وزیراعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر
آباد میں یونیورسٹی گراؤنڈ کے جلسے میں کشمیریوں سے کئی وعدے کئے،انھوں
نیپرجوش نوجوانوں سے کہا کہ وہ جنگ بندی لکیر کو توڑنے کا ارادہ فی الحال
ملتوی کر دیں، انتظار کریں کہ وہ کشمیر کا مقدمہ اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی میں پیش کریں گے۔مسلہ کشمیر دنیا کے سامنے رکھیں گے، انڈیا کے مظالم
کا احوال دنیا کے سامنے بیان کریں گے، دیکھتے ہیں دنیااس پر کیا ردعمل دیتی
ہے۔ عمران خان نے خودکو کشمیر کا سفیر قرار دیا۔ وہ مسلسل سفیر کشمیر کے
خطاب سے نوازے جانے لگے۔سیاسی مخالفت اور نمبر سکورنگ اپنی جگہ، یہ درست ہے
کہ عمران خان نے کشمیر پر سفارتکاری کا حق ادا کر دیا۔ اقوام متحدہ اور
دنیا میں ان کا مشن کشمیر کامیاب ہوا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم کا 46منٹ کا خطاب مختلف ایشوز کا احاطہ
کر رہا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی، جو کہرواں سال اقوام متحدہ کا سلوگن بھی
تھا،کے حوالے سے بھی انھوں نے انڈیا کے عدم تعاون کا زکر کیا۔ اسلاموفوبیا
کے بارے میں میں بھی کھل کر بات کی اور اسلام کے بارے میں دنیا کو روشناس
کیا۔ ریاست مدینہ اور حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات پر روشنی دالی۔ وزیراعظم کے
خطاب کا نصف حصہ انڈیا کی کشمیر میں ریاستہ دہشتگری اور مودی کی نفرت انگیز
پالیسی کو بے نقاب کرنے پر مشتمل تھا۔ انھوں نے دبے لفظوں یا مبہم جملے
بازی نہیں کی۔ بلکہ کھل کر آر ایس ایس کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ
نفرت اور نسلی بالادستی کے نظریہ سے دنیا کو آگاہ کیا۔ آر ایس ایس ہی بی جے
پی کی سرپرست ہے۔ جو انڈیا میں زات پات اور چھوت چھات پر یقین رکھتی ہے۔
آر ایس ایس اور بی جے پی انڈیا میں مسلمانوں ، عیسائیوں، کمیونزم، سکھ ازم
، جین مت ،بدھ مت کی دشمن ہے۔ اسی وجہ سے جب بھی انہیں موقع ملتا ہے کہ
مسلمانوں کی مساجد اور مدارس اور عیسائیوں کے چرچوں کو آگ لگا دیتے ہیں۔
گولدن تمپل کے خلاف آپریشن بلیو سٹار بظاہر کانگریس نے کیا۔ اس کا الزام
اندار گاندھی پر عائد ہوا۔ مگر یہ سب ہندوتوا منصوبہ تھا۔ بابری مسجد کی
شہادت بھی اسی نفرت پر مبنی سوچ کی عکاس ہے۔ انڈیا میں آج مسلمانوں پر گاؤ
رکشہ کے نام پر ظلم و ستم بڑھ رہے ہیں۔ مسلمانوں کو سر راہ ہندو گروہ اور
جتھے پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کئی مسلمان شہید بھی کر دیئے گئے۔
بھارت میں مسلمانوں پر خوف و دہشت طاری کی جا رہی ہے۔ ہندو اکثرت نے طاقت
کے زور پر اقلیتوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ایسے میں عمران خان کا خطاب
اور اس میں بھارت کے 18کروڑ مظلوم مسلمانوں کا زکر وقت کی پکار تھا۔ بھارت
نے وزیراعظم کے خطاب پر اپنے ردعمل کا حق استعمال کرتے ہوئے بھارتی
مسلمانوں پر مظالم کو اجاگر کرنے پر عمران خان پر تنقید کی۔ مگر یہ اس لئے
بھی بلا جواز تھی کہ پاک بھارت کے درمیان ایک معاہدے کے مطابق اقلیتوں کے
حقوق پامال ہونے پر آواز بلند کی جا سکتی ہے اور یہ کسی ملک کا اندرونی
مسلہ قرار نہیں دی جا سکتی۔
مقبوضہ کشمیر میں 55دن زگرنے کے باوجود لاک ڈاؤن اور کرفیو جاری ہے۔
مواصلاتی پابندیاں بھی اعلانات کے باوجود نہیں اٹھائی گئیں۔ عوام بدستور
گھروں میں قید ہیں ۔ عمران خان نے کشمیریوں کے جذبات کی بھر پور ترجمانی کی
ہے۔ دنیا کی آنکھیں کھولی ہیں۔ دنیا کو ساف بتا دیا ہے کہ پاکستان کے پاس
سرینڈر کا کوئی آپشن نہیں بلکہ خون کے آخری قطرہ تک لڑنا ہی واحد آپشن ہو
گا۔ انڈیا کے تما اعتراضات اور پروپگنڈہ کو بھی وزیراعظم نے مد نظر رکھا۔
دنیا کو اس بارے میں خبردار بھی کیا گیا کہ کشمیریوں کو مظالم سے انتہا
پسندی کی طرف راغب کیا جا رہا ہے۔ کشمیری اس کا ردعمل دیں گے ، اگر پلموامہ
کی طرز کا بھارت پر کوئی حملہ ہوا تو بھارت اس کا الزام پاکستان پر لگائے
گا۔ پاکستان پر بالا کوٹ طرز کی جارحیت کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کا انجام
ایٹمی جنگ ہی ہو سکتی ہے جس کی لپیٹ میں دیگر ممالک بھی آسکتے ہیں۔ عمران
خان کی یہ پالیسی قابل تعریف ہے کہ وہ بھارت کے ٹریپ میں نہ آئے۔ بلکہ
انھوں نے کشمیر کا لاک ڈاؤن ختم کرنے اور قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کے
ساتھ جو اہم بات تھی کہ مسلہ کشمیر کو اقوام متحدہ حل کرے ۔ یہ اقوام متحدہ
کی ذمہ داری ہے۔کشمیریوں کا حق خود ارادیت دیا جائے۔ ورنہ ہم صرف انسانی
حقوق کی پامالیاں بند کرنے اور کرفیو ہٹانے کے مطالبے تک محدود ہو جاتے۔
بھارت کی بھی ہمیشہ یہی حکمت عملی رہی ہے کہ وہ مظالم اس ھد تک جاری رکھے
کہ دنیا تنازعہ کی بنیادی وجوہات کو فراموش کرتے ہوئے صرف انسانی حقوق کے
احترام کے مطالبہ تک سمٹ جائے۔ اس سے پہلے یہی ہوتا رہا ہے۔ جب کہ بنیادی
مسلہ یہ ہے کہ بھارت کشمیریوں کو صاف و شفاف ، غیر جانبدارانہ رائے شماری
میں شامل کرے۔ فوجی انخلاء کی بات کرے۔ جنگی جرائم پر بھارت فورسز اور
حکمرانوں کو عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جائے یا جنگی ٹریبونلز قائم کئے
جائیں۔
عمراں خان کے خطاب سے پہلے مودی کا خطاب تھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی
کے 16منٹ کے خطاب میں کشمیر اور پاکستان کا کوئی ذکر نہ تھا، کیوں کہ انڈیا
حقائق کو دنیا سے چھپا رہا ہے۔جب کہ پاکستان حقائق کو دنیا کے سامنے لا رہا
ہے۔ اب یہ دکیھنا ہو گا کہ دنیا عمران خان کو کس قدر سنجیدہ لیتی ہے۔ دنیا
کا ردعمل کیا ہو گا۔ اقوام متحدہ مداخلت کے لئے کیا کرتی ہے۔ کشمیر میں لاک
ڈاؤن کے خاتمے اور رائے شماری کے لئے کیا اقدامات کئے جاتے ہیں۔
|