاروں ، علامتوں کے استعمال سے انسانی نفسیات،
کیفیات اور خاص طور پر نام نہاد مردانگی کو بے نقاب کیا ہے ۔
منٹو کے افسانے آج بھی ہمارے سماج کی بھرپورعکاسی کرتے ہیں ۔ جس میں ہم
سانس لے رہے ہیں ۔وہی بھوک افلاس، غربت، عشق و محبت ،جنس، معاشرتی ناہموار
یاں ،اور وہی سسکتی بلکتی صورتیں ہمیں اپنےاردگرد نظر آئیں گئی۔
|